Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 168
قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَؕ
قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں لِعَمَلِكُمْ : تمہارے فعل سے مِّنَ : سے الْقَالِيْنَ : نفرت کرنے والے
لوط نے کہا میں تمہارے کام کا سخت بیزار ہوں
قَالَ اِنِّىْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِيْنَ۝ 168ۭ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے قلی القلي : شدّة البغض . يقال : قَلَاهُ يَقْلِيهِ ويَقْلُوهُ. قال تعالی: ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَما قَلى [ الضحی/ 3] ، وقال : إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقالِينَ [ الشعراء/ 168] فمن جعله من الواو فهو من القلو، أي : الرّمي، من قولهم : قلت الناقة براکبها قلوا، وقلوت بالقلّة فكأنّ المقلوّ هو الذي يقذفه القلب من بغضه فلا يقبله، ومن جعله من الیاء فمن : قَلَيْتُ البسر والسّويق علی المِقْلَاةِ. ( ق ل ی ) القی کے معنی شدت کے ہیں قلاہ ( ماضی ) اوت یقلبہ یقلوہ مضارع دونوں طرح آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَما قَلى[ الضحی/ 3] ( اے محمد ﷺ ) تمہارے پروردگا نے نہ تو تم کو چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا۔ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقالِينَ [ الشعراء/ 168] میں تمہارے کام کا سخت دشمن ہوں ۔ اگر اسے وادی قلم سے مشتق مانا جائے جس کے معنی رمٰی کے ہیں تو یہ قلت الناقتہ برالبھا قلوا ۔ ( ناقہ نے سوار کو گرادیا ) اقلوت بالقلتہ میں نے گلی کو پھینکا ) وغیرہا محاورات سے مشتق ہوگا ۔ اور جس چیز سے دل بوجہ بغض یا ناپسندیدہ ہونے کے ہیں اس طرح گھن کھائے گویا اسے پھینک رہا ہے تو اسے مقلو کہا جائیگا ۔ اور اگر ناقص یائی سے مشتق مانا جائے تو یہ قلیت البسر والسویق عل المقلاۃ کے محاورہ سے ماخوز ہوگا جس کے معنی مقلاۃ ( فرائی بین ) میں کھجور اور ستوڈال کر تلنے کے ہیں ۔
Top