Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 219
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ
وَتَقَلُّبَكَ : اور تمہارا پھرنا فِي : میں السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے (نمازی)
اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی
وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ۝ 219 تَقْلِيبُ الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] أي : يصفّق ندامة . قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة . تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
Top