Mufradat-ul-Quran - An-Naml : 83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کریں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ایک گروہ فَوْجًا : ایک گروہ مِّمَّنْ : سے۔ جو يُّكَذِّبُ : جھٹلاتے تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَهُمْ : پھر وہ يُوْزَعُوْنَ : انکی جماعت بندی کی جائے گی
اور جس روز ہم ہر امت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو ان کی جماعت بندی کی جائے گی
وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۝ 83 حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں فوج الفَوْجُ : الجماعة المارّة المسرعة، وجمعه أَفْوَاجٌ. قال تعالی: كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک/ 8] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص/ 59] ، فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر/ 2] . (و ج ) الفوج کے معنی تیزی سے گزر نیوالی جماعت کے ہیں اس کی جمع افواج ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک/ 8] جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص/ 59] ایک فوج ( ہے تماہرے ساتھ ) داخل ہوگی ۔ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر/ 2] غول کے غول خدا کے دین میں كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ وزع يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] قيل : معناه : ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران . ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔
Top