Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ 0 ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ 61 جنح الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه/ 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین : ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، ( ج ن ح ) الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔ سِّلْمُ صلح والسَّلَامُ والسِّلْمُ والسَّلَمُ : الصّلح قال : وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً [ النساء/ 94] ، وقیل : نزلت فيمن قتل بعد إقراره بالإسلام ومطالبته بالصّلح وقوله تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ [ الأنفال/ 61] ، وقرئ لِلسَّلْمِ بالفتح، وقرئ : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وقال : يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم/ 43] ، أي : مُسْتَسْلِمُونَ ، وقوله : ورجلا سالما لرجل وقرئ سلما و ( سَلَماً ) وهما مصدران، ولیسا بوصفین کحسن ونکد . يقول : سَلِمَ سَلَماً وسِلْماً ، وربح ربحا وربحا . وقیل : السِّلْمُ اسم بإزاء حرب، السلام والسلم والسلم کے معنی صلح کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً«1» [ النساء/ 94] جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا اور فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مؤمنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ۔ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسِّلْمِ [ الأنفال/ 61] اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں ۔ اس میں ایک قرآت سلم ( بفتحہ سین ) بھی ہے ۔ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ «4»اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم/ 43] ( اس وقت ) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے ۔ جب صحیح وسالم تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ورجلا سالما لرجل «5»اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا ( غلام ) ہے ۔ میں ایک قراءت سلما وسلم ا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں اور حسن و نکد کی طرح صفت کے صیغے نہیں ہیں کہا جاتا ہے ۔ سلم سلما و سلما جیسے ربح ربحا و ربحا اور بعض نے کہا ہے کہ سلم اسم ہے اور اس کی ضد حرب ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
Top