Mutaliya-e-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (اُس نے کہا) "میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [ اور بیشک ہم بھیج چکے ہیں ] نُوْحًا [ نوح کو ] اِلٰي قَوْمِهٖٓ ۡ [ ان کی قوم کی طرف ] اِنِّىْ [(انھوں نے کہا) کہ میں ] لَكُمْ [ تمہارے لئے ] نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک واضح خبردار کرنے والا ہوں ] نوٹ ۔ 1: آیت 25 سے 49 تک مسلسل حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر ہے ۔ درمیان میں ایک آیت نمبر 35 ایسی ہے جس کے متعلق دورائے ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ آیت بھی اسی سلسلہ کلام کی ایک کڑی ہے ۔ ایسی صورت میں افتراہ کی ضمیر مفعول ی حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت (نضحی ) کے لئے مانی جائے گی اور قل کا خطاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے ہوگا ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ سلسلہ کلام کو منقطع کرکے مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کا جواب دینے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ایسی صورت میں افتراہ کی ضمیر مفعولی قرآن کے لئے مانی جائے گی اور قل کا خطاب رسول اللہ ﷺ کے لئے ہوگا ۔ ترجمہ میں ہم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے اس دوسری رائے کی جو توضیح تفیہم القرآن میں دی ہوئی ہے وہ یہ ہے ۔ ” انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زبان سے نوح (علیہ السلام) کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہوگا کہ محمد ﷺ یہ قصے بنا بنا کر اس لئے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے ۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براست نہیں کرنا چاہتا ان کے لئے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ” درحدیث دیگراں “ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہذا سلسلہ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اسی فقرے میں دیا گیا ہے “ اس کے علاوہ ایک بات اور ہے ۔ قرآن مجید میں قل کا خطاب بلالعموم رسول اللہ ﷺ کے لئے اور آپ کے توسط سے امت مسلمہ کے لئے آیا ہے ۔ اس لئے اس مقام پر قل کا خطاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے ماننا قرآن کے عمومی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
Top