Mutaliya-e-Quran - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
وَلَىِٕنْ [اور البتہ اگر ] اَذَقْنَا [ ہم چکھا دیں ] الْاِنْسَانَ [ انسان کو ] مِنَّا [ اپنی (طرف) سے ] رَحْمَةً [ کوئی رحمت ] ثُمَّ [ پھر ] نَزَعْنٰهَا [ ہم کھینچ لیں اس کو ] مِنْهُ ۚ [ اس سے ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] لَيَـــُٔــوْسٌ [ یقینا بےانتہا مایوس ہے ] كَفُوْرٌ [ بےانتہاناشکرا ہے ] نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 9 ۔ 10 میں یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کی آسائش اور تکلیف دونوں کے بارے میں قرآن کریم نے اذقنا یعنی چکھانے کا لفظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل اسائش اور تکلیف آخرت کی ہے ۔ دنیا کی آسائش اور تکلیف نہ تو مکمل ہیں اور نہ دائمی ہیں ، بلکہ نمونے اور چکھنے کے درجہ میں ہیں تاکہ انسان کو آخرت کی آسائش اور تکلیف کا کچھ اندازہ ہو سکے اور اس لئے بھی یہاں کی راحت زیادہ خوش ہونے کی چیز نہیں ہے اور نہ تکلیف پر زیادہ غم کرنا چاہیے (معارف القرآن ) ۔ اور دنیا میں اچھے برے حالات میں جو صحیح رویہ ہے ، اس کی نشاندہی اگلی آیت ۔ 11 میں کی گئی ہے۔
Top