Mutaliya-e-Quran - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے
[وَانى: اور بیشک میں ] [خِفْتُ : ڈرتا ہوں ] [الْمَوَالِيَ : اپنے اقربا سے ] [مِنْ وَّرَاۗءِيْ : اپنے بعد ] [وَ : اس حال میں کہ ] [كَانتِ : ہے ] [امْرَاَتِيْ : میری عورت ] [عَاقِرًا : بانجھ ] [فَهَبْ : پس تو عطا کر ] [لِيْ : مجھ کو ] [مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے خزانے سے ] [وَلِيًّا : ایک ایسا کام اٹھانے والا ] (آیت۔ 5 ۔ 6) ۔ یَرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ ۔ یہ پورا جملہ فعل امر فَھَبْ لِیْ کا جواب امر نہیں ہے۔ اگر جواب امر ہوتا تو مضارع مجزوم یَرِثْ آتا۔ لیکن یہاں مضارع مرفوع یَرِثْ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جملہ دراصل نکرہ موصوفہ وَلِیًّا کی صفت ہے۔ ترجمہ میں اس فرق کو ظاہر کیا جائے گا۔ نوٹ۔ 1: آیت نمبر۔ 5 ۔ میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کے اس قول کا ذکر ہے کہ انھیں (علیہ السلام) اپنے بعد، اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے اندیشہ تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس بات کا اندیشہ تھا۔ اس ضمن میں یہ بات بہت واضح ہے کہ حضرت زکریا کو یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کے عزیزواقارب ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیں گے کیونکہ وہ صاحب جائیداد نہیں تھے۔ پھر انھیں کس بات کا اندیشہ تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Preisthood) کا ایک خاکہ ذہن میں واضح ہونا ضروری ہے جسے ہم تفہیم القرآن سے اخذ کر رہے ہیں۔ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے بارہ قبیلوں میں سارا ملک تقسیم کردیا گیا۔ اور تیرھواں قبیلہ یعنی لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) کا گھرانہ مذہبی خدمات کے لئے مخصوص رہا۔ پھر بن لاوی میں سے بھی جو خاندان پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام کرتا تھا، وہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا خاندان تھا۔ ان میں ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا (علیہ السلام) تھے۔ انھیں ابیا کے خاندان میں کوئی ایسا نظر نہیں آ رہا تھا جو ان کے بعد دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے وہ سنبھالے ہوئے تھے۔ یہ وہ اندیشہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ نوٹ۔ 2: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ بیشک علماء وارث ہیں انبیاء کے کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) دینار و درہم کو وراثت نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی وراثت علم ہوتا ہے۔ جس نے علم حال کرلیا اس نے بڑی دولت حاصل کرلی۔ (معارف القرآن)
Top