Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘
وَلَمَّا
: اور جب
جَآءَهُمْ
: آیا، اُن
رَسُوْلٌ
: ایک رسول
مِنْ
: سے
عِنْدِ اللہِ
: اللہ کی طرف
مُصَدِّقٌ
: تصدیق کرنے والا
لِمَا
: اسکی جو
مَعَهُمْ
: ان کے پاس
نَبَذَ
: پھینک دیا
فَرِیْقٌ
: ایک فریق
مِنَ
: سے
الَّذِیْنَ
: جنہیں
أُوْتُوا الْكِتَابَ
: کتاب دی گئی
كِتَابَ اللہِ
: اللہ کی کتاب
وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ
: اپنی پیٹھ پیچھے
کَاَنَّهُمْ
: گویا کہ وہ
لَا يَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہی نہیں
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں
[ وَلَمَّا : اور جب ] [ جَاۗءَھُمْ : آیا ان کے پاس ] [ رَسُوْلٌ: ایک رسول ] [ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس سے ] [ مُصَدِّقٌ: تصدیق کرنے والا ] [ لِّمَا : اس کی جو ] [ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ ہے ] [ نَبَذَ : تو پھینکا ] [ فَرِيْقٌ: ایک فریق نے ] [ مِّنَ الَّذِيْنَ : ان میں سے جن کو ] [ اُوْتُوا : دی گئی ] [ الْكِتٰبَ ڎ : کتاب ] [ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب کو ] [ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے ] [ كَاَنَّھُمْ : جیسے کہ وہ لوگ ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں ہیں ] [ وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ] اس عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ A ” وَ لَمَّا “ (اور جب : جس وقت) ” لمَّا “ کے معنی اور استعمال پر البقرہ : 7 [ 2: 13: 1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ B ” جَائَ ھُمْ “ (ان کے پاس آیا) فعل ” جَائَ یَجِیْئُ (آنا) پر البقرہ : 71 [ 2: 44: 1 (14)] میں کلمہ ” جِئْتَ “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ C ” رَسُولٌ“ (ایک رسول : پیغمبر) لغوی تشریح کے لیے دیکھیے البقرہ : 87 [ 2: 53: 1 (1) و (14)] جہاں ” الرّسل “ اور ” رسول “ دونوں کلمات آئے ہیں۔ D ” مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ “ (اللہ کے پاس سے۔ اللہ کی طرف سے) مزید لغوی تشریح چاہیں تو ” مِنْ “ کے لیے [ 2: 2: 1 (5)] اور ” عِنْدَ “ کے لیے [ 2: 34: 1 (6)] دیکھیے۔ E " ۔ ” مُصَدِّقٌ“ (سچ بتانے والا۔ تصدیق کرنے والا) یہ لفظ جو مادہ ” ص د ق “ سے باب تفعیل کا اسم الفاعل ہے اس کی مزید لغوی تشریح کے لیے چاہیں تو البقرہ : 41 [ 2: 28: 1 (9)] دیکھ لیجیے۔ F ” لِمَا “ (اس چیز کے لیے جو کہ : اس چیز کی جو کہ) لام (ل) کے معنی و استعمال پر [ 1: 2 : 1 (4)] میں اور ” ما “ موصولہ پر [ 2: 2: 1 (5)] پر بات ہوچکی ہے۔ G ” مَعَھُمْ “ (ان کے ساتھ) ” مَعَ “ کے معنی و استعمال پر البقرہ : 14 [ 2: 11: 1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور جب آیا ان کے پاس ایک پیغمبر اللہ کی طرف سے (جو) سچ بتانے والا (ہے) اس چیز کا جو ان کے پاس ہے۔ “ اس کو سلیس اردو کی شکل دینے کے لیے مترجمین کو نہ صرف عبارت کی اردو ساخت کے مطابق کلمات میں تقدیم و تاخیر (آگے پیچھے کرنا) سے کام لینا پرا بلکہ محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی بعض تبدیلیاں کرنی پڑیں ‘ مثلاً ” جب ان کے پاس خدا کی طرف سے پیغمبر آیا “۔ بعض نے ” جَائَ ھُمْ “ کا ترجمہ ” ان کے پاس پہنچا “ کرلیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ بعض نے ” رسول “ سے مراد نبی کریم ﷺ ہی لے کر ترجمہ کیا ہے … اسی طرح لفظ ” مصدِّق “ کا ترجمہ بعض نے فعل مضارع کی طرح ” تصدیق کرتا ہے ‘ تصدیق کر رہے ہیں ‘ سچا بتاتا ہے “ کی صورت میں کردیا ہے جسے اردو محاورے کی مجبوری کہہ سکتے ہیں مگر جن حضرات نے اس (مصدِّقٌ) کا ترجمہ حال کی طرح ” تصدیق کرتے ہوئے ‘ تصدیق فرماتا ‘ سچ بتاتے ہوئے “ کیا ہے وہ بلحاظ ترجمہ محل نظر ہے کیونکہ یہاں ” مصدِّق “ رسول کی صفت ہے حال نہیں ہے۔ بلکہ اردو محاورے میں بھی حال کا ترجمہ بھی صفت سے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ” لِمَا “ کا ترجمہ ” اس کتاب کی جو ‘ ان کتابوں کی جو “ سے کیا ہے ‘ اسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال … یہ عبارت مکمل جملہ نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے اس میں بیان شرط کا سا مفہوم ہے ‘ یعنی ” جب یوں ہوا تو …“ اس ” تو “ یا جوابِ شرط کا بیان اگلے جملے میں آئے گا اور یوں یہ دونوں جملے مل کر ایک طویل مکمل جملہ بنتے ہیں۔ [ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتَابَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ ] جہاں تک مفردات کا تعلق ہے اس عبارت کے تمام کلمات کسی نہ کسی صورت میں پہلے زیر بحث آ چکے ہیں۔ لہٰذا ذیل میں ان کے صرف ترجمہ اور لغوی تشریح کے سابقہ حوالے پر اکتفاء کیا جائے گا۔ A ” نبَذ “ (پرے پھینک دیا۔ پھینک مارا ‘ ڈال دیا ‘ پھینک دی) ۔ اس فعل کے باب معنی اور استعمال پر ابھی اوپر اسی زیر مطالعہ قطعہ یعنی [ 2: 61: 1 (1 - 2)] میں بات ہوئی تھی۔ B ” فَرِیْقٌ“ (ایک گروہ : جماعت : فریق نے) یہ لفظ ابھی اوپر گزرا ہے۔ C ” مِنَ الَّذِیْنَ “ (ان لوگوں میں سے جو کہ) یعنی یہ ” پھینکنے والا گروہ ان میں سے تھا جو … ” مِن “ یہاں تبعیضیہ ہے (دیکھیے [ 2: 2: 1 (75)]) ” الذین “ اسم موصول برائے جمع مذکر ہے۔ D ” اُوتُوا “ (وہ دیئے گئے۔ ان کو دیا گیا : دی گئی) یہ ” ا ت ی “ مادہ سے ” اُفْعِلُوا “ کے وزن پر باب افعال کا فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کی اصل شکل ” أُأْتِیُوْا “ تھی۔ جس میں ” أُ أْ “ تو ” أُوْ “ بنتا ہے اور واو الجمع سے ما قبل والا حرفِ علت (جو یہاں ” ی “ ہے) ساقط ہوجاتا ہے اور عین کلمہ (جو یہاں ” ت “ ہے) کی کسرہ (-ِ ) کو واو الجمع کے مطابق ضمہ (-ُ ) میں بدل دیا جاتا ہے۔ یوں یہ لفظ ” اُوتُوا “ کی شکل میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ باب افعال کے اس فعل ” آتٰی یُؤتِی ایتائً “ (کو دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ : 43 یعن [ 2: 29: 1 (5)] میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔ ۔ ” الکتابَ “ (کتاب) دیکھیے [ 2: 1: 1 (2)] ۔ F ” کِتَابَ اللّٰہِ “ (اللہ کی کتاب کو) (دیکھیے آگے بحث ” الاعراب “ ) ۔ G ” وَرَائَ …“ (… کے پرے ‘ … کے پیچھے) ۔ اس لفظ پر مکمل لغوی بحث البقرہ : 91 یعنی [ 2: 56: 1 (1)] میں دیکھیے۔ H ” ظُھُوْرِھِمْ “ (ان کی : اپنی پیٹھوں …) لفظ ” ظُھُور “ ” ظَھْرٌ“ (پیٹھ) کی جمع مکسر ہے۔ اس کے مادہ ’ ظ ھ ر “ سے فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ : 85 [ 2: 52: 1 (3)] میں کلمہ ” تَظاھَرُون “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ قرآن کریم میں لفظ ” ظَھْر “ (بصیغہ واحد) چار جگہ اور ” ظُھْور “ (بصیغہ جمع) گیارہ جگہ آیا ہے۔ دونوں کلمات ہر جگہ مرکب (اضافی) کی شکل میں آئے ہیں۔ ۔ مفردات کی اس وضاحت اور الگ الگ ترجمہ کے بعد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زیر مطاعہ عبارت ” نبَذ فریقٌ … ظُھورِھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ”(تو) پھینک دیا ایک گروہ نے ان میں سے جن کو دی گئی تھی کتاب اللہ کی کتاب کو پرے (پیچھے) اپنی پیٹھوں کے۔ “ سلیس اردو بنانے کے لیے ایک تو الفاظ میں تقدیم و تاخیر (اردو فقرے کی ساخت کے مطابق) کرنی پڑے گی مثلاً ” جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں پیچھے پھینک دیا “ کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض تبدیلیاں اردو محاورے کی خاطر کرنی پڑتی ہیں مثلاً اردو میں ” پیٹھوں “ (جمع) کی بجائے ” پیٹھ “ (واحد) کے ساتھ ترجمہ کرنے کی یہی وجہ ہے یعنی ” پیٹھ پیچھے پھینک دیا : ڈال دیا : پھینک مارا۔ “ وغیرہ ہیں۔ بعض نے اس کے لیے فارسی ترکیب ” پس پشت “ (ڈال دیا) اختیار کی ہے جو اصلی عربی سے کم مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح ” الذین اوتوا الکتاب “ (جن کو کتاب دی گئی) کا ترجمہ ایک مختصر لفظ ” اہل کتاب “ کے ساتھ کرنے کی وجہ بھی محاورہ ہی ہے۔ 2: 61: 1 (4) [ کَأَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ] یہ سادہ اور آسان سا جملہ اسمیہ ہے۔ اس میں : A ” کَأَنَّ “ (گویا کہ) مشہور حرف مشبہ بالفعل ہے (باقی حروف مشبہ بالفعل ” اِنَّ ‘ اَنَّ ‘ لٰکِنَّ ‘ لَیْتَ اور لَعَلَّ “ ہیں جن کے معنی علی الترتیب ” بیشک ‘ کہ بیشک ‘ لیکن ‘ کاش کہ اور شاید کہ “ ہیں) یہ سب جملہ اسمیہ میں مبتدأ کو (جسے ان کا اسم کہا جاتا ہے) نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ ” کَأَنَّ “ کی خبر اگر کوئی اسم جامد (غیر مشتق) ہو تو اس میں تشبیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے ” کأَنَّ زیدًا اسدٌ“ (گویا کہ زید شیر ہے) اور اگر اس کی خبر کوئی اسم مشتق (اسم الفاعل ‘ اسم المفعول وغیرہ) یا کوئی جملہ فعلیہ ہو (جیسے زیر مطالعہ عبارت میں ہے) تو اس میں عموماً ” ظن “ یعنی گمان غالب کا مفہوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ” کَأَنَّ “ بیس سے زائد جگہ آیا ہے اور زیادہ تر اس کا اسم کوئی ضمیر (ہ - ھا - ھم - ھن وغیرہ) آئی ہے۔ کبھی حروف مشبہ بالفعل کے بعد (ساتھ) ” ما “ زائدہ بھی لگتا ہے جسے ” ما کافّہ “ کہتے ہیں۔ جیسے ” انَّما ‘ کأَنَّما وغیرہ میں ہے۔ اس سے معنی میں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا (البتہ تاکید کا مفہوم زیادہ ہوجاتا ہے) مگر اس صورت میں حروف مشبہ بالفعل کا کوئی عمل نہیں ہوتا۔ ” کَأَنَّمَا “ بھی قرآن کریم میں پانچ مقامات پر استعمال ہوا ہے۔؎ B ” ھُمْ “ (وہ) یہ ضمیر یہاں ” کَأَنَّ “ کا اسم ہو کر آئی ہے۔ C ” لَا یَعْلَمُوْنَ “ (وہ نہیں جانتے) اس کا فعل ” عَلِمَ یعلَم “ (جاننا) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ اس کے باب اور معنی و استعمال پر الفاتحہ : 2 [ 1: 2: 1 (4)] میں کلمہ ” عالَمین “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی اور پھر البقرہ : 13 [ 2: 1: 1 (3)] میں یہی لفظ ” لَا یعلمون “ گزرا ہے۔ ۔ اس عبارت کا سادہ لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” گویا کہ وہ نہیں جانتے “ جس کی ایک صورت ” گویا ان کو معلوم نہیں “ یا ” گویا ان کو علم نہیں “ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم اردو محاورے کے مطابق مفہوم میں زور پیدا کرنے کے لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ” کچھ “ اور ” ہی “ کا اضافہ کیا ہے ‘ یعنی ” گویا ان کو کچھ علم ہی نہیں : کچھ خبر ہی نہیں : علم ہی نہیں رکھتے : جانتے ہی نہیں “ وغیرہ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے ‘ اگرچہ اصل عبارت میں ” شیئًا “ وغیرہ کی قسم کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ یعنی ان کی عملی حالت دیکھ کر گمان غالب یہی ہوتا ہے کہ گویا وہ بالکل بیخبر ہیں (کتاب اللہ سے) … قصہ تو یہود کا ہے مگر اس میں غور اور عبرت کا مقام (قرآن کے حوالے سے) مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ 2: 61: 2 الاعراب بیانِ اعراب کے لیے اس قطعہ کو سات چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے دو کا باہمی تعلق شرط اور جوابِ شرط کا سا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو مجموعی طور پر لے کر ہی جملہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ تفصیل یوں ہے : A ” وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ “ [ وَ ] یہاں مستانہ ہے [ لَقَدْ ] حرفِ تاکید اور حرفِ تحقیق جمع ہوگئے ہیں [ اَنْزَلْنَا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم ” نَحْنُ “ ہے [ ِاِلَیْک ] جار (الٰی) اور مجرور (ک) مل کر متعلق فعل ” اَنْزَلْنَا “ ہیں جو مفعول سے مقدم آئے ہیں کیونکہ در اصل تو بنتا تھا ” لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیاتٍ بیّناتٍ الیک “ … [ آیاتٍ ] فعل ” انزلنا “ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے ‘ علامت نصب ” اتٍ “ ہے کیونکہ یہ جمع مؤنث سالم ہے [ بیناتٍ ] صفت ہے (آیات کی) اس لیے منصوب ہے۔ یہ بھی اسی طرح جمع مؤنث سالم ہے۔ B ” وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ “ [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ مَا ] نافیہ ہے [ یَکفُر ] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر مؤنث ہے [ بِھَا ] جار (بِ ) اور مجرور (ھَا) مل کر متعلق فعل ” یکفر “ ہے۔ یا اگر ” بِ “ کو فعل ” یکفر “ کا صلہ قرار دیں تو پھر مرکب جاری (بھا) کو مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ [ اِلَا ] حرف استثناء ہے ‘ اس سے پہلے فعل ” یکفر “ کا فاعل ” احدٌ“ محذوف ہے۔ [ الفَاسِقُون ] یہاں یکفر کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے (علامت رفع آخری نون سے ما قبل -ُ وْ ) ہے … چونکہ یہاں حرف استثناء سے پہلے جملہ منفی غیر تام (غیر مکمل) ہے اس لیے ” الفاسقون “ کا اعراب موقع کے مطابق رفع کا ہے۔ یعنی اگر ” ما “ نافیہ اور ” الا “ کو ہٹا دیں تو باقی ” یکفر الفاسقون “ ہی بنتا ہے۔ C ” اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ “ [ اَوَ ] ہمزہ استفہام اور واو العطف کا مرکب ہے (استعمال کے لیے دیکھیے حصہ اللغۃ ) ۔ [ کُلَّمَا ] اس میں ظرف اور شرط جمع ہیں۔ یعنی یہ طرف زمان متضمن معنی شرط ہے [ عاھَدوا ] عل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے۔ [ عَھْدًا ] اسے فعل ” عاھدوا “ کا مفعول بہٖ (لہٰذا منصوب) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہاں ایک مفعول محذوف ہے (مثلاً عاھَدُوا اللّٰہَ یا عاھدوکم بھی کہہ سکتے ہیں۔ [ نبَذہ ] ” نبَذ “ تو فعل ماضی معروف برائے واحد مذکر غائ؛ب ہے اور ضمیر منصوب (ہ) مفعول بہ مقدم ہے کیونکہ مفعول کوئی ضمیر ہو تو فاعل سے پہلے آتی ہے۔ [ فریقٌ] فعل ” نبَذ “ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے ‘ علامت رفع تنوین رفع (-ٌ) ہے [ منھم ] جار (مِن) اور مجرور (ھُم) مل کر ” فریق “ کی صفت یا بیان ہے۔ یعنی ایسا گروہ جو ان ہی میں سے ہے۔ D ” بَلْ اَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ “ [ بَلْ ] حرفِ اضراب ہے جو یہاں سابقہ مضمون (عہد کو پرے پھینک دینا) کے ابطال کے لیے نہیں بلکہ انتقال مضمون کے لیے ہے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ عہد کی پروا نہیں کرتے بلکہ وہ تو ایمان سے ہی محروم ہیں۔ [ اکثرھم ] مضاف (اکثر) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر مبتدأ بنتا ہے اسی لیے ” اکثر “ مرفوع ہے۔ اور [ لا یؤمنون ] فعل مضارع منفی مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ پورا جملہ فعلیہ ہو کر ” اکثرھم “ کی خبر بن رہا ہے۔ ۔ ” وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ “ [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ لَمَّا ] حینیہ ظرفیہ ہے ‘ یعنی یہ وقت کا مفہوم رکھتا ہے (” جب “ کا) جس میں ایک طرح سے شرط کا معنی بھی موجود ہے مگر یہ جازم نہیں ہے۔ [ جائَ ھم ] فعل ماضی معروف (جائَ ) مع ضمیر (ھم) مفعول بہ ہے اور [ رسول ] اس فعل (جائَ ) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [ مِن عندِ اللّٰہ ] مرکب جارّی (جس میں ” مِن “ حرف الجر ہے اور ” عندِ “ ظرفِ مضاف اور مجرور بالجر بھی ہے اور ” اللّٰہِ “ مجرور بالاضافہ ہے) ” رسول “ (جو نکرہ موصوفہ ہے) کی صفت بنتا ہے (یعنی ایسا رسول جو اللہ کی طرف سے ہے) اور [ مصدِّقٌ] اس (رسول) کی دوسری صفت ہے جو چاروں (حالت ‘ جنس ‘ عدد ‘ وسعت) لحاظ سے اپنے موصوف کے مطابق ہے۔ [ لِمَا ] جار (لِ ) اور مجرور ( مَا موصولہ) مل کر ” مصدِّقٌ“ سے معلق ہیں۔ یعنی ہ کس کا مصدّق ؟ کا جواب مہیا کرتا ہے۔ [ مَعَھُمْ ] ظرفِ مکان مضاف (معَ ) اور مضاف الیہ (ھُمْ ) مل کر اسم موصول (مَا) کا سلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پوری عبارت [ لما معھم ] مل کر ” مصدِّق “ کے معنی فعل (تصدیق کرتا ہے) سے متعلق ہے۔ بلحاظ معنی یہاں تک جملہ مکمل نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک طرح سے بیان شرط ہے (اگرچہ اس میں کوئی جازم بھی نہیں اور یہ قصہ بھی زمانہ ماضی کا بیان ہو رہا ہے تاہم اس کے بعد حرفِ ربط کے طور پر اگلی عبارت سے پہلے ایک ” تو “ کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے ‘ یعنی ” جب… تو …“ کی صورت میں ‘ اس لیے اگلا جملہ اس جملے سے مربوط ہے۔ ) F ” نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ “ [ نبَذ ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور [ فریقٌ] جو یہاں نکرہ موصوفہ بھی ہے ‘ اس فعل کا فاعل (لہذا) مرفوع ہے۔ یعنی ” ایک ایسے گروہ نے جو “۔ [ من الذین ] جار (مِن) اور مجرور (الذینجو اسم موصول بھی ہے) مل کر ” فریقٌ“ کی صفت کا کام دے رہے ہیں (یعنی جو ان لوگوں میں سے ہے جو) [ اُوتُوا ] فعل ماضی مجہول مع مرفوع ضمیر برائے نائب الفاعلین ” ھم “ ہے اور [ الکتابَ ] اس فعل کا مفعول بہ ثانی ہے جو نصب میں آیا ہے (دو مفعول والا فعل جیس ” آتٰی یُؤتِی “ ہے۔ مجہول آئے تو ایک مفعول نائب فاعل بن کر رفع میں آتا ہے اور دوسرا نصب میں آتا ہے) علامت نصب آخری ” بَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے کیونکہ یہ معرف باللام بھی ہے۔ [ کتابَ اللّٰہِ ] مرکب اضافی ہے جس میں مضاف (کتابَ ) فعل ” نبَذ “ کا مفعول بہٖ ہونے کے باعث منصوب ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اس لیے یہاں بھی علامت نصب فتحہ (-َ ) ہی رہ گئی ہے۔ اور اسم جلالت (اللّٰہ) مجرور بالاضافہ ہے [ ورائَ ظُھورھم ] یہ مجموعی طور پر تو مرکب اضافی ہے جس میں ” ورائ “ ظرف مضاف ہے اور ” طھور “ اس (ورائ) کا مضاف الیہ اور آگے مضاف بھی ہے اسی لیے خفیف بھی اور مجرور بھی ہے۔ یعنی اس میں علامت جر اب آخری ” ر “ کی ایک کسرہ (-ِ ) رہ گئی ہے اور آخر پر (ھم) ضمیر مجرور اس (ظھور) کا مضاف الیہ ہے۔ اس پورے مرکب اضافی (وراء ظھورھم) کے پہلے جزء (ورائ) کی نصب در اصل تو ظرف (مکان) ہونے کی وجہ سے ہے … تاہم بعض نحوی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہاں ” پیٹھ پیچھے : سے پرے “ کا مطلب ” حسی “ نہیں لیا جاسکتا … یعنی کتاب کو کسی ” جگہ “ (جو حواس سے معلوم کی جاسکتی ہو) تو نہیں پھینکا تھا۔ بلکہ یہاں مجازاً ” پھینکے ہوئے جیسا بنادینا “ مراد ہے۔ گویا یہاں فعل ” نبَذ “ (پھینک دیا) در اصل ” جعَل “ یا ” صبَّر “ کے معنی میں ہے جس کے دو مفعول ہوتے ہیں اس لیے یہاں ” ورائ “ در اصل مفعول بہ ثانی کا درجہ رکھتا ہے … لیکن یہ سب تکلف معلوم ہوتا ہے۔ اسلوب عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ یہاں ” پھینک “ دینا سے مراد ” حسی “ طور پر پھینکنا مراد نہیں جیسا کہ حصہ ” اللغۃ “ میں اس فعل کے معانی میں بیان ہوا ہے۔ G کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ [ کأنھم ] حرفِ مشبہ بالفعل (کان) اور اس کے اسم (ھم) پر مشتمل ہے اور [ لا یعلمون ] فعل مضارع معروف منفی مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ جملہ فعلیہ بن کر ” اکثرھم “ کی خبر ہے۔ اگرچہ یہ ایک مسقل جملہ اسمیہ ہے تاہم سیاق وسباق عبارت کے لحاظ سے اسے ” پھینکنے والے گروہ “ کا (یعنی فعل نبذ کے فاعلین کا) حال قرار دیا جاسکتا ہے یعنی انہوں نے یہ کام بیخبروں اور جاہلوں سے مشابہ (مانند) ہوتے ہوئے کر ڈالا تھا۔ 2: 61: 3 الرسم زیر مطالعہ قطعہ آیات میں بلحاظ رسم صرف چھ کلمات وضاحت طلب ہیں ‘ یعنی ” ایت ‘ بینت ‘ الفسقون ‘ کلما ‘ عھدوا اور الکتاب “ (جو عبارت میں دو دفعہ آیا ہے) تفصیل نمبر وار یوں ہے : A ” ایت “ جس کا عام رسم املائی ” آیات “ ہے۔ قرآن مجید میں یہاں اور (زیادہ تر) ہر جگہ ” بحذف الال بعد الیائ “ لکھا جاتا ہے چاہے مفرد ہو یا مرکب اور نکرہ ہو یا معرفہ۔ البتہ ایک دو جگہ کے بارے میں اختلاف ہے ‘ ان کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ نیز دیکھیے البقرہ : 61 [ 2: 39: 3] میں کلمہ ” آیات اللّٰہ “ اور البقرہ : 39 یعنی [ 2: 27: 3] میں ” ایاتنا “ کی بحث رسم۔ B ” بینت “ کا عام رسم املائی ” بینات “ ہے مگر قرآن کریم میں یہ یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف بعد النون لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 87 [ 2: 53: 3] میں کلمہ البینات کی بحث رسم۔ C ” الفسقون “ جس کی عام املاء ” الفاسقون “ ہے ‘ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف بعد الفاء لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 26 [ 2: 19: 3] میں کلمہ ” الفاسقین “ کی بحث سم۔ D ” کُلَّما “ یہ لفظ یہاں اور قریباً ہر جگہ اسی طرح موصول (یعنی ” کُلَّ “ اور ” مَا “ کو ملا کر) لکھا جاتا ہے … البتہ ایک جگہ (ابراہیم : 34) یہ مقطوع (بصورت ” کُلَّ مَا “ ) لکھا جاتا ہے اور تین چار مقامات پر یہ مقطوع اور موصول کے درمیان مختلف فیہ ہے ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ نیز دیکھیے البقرہ : 20 [ 2: 15: 3] (بحث الرسم) ۔ ” عھدوا “ جس کا عام رسم املائی ” عاھدوا “ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ یہاں تو بالاتفاق ” بحذف الالف بعد العین “ لکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی صیغہ فعل (عاھَدوا) قرآن کریم میں مزید تین جگہ بھی آیا ہے ‘ ان میں سے الف (بعد العین) کے حذف اور اثبات کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں باب مفاعلہ کے اس فعل سے ماضی ہی کے کچھ اور صیغے (عاھد ‘ عاھدت ‘ عاھدتم) بھی سات جگہ آئے ہیں ‘ ان میں سے بھی صرف ” عاھد “ کے حذف الف (” عٰھَدَ “ لکھنے) پر اتفاق ہے مگر باقی کلمات کا رسم اس (حذف و اثبات) کے بارے میں مختلف فیہ ہے … لہٰذا ان تمام کلمات پر حسب موقع بات ہوگی۔ F ” الکتٰب اور کتٰب اللّٰہ “ اس میں کلمہ ” کتب “ کا عام رسم املائی تو ” کتاب “ ہے مگر قرآن کریم میں یہ کلمہ ہر جگہ (ما سوائے چار خاص مقامات کے) بحذف الالف بعد التاء ہی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 2 [ 2: 1: 3] میں ” الکتب “ کے رسم پر بحث۔ 2: 61: 4 الضبط اس قطعہ آیات میں بھی ضبط کا تنوع زیادہ تر الف محذوف ‘ ھاء کنایہ ‘ نون مخفاۃ و مظہرہ ‘ حرفِ علت کے طریق ضبط میں منحصر ہے ‘ نیز افریقی مصاحف میں متطرف (آخر پر آنے والے) حروف (ی نق) کا عدم اعجام بھی قابل ذکر ہے۔ درج ذیل نمونوں سے آپ ضبط کے اس اختلاف یا تنوع کو سمجھ سکتے ہیں جہاں صرف حرکت کی صورت (یعنی فتحہ کسرہ ضمہ یا سکون) کا فرق ہے اسے دوبارہ نہیں لکھا گیا۔
Top