Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : آیا، اُن رَسُوْلٌ : ایک رسول مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کی طرف مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس نَبَذَ : پھینک دیا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنَ : سے الَّذِیْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : کتاب دی گئی كِتَابَ اللہِ : اللہ کی کتاب وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ پیچھے کَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہی نہیں
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں
[ وَلَمَّا : اور جب ] [ جَاۗءَھُمْ : آیا ان کے پاس ] [ رَسُوْلٌ: ایک رسول ] [ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس سے ] [ مُصَدِّقٌ: تصدیق کرنے والا ] [ لِّمَا : اس کی جو ] [ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ ہے ] [ نَبَذَ : تو پھینکا ] [ فَرِيْقٌ: ایک فریق نے ] [ مِّنَ الَّذِيْنَ : ان میں سے جن کو ] [ اُوْتُوا : دی گئی ] [ الْكِتٰبَ ڎ : کتاب ] [ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب کو ] [ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے ] [ كَاَنَّھُمْ : جیسے کہ وہ لوگ ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں ہیں ] [ وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ] اس عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ A ” وَ لَمَّا “ (اور جب : جس وقت) ” لمَّا “ کے معنی اور استعمال پر البقرہ : 7 [ 2: 13: 1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ B ” جَائَ ھُمْ “ (ان کے پاس آیا) فعل ” جَائَ یَجِیْئُ (آنا) پر البقرہ : 71 [ 2: 44: 1 (14)] میں کلمہ ” جِئْتَ “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ C ” رَسُولٌ“ (ایک رسول : پیغمبر) لغوی تشریح کے لیے دیکھیے البقرہ : 87 [ 2: 53: 1 (1) و (14)] جہاں ” الرّسل “ اور ” رسول “ دونوں کلمات آئے ہیں۔ D ” مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ “ (اللہ کے پاس سے۔ اللہ کی طرف سے) مزید لغوی تشریح چاہیں تو ” مِنْ “ کے لیے [ 2: 2: 1 (5)] اور ” عِنْدَ “ کے لیے [ 2: 34: 1 (6)] دیکھیے۔ E " ۔ ” مُصَدِّقٌ“ (سچ بتانے والا۔ تصدیق کرنے والا) یہ لفظ جو مادہ ” ص د ق “ سے باب تفعیل کا اسم الفاعل ہے اس کی مزید لغوی تشریح کے لیے چاہیں تو البقرہ : 41 [ 2: 28: 1 (9)] دیکھ لیجیے۔ F ” لِمَا “ (اس چیز کے لیے جو کہ : اس چیز کی جو کہ) لام (ل) کے معنی و استعمال پر [ 1: 2 : 1 (4)] میں اور ” ما “ موصولہ پر [ 2: 2: 1 (5)] پر بات ہوچکی ہے۔ G ” مَعَھُمْ “ (ان کے ساتھ) ” مَعَ “ کے معنی و استعمال پر البقرہ : 14 [ 2: 11: 1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور جب آیا ان کے پاس ایک پیغمبر اللہ کی طرف سے (جو) سچ بتانے والا (ہے) اس چیز کا جو ان کے پاس ہے۔ “ اس کو سلیس اردو کی شکل دینے کے لیے مترجمین کو نہ صرف عبارت کی اردو ساخت کے مطابق کلمات میں تقدیم و تاخیر (آگے پیچھے کرنا) سے کام لینا پرا بلکہ محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی بعض تبدیلیاں کرنی پڑیں ‘ مثلاً ” جب ان کے پاس خدا کی طرف سے پیغمبر آیا “۔ بعض نے ” جَائَ ھُمْ “ کا ترجمہ ” ان کے پاس پہنچا “ کرلیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ بعض نے ” رسول “ سے مراد نبی کریم ﷺ ہی لے کر ترجمہ کیا ہے … اسی طرح لفظ ” مصدِّق “ کا ترجمہ بعض نے فعل مضارع کی طرح ” تصدیق کرتا ہے ‘ تصدیق کر رہے ہیں ‘ سچا بتاتا ہے “ کی صورت میں کردیا ہے جسے اردو محاورے کی مجبوری کہہ سکتے ہیں مگر جن حضرات نے اس (مصدِّقٌ) کا ترجمہ حال کی طرح ” تصدیق کرتے ہوئے ‘ تصدیق فرماتا ‘ سچ بتاتے ہوئے “ کیا ہے وہ بلحاظ ترجمہ محل نظر ہے کیونکہ یہاں ” مصدِّق “ رسول کی صفت ہے حال نہیں ہے۔ بلکہ اردو محاورے میں بھی حال کا ترجمہ بھی صفت سے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ” لِمَا “ کا ترجمہ ” اس کتاب کی جو ‘ ان کتابوں کی جو “ سے کیا ہے ‘ اسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال … یہ عبارت مکمل جملہ نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے اس میں بیان شرط کا سا مفہوم ہے ‘ یعنی ” جب یوں ہوا تو …“ اس ” تو “ یا جوابِ شرط کا بیان اگلے جملے میں آئے گا اور یوں یہ دونوں جملے مل کر ایک طویل مکمل جملہ بنتے ہیں۔ [ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتَابَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ ] جہاں تک مفردات کا تعلق ہے اس عبارت کے تمام کلمات کسی نہ کسی صورت میں پہلے زیر بحث آ چکے ہیں۔ لہٰذا ذیل میں ان کے صرف ترجمہ اور لغوی تشریح کے سابقہ حوالے پر اکتفاء کیا جائے گا۔ A ” نبَذ “ (پرے پھینک دیا۔ پھینک مارا ‘ ڈال دیا ‘ پھینک دی) ۔ اس فعل کے باب معنی اور استعمال پر ابھی اوپر اسی زیر مطالعہ قطعہ یعنی [ 2: 61: 1 (1 - 2)] میں بات ہوئی تھی۔ B ” فَرِیْقٌ“ (ایک گروہ : جماعت : فریق نے) یہ لفظ ابھی اوپر گزرا ہے۔ C ” مِنَ الَّذِیْنَ “ (ان لوگوں میں سے جو کہ) یعنی یہ ” پھینکنے والا گروہ ان میں سے تھا جو … ” مِن “ یہاں تبعیضیہ ہے (دیکھیے [ 2: 2: 1 (75)]) ” الذین “ اسم موصول برائے جمع مذکر ہے۔ D ” اُوتُوا “ (وہ دیئے گئے۔ ان کو دیا گیا : دی گئی) یہ ” ا ت ی “ مادہ سے ” اُفْعِلُوا “ کے وزن پر باب افعال کا فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کی اصل شکل ” أُأْتِیُوْا “ تھی۔ جس میں ” أُ أْ “ تو ” أُوْ “ بنتا ہے اور واو الجمع سے ما قبل والا حرفِ علت (جو یہاں ” ی “ ہے) ساقط ہوجاتا ہے اور عین کلمہ (جو یہاں ” ت “ ہے) کی کسرہ (-ِ ) کو واو الجمع کے مطابق ضمہ (-ُ ) میں بدل دیا جاتا ہے۔ یوں یہ لفظ ” اُوتُوا “ کی شکل میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ باب افعال کے اس فعل ” آتٰی یُؤتِی ایتائً “ (کو دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ : 43 یعن [ 2: 29: 1 (5)] میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔ ۔ ” الکتابَ “ (کتاب) دیکھیے [ 2: 1: 1 (2)] ۔ F ” کِتَابَ اللّٰہِ “ (اللہ کی کتاب کو) (دیکھیے آگے بحث ” الاعراب “ ) ۔ G ” وَرَائَ …“ (… کے پرے ‘ … کے پیچھے) ۔ اس لفظ پر مکمل لغوی بحث البقرہ : 91 یعنی [ 2: 56: 1 (1)] میں دیکھیے۔ H ” ظُھُوْرِھِمْ “ (ان کی : اپنی پیٹھوں …) لفظ ” ظُھُور “ ” ظَھْرٌ“ (پیٹھ) کی جمع مکسر ہے۔ اس کے مادہ ’ ظ ھ ر “ سے فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ : 85 [ 2: 52: 1 (3)] میں کلمہ ” تَظاھَرُون “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ قرآن کریم میں لفظ ” ظَھْر “ (بصیغہ واحد) چار جگہ اور ” ظُھْور “ (بصیغہ جمع) گیارہ جگہ آیا ہے۔ دونوں کلمات ہر جگہ مرکب (اضافی) کی شکل میں آئے ہیں۔ ۔ مفردات کی اس وضاحت اور الگ الگ ترجمہ کے بعد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زیر مطاعہ عبارت ” نبَذ فریقٌ … ظُھورِھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ”(تو) پھینک دیا ایک گروہ نے ان میں سے جن کو دی گئی تھی کتاب اللہ کی کتاب کو پرے (پیچھے) اپنی پیٹھوں کے۔ “ سلیس اردو بنانے کے لیے ایک تو الفاظ میں تقدیم و تاخیر (اردو فقرے کی ساخت کے مطابق) کرنی پڑے گی مثلاً ” جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں پیچھے پھینک دیا “ کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض تبدیلیاں اردو محاورے کی خاطر کرنی پڑتی ہیں مثلاً اردو میں ” پیٹھوں “ (جمع) کی بجائے ” پیٹھ “ (واحد) کے ساتھ ترجمہ کرنے کی یہی وجہ ہے یعنی ” پیٹھ پیچھے پھینک دیا : ڈال دیا : پھینک مارا۔ “ وغیرہ ہیں۔ بعض نے اس کے لیے فارسی ترکیب ” پس پشت “ (ڈال دیا) اختیار کی ہے جو اصلی عربی سے کم مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح ” الذین اوتوا الکتاب “ (جن کو کتاب دی گئی) کا ترجمہ ایک مختصر لفظ ” اہل کتاب “ کے ساتھ کرنے کی وجہ بھی محاورہ ہی ہے۔ 2: 61: 1 (4) [ کَأَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ] یہ سادہ اور آسان سا جملہ اسمیہ ہے۔ اس میں : A ” کَأَنَّ “ (گویا کہ) مشہور حرف مشبہ بالفعل ہے (باقی حروف مشبہ بالفعل ” اِنَّ ‘ اَنَّ ‘ لٰکِنَّ ‘ لَیْتَ اور لَعَلَّ “ ہیں جن کے معنی علی الترتیب ” بیشک ‘ کہ بیشک ‘ لیکن ‘ کاش کہ اور شاید کہ “ ہیں) یہ سب جملہ اسمیہ میں مبتدأ کو (جسے ان کا اسم کہا جاتا ہے) نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ ” کَأَنَّ “ کی خبر اگر کوئی اسم جامد (غیر مشتق) ہو تو اس میں تشبیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے ” کأَنَّ زیدًا اسدٌ“ (گویا کہ زید شیر ہے) اور اگر اس کی خبر کوئی اسم مشتق (اسم الفاعل ‘ اسم المفعول وغیرہ) یا کوئی جملہ فعلیہ ہو (جیسے زیر مطالعہ عبارت میں ہے) تو اس میں عموماً ” ظن “ یعنی گمان غالب کا مفہوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ” کَأَنَّ “ بیس سے زائد جگہ آیا ہے اور زیادہ تر اس کا اسم کوئی ضمیر (ہ - ھا - ھم - ھن وغیرہ) آئی ہے۔ کبھی حروف مشبہ بالفعل کے بعد (ساتھ) ” ما “ زائدہ بھی لگتا ہے جسے ” ما کافّہ “ کہتے ہیں۔ جیسے ” انَّما ‘ کأَنَّما وغیرہ میں ہے۔ اس سے معنی میں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا (البتہ تاکید کا مفہوم زیادہ ہوجاتا ہے) مگر اس صورت میں حروف مشبہ بالفعل کا کوئی عمل نہیں ہوتا۔ ” کَأَنَّمَا “ بھی قرآن کریم میں پانچ مقامات پر استعمال ہوا ہے۔؎ B ” ھُمْ “ (وہ) یہ ضمیر یہاں ” کَأَنَّ “ کا اسم ہو کر آئی ہے۔ C ” لَا یَعْلَمُوْنَ “ (وہ نہیں جانتے) اس کا فعل ” عَلِمَ یعلَم “ (جاننا) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ اس کے باب اور معنی و استعمال پر الفاتحہ : 2 [ 1: 2: 1 (4)] میں کلمہ ” عالَمین “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی اور پھر البقرہ : 13 [ 2: 1: 1 (3)] میں یہی لفظ ” لَا یعلمون “ گزرا ہے۔ ۔ اس عبارت کا سادہ لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” گویا کہ وہ نہیں جانتے “ جس کی ایک صورت ” گویا ان کو معلوم نہیں “ یا ” گویا ان کو علم نہیں “ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم اردو محاورے کے مطابق مفہوم میں زور پیدا کرنے کے لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ” کچھ “ اور ” ہی “ کا اضافہ کیا ہے ‘ یعنی ” گویا ان کو کچھ علم ہی نہیں : کچھ خبر ہی نہیں : علم ہی نہیں رکھتے : جانتے ہی نہیں “ وغیرہ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے ‘ اگرچہ اصل عبارت میں ” شیئًا “ وغیرہ کی قسم کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ یعنی ان کی عملی حالت دیکھ کر گمان غالب یہی ہوتا ہے کہ گویا وہ بالکل بیخبر ہیں (کتاب اللہ سے) … قصہ تو یہود کا ہے مگر اس میں غور اور عبرت کا مقام (قرآن کے حوالے سے) مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ 2: 61: 2 الاعراب بیانِ اعراب کے لیے اس قطعہ کو سات چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے دو کا باہمی تعلق شرط اور جوابِ شرط کا سا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو مجموعی طور پر لے کر ہی جملہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ تفصیل یوں ہے : A ” وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ “ [ وَ ] یہاں مستانہ ہے [ لَقَدْ ] حرفِ تاکید اور حرفِ تحقیق جمع ہوگئے ہیں [ اَنْزَلْنَا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم ” نَحْنُ “ ہے [ ِاِلَیْک ] جار (الٰی) اور مجرور (ک) مل کر متعلق فعل ” اَنْزَلْنَا “ ہیں جو مفعول سے مقدم آئے ہیں کیونکہ در اصل تو بنتا تھا ” لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیاتٍ بیّناتٍ الیک “ … [ آیاتٍ ] فعل ” انزلنا “ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے ‘ علامت نصب ” اتٍ “ ہے کیونکہ یہ جمع مؤنث سالم ہے [ بیناتٍ ] صفت ہے (آیات کی) اس لیے منصوب ہے۔ یہ بھی اسی طرح جمع مؤنث سالم ہے۔ B ” وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ “ [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ مَا ] نافیہ ہے [ یَکفُر ] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر مؤنث ہے [ بِھَا ] جار (بِ ) اور مجرور (ھَا) مل کر متعلق فعل ” یکفر “ ہے۔ یا اگر ” بِ “ کو فعل ” یکفر “ کا صلہ قرار دیں تو پھر مرکب جاری (بھا) کو مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ [ اِلَا ] حرف استثناء ہے ‘ اس سے پہلے فعل ” یکفر “ کا فاعل ” احدٌ“ محذوف ہے۔ [ الفَاسِقُون ] یہاں یکفر کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے (علامت رفع آخری نون سے ما قبل -ُ وْ ) ہے … چونکہ یہاں حرف استثناء سے پہلے جملہ منفی غیر تام (غیر مکمل) ہے اس لیے ” الفاسقون “ کا اعراب موقع کے مطابق رفع کا ہے۔ یعنی اگر ” ما “ نافیہ اور ” الا “ کو ہٹا دیں تو باقی ” یکفر الفاسقون “ ہی بنتا ہے۔ C ” اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ “ [ اَوَ ] ہمزہ استفہام اور واو العطف کا مرکب ہے (استعمال کے لیے دیکھیے حصہ اللغۃ ) ۔ [ کُلَّمَا ] اس میں ظرف اور شرط جمع ہیں۔ یعنی یہ طرف زمان متضمن معنی شرط ہے [ عاھَدوا ] عل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے۔ [ عَھْدًا ] اسے فعل ” عاھدوا “ کا مفعول بہٖ (لہٰذا منصوب) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہاں ایک مفعول محذوف ہے (مثلاً عاھَدُوا اللّٰہَ یا عاھدوکم بھی کہہ سکتے ہیں۔ [ نبَذہ ] ” نبَذ “ تو فعل ماضی معروف برائے واحد مذکر غائ؛ب ہے اور ضمیر منصوب (ہ) مفعول بہ مقدم ہے کیونکہ مفعول کوئی ضمیر ہو تو فاعل سے پہلے آتی ہے۔ [ فریقٌ] فعل ” نبَذ “ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے ‘ علامت رفع تنوین رفع (-ٌ) ہے [ منھم ] جار (مِن) اور مجرور (ھُم) مل کر ” فریق “ کی صفت یا بیان ہے۔ یعنی ایسا گروہ جو ان ہی میں سے ہے۔ D ” بَلْ اَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ “ [ بَلْ ] حرفِ اضراب ہے جو یہاں سابقہ مضمون (عہد کو پرے پھینک دینا) کے ابطال کے لیے نہیں بلکہ انتقال مضمون کے لیے ہے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ عہد کی پروا نہیں کرتے بلکہ وہ تو ایمان سے ہی محروم ہیں۔ [ اکثرھم ] مضاف (اکثر) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر مبتدأ بنتا ہے اسی لیے ” اکثر “ مرفوع ہے۔ اور [ لا یؤمنون ] فعل مضارع منفی مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ پورا جملہ فعلیہ ہو کر ” اکثرھم “ کی خبر بن رہا ہے۔ ۔ ” وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ “ [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ لَمَّا ] حینیہ ظرفیہ ہے ‘ یعنی یہ وقت کا مفہوم رکھتا ہے (” جب “ کا) جس میں ایک طرح سے شرط کا معنی بھی موجود ہے مگر یہ جازم نہیں ہے۔ [ جائَ ھم ] فعل ماضی معروف (جائَ ) مع ضمیر (ھم) مفعول بہ ہے اور [ رسول ] اس فعل (جائَ ) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [ مِن عندِ اللّٰہ ] مرکب جارّی (جس میں ” مِن “ حرف الجر ہے اور ” عندِ “ ظرفِ مضاف اور مجرور بالجر بھی ہے اور ” اللّٰہِ “ مجرور بالاضافہ ہے) ” رسول “ (جو نکرہ موصوفہ ہے) کی صفت بنتا ہے (یعنی ایسا رسول جو اللہ کی طرف سے ہے) اور [ مصدِّقٌ] اس (رسول) کی دوسری صفت ہے جو چاروں (حالت ‘ جنس ‘ عدد ‘ وسعت) لحاظ سے اپنے موصوف کے مطابق ہے۔ [ لِمَا ] جار (لِ ) اور مجرور ( مَا موصولہ) مل کر ” مصدِّقٌ“ سے معلق ہیں۔ یعنی ہ کس کا مصدّق ؟ کا جواب مہیا کرتا ہے۔ [ مَعَھُمْ ] ظرفِ مکان مضاف (معَ ) اور مضاف الیہ (ھُمْ ) مل کر اسم موصول (مَا) کا سلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پوری عبارت [ لما معھم ] مل کر ” مصدِّق “ کے معنی فعل (تصدیق کرتا ہے) سے متعلق ہے۔ بلحاظ معنی یہاں تک جملہ مکمل نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک طرح سے بیان شرط ہے (اگرچہ اس میں کوئی جازم بھی نہیں اور یہ قصہ بھی زمانہ ماضی کا بیان ہو رہا ہے تاہم اس کے بعد حرفِ ربط کے طور پر اگلی عبارت سے پہلے ایک ” تو “ کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے ‘ یعنی ” جب… تو …“ کی صورت میں ‘ اس لیے اگلا جملہ اس جملے سے مربوط ہے۔ ) F ” نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ “ [ نبَذ ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور [ فریقٌ] جو یہاں نکرہ موصوفہ بھی ہے ‘ اس فعل کا فاعل (لہذا) مرفوع ہے۔ یعنی ” ایک ایسے گروہ نے جو “۔ [ من الذین ] جار (مِن) اور مجرور (الذینجو اسم موصول بھی ہے) مل کر ” فریقٌ“ کی صفت کا کام دے رہے ہیں (یعنی جو ان لوگوں میں سے ہے جو) [ اُوتُوا ] فعل ماضی مجہول مع مرفوع ضمیر برائے نائب الفاعلین ” ھم “ ہے اور [ الکتابَ ] اس فعل کا مفعول بہ ثانی ہے جو نصب میں آیا ہے (دو مفعول والا فعل جیس ” آتٰی یُؤتِی “ ہے۔ مجہول آئے تو ایک مفعول نائب فاعل بن کر رفع میں آتا ہے اور دوسرا نصب میں آتا ہے) علامت نصب آخری ” بَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے کیونکہ یہ معرف باللام بھی ہے۔ [ کتابَ اللّٰہِ ] مرکب اضافی ہے جس میں مضاف (کتابَ ) فعل ” نبَذ “ کا مفعول بہٖ ہونے کے باعث منصوب ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اس لیے یہاں بھی علامت نصب فتحہ (-َ ) ہی رہ گئی ہے۔ اور اسم جلالت (اللّٰہ) مجرور بالاضافہ ہے [ ورائَ ظُھورھم ] یہ مجموعی طور پر تو مرکب اضافی ہے جس میں ” ورائ “ ظرف مضاف ہے اور ” طھور “ اس (ورائ) کا مضاف الیہ اور آگے مضاف بھی ہے اسی لیے خفیف بھی اور مجرور بھی ہے۔ یعنی اس میں علامت جر اب آخری ” ر “ کی ایک کسرہ (-ِ ) رہ گئی ہے اور آخر پر (ھم) ضمیر مجرور اس (ظھور) کا مضاف الیہ ہے۔ اس پورے مرکب اضافی (وراء ظھورھم) کے پہلے جزء (ورائ) کی نصب در اصل تو ظرف (مکان) ہونے کی وجہ سے ہے … تاہم بعض نحوی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہاں ” پیٹھ پیچھے : سے پرے “ کا مطلب ” حسی “ نہیں لیا جاسکتا … یعنی کتاب کو کسی ” جگہ “ (جو حواس سے معلوم کی جاسکتی ہو) تو نہیں پھینکا تھا۔ بلکہ یہاں مجازاً ” پھینکے ہوئے جیسا بنادینا “ مراد ہے۔ گویا یہاں فعل ” نبَذ “ (پھینک دیا) در اصل ” جعَل “ یا ” صبَّر “ کے معنی میں ہے جس کے دو مفعول ہوتے ہیں اس لیے یہاں ” ورائ “ در اصل مفعول بہ ثانی کا درجہ رکھتا ہے … لیکن یہ سب تکلف معلوم ہوتا ہے۔ اسلوب عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ یہاں ” پھینک “ دینا سے مراد ” حسی “ طور پر پھینکنا مراد نہیں جیسا کہ حصہ ” اللغۃ “ میں اس فعل کے معانی میں بیان ہوا ہے۔ G کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ [ کأنھم ] حرفِ مشبہ بالفعل (کان) اور اس کے اسم (ھم) پر مشتمل ہے اور [ لا یعلمون ] فعل مضارع معروف منفی مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ جملہ فعلیہ بن کر ” اکثرھم “ کی خبر ہے۔ اگرچہ یہ ایک مسقل جملہ اسمیہ ہے تاہم سیاق وسباق عبارت کے لحاظ سے اسے ” پھینکنے والے گروہ “ کا (یعنی فعل نبذ کے فاعلین کا) حال قرار دیا جاسکتا ہے یعنی انہوں نے یہ کام بیخبروں اور جاہلوں سے مشابہ (مانند) ہوتے ہوئے کر ڈالا تھا۔ 2: 61: 3 الرسم زیر مطالعہ قطعہ آیات میں بلحاظ رسم صرف چھ کلمات وضاحت طلب ہیں ‘ یعنی ” ایت ‘ بینت ‘ الفسقون ‘ کلما ‘ عھدوا اور الکتاب “ (جو عبارت میں دو دفعہ آیا ہے) تفصیل نمبر وار یوں ہے : A ” ایت “ جس کا عام رسم املائی ” آیات “ ہے۔ قرآن مجید میں یہاں اور (زیادہ تر) ہر جگہ ” بحذف الال بعد الیائ “ لکھا جاتا ہے چاہے مفرد ہو یا مرکب اور نکرہ ہو یا معرفہ۔ البتہ ایک دو جگہ کے بارے میں اختلاف ہے ‘ ان کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ نیز دیکھیے البقرہ : 61 [ 2: 39: 3] میں کلمہ ” آیات اللّٰہ “ اور البقرہ : 39 یعنی [ 2: 27: 3] میں ” ایاتنا “ کی بحث رسم۔ B ” بینت “ کا عام رسم املائی ” بینات “ ہے مگر قرآن کریم میں یہ یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف بعد النون لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 87 [ 2: 53: 3] میں کلمہ البینات کی بحث رسم۔ C ” الفسقون “ جس کی عام املاء ” الفاسقون “ ہے ‘ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف بعد الفاء لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 26 [ 2: 19: 3] میں کلمہ ” الفاسقین “ کی بحث سم۔ D ” کُلَّما “ یہ لفظ یہاں اور قریباً ہر جگہ اسی طرح موصول (یعنی ” کُلَّ “ اور ” مَا “ کو ملا کر) لکھا جاتا ہے … البتہ ایک جگہ (ابراہیم : 34) یہ مقطوع (بصورت ” کُلَّ مَا “ ) لکھا جاتا ہے اور تین چار مقامات پر یہ مقطوع اور موصول کے درمیان مختلف فیہ ہے ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ نیز دیکھیے البقرہ : 20 [ 2: 15: 3] (بحث الرسم) ۔ ” عھدوا “ جس کا عام رسم املائی ” عاھدوا “ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ یہاں تو بالاتفاق ” بحذف الالف بعد العین “ لکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی صیغہ فعل (عاھَدوا) قرآن کریم میں مزید تین جگہ بھی آیا ہے ‘ ان میں سے الف (بعد العین) کے حذف اور اثبات کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں باب مفاعلہ کے اس فعل سے ماضی ہی کے کچھ اور صیغے (عاھد ‘ عاھدت ‘ عاھدتم) بھی سات جگہ آئے ہیں ‘ ان میں سے بھی صرف ” عاھد “ کے حذف الف (” عٰھَدَ “ لکھنے) پر اتفاق ہے مگر باقی کلمات کا رسم اس (حذف و اثبات) کے بارے میں مختلف فیہ ہے … لہٰذا ان تمام کلمات پر حسب موقع بات ہوگی۔ F ” الکتٰب اور کتٰب اللّٰہ “ اس میں کلمہ ” کتب “ کا عام رسم املائی تو ” کتاب “ ہے مگر قرآن کریم میں یہ کلمہ ہر جگہ (ما سوائے چار خاص مقامات کے) بحذف الالف بعد التاء ہی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ : 2 [ 2: 1: 3] میں ” الکتب “ کے رسم پر بحث۔ 2: 61: 4 الضبط اس قطعہ آیات میں بھی ضبط کا تنوع زیادہ تر الف محذوف ‘ ھاء کنایہ ‘ نون مخفاۃ و مظہرہ ‘ حرفِ علت کے طریق ضبط میں منحصر ہے ‘ نیز افریقی مصاحف میں متطرف (آخر پر آنے والے) حروف (ی نق) کا عدم اعجام بھی قابل ذکر ہے۔ درج ذیل نمونوں سے آپ ضبط کے اس اختلاف یا تنوع کو سمجھ سکتے ہیں جہاں صرف حرکت کی صورت (یعنی فتحہ کسرہ ضمہ یا سکون) کا فرق ہے اسے دوبارہ نہیں لکھا گیا۔
Top