Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا، تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالا ئے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں، جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے
[ اَوَ : اور کیا (ایسا نہیں ہے کہ ) ] [ كُلَّمَ : جب کبھی ] [ ا عٰھَدُوْا : ان لوگوں نے معاہدہ کیا ] [ عَهْدًا : جیسا عہد کرنے کا حق ہے ] [ نَّبَذَهٗ : تو پھینکا اس کو ] [ فَرِيْقٌ: ایک فریق نے ] [ مِّنْھُمْ ۭ : ان میں سے ] [ بَلْ : بلکہ ] [ اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر ] [ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے ] اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُم اس میں ” عاھَدوا “ اور ” نبذ “ نئے لفظ ہیں۔ A ” اَوَ “ (اور کیا ؟ کیا ؟ کیا یہ ہے کہ۔ آیا ؟ ) بیان ہوچکا ہے کہ جب ” و “ یا ”“ کے ساتھ حرف استفہام (ا) لگے تو وہ ان سے پہلے آتا ہے یعنی ” اَوَ “ یا ” اَفَ “ کہتے ہیں اور اگر دوسرا کلمہ استفہام (ھَلْ ) لگے تو وہ بعد میں لگتا ہے ‘ مثلاً کہیں گے ” وَھَلْ “ یا ” فَھَلْ “ … قرآن کریم میں دونوں استعمالات آئے ہیں۔ B ” کُلَّمَا “ (جب بھی۔ جب کبھی بھی۔ جب جب۔ جس بار) جو ” کُلَّ “ اور ” مَا “ (ظرفیہ) کا مرکب ہے، اس پر البقرہ : 20 [ 2:15:1 (3)] میں بات ہوئی تھی۔ C ” عَاھَدُوا “ کا مادہ ” ع ھ د “ اور وزن ” فَاعَلُوا “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب وغیرہ پر البقرہ : 27 [ 2:19:1 (13)] میں کلمہ ” عھد “ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ یہ کلمہ (عاھدوا) اس مادہ سے باب مفاعلہ کے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ” عَاھَدَ … یُعَاھِدُ مُعَاھَدَۃً “ کے معنی ہوتے ہیں ”… کو عہد یا قرار دینا، … سے عہد یا قرار باندھنا۔ “ عہد دینے والا ” مُعَاھِد “ اور جس سے عہد کیا جائے ” مُعَاھَد “ (بصیغہ مفعول) کہلاتا ہے اور اسی کو حدیث میں ” ذُو عھدٍ “ بھی کہا گیا ہے۔ ۔ بنیادی طور پر یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفہول بنفسہٖ آتا ہے اور جس بات پر عہد کیا جاتا ہے اس پر ” عَلٰی “ کا صلہ آئے گا، جیسے ” رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ “ (الاحزاب : 23) میں ہے۔ یعنی ” ایسے مرد جنہوں نے سچا کر دکھایا اس کو جس پر انہوں نے اللہ سے عہد باندھا تھا۔ “ کبھی اس کا مفعول بلکہ جس بات پر عہد کیا جائے دونوں ہی محذوف کردیئے جاتے ہیں، جیسے اسی زیر مطالعہ آیت میں نہ تو یہ مذکور ہے کہ کس سے عہد باندھا ؟ اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ کس بات پر عہد باندھا ؟ یہ چیزیں سیاق عبارت سے سمجھی جاسکتی ہیں ‘ مثلاً ” اللہ سے عہد باندھا “ اور دین پر عمل کرنے کا عہد باندھا وغیرہ۔ ۔ قرآن کریم میں باب مفاعلہ کے اس فعل کے مختلف صیغے گیارہ جگہ آئے ہیں، ان میں سے صرف چار جگہ مفعول مذکور ہوا ہے اور اس کے ساتھ ” عَلٰی “ کا استعمال بھی صرف دو جگہ آیا ہے … (عَاھَدُوا ۔ ” انہوں نے عہد باندھا “ ) ۔ D ” عَھْدًا “ (عہد۔ قرار) اس پر بحث کے لیے دیکھیے البقرہ : 27 [ 2: 19: 1 (13)] ۔ ۔ ” نَبَذَہٗ “ … آخری ضمیر منصوب (ہ) کا ترجمہ تو یہاں ” اس کو “ ہے اور باقی فعل ماضی کا صیغہ (نبَذ) ہے جس کا مادہ ” ن ب ذ “ اور وزن ” فَعَلَ “ ہے۔ یہ فعل مجرد ” نبَذ … یَنبِذُ نَبْذًا “ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں : ”… (کسی چیز) کو ناقابل توجہ سمجھ کر پرے پھینک دینا “۔ مثلاً کہتے ہیں ” نبَذ النَعلَ الخَلِقَ “ (اس نے پرانا جوتا پھینک دیا) پھر اسی سے اس میں ” عہد تو دینا “ یا ” کسی معاملے کو ٹال دینا اور اس پر عمل نہ کرنا “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں ” نبَذ العھدَ “ (عہد پھینک دیا یعنی توڑ دیا) اور ” نبَذ الامرَ “ (اس نے بات پر عمل نہ کیا) … اس کے علاوہ یہ فعل بعض اور معانی مثلاً ” دل کا دھڑکنا “ (بنَذ قلبُہٗ ) اور ” کھجور کا نبیذ “ (ایک مشروب) بن جانا (نبَذ التمرُ ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل صرف پہلے معنی (پھینک دینا۔ اور نظر انداز کرنا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ البتہ بعض جگہ اس کا مفعول محذوف ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی، مضارع (معروف، مجہول) اور فعل امر وغیرہ کے مختلف صیغے دس جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ کے باب افتعال سے بھی ایک صیغہ فعل دو جگہ آیا ہے۔ F ” فَرِیْقٌ“ (گروہ۔ جماعت) اور خود لفظ ” فریق “ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اس لفظ کے مادہ، فعل کے باب و معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ : 50 [ 2:32:1 (10)] میں کلمہ ” فرَقنا “ میں اور خود اسی لفظ (فریق) پر البقرہ : 75 [ 2:47:1 (2)] میں بات ہوئی تھی۔ G ” مِنْھُمْ “ (ان میں سے) ” مِنْ “ (تبعیضیہ) کے لیے دیکھیے [ 2: 2: 1 (5)] ۔ ۔ اس طرح زیر مطالعہ عبارت (او کلما عاھدوا عھدا نبذہ فریق منھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے : ” کیا اور جب کبھی بھی انہوں نے باندھا کوئی عہد (تو) پھینک دیا اس کو کسی گروہ نے ان میں سے “ اس کو سلیس اور با محاورہ بنانے کے لیے بعض الفاظ کو آگے پیچھے کرنے (مثلاً ان میں سے کسی گروہ نے) کے علاوہ بعض مترجمین نے یہاں ” عاھَدوا “ اور ” نبَذ “ کے ماضی کے صیغوں کا ترجمہ ” کُلَّمَا “ کی شرط کی وجہ سے حال یا مستقبل میں کیا ہے۔ یعنی ” باندھیں گے، عہد کرتے ہیں ‘ قول و قرار کرتے ہیں “ اور ” تو پھینک دیں گے، پھینک دیتا ہے، رد کردیتا ہے “ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے محاورے کے مطابق اسے ماضی ہی رہنے دیا ہے، مثلاً ” انہوں نے جب کبھی کوئی عہد کیا ہے تو ان ہی میں سے کسی (نہ کسی) جماعت (گروہ) نے اسے توڑ پھینکا ہے “ … ” فریق “ نکرہ کا یہاں سیاق عبارت کے لحاظ سے با محاورہ ترجمہ ” کوئی نہ کوئی فریق “ یا ” کسی نہ کسی جماعت “ زیادہ موزوں ہے۔ بعض نے ” نبَذ “ کا ترجمہ ” پھینک دینا “ کی بجائے ” نظر انداز کردینا “ ، ” رد کردینا “ یا ” توڑ پھینکنا “ سے کیا ہے جس میں محاورے کا زور ہے۔ 2: 61: 1 (3) بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ A ” بَل “ … (بلکہ) اسے عربی گرامر میں حرفِ اِضراب کہتے ہیں۔ یعنی یہ بنیادی طور پر اپنے سے ما قبل (مفہوم) کی نفی یا تردید کے لیے آتا ہے اور اپنے سے ما بعد والے (مفہوم) کو ثابت کرتا یا برقرار رکھتا ہے۔ یہ بعض دفعہ کسی مفرد کلمہ پر بھی آتا ہے ‘ اس وقت یہ حرفِ عطف کا کام بھی دیتا ہے ‘ یعنی اس سے پہلے اور بعد والے کلمہ (اسم) کا اعراب ایک ہی ہوتا ہے ‘ مثلاً ” لَا تَقُلْ شِعرًا بل نثرًا “ (شعر نہ کہو بلکہ نثر کہو) … زیادہ تر یہ کسی جملے پر ہی داخل ہوتا ہے اور اپنے سے سابق مضمون کی اپنے سے بعد والے جملے کے مضمون کے ذریعہ سے تردید کرتا ہے ‘ یعنی سابقہ بات کو غلط اور دوسری بات کو ہی درست قرار دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اس کا ترجمہ ” یوں نہیں بلکہ “ یا ” ہرگز نہیں بلکہ “ سے کرنا موزوں ہوتا ہے۔ مثلاً ” اَمْ یقولون بہٖ جِنّۃ … بَل جائَ ھُم بِالحَقِّ “ (المومنون : 70) یعنی ” کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے پاگل پن ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو حق لے کر آیا ہے۔ “ البتہ بعض دفعہ یہ سابقہ مضمون کے ابطال (رد کرنا) کی بجائے ایک دوسرے مضمون کی طرف انتقال (تبدیل ہونا) کے لیے بھی آتا ہے۔ اس وقت اس کا موزوں اردو ترجمہ (لیکن ‘ مگر یا بلکہ) سے ہوتا ہے۔ جیسے ” بل تُؤثِرون الحیٰوۃَ الدُّنیا “ (الاعلی : 16) میں ہے ” مگر تم تو دنیاوی زندگی کو ہی ترجیح دیتے ہو “ اور زیادہ تر اس کا استعمال ابطال کی بجائے انتقال معنی (دوسرے مضمون کی طرف جانا) کے لیے ہی ہوتا ہے … اردو فارسی کا لفظ ” بلکہ “ دراصل اسی ” بَلْ “ کے بعد فارسی ” کہ “ لگا کر ہی بنا لیا گیا ہے … اور اس کا استعمال اردو ” بلکہ “ ہی کی طرح ہے … عربی میں کبھی نفی کے لیے اس سے پہلے (مزید تاکید اور زور کے لیے ) ” کَلاَّ “ (ہرگز نہیں) بھی آتا ہے ‘ جیسے سبا : 27 میں آیا ہے (آیت اور اس کا ترجمہ کسی مترجم نسخہ قرآن میں دیکھ لیجیے) ۔ آج کل جدید عربی میں اس کے بعد ” وَ “ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ” فلانٌ یُخطیئُ بَلْ وَ یُصِرُّ “ (فلاں غلطی کرتا ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرتا ہے) یہ اسلوب قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا ‘ بلکہ پرانی عربی میں بھی کہیں نہیں آیا … یہ صرف جدید استعمال ہے … یہ لفظ (بَلْ ) قرآن مجید میں پچیس کے قریب مقامات پر آیا ہے۔ B ” اَکْثَرُھُمْ “ (ان کے اکثر۔ ان میں سے بہت زیادہ۔ ان کی اکثریت) … لفظ ” اکثر “ جو ” ک ث ر “ سے افعل التفضیل ہے اس کے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ : 6 [ 2: 19: 1 (10)] میں کلمہ ” کثیر “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ C ” لَا یُؤْمِنُوْنَ “ (ایمان نہیں لاتے : رکھتے) یہ فعل ” آمَنَ یُؤمنُ اِیمانًا “ سے فعل مضارع منفی کا صیغہ ہے۔ بابِ افعال کے اس فعل کے معنی اور استعمال کے لیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (1)] دیکھیے۔ ۔ یوں اس عبارت (بل اکثرھم لا یومنون) کا لفظی ترجمہ ہے ” بلکہ اکثر ان کے ایمان نہیں لاتے “۔ اسی کو بعض نے ” بلکہ ان میں سے اکثر یقین نہیں کرتے “ ” بلکہ ان میں سے بہت سے تو ایمان ہی نہیں رکھتے “ کی صورت دی ہے۔ بعض نے ” لا یُؤمِنُون “ کا ترجمہ ” بےایمان ہیں “ کیا ہے ‘ یعنی جملہ فعلیہ کا ترجمہ جملہ اسمیہ (خبر) کے ساتھ جس کی کوئی مجبوری نہ تھی۔ بعض حضرات نے ” بَل “ کا ترجمہ ” اصل یہ ہے : حقیقت یہ ہے “ سے کیا ہے۔ گویا یہ یوں نہیں : یہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے “ کی با محاورہ صورت ہے۔ بعض نے ” اکثرھم “ کا ترجمہ ” ان میں زیادہ تو ایسے ہی نکلیں گے “ سے کیا ہے جو ترجمہ کی حد سے تو تجاوز ہے البتہ مفہوم درست ہے۔
Top