Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور لگے اُن چیزوں کی پیروی کرنے، جو شیا طین، سلیمانؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمانؑ نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو گری کی تعلیم دیتے تھے وہ پیچھے پڑے اُس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی، حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے کہ "دیکھ، ہم محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو" پھر بھی یہ لوگ اُن سے وہ چیز سیکھتے تھے، جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے، مگراس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں، بلکہ نقصان د ہ تھی اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انہیں معلوم ہوتا!
[ وَاتَّبَعُوْا : اور وہ لوگ پیچھے پڑے ] [ مَا : اس کے جو ] [ تَتْلُوا : پڑھتے تھے ] [ الشَّيٰطِيْنُ : شیاطین ] [ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ : سلیمان کے ملک میں ] [ وَمَا كَفَرَ : اور کفر نہیں کیا ] [ سُلَيْمٰنُ : سلیمان نے ] [ وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ)] [ الشَّيٰطِيْنَ : شیاطین نے ] [ كَفَرُوْا : کفر کیا ہے ] [ يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے تھے ] [ النَّاسَ : لوگوں کو ] [ السِّحْرَ ۤ: جادو ] [ وَمَآ : اور اس کے (پیچھے پڑے) جو ] [ اُنْزِلَ : اتارا گیا ] [ عَلَي الْمَلَكَيْنِ : دو فرشتوں پر ] [ بِبَابِلَ : بابل میں ] [ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ۭ : ہاروت اور ماروت پر ] [ وَمَا يُعَلِّمٰنِ : اور وہ دونوں نہیں سکھاتے تھے ] [ مِنْ اَحَدٍ : کسی ایک کو ] [ حَتّٰى: یہاں تک کہ ] [ يَقُوْلَآ : وہ دونوں کہتے ] [ اِنَّمَا : کچھ نہیں سوا 4 ے اس کے کہ ] [ نَحْنُ : ہم ] [ فِتْنَةٌ: آزماء ش ہیں ] [ فَلَا تَكْفُرْ ۭ : پس تو کفر مت کر ] [ فَيَتَعَلَّمُوْنَ : تو (بھی) وہ لوگ سیکھتے ] [ مِنْهُمَا : ان دونوں سے ] [ مَا : اس کو ] [ يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ : وہ لوگ جدائی ڈالتے جس سے ] [ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ ۭ : مرد اور اس کی بیوی کے مابین ] [ وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ : اور وہ لوگ نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں ] [ بِهٖ : اس سے ] [ مِنْ اَحَدٍ : کسی ایک کو ] [ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : مگر اللہ کی اجازت سے ] [ وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ] [ مَا : اس کو جو ] [ يَضُرُّھُمْ : ان کو نقصان دیتا ] [ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ۭ : اور ان کو نفع نہیں دیتا ] [ وَلَقَدْ عَلِمُوْا : اور یقینا وہ جان چکے تھے ] [ لَمَنِ اشْتَرٰىھُ : کہ بیشک جس نے خریدا اس کو ] [ مَا لَهٗ : اس کے لیے نہیں ہے ] [ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں ] [ مِنْ خَلَاقٍ ڜ : کوئی حصہ ] [ وَلَبِئْسَ : اور یقینا کتنا برا ہے ] [ مَا شَرَوْا بِهٖٓ: وہ انہوں نے سودا کیا جس سے ] [ اَنْفُسَھُمْ ۭ : اپنے آپ کا ] [ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ لوگ جانتے ہوتے ] 2: 62: 2 الاعراب ترکیب نحوی کے لیے اس عبارت کو 13 جملوں میں تقسیم کای جاسکتا ہے اسی لیے ہر نحوی جملے کے آخر پر کوئی نہ کوئی علامت وقف دی گئی ہے۔ A وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ [ وَ ] عاطفہ ہے جو اگلے فعل [ اتبعوا ] کو سابقہ آیت کے صیغہ فعل (نبَذ) پر عطف کرتی ہے [ اتبعوا ] فعل ماضی معروف جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین ” ھم “ موجود ہے۔ [ ما ] موصولہ ہے جو یہاں فعل ” اتبعوا “ کا مفعول ہے ‘ یا یوں کہیے کہ یہاں (اسم موصول) ہے یہ مفعول شروع ہوتا ہے جسے محلاً منصوب کہا جائے گا۔ [ تتلو ] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جو فاعل [ الشَیاطینُ ] کے جمع مکسر آنے کی وجہ سے آیا ہے اور بیان قصہ کی بناء پر یہاں یہ بمعنی ” تَلَتْ “ (صیغہ ماضی مؤنث غائب) کے لے آیا ہے۔ [ علٰی مُلکِ سلیمٰن ] علٰی حرف الجر یہاں بمعنی ” فِی “ آیا ہے اور ” مُلْکِ سُلَیْمٰن “ مضاف (مُلک) اور مضاف الیہ (سُلیمان) مل کر مجرور ہیں اور اس سے پہلے لفظ ” زَمَن “ محذوف ہے جو ” فِی “ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ” مُلْک “ تو یہاں مجرور بالجر ہے (علٰی کی وجہ سے) اور آگے مضاف ہونے کے باعث خففی بھی ہے اور اس میں علامت جر آخری ” ک “ کی کسرہ (-ِ ) رہ گئی ہے ” سلیمان “ غیر منصرف ہے ‘ اس لیے اس میں جر (جو بالاضافہ ہے) کی علامت ” ن “ کی فتحہ ہے۔ سلیمان کا غیر منصرف ہونا عجمیت اور علمیت کی بنا پر ہے یعنی وہ ایک غیر عربی نام ہے۔ B وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ [ وَ ] کو مستانفہ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس میں حالیہ (بمعنی حالانکہ) ہونے کی گنجائش بھی ہے۔ [ ما کفَر ] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب منفی ہے اور یہ نفی ” ما “ نافیہ کے ذریعے واقع ہوئی ہے۔ [ سلیمان ] اس منفی فعل (ما کفر) کا فاعل لہٰذا مرفوع ہے۔ [ و لٰکِنَّ ] واو العطف ہے اور ” لٰکِنَّ “ حرف مشبہ بالفعل ہے جس کا اسم منصوب [ الشَّیاطِینَ ] ہے جو جمع سالم نہیں بلکہ جمع مکسر ہے اور [ کفَروا ] فعل ماضی معروف جملہ فعلیہ بن کر ” لٰکِنَّ “ کی خبر لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ [ یُعَلِّمُونَ ] فعل مضارع معروف ہے ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے جس کی علامت صیغہ فعل کی واو الجمع (-ُ وْ ) ہے۔ [ النَّاسَ ] اس فعل (یُعَلِّمُونَ ) کا پہلا مفعول (لہٰذا منصوب) ہے۔ علامت نصب ” سَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے۔ [ السِحرَ ] اس فعل کا دوسرا مفعول منصوب ہے جس کی علامت ” رَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے۔ اور یہ پورا جملہ فعلیہ (یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ ) سابقہ فعل ” کفَروا “ کی ضمیر الفاعلین کا حال بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی ” اُنہوں نے کفر کیا اس حالت میں کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے “ یا اس جملہ کو ” الشَّیاطینَ “ (اسم لٰکِنَّ ) کی خبر ثانی کہہ سکتے ہیں ” یعنی “ کفر بھی کیا اور تعلیم سحر کا کام بھی کیا۔ “ C وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْتَ [ وَ ] برائے عطف ہے اور [ مَا ] موصولہ ہے جو واو عافہ کے ذریعے ” السحر “ پر معطوف ہے یعنی ” ” جادو “ بھی سکھاتے تھے اور وہ بھی جو …“ گویا یہ ” مَا “ (اپنے ما بعد صلہ سمیت) فعل ” یُعَلِّمُونَ “ کا ہی ایک اور مفعول ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے سابقہ جملے کے ” مَا تَتْلُو “ پر عطف سمجھا جائے۔ اس صورت میں یہ فعل ” وَ اتَّبَعُوا “ (اوپر جملہ نمبر 1 والا) کا مفعول ثانی بن سکتا ہے۔ یعنی وہ پیچھے لگ گئے اس کے جو شیاطین پڑھتے تھے اور اس کے بھی جو … (بابل میں اتارا گیا۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے) ۔ اردو مترجمین نے دونوں طرح ترجمہ کیا ہے یعنی مندرجہ بالا پہلی ترکیب کے مطابق بھی اور دوسری ترکیب کے مطابق بھی۔ بلکہ زیادہ تر نے دوسری ترکیب کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ [ اُنْزِلَ ] فعل ماضی مجہول واحد مذکر غائب ہے جس میں نائب الفاعل ضمیر ” ھُوَ “ مندرجہ بالا ” مَا “ موصولہ کے لیے ہے۔ [ علَی المَلَکَیْنِ ] میں علامت جر آخری نون سے ما قبل والی ” یائ “ ما قبل مفتوح (-َ یْ ہے جو تثنیہ میں استعمال ہوتی ہے۔ [ بِبَابِلَ ] حرف الجر (بِ ) اور مجرور (بابلَ ) کو بھی ” اُنْزِلَ “ سے متعلق سمجھا جاسکتا ہے اور معناً اسے ” المَلَکَین “ کا حال بھی کہہ سکتے ہیں۔ لفظ ” بابل “ بھی عجمی علم ہونے کے باعث غیر منصرف ہے اس لیے اس میں علامت جر آخری ” لَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے [ ھَارُوتَ و مَارُوتَ ] دونوں بذریعہ واو العطف مل کر ” المَلَکین “ کا بدل ہے لہٰذا مجرور ہیں۔ یہ بھی عجمی نام ہیں اس لیے غیر منصرف ہیں اور علامت جر ان میں آخری ” ت “ کی فتحہ (-َ ) ہے۔ ۔ بعض نحویوں نے … اور ہمارے زمانے کے بعض مفسرین نے بھی اس جملے کے ابتدائی ” مَا “ کو موصولہ کی بجائے ” نافیہ “ قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ” مَا اُنْزِلَ “ کا ترجمہ ہوگا ” اور وہ نہیں اتارا گیا تھا “ (بابل میں دو فرشتوں پر) گویا یہ ہاروت ماروت کا قصہ ایک یہودی افسانہ ہے جس کی قرآن نے تردید کردی … اس جملے کی حد تک تو یہ نحوی توجیہ قابل قبول ہوسکتی ہے مگر اس کے بعد آنے والے جملوں میں یہ عبارت کسی طرح فٹ نہیں آتی۔ اسی لیے اہل علم کی اکثریت نے یہاں ” مَا “ کو موصولہ ہی قرار دیا ہے۔ D وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ [ وَ ] یہاں استیناف کے لیے ہے یعنی ایک الگ بات یا قصے کا دوسرا پہلو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ [ مَا ] نافیہ ہے اور اس کی تائید آگے ” حتٰی “ کے استعمال سے ہوتی ہے۔ [ یُعَلِّمَانِ ] (اس کے قرآنی رسم پر آگے بات ہوگی) فعل مضارع معروف صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین ” ھُمَا “ ” المَلَکَین “ کے لیے ہے۔ [ مِنْ اَحَدٍ ] یہ در اصل تو ” اَحَدًا “ تھا جو فعل ” یُعَلِّمَان “ کا ایک مفعول تھا (دوسرا مفعول یہاں محذوف ہے) پھر اس نکرہ ” احدًا “ (کسی ایک کو) پر عموم نکرہ کی قطعیت کے لیے ” مِن “ آیا ہے۔ اب یہ جار مجرور مل کر مفعول ہیں اور محلاً نصب میں ہیں اور اسی لیے ترجمہ ” کسی ایک کو بھی “ ہوگا۔ [ حَتّٰی ] یہاں ” اِلٰی اَنْ “ (یہاں تک کہ) کے معنی میں ہے اور اسی لیے بعض نے یہاں ” حَتّٰی “ بمعنی ” اِلاَّ اَنْ “ ہی لیا ہے (مثلاً العکبری نے) جب کہ بعض نے اسے غلط قرار دیا ہے (مثلاً الدرویش نے) بلکہ اسے حرفِ غایب (یہاں تک کہ ‘ جب تک کہ ‘ اس وقت تک جب کہ) ہی سمجھا ہے۔ ویسے اس بحث سے عبارت کے اصل مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ [ یَقُولَا ] فعل مضارع منصوب بوجہ ” حتّٰی “ ہے۔ علامت نصب آخری ” ن “ (یقولان کا) گرنا ہے اور اس صیغہ تثنیہ کی ضمیر فاعل ” ھما “ بھی ” الملَکَین “ ہی کے لیے ہے۔ [ اِنَّما ] کی ” مَا “ کافہ اور ” اِنَّ “ مکفوفہ ہے یعنی ” مَا “ نے ” اِنَّ “ کا عمل روک دیا ہے اور اس میں حصر کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ [ نَحْنُ ] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [ فِتنۃٌ] اس کی خبر ہے جو نکرہ بھی ہے اور مرفوع بھی۔ [ فَلَا تَکْفُرْ ] فاء (فَ ) یہاں فصیحہ ہے جو بغیر شرط کے جوابِ شرط کا مفہوم دیتی ہے۔ اردو ترجمہ اس کا بہرحال ” سو “ یا ” پس “ ہی ہوگا۔ ” لَا تَکْفُرْ “ فعل نہی صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور یہ پورا جملہ (اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ ) اوپر والے فعل ” یَقُولَا “ کا مقول (مفعول) ہو کر ایک طرح سے محل نصب میں ہے اور یہاں ” اسے سیکھ کر “ کے معنی کا ایک فعل محذوف ہے جو عبارت سے سمجھا جاتا ہے۔ ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہٖ [ فائ۔] کو یہاں مستانفہ سمجھنا زیادہ موزوں ہے۔ [ یَتَعَلَّمُونَ ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے۔ [ مِنْھُمَا ] جار مجرور مل کر متعلق فعل [ یَتَعَلَّمُونَ ] ہیں۔ [ مَا ] موصولہ ہے ‘ فعل (یَتَعَلَّمُونَ ) کا مفعول لہٰذا محلاً منصوب ہے بلکہ در اصل تو ” مَا “ کے بعد آنے والا صلہ بھی ساتھ مل کر مفعول بنے گا۔ [ یُفَرِّقُونَ ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے اور [ بِہٖ ] جار مجرور مل کر اس فعل (یُفَرِّقُونَ ) سے متعلق ہیں۔ [ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہف ] میں ” بَیْنَ “ تو ظرفِ منصوب ہے (جو ہمیشہ مضاف ہو کر ہی آتا ہے) اس کے بعد ” المَرْئِ “ اس ظرف کا مضاف الیہ مجرور ہے ‘ علامت جر آخری ” ئ “ کی کسرہ (-ِ ) ہے کیونکہ یہ معرف باللام بھی ہے۔ اس کے بعد ” وَ “ کے زریعے بعد والے لفظ (زَوْجِہٖ ) کو اس (المَرئ) پر عطف کیا گیا ہے۔ ” زَوجہٖ “ جو خود مرکب اضافی ہے ‘ کا پہلا جزء ” زَوْج “ یہاں مجرور پر عطف کی بناء پر مجرور ہے اور آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے۔ در اصل یہاں ” زَوْجِہٖ “ سے پہلے بھی ایک ” بَیْنَ “ محذوف ہے یعنی ” بَیْنَ المَرْئِ وَ بَیْنَ زَوْجِہٖ “ ہونا چاہیے تھا مگر جب وہ اسم ظاہر ” بَیْنَ “ کے مضاف الیہ ہوں تو ” بَیْنَ “ کی تکرار نہیں کی جاتی۔ اور یہ پورا جملہ (یُفَرِقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ ) ” مَا “ موصولہ کا صلہ ہے اور پھر یہ سارا صلہ موصول مل کر فعل ” یَتَعَلَّمُونَ “ کا مفعول بنتا ہے۔ F وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ [ وَ ] کو یہاں حالیہ ہی سمجھا جاسکتا ہے بمعنی ” حالانکہ “ [ مَا ] نافیہ حجازیہ ہے (جس کی خبر پر باء الجر آتی ہے) ۔ [ ھُمْ ] اس (مَا) کا اسم مرفوع ہے اور [ بِضَارِّینَ ] میں باء الجر زائدہ ہے (ان معنی میں کہ اس کے بغیر بھی ” ضَارِّینَ “ خبر منصوب ہوسکتی تھی مگر اس ” بِ “ سے معنی میں ایک زور پیدا ہوتا ہے لہٰذا یہ محض بیکار نہیں ہے) اور یہ ” بِضَارِّینَ “ جار مجرور مل کر ” مَا “ کی خبر ہے جو محلاً نصب میں ہی ہے۔ [ بِہٖ ] جار مجرور مل کر متعلق خبر (ضَارِّینَ ) ہیں۔ [ مِنْ اَحَدٍ ] میں بھی در اصل تو ” اَحَدًا “ اسم الفاعل ” ضَارِّینَ “ کا مفعول ہو کر نصب میں تھا مگر اس پر ” مِنْ “ لگا کر اس کے عموم جنکرہ میں قطعیت پیدا کی گئی ہے یعنی کسی ” ایک ایک کو بھی “ یوں یہ ” مِنْ اَحَدٍ “ مفعول ہو کر (لفظاً مجرور مگر) محلاً منصوب ہے کیونکہ اسم الفاعل (جیسا کہ ” ضَارِّینَ “ ہے) بھی فعل کا سا عمل کرتا ہے۔ [ اِلاَّ ] حرف استثناء ہے جو نفی کے بعد آنے سے ” اداۃِ حصر “ بن گیا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ” مگر صرف “ ہوگا۔ [ بِاِذْنِ اللّٰہِ ] باء الجر کے بعد مضاف ” اِذْن “ اور مضاف الیہ ” اللّٰہِ “ بلحاظِ معنی ” ضَارِّینَ “ (فاعل) یا ” مِنْ اَحَدٍ “ (مفعول) دونوں کا حال سمجھا گیا ہے یعنی یہ نقصان اور ضرر پہنچانا “ یا ” پہنچنا “ اسی حالت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ کا اذن و حکم ساتھ شامل ہو یعنی مقدر عبارت ” اِلاَّ مَقْرُونًا بِاِذْنِ اللّٰہِ “ بنتی ہے۔ G وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ [ وَ ] عاطفہ ہے۔ [ یَتَعَلَّمُونَ ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے اور یہ سابقہ ” یَتَعَلَّمُونَ “ پر ہی عطف ہے۔ [ مَا ] موصولہ ” یَتَعَلَّمُونَ “ کا مفعول بہ محلاً منصوب ہے۔ [ یَضُرُّھُمْ ] میں ” یَضُرُّ “ فعل مضارع معروف صیغہ واحد غائب مذکر ہے جس کی ضمیر فاعل ” ھُوَ “ مَا موصولہ کے لیے ہے اور ” ھُمْ “ ضمیر منصوب فعل ” یَضُرُّ “ کا مفعول بہ ہے اور یہ جملہ ” یَضُرُّھُمْ “ ” مَا “ کا صلہ ہے۔ اس کے بعد پھر [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ لَا یَنْفَعُعُمْ ] میں ” لَا یَنْفَعُ “ تو فعل مضارع معروف منفی بلا مع ضمیر الفاعل ” ھُوَ “ ہے اور اس کے آخر پر بھی ” ھم “ ضمیر منصوب مفعول بہ ہے اور یہ جملہ (لَا یَنْفَعُعُمْ ) بھی بذریعہ واو العطف ” مَا “ کا صلہ ہی بنتا ہے اور یہ صل موصول (ما یضرُّھم وَ لا ینفعُھم) مل کر فعل ” یتعلَّمُون “ کا مفعول بہ لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ H وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍط [ وَ ] یہاں مستانفہ ہی ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس عبارت کے شروع اور آخر میں وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے۔ [ لَقَدْ ] لامِ تاکید اور حرفِ تحقیق ” قَدْ “ کا مجموعہ ہے۔ [ عَلِمُوا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے اور [ لَمَن ] کی ابتدائی لام مفتوحہ لام الابتداء ہے (جو مبتدا پر آتی ہے اور تاکید کے معنی پیدا کرتی ہے) اور ” مَنْ “ یہاں اسم الموصول مبتدأ ہے اور یہ شرطیہ بھی ہے۔ [ اشترٰہ ] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب (اشترٰی) کے ساتھ ضمیر منصوب (ہُ ) مفعول بہ ہے۔ [ مَا ] نافیہ حجازیہ ہے۔ [ لَہ ] جار (ل) اور مجرور (ہ) مل کر اس ” مَا “ کی خبر (قائم مقام خبر) کا کام دے رہا ہے جو اس کے اسم سے مقدم آئی ہے۔ [ فِی الاخرۃِ ] جار (ف) اور مجرور (الاخرہ) مل کر متعلق خبر یا بلحاظ معنی حال کا قائم مقام سمجھا جاسکتا ہے (یعنی ا حالت میں کہ وہ آخرت میں ہوگا کے مفہوم کی صورت میں) ۔ [ مِنْ خَلَاقٍ ] ” مِنْ “ جارہ زائدہ ہے اور ” خَلَاق “ نکرہ مجرور ” بِمَنْ “ ہے جس سے ” خَلَاقٍ “ (کچھ حصہ) کے عموم نکرہ میں مزید قطعیت آتی ہے۔ یعنی کچھ حصے میں سے بھی نہیں ہوگا۔ یہاں در اصل لفظ ” خَلَاقٌ“ مرفوع تھا کیونکہ وہ ” مَا “ کا اسم یا مبتدأ مؤخر تھا (جب خبر جار مجرور یا ظرفِ مضاف کی صورت میں مقدم آئے۔ جیسے یہاں ” لَہٗ “ ہے تو مبتدأ مٔخر نکرہ ہو کر آتا ہے) ۔ یہاں اگر جملہ منفی نہ ہوتا تو بنیادی عبارت ہوتی ” لہ خلاقٌ“ (اس کے لیے کچھ حصہ ہے) جیسے کہیں ” لہ ابنٌ“ اس کا ایک بیٹا ہے ‘ پھر شروع میں ” ما “ لگنے سے جملہ منفی ہوا۔ یعنی ” ما لہ خلاقٌ“ بنا (اس کا کوئی حصہ نہیں ہے) پھر اس میں مبتدأ مؤخر سے پہلے ” فی الآخرۃِ “ کا اضافہ ہوا۔ یہ بعد میں بھی آسکتا تھا مگر اس تقدیم سے اس میں زور پیدا ہوا ہے یعنی ” آخرت میں ہی “ تو اس کا کچھ حصہ نہ ہوگا اور ” خَلاق “ کو مزید قطعی نکرہ بنانے کے لیے ” مِن “ لگا۔ یوں اس (مِن خَلاقٍ ) کا ترجمہ ہوا ” کچھ بھی حصہ “۔ اس طرح یہ ” مِنْ خَلَاقٍ “ ” مَا “ کا اسم ہونے کی بناء پر محلاً مرفوع ہے اور یہ جملہ (لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ) اس لحاظ سے محلاً مرفوع ہے کہ یہ در اصل ابتدائی فعل ” عَلِمُوا “ کے دونوں مفعولوں کا قائم مقام ہے۔ (فعل ” عَلِمَ “ کے بعض دفعہ دو مفعول بھی آتے ہیں۔ دیکھیے الممتحنہ : 10 میں ہے ” اِنْ عَلِمْتُموُھُنَّ مُؤْمِنَاتٍ “ ) یعنی ” انہوں نے جان لیا اس کے خریدار کو محرومِ آخرت “ کے مفہوم کے ساتھ یہ عبارت فعل ” عَلِمُوا “ کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ I وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ [ وَ ] عاطفہ ہے اور [ لَبِئْسَ ] کی ابتدائی لام مفتوحہ تاکید کے لیے آتی ہے اور ” بِئْسَ “ فعل ذم ہے جو جامد فعل ہے۔ [ مَا ] کو موصولہ سمجھیں تو یہ ” بِئْسَ “ کا فاعل مرفوع ہے یا اسے نکرہ تامہ (بمعنی شَیْئًا ) لیں تو اے فعل ذم کی تمیز منصوب بھی سمجھ سکتے ہیں (نحوی افعال مدح و ذم کی دونوں طرح ترکیب کرتے ہیں۔ دیکھیے البقرہ : 9 [ 2: 55: 2] میں ” بِئْسَمَا “ کے اعراب کی بحث) اور یہ فعل اور فاعل (لَبِئْسَ مَا) مل کر آگے آنے والے مبتدأ (مخصوص بالذم) کی خبر مقدم بنتی ہے۔ [ شَرَوْا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ ہے۔ [ بِہٖ ] جار مجرور متعلق فعل ” شَرَوْا “ اور [ اَنْفُسَھُمْ ] مضاف (اَنْفُس) اور مضاف الیہ (ھُم) مل کر فعل ” شَرَوْا “ کا مفعول بہ ہے۔ ای لیے ” اَنْفُسَ “ نصب میں ہے جس کی علامت ” مَن “ کی فتحہ (-َ ) ہے اس طرح یہ جملہ (شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ ) مخصوص بالذم ہو کر مبتدأ ہے جس کی خبر مقدم جملہ فعلیہ ” بِئْسَ مَا “ ہے۔ J لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ [ لَوْ ] شرطیہ (بمعنی اگر) بھی ہوسکتا ہے اور حرفِ تمنی (بمعنی کاش کہ) بھی۔ دونوں صورتوں میں یہ کوئی عمل نہیں کرتا یعنی شرطیہ ہوتے ہوئے بھی جزم نہیں دیتا۔ [ کَانُوا ] فعل ناقص صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں اسم کَانَ ” ھُمْ “ شامل ہے۔ [ یَعْلَمُونَ ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھُمْ “ جملہ فعلیہ بن کر ” کَانُوا “ کی خبر ہے۔ گویا ” لَو کَانُوا عَالِمِین “ کے مفہوم میں ہے۔ ” لَوْ “ کو ” تمنّی “ کے لیے سمجھیں تو یہ جملہ مکمل ہے۔ اگر ” لَوْ “ کو شرطیہ سمجھا جائے تو جوابِ شرط محذوف ہے مثلاً ” لَمَّا فَعَلُوہُ “ (تو وہ ایسا نہ کرتے) K وَلَوْ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ [ وَ ] یہاں استیناف کی ہے اور [ لَوْ ] یہاں شرطیہ ہی ہے جسے بعض نحوی ” حرفُ امتناعٍ لِامتناعٍ “ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی ایسی شرط کا بیان ہوتا ہے جس کا وجود نہیں (یعنی پائی نہ گئی) اس لیے اس کا جواب بھی ممتنع (نا قابل حصول) ہے۔ یعنی چونکہ شرط ممتنع (غیر موجود ہے) تو جوابِ شرط بھی ممتنع (غیر ممکن) ہوتا ہے۔ [ اَنَّھُم ] یہ حرفِ مشبہ بالفعل (اَنَّ ) اور اس کا اسم (ضمیر منصوب ” ھُمْ “ ) ہے مگر چونکہ ” لَوْ “ شرطیہ جملہ اسمیہ پر داخل نہیں ہوتا اس کے بعد کوئی فعل ہی آنا چاہیے اس لیے نحوی اس ” اَنَّھُمْ “ کو ایک محذوف فعل ( ثَبَتَ = ثابت ہوجانا) کے ہم معنی سمجھتے ہیں اور پھر اس (اَنَّھُمْ ) کے بعد بصورت خبر آنے والے فعل کو مصدر مؤول (بطورِ مصدر) اس محذوف فعل (ثَبَتَ ) کا فاعل سمجھتے ہیں مثلاً یہاں اس ” اَنَّھُمْ “ کی خبر ماضی کے دو صیغہ فعل [ اَمَنُوا وَ اتَّقَوْا ] آئے ہیں اب یا تو یہ سیدھا شرطیہ جملہ ” لَوْ اٰمَنُوا وَاتَّقَوْا “ ہوتا تو ٹھیک تھا کہ ” لَوْ “ کے بعد فعل ہی آتا ہے لیکن اب ” لَوْ “ کے بعد ” اَنَّھُمْ “ آنے کی وجہ سے (جو جملہ اسمیہ کی ابتداء ہے) ان دونوں صیغہ ہائے فعل کے مصدر مؤوّل اس محذوف فعل کے فاعل مرفوع سمجھے جائیں گے۔ گویا یہ عبارت اب در اصل ” لَوْ ثَبَتَ اِیمَانُھم و تَقوٰھُم “ سمجھی جائے گی یعنی اگر ان کا ” ایمان اور تقویٰ ثابت ہوتا “ یہ الجھن صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ ” لَوْ “ کے بعد جملہ فعلیہ ہی آتا ہے اگر جملہ اسمیہ آجائے تو نحوی حضرات اسے کھینچ تان کر (ایک محذوف فعل کے ذریعے ہی سہی) جملہ فعلیہ بنا لیتے ہیں۔ اردو میں اس ” اَنَّھُمْ “ کے ” اَنَّ “ (کہ بےشک) کا ترجمہ نہ کرنے کی یہی وجہ ہے۔ کیونکہ ” لَوْ “ (اگر) کے ساتھ (بےشک) لگنے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ اسی لیے نحوی اس ” اَنّ “ کو فعل ” ثَبَتَ “ کے معنی میں لیتے ہیں کہ ” ثابت “ اور ” بیشک “ ایک طرح سے ہم معنی ہیں۔ [ لَمَثُوبَۃٌ] کے شروع میں لام الابتداء ہے جو بعض دفعہ بغرض تاکید مبتدأ پر بھی لگتی ہے اور یہ جوابِ شرط (لَوْ ) میں آنے والی لام مفتوحہ بھی ہوسکتی ہے۔ ویسے عموماً جواب لَوْ میں آنے والے لام مفتوحہ کے بعد بھی جملہ فعلیہ ہی آتا ہے۔ اس لیے اسے لام الابتداء سمجھنا زیادہ بہتر ہے۔ ” مَثُوبۃٌ“ یہاں مبتدأ مرفوع ہے اور اس کے نکرہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر صفت موصوف (مرکب توصیفی) نکرہ آئے تو اس میں مبتدأ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے (جیسے لَعَبْدٌ مُؤمِنٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکٍ ) (البقرہ : 221 میں ہے) یہاں بھی [ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ] پورا مرکب جاری (مِنْ جارہ + عند ظرف مضاف + اللّٰہ مضاف الیہ) مل کر ” مَثُوبۃ “ نکرہ موصوفہ کی صفت کا کام دے رہا ہے ‘ یعنی ” وہ ثواب جو اللہ کے ہاں سے ملتا تو وہ “ کا مفہوم رکھتا ہے۔ [ خَیْر ] اس (مَثُوبَۃ) کی خبر مرفوع ہے۔ L لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ یہی جملہ اوپر نمبر 10 میں گزرا ہے۔ 2: 62: 3 الرسم زیر مطالعہ آیات میں بلحاظ رسم قرآنی کل گیارہ کلمات قابل توجہ ہیں۔ ان میں سے چار کلمات کا رسم مختلف فیہ ہے اور سات کا متفق علیہ۔ یہ گیارہ کلمات حسب ذیل ہیں : تتلوا ‘ الشیٰطین ‘ سلیمٰن ‘ لٰکن ‘ ھاروت ‘ ماروت ‘ یعلَمٰن ‘ اشترٰہ ‘ الاخرۃ ‘ خَلَاق اور لَبِئس مَا ۔ تفصیل یوں ہے : A ” تَتْلُوا “ : اس صیغہ فعل کی عام املاء ” تَتْلُو “ (واو کے بعد الف کے بغیر) ہے تاہم مصاحف میں اس کے آخر پر ایک زائد الف لکھا جاتا ہے (تَتْلُوا) اصل مصاحف عثمانی کے رسم میں متعدد کلمات میں الف زائدہ لکھا گیا تھا جن کا ذکر کتب الرسم میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض ” زیادات “ کو کسی قاعدے (عموم) کے تحت بھی بیان کیا گیا ہے۔ 1؎ (یا یوں کہیے کہ مصاحف عثمانی کے رسم سے یہ قاعدے اخذ کیے گئے) تاہم زیادہ تر ” الف “ کی یہ زیادتی کسی قاعدہ قانون کے تحت نہیں بلکہ ” نقل صحیح “ کی بناء پر اس کی پابندی کی جاتی ہے۔ مثلاً رسم عثمانی میں ہر واو متطرفہ (آخر پر آنے والی واو) کے آخر پر عموماً ایک زائد الف لکھا گیا تھا چاہے وہ کوئی اسم مضاف ہو یا صیغہ فعل۔ مثلاً اولوا ‘ بنوا ‘ مرسلوا یا آمنوا ‘ لا تفسدوا وغیرہ۔ بعد میں جب عربی املاء کو نحویوں نے ترقی دی اور اس کے قواعد بنائے تو اس قسم کا زائد الف صرف واو الجمع والے صیغہ فعل کے لیے ضروری قرار دیا گیا باقی کلمات میں جہاں واو متطرفہ آئے وہاں اس کا لکھنا غلط قرار دیا گیا ‘ تاہم قرآن کریم کی املاء نحوی قواعد املاء کے تحت نہیں بلکہ نقل اور روایت کے تحت اختیار کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی املاء میں یہ واو الجمع (فعل) کے بعد الف زائدہ کا قاعدہ چلتا ہے۔ مثلاً اسی قطعہ میں سات افعال (اتبعوا ‘ کفروا ‘ شروا ‘ کانوا ‘ آمنوا ‘ اتقوا اور علموا ) کے ساتھ آخر پر واو کے بعد الف زائدہ لکھا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس قاعدہ کے خلاف (یا اس سے مستثنیٰ ) چھ صیغہ افعال آئے ہیں۔ ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ اب یہ صیغہ فعل ” تَتْلُو “ تو واحد کا صیغہ ہے اور اس کی ” واو “ واو الجمع نہیں بلکہ اصل مادہ کی ” و “ ہے (تَلا یتلُو سے) ۔ لہٰذا عام رسم املائی میں اس کے بعد زائد الف لکھنا غلط ہے مگر رسم عثمانی کے مطابق یہاں زائد الف لکھنا بالاتفاق ضروری ہے۔ قرآن کریم میں صیغہ فعل ” یتلوا “ (واحد مذکر) سات جگہ ‘ ” تَتْلُوا “ (صیغہ واحد مؤنث غائب یا مذکر حاضر) 5 جگہ ‘ ” اَتْلُوا “ (واحد متکلم) دو جگہ اور ” نَتْلُوا “ (جمع متکلم) ایک جگہ آیا ہے۔ ان تمام مقامات پر آخر میں الف زائدہ لکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر ایسے صیغہ فعل کے ساتھ کوئی ضمیر منصوب (مفعول) آجائے تو پھر یہ الف نہیں لکھا جاتا۔ 1؎ مثلاً دیکھیے سمیر الطالبین للضباع ‘ ص 72 ۔ المقنع للدانی ‘ ص 42 ۔ العقیلہ ‘ ص 55 ۔ ببعد ‘ دلیل الحیران للمارعنی ‘ ص 224 ۔ و نشر المرجان للارکاتی ‘ 1: 61 تا 65 ۔ B ” الشّیٰطِین “ : اس کی عام املاء ” الشیَاطین “ (باثبات الف بعد الیائ) ہے مگر قرآن کریم میں بالاتفاق اسے یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ مفرد مرکب صورتوں میں 18 جگہ آیا ہے) بحذف الالف بعد الیاء (الشیٰطین) لکھا جاتا ہے تاہم یہ الف پڑھا جاتا ہے اس لیے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے اسی آیت میں یہ لفظ دو بار آیا ہے۔ C ” سلیمٰن “ : اس کی عام املاء ” سُلَیمان “ یعنی باثبات الف بعد المیم ہے مگر قرآن کریم میں اسے یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ کل 17 جگہ آیا ہے دو دفعہ تو اسی آیت میں ہے) بالاتفاق بحذف الالف بعد المیم (بصورت ” سلیمٰن “ ) ہی لکھا جاتا ہے۔ D ” لٰکِن “: مخففہ (لٰکِنْ ) ہو یا مشددہ (لٰکِنَّ ) قرآن کریم میں بلکہ عام عربی املاء میں بھی ہمیشہ ” بحذف الالف بعد اللام “ لکھا جاتا ہے (قیاس تو ” لاکِن “ چاہتا تھا) اور اس کا یہ رسم املائی بھی عربی املاء پر رسم قرآنی (عثمانی) کے اثرات کا مظہر ہے۔ ۔ ” ھَارُوت “ : یہ بھی ایک عجمی (غیر عربی) نام ہے۔ اس کے الف بعد الھاء کے حذف یا اثبات میں اختلاف ہے۔ ابو داؤد کی طرف منسوب قول حذف کے حق میں ہے جبکہ الدانی سے اثبات منقول ہے۔ چناچہ بیشتر عرب اور افریقی مصاحف میں اسے بحذف الف ” ھروت “ لکھا جاتا ہے مگر برصغیر ‘ ایران ‘ ترکی وغیر کے علاوہ لیبیا کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف ” ھَارُوت “ لکھا جاتا ہے۔ F ” مَارُوت “ : اس کی املاء میں بھی وہی مندرجہ بالا ( ھَارُوت والا) اختلاف ہے۔ یعنی ابو داؤد کے مطابق یہ ” مٰرُوت “ ہے۔ مگر الدانی کے مطابق اس کی املاء ” مَارُوت “ (باثباتِ الف) ہے۔ G ” یُعَلِّمٰنِ “ : یہ فعل مضارع کا صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے۔ عام رسم املائی میں اسے ” یعلِّمان “ (باثبات الف بعد المیم) لکھا جاتا ہے۔ تثنیہ کے صیغہ کے بارے میں رسم قرآنی کا قاعدہ یہ بیان کیا گیا ہے 1؎ کہ تثنیہ 1؎ دیکھیے ‘ سمیر الطالبین ‘ ص 37 ۔ المقنع ص 17 ۔ شرح العقیلہ ‘ ص 47 ۔ و لطائف البیان لزیتحارا : 33 و نشر المرجان 1: 31 ۔ کا الف (فعل میں ہو جیسے یہاں ہے یا کسی اسم مرفوع میں ہو جیسے ” رَجُلَانِ “ میں ہے) یہ جب لفظ کے اندر واقع ہو یعنی متطرف (آخر پر الگ) نہ ہو (جیسے قالا ] کانَتا یا مضاف مرفوع مثلاً ” رَسُولَا رَبِّکَ “ میں ہے) تو ابو داؤد کے قول کے مطابق یہ الف تثنیہ ہر جگہ لکھا جاتا ہے البتہ بعض مقامات پر محذوف کیا جاتا ہے۔ جب کہ الدانی کے مطابق تثنیہ کا یہ الف (اسماء و افعال دونوں میں) لکھنے میں محذوف ہوتا ہے البتہ سورة الرحمٰن کے ” تُکَذِّبَانِ “ دونوں طرح (بحذف اور باثبات) لکھے جاتے ہیں۔ چناچہ ایشیائی ممالک اور لیبیا کے مصاحف میں یہ لفظ بحذفِ الف ” یُعَلِّمٰنِ “ لکھا جاتا ہے ‘ جب کہ ابو داؤد کے قول پر عمل کرتے ہوئے بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف یعنی عام رسم املائی کی طرح ” یُعَلِّمَانِ “ لکھا جاتا ہے اور وجہ اس اختلاف کی یہ ہے کہ اصل مصاحف عثمانی میں یہ (تثنیہ والے الفاظ) کہیں حذف الف اور کہیں اثبات الف کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ H ” اِشْتَرٰیہُ “ : اس کا ابتدائی صیغہ فعل ” اِشْتَرٰی “ رسم املائی میں بھی آخر پر ” ی “ کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے جو پڑھی بصورت ” الف “ ہی جاتی ہے۔ جب اس صیغہ کے بعد کوئی ضمیر بطور مفعول آرہی ہو (جیسے یہاں ہے) تو عام رسم املائی میں اس ” ی “ کو بصورتِ الف ہی لکھ دیتے ہیں (یعنی یہاں بصورت ” اِشْتَرَاہُ “ ) تاہم قرآن کریم میں ایسی ” ی “ جو تعلیل صرفی کی بنا پر الف میں بدل کر بولی جاتی ہو عموماً اسے ہر جگہ بصورت ” یائ “ ہی لکھا جاتا ہے البتہ اس کے بعد مستثنیات ہیں جو حسب موقع بیان ہوں گے۔ تعلیل صرفی کے نتیجے میں الف میں بدلنے والی ” یائ “ کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے الف بصورت ” یائ “ ہی لکھے جاتے ہیں (مثلاً اِلٰی ‘ علٰی ‘ حتی یا یتامٰی ‘ نحوی وغیرہ) جن میں سے بہت سے کلمات عام عربی میں بھی رسم قرآنی ہی کی طرح لکھے جاتے ہیں یعنی الف کو بصورت ” ی “ لکھنے کے کچھ مقررہ قواعد مستنبط کیے گئے ہیں اور ہر قاعدہ کے کچھ مستثنیات ہیں 1؎ لہٰذا ہم ایسے الفاظ پر حسب موقع فرداً فرداً بات کرتے جائیں گے۔ بہرحال یہ لفظ ” اشترٰی “ (صیغہ واحد مذکر غائب) ضمیر مفعول برائے واحد مذکر (ہُ ) کے ساتھ قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ بالاتفاق الف بصورت یاء کے ساتھ (یعنی ” اشترٰی “ ) ہی لکھا جاتا ہے۔ 1؎ دیکھیے ‘ المقنع ص 63 ۔ ببعد ‘ سمیر الطالبین ‘ س 85 ۔ ببعد ‘ نثر المرجان 1: 69 ببعد۔ ۔ ” الاخِرَۃ “: اس لفظ کے رسم عثمانی پر جو رسم املائی کے مطابق ہی ہے (یا یوں کہیے کہ رسم املائی در اصل قرآنی پر ہی مبنی ہے) اس سے پہلے البقرہ؛ 4 [ 2: 3: 3] میں مفصل بات ہوئی تھی۔ ۔ ” خَلاق “: یہی اس کا رسم املائی بھی ہے۔ تاہم اس کے رسم عثمانی میں اختلاف ہے۔ ابو داؤد کے قول کے مطابق یہ ” بحذف الالف بعد اللام “ یعنی بصورت ” خلٰق “ لکھا جاتا ہے۔ الدانی نے اس کے حذفِ الف کا ذکر نہیں کیا جو اثبات کو مستلزم ہے۔ بلکہ الدانی نے ” فعّال “ کے وزن پر آنے والے کلمات میں الف کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ چناچہ یہ لفظ بھی بیشتر افریقی و عرب ممالک کے مصاحف میں بحذف الف (خلٰق) لکھا جاتا ہے۔ اور لیبیا کے علاوہ تمام ایشیائی ممالک میں یہ باثبات الف (خَلاق) لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں (مفرد یا مرکب شکل میں) کل چھ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ یہی اختلاف ہے۔ ۔ ” لَبِئْسَ مَا “: یہ دو لفظ یہاں بالاتفاق مقطوع لکھے جاتے ہیں یعنی ” لبئس “ کے ” س “ کو ” ما “ کے ساتھ ملا کر نہیں لکھا جاتا ہے (جیسا کہ چند مقررہ مقامات پر ” بئس “ اور ” ما “ کو موصول (ملا کر) لکھا جات ہے۔ مزید دیکھیے البقرہ : 9 [ 2: 55: 3] میں کلمہ ” بِئْسَمَا “ کی بحث الرسم۔ 2: 62: 4 الضبط زیر مطالعہ قطعہ میں ضبط کا کافی تنوع موجود ہے۔ تاہم اب ہم صرف ان کلمات کے ضبط کے نمونے دیں گے جن میں تنوع زیادہ ہے۔ اگر محض حرکات یا ہمزہ کی شکل کا فرق ہے (-َ ‘ -ِ ‘ -ُ یا -َ ‘ -ِ ‘ -ُ یائ ‘ ۔ ‘ ر یاہ وغیرہ) تو اسے دوبارہ نہیں لکھا جائے گا
Top