Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 147
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۠   ۧ
الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّکَ : آپ کا رب فَلَا تَكُونَنَّ : پس آپ نہ ہوجائیں مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
یہ قطعی ایک امر حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو
(اَلْحَقُّ : (یہ ہی) حق ہے ) ( مِنْ رَّبِّکَ : آپ ﷺ کے رب کی طرف سے) (فَلَا تَـکُوْنَنََّ : پس آپ ﷺ ہرگز نہ ہوں) (مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ : شک کرنے والوں میں سے) م ری مَریٰ (ض) مِرْیَۃً : شک کی وجہ سے جھگڑا کرنا۔ مِرْیَۃٌ ( اسم ذات ) : شک ‘ شبہ ۔ { فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ ق } (ھود :17) ” تو آپ ﷺ نہ ہوں کسی شبہ میں اس سے۔ “ مَارٰی (مفاعلہ) مِرَائً : ایک دوسرے سے جھگڑنا۔ { اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنُ فِی السَّاعَۃِ لَفِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ ۔ } (الشوریٰ ) ” بیشک جو لوگ جھگڑتے ہیں اس گھڑی میں (یعنی قیامت کے بارے میں ) وہ دور کی گمراہی میں ہیں۔ “ لَا تُمَارِ (فعل نہی) : تو مت جھگڑ۔ { فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ اِلاَّ مِرَائً ظَاھِرًاص } (الکہف :22) ” پس تو مت جھگڑ ان میں مگر ظاہری جھگڑنا (یعنی سرسری اختلاف ظاہر کردینا) “ تَمَارٰی (تفاعل) تَمَارًا : باہم کسی پر یا کسی چیز میں شک کرنا ‘ جھگڑا کرنا۔ { وَلَقَدْ اَنْذَرَھُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ۔ } (القمر) ” اور اس نے خبردار کیا ان کو ہماری پکڑ سے تو ان لوگوں نے جھگڑا کیا خبردار کرنے میں۔ “ اِمْتَرٰی (افتعال) اِمْتِرَائً : اہتمام سے جھگڑا کرنا ‘ شک کرنا۔ { اِنَّ ھٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ ۔ } (الدُّخان) ” بیشک یہ وہ ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے۔ “ مُمْتَرٍ (اسم الفاعل) : شک کرنے والا ‘ جھگڑا کرنے والا ( آیت زیر مطالعہ) ترکیب : ” اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ “ کی ترکیب میں میرا ذہن مولانا اصلاحی کی رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ ” اَلْحَقُّ “ خبر معرف باللام ہے۔ اس کا مبتدأ اور ضمیر فاعل دونوں محذوف ہیں۔ پورا جملہ اس طرح ہوتا : ” ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ “ جبکہ ” مِنْ رَّبِّکَ “ متعلق خبر ہے۔ ” لَا تَــکُوْنَنَّ “ واحد مذکر مخاطب کے صیغے میں ” یَکُوْنُ “ کا فعل نہی ہے ‘ نون ثقیلہ کے ساتھ۔ اس کا فاعل اس میں شامل ” اَنْتَ “ کی ضمیر ہے۔ ” مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ “ دراصل اس کا مفعول تھا لیکن اس پر ” مِنْ “ داخل ہونے کی وجہ سے اب متعلق فعل کہلائے گا۔
Top