Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی
[ وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ : اور جب ہم نے نجات دی تم لوگوں کو ] [ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون کے پیروکاروں سے ] [ يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ لوگ تکلیف دیتے تھے تم کو ] [ سُوْۗءَ الْعَذَابِ : برے عذاب کی ] [ يُذَبِّحُوْنَ : وہ لوگ ذبح کرتے تھے ] [ اَبْنَاۗءَكُمْ : تمہارے بیٹوں کو ] [ وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور وہ لوگ زندہ رکھتے تھے ] [ نِسَاۗءَكُمْ ۭ : تمہاری عورتوں کو ] [ وَفِىْ ذٰلِكُمْ : اور اس میں تھی ] [ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ : تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی آزمائش ] ن ج و [ نجاۃ اور نجاء : (ن) ] کسی کا کسی چیز سے الگ ہوجانا، اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) رہائی پانا، نجات پانا (2) سرگوشی کرنا (کیونکہ یہ کام دوسروں سے الگ ہوکر کیا جاتا ہے) قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ (انہوں نے یعنی شعیب نے کہا آپ مت ڈریں، آپ نے نجات پائی ظالم قوم سے) (25/28) ۔ سرگوشی کے معنی میں ثلاثی مجرد سے فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ ناج : اسم الفاعل ہے، نجات پانے والا۔ وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا (اور انہوں نے یعنی یوسف نے کہا اس سے جس کے لیے انہوں نے خیال کیا کہ وہ نجات پانے والا ہے ان دونوں میں سے) 42/12 نجی : اسم نسبت ہے، سرگوشی والا۔ (یعنی جس سے سرگوشی کی جائے) ۔ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا (اور ہم نے قریب کیا اس کو سرگوشی والا ہوتے ہوئے) 52/19 نجوۃ : اسم ذات ہے، رہائی، نجات۔ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَتَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَى النَّارِ (میں بلاتا ہوں تم لوگوں کو نجات کی طرف اور تم لوگ بلاتے ہو مجھ کو آگ کی طرف) 41/40 نجوی : اسم ذات ہے، سرگوشی، کاناپھوسی۔ اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ (کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے ان کی پوشیدہ بات کو اور ان کی سرگوشی کو) 78/9 انجاء (افعال) کسی کو رہائی دلانا، نجات دینا۔ اِذْ اَنْجٰىكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ (جب اس نے رہائی دلائی تم کو فرعون کے پیروکاروں سے) 6/14 تنجیۃ (تفعیل) کسی کو رہائی دلانا۔ نجات دینا۔ (اس میں تدریجا نجات دینے کا مفہوم ہوتا ہے) ۔ الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ (تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے نجات دی ہم کو ظالم قوم سے) 28/23 منج : اسم الفاعل ہے، نجات دینے والا۔ ۣاِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ (بیشک ہم نجات دینے والے ہیں آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو) 33/29 مناجاۃ (مفاعلہ) : کسی سے سرگوشی کرنا، راز داری سے مشورہ دینا۔ اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً ۭ (اور جب بھی تم لوگ سرگوشی کرو رسول سے تو پیش کرو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ کو یعنی پہلے صدقہ دو ) 12/58 تناجیا (تفاعل): باہم ایک دوسرے سے سرگوشی کرنا، باہم مشورہ کرنا۔ اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (جب بھی تم لوگ باہم مشورہ کرو تو مشورہ مت کرو گناہ اور زیادتی کے بارے میں) 9/58 ء و ل اولا اور ماٰلا (ن): لوٹنا کسی چیز کا اپنے اصل کی طرف واپس ہونا۔ اس مادہ سے کوئی فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ اٰل : صفت ہے، کسی کے ساتھ تعلق والا۔ پیروکار FOLLOWER ۔ یہ کسی اہل علم اور کسی صاحب شرف ہستی کی طرف مضاف ہوکر آتا ہے۔ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ (تو ہم نے نجات دی تم کو اور غرق کیا فرعون کے پیروکاروں کو) 50/2 اول : مونث اولی۔ یہ افعل تفضیل میں افعل کے وزن پر اول بنتا ہے، لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے ہمزہ کا واؤ میں ادغام کر کے اول استعمال ہوتا ہے۔ معنی ہیں پہلا۔ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ (اور میں ایمان لانے والوں کا پہلا ہوں) 143/7 ۔ اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى (بیشک یہ پہلے صحیفوں میں ہے) 18/87 اولوا : والے ، جمع ہے اور ہمیشہ مضاف بن کر آتا ہے۔ قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ (انہوں نے کہا ہم قوت والے ہیں) 33/27 تاویلا (تفعیل) : کسی چیز کو اس کے اصل کی طرف واپس کرنا، لوٹانا، اس باب سے بھی قرآن مجید میں فعل استعمال نہیں ہوا۔ تاویل : مصدر کے علاوہ اسم ذات بھی ہے ، کسی چیز یا بات کا آخری انجام، انجام کار، خواب کی تعبیر۔ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (یہ بہتر ہے اور اچھا ہے بلحاظ انجام کار کے) 59/4 ۔ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ (اور اس طرح ہم نے سکونت دی یوسف کو زمین میں تاکہ ہم سکھائیں ان کو خوابوں کی تعبیر) 21/12 ر ع ن (رباعی) (x ) یہ غیر عربی یعنی عجمی لفظ ہے جو عربی میں لیا گیا ہے۔ فراعنۃ ج فرعون : صفت ہے، سرکش، سرکشی کرنے والا۔ س و م سوما (ن): کسی کا کسی چیز کی طلب میں کہیں جانا ، اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) مویشی کا چراگاہ میں جانا (2) اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی کو تکلیف دینا (3) پہچان مقرر کرنا تاکہ جب چاہے جاسکے یا حاصل کرسکے۔ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ (اور جب سنا دیا تیرے رب نے کہ وہ لازما بھیجتا رہے گا ان پر قیامت کے دن تک اس کو جو تکلیف دے گا ان کو برے عذاب کی) 167/7 سیماء : اسم ذات ہے، علامت، نشان۔ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (تو پہچانے گا ان کو ان کی علامت سے ، وہ لوگ نہیں مانگتے لوگوں سے لپٹتے ہوئے) 273/2 ۔ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (ان کا نشان ہے ان کے چہروں میں سجدوں کے اثر سے) 29/48 اسامۃ (افعال) : مویشی کو چراگاہ میں لے جانا، چرانا۔ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ (اور اس سے درخت ہیں، اس میں تم لوگ مویشی چراتے ہو) 10/16 تسویما (تفعیل) : نشان لگانا، نشان زدہ کرنا۔ مسوم : اسم الفاعل ہے، نشان لگانے والا۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ (تو مدد کرے گا تمہاری تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے نشان لگانے والے ہوتے ہوئے) 125/3 مسوم : اسم المفعول ہے۔ نشان لگایا ہوا۔ لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِيْنٍ ۔ مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِيْنَ (تاکہ ہم بھیجیں ان پر کچھ پتھر گارے میں سے جو نشان لگے ہوئے ہیں تیرے رب کے پاس اسراف کرنے والوں کے لیے) 51 /34٫33 س و ء سوءا (ن) ناپسندیدہ ہونا، برا ہونا، بگڑ جانا، (لازم) برا لگنا، کسی چیز کو بگاڑ دینا۔ (متعدی) ۔ فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (پس جب وہ دیکھیں گے اس کو نزدیک تو بگاڑ دیئے جائیں گے ان لوگوں کے چہرے جنہوں نے کفر کیا) 27/67 ۔ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ (اگر پہنچتی ہے آپ کو کوئی بھلائی تو وہ بری لگتی ہے ان کو) 50/9 ۔ ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ (پس جب آیا آخری وعدہ تاکہ وہ بگاڑ دیں تمہارے چہروں کو) 7/17 اسوء : مونث سوای۔ افعل تفضیل ہے، زیادہ برا یا سب سے برا۔ لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ عَمِلُوْا (تاکہ اللہ دور کردے ان سے برے سے برے کام کو جو انہوں نے کیا) 35/39 ۔ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوا السُّوْۗآٰى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ (پھر تھا انجام ان لوگوں کا جنہوں نے برا کیا، ا نتہائی برا، کہ انہوں نے جھٹلایا اللہ کی نشانیوں کو) 10/30 سوء اور سوء : صفت ہے، برا، قبیح۔ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ (گمان کرنے والے اللہ کے بارے میں برا گمان) 6/48 ۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ (یہ لوگ ہیں جن کے لیے برا حساب ہے) 18/13 سیء : مونث سیئۃ، اسم ذات اور صفت دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ برائی، برا۔ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ (اور نہیں گھیرتا برا داؤ مگر اپنے اہل کو یعنی برائی کرنے والے کو) 43/35 ۔ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا (اور اگر تم لوگوں کو پہنچے کوئی برائی تو وہ لوگ خوش ہوتے ہیں اس سے) 120/3 ۔ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً (اور کوئی سفارش کرتا ہے کوئی بری سفارش) 85/4 [ سوءۃ : اسم ذات ہے، ناپسندیدہ چیز، اصطلاحا انسانی لاش اور ستر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ (کیسے وہ چھپائے اپنے بھائی کی لاش کو) 31/5 ۔ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا (ہم نے اتارا ہے تم لوگوں پر لباش کو، وہ چھپاتا ہے تمہارے ستر کے حصوں کو اور آرائش ہے) 26/7 [ اساءۃ (افعال) : خراب کرنا، برائی کرنا۔ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا (اگر تم لوگ بھلائی کرو گے تو تم لوگ بھلائی کرو گے اپنے آپ سے اور اگر تم لوگ برائی کرو گے تو اس کے لیے یعنی اپنے آپ سے) 7/17 ۔ اوپر آیت نمبر 10/30 بھی دیکھ لیں۔ ع ذ ب [ عذبا (ض) : پیاش کی شدت کی وجہ سے کچھ کھانے کے قابل نہ رہنا۔ [ عذبا (س) : پانی کا کائی دار ہونا۔ [ عذوبۃ (ک) : پانی کا میٹھا اور خوشگوار ہونا۔ (ثلاثی مجرد سے کوئی فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا) [ عذب : صف ہے ، خوشگوار پانی، میٹھا پانی۔ وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ (اور وہ ہے جس نے ملائے دو سمندر ، یہ خوشگوار شیریں ہے اور یہ نمکین تلخ ہے) 53/25 [ عذاب : اسم ذات ہے، ہر وہ چیز جو انسان کو تکلیف دے، مشقت میں ڈالے، عذاب۔ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (ان کے لیے ہے دنیا میں رسوائی اور ان کے لیے ہے آخرت میں عظیم عذاب) 114/2 [ تعذیبا (تفعیل) : کسی کو تکلیف دینا، عذاب دینا۔ وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ (اور کچھ دوسرے لوگ موقوف رکھے گئے اللہ کے فیصلے کے لیے، چاہے وہ عذاب دے ان کو اور یا وہ توبہ قبول کرے ان کی) 106/9 [ معذب : اسم الفاعل ہے، عذاب دینے والا۔ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (اور نہیں ہے اللہ ان کو عذاب دینے والا اس حال میں کہ وہ لوگ مغفرت طلب کرتے ہیں) 33/8 ذ ب ح [ ذبحا (ف) : کسی جاندار کا گلا کاٹنا، ذبح کرنا۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً (بیشک اللہ حکم دیتا ہے تم لوگوں کو کہ تم لوگ ذبح کرو ایک گائے) 67/2 [ ذبح : قربانی کیا ہوا جانور۔ ذبیحہ۔ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (اور ہم نے اس کو فدیہ میں دیا ایک عظیم ذبیحہ) 107/37 [ تذبیحا (تفعیل): کثرت سے ذبح کرنا۔ (آیت زیر مطالعہ) ب ل و [ بلاء (ن) : کسی کو آزمانا ، امتحان لینا ( یہ تکلیف اور آسودگی ، دونوں طرح کی آزمائش کے لیے استعمال ہوتا ہے) وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (اور ہم نے آزمایا ان کو بھلائیوں سے اور برائیوں سے شاید کہ وہ پلٹ آئیں) 168/7 [ بلاء : اسم ذات ہے، آزمائش، امتحان۔ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْبَلٰۗــــؤُا الْمُبِيْنُ (بیشک یہ تو یقینا کھلا امتحان ہے) 106/37 [ بلی : کلمہ ایجاب ہے، کیوں نہیں۔ عموما کسی سوال کے جواب میں آتا ہے۔ سوال مثبت ہو یا منفی، دونوں کے جواب میں اس کا مفہوم مثبت ہی رہتا ہے۔ مثلا اگر سوال ہو کیا زید کھڑا ہے ؟ جواب میں بَلٰی (کیوں نہیں) کا مطلب ہوگا کہ زید کھڑا ہے۔ اگر سوال ہو، کیا زید کھڑا نہیں ہے ؟ تب بھی بَلٰی (کیوں نہیں) کا مطلب ہوگا کہ زید کھڑا ہے۔ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۭ قَالَ بَلٰي (اس نے کہا یعنی اللہ تعالیٰ نے پوچھا تو کیا آپ کو ایمان نہیں ؟ انہوں نے یعنی حضرت ابراہیم نے کہا کیوں نہیں یعنی ایمان ہے) 260/2 [ ابتلاء (افتعال) : اہتمام سے آزمانا ، آزمائش میں ڈالنا۔ وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ (اور جب آزمایا ابراہیم کو ان کے رب نے کچھ فرمانوں سے تو انہوں نے پورا کیا ان کو) 124/2 [ مبتل : اسم الفاعل ہے، آزمانے والا۔ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ (اس نے یعنی طالوت نے کہا یقینا اللہ آزمانے والا ہے تم لوگوں کو ایک نہر سے) 249/2 ع ظ م [ عظومۃ : (ک) بڑا ہونا۔ [ اعظم : افعل التفضیل ہے، زیادہ بڑا۔ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا (اور جو تم لوگ آگے بھیجو گے اپنے لیے کسی بھلائی میں سے تو تم لوگ پاؤ گے اللہ کے پاس اس کو زیادہ اچھا اور زیادہ بڑا اجر کے لحاظ سے) 20/73 [ عظیم، فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ بڑا (ہمیشہ اور ہر حال میں) ۔ ۭوَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ (اور اللہ بڑے فضل والا ہے) 105/2 [ عظما (ن) : ہڈی پر مارنا۔ [ عظم ج عظام : اسم ذات ہے، ہڈی۔ قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ ( اس نے کہا اے میرے رب بیشک کمزور ہوئی ہڈی میری) 4/19 ۔ (کیا گمان کرتا ہے انسان کہ ہم جمع نہ کرسکیں گے اس کی ہڈیوں کو) 3/75 [ اعظاما (افعال) : بڑا کرنا، بڑا بنانا۔ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا (اور جو اللہ کا تقوی کرے گا تو وہ دور کردے گا اس سے اس کی برائیوں کو اور وہ بڑا کردے گا اس کے لیے اجر کو) 5/65 [ تعظیما (تفعیل): کسی کو بڑائی دینا، بڑائی تسلیم کرنا۔ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ (اور جس نے بڑائی تسلیم کی اللہ کے شعائر کی تو یقینا یہ دلوں کے تقوی سے ہے) 32/22 ترکیب : نَجَّيْنَا فعل، اس میں شامل نَحنُ کی ضمیر فاعل ہے۔ كُمْ اس کا مفعول اور مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ متعلق فعل ہے۔ يَسُوْمُوْنَ فعل اور اس میں شامل ھُم کی ضمیر فاعل ہے۔ جو کہ ال فرعون کے لیے ہے۔ كُمْ اس کا مفعول اول اور سُوْۗءَ الْعَذَابِ مفعول ثانی ہے۔ يُذَبِّحُوْنَ اور يَسْتَحْيُوْنَ کی ضمیر فاعل بھی ال فرعون کے لیے ہیں اور یہ دونوں جملے يَسُوْمُوْنَ کا بیان یعنی وضاحت ہیں۔ فِىْ ذٰلِكُمْ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ بَلَاۗءٌ عَظِيْمٌ مرکب توصیفی اور مبتداء موخر نکرہ ہے۔ مِّنْ رَّبِّكُمْ متعلق خبر ہے۔ نوٹ 1: لفظ اٰل کے معنی دیے جاچکے ہیں اب نوٹ کریں کہ کسی کی ازواج، اولاد اور نسل کے لیے عموما ذریت یا اہل بیت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ال النبی میں کون لوگ شامل ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس میں اہل بیت شامل ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ جس بھی شخص نے شعوری طور پر اسلام کو قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی جدوجہد کی وہ ال النبی میں شامل ہے ، خواہ وہ حضور ﷺ کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ اور جس شخص کا اسلام سے تعلق سراسر تقلیدی ہے وہ آپ کی امت میں شامل ہے ال میں نہیں ہے ۔ امام جعفر صادق کی بھی یہی رائے ہے ۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے بھی امام جعفر صادق کی رائے کی تصدیق ہوتی ہے ۔ حضرت ابراہیم ، آذر کی ذریت اور اہل بیت تھے ۔ حضرت نوح کا بیٹا ان کی ذریت اور اہل بیت تھا لیکن ال نہیں تھا۔ جب وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب رہا تھا تو نوح نے فریاد کی تھی کہ یا اللہ یہ میرے اہل میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے کیونکہ اس کا عمل صالح نہیں ہے (46/11) اسی طرح سے ال فرعون میں، اس کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار، ایسے تمام لوگ شامل ہیں جو اس کے پیروکار تھے۔ اس ضمن میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اہل بیت یا ال النبی ہونے میں جو فضیلت ہے وہ قیامت میں ملے گی اور نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمل کی بنیاد پر ملے گی۔ اسے اس دنیا میں CASH کرنے کی کوشش کرنا خسارے کا سودا ہے۔ البتہ درود شریف پڑھتے وقت وعلی الہ میں پوری امت کا تصور کرلینا بہتر ہے۔ یعنی ہماری دعا یہ ہو کہ یا اللہ تو اپنے حبیب ﷺ کی امت پر شفقت فرما اور تقلیدی تعلق والوں کو بھی شعوری پیروی کی نعمت سے نواز دے۔ نوٹ 2: مادہ س و ء سے ماضی کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ساء قرآن مجید میں متعدد جگہ استعمال ہوا ہے۔ لیکن زیادہ تر اس کا ترجمہ ماضی کے بجائے حال میں کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سمجھ لیں۔ ہم کہتے ہیں آدمی کھڑا ہے، یہ ایک خبر ہے، اس کا مطلب ہے کہ آدمی پہلے نہیں کھڑا تھا، اب کھڑا ہے اور بعد میں بھی کھڑا نہیں ہوگا۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ آدمی جلدباز ہے تو یہ محض خبر نہیں ہے بلکہ ایک آفاقی صداقت کا بیان بھی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ماضی میں بھی جلد باز تھا۔ حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ اب دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسا لفظ یا صیغہ نہیں ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہو۔ اس لیے آفاقی صداقت کو بیان کرنے کے مختلف زبانوں کے انداز مختلف ہیں۔ اردو میں اسے زیادہ تر زمانہ حال میں بیان کرتے ہیں، جبکہ عربی میں اس کے لیے زیادہ تر ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (11/17) اب اس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے کہ انسان جلد باز تھا۔ لیکن چونکہ یہ ایک آفاقی صداقت ہے جس کا مفہوم اردو میں زمانہ حال میں ادا ہوتا ہے، اس لیے اس کا صحیح ترجمہ ہوگا کہ انسان جلد باز ہے، اسی طرح سے وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا کا صحیح ترجمہ ہوگا کہ اللہ علیم حکیم ہے۔ (17/4) اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں سَاءَ کا لفظ آفاقی صداقت کے بیان میں آیا ہے، وہاں اس کا ترجمہ حال میں کرنا اردو محاورہ کی ضرورت ہے۔ جیسے یہ ایک آفاقی صداقت ہے کہ سوتیلی ماں سے نکاح کرنا بہت بری بات ہے۔ چناچہ اس کے لیے فرمایا کہ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِيْلًا (یقینا یہ بےحیائی ہے اور غضب کو دعوت دینا ہے اور برا ہے بلحاظ راستہ کے یعنی طرز عمل کے لحاظ سے) 22/4 نوٹ 3: مرکبات ناقصہ کا استعمال مختلف زبانوں میں مختلف ہے۔ مثلا ہم کہتے ہیں دنیا کی زندگی (مرکب اضافی) جبکہ دنیوی زندگی (مرکب توصیفی) کا اردو میں استعمال نہ ہونے جیسا ہے۔ اس کے برعکس عربی میں الحیاۃ الدنیا (مرکب توصیفی) استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ حیاۃ الدنیا (مرکب اضافی) قرآن مجید میں تو استعمال نہیں ہوا۔ اس لیے مرکبات ناقصہ کا ترجمہ کرتے وقت متعلق زبان کے محاورہ کا لحاظ کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الحیاۃ الدنیا (مرکب توصیفی) کا ترجمہ دنیا کی زندگی (مرکب اضافی) کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے آیت زیر مطالعہ سوء العذاب مرکب اضافی ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے عذاب کا برا ہے۔ لیکن اردو میں اس کا رواج نہیں ہے ۔ اس لیے صحیح مفہوم واضح کرنے کے لیے اردو محاورہ کے مطابق اس کا ترجمہ برا عذاب (مرکب توصیفی) کیا جاتا ہے۔ آگے بھی اس قسم کی مثالیں آئیں گی۔ نوٹ 4: یہاں سے مسلسل کئی رکوع تک بنو اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی ناشکری کے حوالے سے متعدد تاریخی واقعات کا ذکر آئے گا۔ اس لیے یہ بات ذہن میں ایک مرتبہ پھر تازہ کرلیں کہ ان واقعات میں ترتیب زمانی نہیں ہے۔
Top