Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، اُن کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں
[ اِنَّ : یقینا ] [ الَّـذِیْنَ کَفَرُوْا : جن لوگوں نے انکار کیا ] [ سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ : برابر ہے ان پر ] [ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ : خواہ آپ خبردار کریں ان کو ] [ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ : یا آپ ﷺ خبردار کریں نہ کریں ان کو ] [ لَا یُؤْمِنُوْنَ : وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ] کر کفر یکفر (ن) کفرا : کسی چیز کو دبا دینا ‘ چھپا دینا۔ پھر اس بنیادی مفہوم کے ساتھ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کفورًا : ناشکری کرنا یا ناقدری کرنا اور ایمان لانے سے انکار کرنا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کی معرفت ‘ (3) کفرانًا : اس کی وحدانیت ‘ نیکی بدی کا شعور ‘ جذبہ شکر وغیرہ انسان کی فطرت میں ڈال کر اسے دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ چیزیں جب اس کے اندر سے ابھر کر شعور کی سطح پر آنا چاہتی ہیں تو کچھ لوگ اسے دبا دیتے ہیں یا چھپالیتے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ ناشکری کریں یا انکار کریں۔ { ومن یشکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان اللہ غنی حمید ۔ } (لقمٰن) ” اور جو شکر کرے تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ شکر کرتا ہے اپنے ہی لیے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک اللہ بےنیاز ‘ حمد کیا ہوا ہے۔ “ (1) { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا } (ابراھیم :28) ” کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے بدل دیا اللہ کی نعمت کو ناشکری سے۔ “ (2) { وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلاَّ کُفُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ” ہم نے مختلف پیرایوں میں بیان کی ہے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال ‘ تو نہ مانا لوگوں کی اکثریت نے مگر ناشکری کرتے ہوئے ۔ “ (3) { فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ } (الانبیائ :94) ” تو جو عمل کرے نیکیوں میں سے اس حال میں کہ وہ مومن رہے تو کسی قسم کی کوئی ناقدری نہیں ہے اس کی کوشش کے لیے۔ “ اکفر (فعل امر) : تو کفر کر۔ { کمثل الشیطن اذ قال للانسان اکفر } (الحشر :16) ” شیطان کی مثال کی مانند جب اس نے کہا انسان سے کہ تو ناشکری کر یا انکار کر۔ “ کَافِرٌ ج کافرون اور کفار (اسم الفاعل) : کفر کرنے والا۔ { وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا } (النبائ :40) ” اور کہے گا انکار کرنے والا اے کاش میں مٹی ہوتا۔ “ { ان الذین کفروا وماتو وھم کفار اولئک علیھم لعنۃ اللہ } (البقرۃ :161) ” بیشک جن لوگوں نے انکار کیا اور وہ لوگ مرگئے اس حال میں کہ وہ لوگ انکار کرنے والے ہی رہے ‘ ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ “ کسان کو بھی کَافِرٌکہتے ہیں کیونکہ وہ بیج کو زمین میں دبانے اور چھپانے والا ہوتا ہے۔ { کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ } (الحدید :20) ” بارش کی مثال کی مانند جو بھلی لگی کسانوں کو۔ “ کُفَّارٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر اسم مبالغہ) : بہت ناشکرا ‘ انکار کرنے والا۔ { ان اللہ لا یھدی من ھو کذب کفار ۔ } (الزمر) ” یقینا اللہ ہدایت نہیں دیتا اس کو جو بہت زیادہ انکار کرنے والا جھوٹا ہے۔ “ کفور (فَعُوْلٌکے وزن پر اسم مبالغہ) : دل کھول کر ناشکری کرنے والا ‘ انکار کرنے والا۔ { ان الانسان لکفور ۔ } (الحج :66) ” بیشک انسان دل کھول کر ناشکری کرنے والا ہے۔ “ کفر یکفر (تفعیل) تکفیرا : کسی کی ناپسندیدہ چیز کو اس سے دور کرنا ‘ دبا کر یا چھپا کر۔ غلطی کا جرمانہ ادا کر کے اس کی سزا کو دور کرنا ‘ کفارہ ادا کرنا۔ { کفر عنھم سیئاتھم واصلح بالھم } (محمد :2) ” اس نے یعنی اللہ نے دور کیا ان کی برائیوں کو ان سے اور اس نے اصلاح کی ان کی حالتوں کی۔ “ کفر (فعل امر) : تو دور کر۔ { ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیئاتنا وتوفنا مع الابرار } (آل عمران :193) ” اے ہمارے رب تو بخش دے ہمارے لیے ہمارے گناہوں کو اور تو دور کر دے ہم سے ہماری برائیوں کو اور تو موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ۔ “ کفارۃ (اسم ذات) : وہ چیز جو بطور جرمانہ ادا کی جائے۔ { ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم } (المائدۃ :89) ” یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم حلف اٹھائو۔ “ سَوِیَ یَسْوٰی (س) سوی وسواء : ہموار ہونا ‘ طول وعرض یا قدر و قیمت میں برابر ہونا ‘ درمیان میں ہونا ‘ قرآن مجید میں ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کا مصدر سَوَائٌ آیت زیر مطالعہ میں استعمال ہوا ہے۔ سواء (مصدر کے علاوہ اسم ذات بھی ہے) : کسی چیز کا درمیان یا وسط ۔ { ومن یتبدل الکفر بالایمان فقد ضل سواء السبیل } (آل عمران :108) ” اور جو تبدیل کرتا ہے کفر کو ایمان کے بدلے تو وہ بھٹک گیا ہے راستہ کے درمیان سے یعنی سیدھے راستے سے۔ “ { فاطلع فراہ فی سواء الجحیم } (الصّٰفّٰت :55) ” پس اس نے جھانکا تو اس نے دیکھا اس کو بھڑکتی آگ کے وسط میں۔ “ سوی (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہر لحاظ سے کمی یا زیادتی سے پاک ‘ کامل ‘ درمیانی۔ { قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا ۔ } (مریم) ” اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے کہا تیری نشانی ہے کہ تو کلام نہیں کرے گا لوگوں سے تین کامل راتیں یعنی تین رات اور دن۔ “ سَوّٰی یُسَوِّیْ (تفعیل) تَسْوِیَۃً : کسی چیز کی کمی یا زیادتی سے پاک کرنا۔ ہر لحاظ سے مناسب و موزوں بنانا یعنی نوک پلک درست کرنا ‘ ہموار یا برابر کرنا۔ { اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ۔ } (الاعلیٰ ) ” جس نے پیدا کیا پھر نوک پلک درست کی۔ “{ رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰٹھا ۔ } (النزعت) ” اس نے بلند کیا اس کی یعنی آسمان کی چھت کو پھر اسے ہموار کیا۔ “ ساوی یساوی (مفاعلہ) مساواۃ : دو یا زیادہ چیزوں کو برابر کرنا۔ { حتی اذا ساوی بین الصدفین قال انفخوا } (الکہف :96) ” یہاں تک کہ جب اس نے برابر کردیا پہاڑوں کے دونوں کناروں کے درمیان کو ‘ تو اس نے کہا تم لوگ پھونکو ۔ “ استوی یستوی (افتعال) استواء : (1) برابر ہونا۔ { قل ھل یستوی الاعمی والبصیر ام ھل تستوی الظلمت والنور } (الرعد :16) ” آپ ﷺ کہیے کیا برابر ہوتے ہیں اندھا اور بصیرت والا کیا برابر ہوتے ہیں اندھیرے اور نور۔ “ (2) اِسْتَوٰی اِلٰی۔ ارادہ کرنا ‘ متوجہ ہونا۔ { ثم استوی الی السماء وھی دخان } (حٰمٓ السجدۃ :11) ” پھر وہ متوجہ ہوا آسمان کی طرف اس حال میں کہ وہ دھواں تھا۔ “ (3) اِسْتَوٰعَلٰی۔ غالب آنا ‘ متمکن ہونا۔ { الذی خلق السموت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش } (الفرقان :59) ” جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ‘ چھ دنوں میں پھر وہ متمکن ہوا عرش پر۔ “ ن ذ ر نذر ینذر۔ نذر ینذر (ض۔ ن) نذرا : کسی غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا ‘ منت ماننا۔ { انی نذرت للرحمن صوما } (مریم :26) ” میں نے منت مانی رحمن کے لیے ایک روزے کی۔ “ نَذْرٌ ج نُذُوْرٌ (اسم ذات) : منت ‘ نذر۔ { وما انفقتم من نفقۃ او نذرتم من نذر فان اللہ یعلمہ } (البقرۃ :270) ” اور جو تم لوگ انفاق کرو کسی خرچے میں سے یا جو تم لوگ منت مانو کسی منت سے تو یقینا اللہ اس کو جانتا ہے۔ “{ ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق } (الحج :29) ” پھر ان لوگوں کو چاہیے کہ اتاریں اپنے میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں قدیم گھر کا یعنی خانہ کعبہ کا۔ “ نَذِرَ یَنْذَرُ (س) نَذْرًا : کسی متوقع خطرہ سے خبردار ہونا ‘ چوکنا ہونا ‘ باب سمع سے فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ نذیر ج نذر (فَعِیْلٌ کا وزن ہے اسم الفاعل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) : لیکن اس کے معنی خبردار ہونے والا کے بجائے خبردار کرنے والا ہیں۔ { وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا } (سبا :28) ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ ﷺ کو مگر تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے۔ “ { وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفہ } (الاحقاف :21) ” اور گزر چکے ہیں خبردار کرنے والے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے۔ “ انذر ینذر (افعال) انذارا : کسی متوقع خطرے سے خبردار کرنا ‘ وارننگ دینا۔ { واوحی الی ھذا القران لانذرکم بہ ومن بلغط } (المائدۃ :19) ” اور وحی کیا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ میں خبردار کروں تم لوگوں کو اس کے ذریعہ سے ‘ اور اس کو جس کو وہ پہنچے۔ “ انذر (فعل امر) : تو خبردار کر۔ { وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْھُمُ الْعَذَابُ } (ابراھیم :44) ” اور خبردار کیجیے لوگوں کو اس دن سے جب آئے گا ان کے پاس عذاب۔ “ منذر (اسم الفاعل) : خبردار کرنے والا۔ { انما انت منذر ولکل قوم ھاد ۔ } (الرعد) ” کچھ نہیں سوائے اس کے کہ آپ ﷺ ایک خبردار کرنے والے ہیں اور ہر ایک قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے۔ “ منذر (اسم المفعول) : خبردار کیا ہوا۔{ واغرقنا الذین کذبوا بایتنا فانظر کیف کان عاقبۃ المنذرین } (یونس :73) ” اور ہم نے ڈبویا ان لوگوں کو جنہوں نے جھٹلایا ہماری نشانیوں کو ‘ تو دیکھ کیسا تھا خبردار کیے جانے والوں کا انجام۔ “ ترکیب :” اَلَّـذِیْنَ کَفَرُوْا “ یہ پورا جملہ ” ان “ کا اسم یعنی مبتدأ ہے اور ” سوائ “ اس کی خبر ہے۔ اس سے آگے کا جملہ ” سوائ “ وضاحت کر رہا ہے۔ نوٹ (1) : کسی جملہ میں ئَ کے بعد اگر اَمْ لانا ہو تو (1) زیادہ تر ئَ کے بعد فعل ماضی لاتے ہیں اور ام کے بعد فعل مضارع لاتے ہیں ۔ پھر مضارع میں ماضی کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے اس پر لَمْ داخل کرتے ہیں۔ (2) ایسی صورت میں ئَ کے معنی ” کیا “ نہیں ہوتے بلکہ ” خواہ “ یا ” چاہے “ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ چاہے یہ کرو یا نہ کرو۔ نوٹ (2) : اس آیت سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کافروں میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا۔ لیکن اگلی آیت میں یہ خیال رد ہوجاتا ہے اور بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں پر بات دراصل کافروں کے ایک مخصوص گروہ کی ہو رہی ہے جو کفر میں point of no return پر پہنچ چکے ہیں۔ اس سے کم تر درجہ کے کافروں میں ایمان لانے کی صلاحیت باقی رہتی ہے جن میں سے بہت سے لوگ ایمان لائے ہیں اور ان شاء اللہ لاتے رہیں گے۔ نوٹ (3) : اس آیت میں کٹر کافروں کے لیے حضور ﷺ کا وعظ کرنا یا نہ کرنا ‘ دونوں کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن سواء کے ساتھ علیھم کا اضافہ کر کے واضح کردیا کہ یہ برابری ایسے کفار کے حق میں ہے ‘ آپ ﷺ کے حق میں نہیں ہے۔ آپ ﷺ کو اپنا فرض منصبی بہرحال ادا کرنا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو بھی دعوت ایمان دینے سے حضور ﷺ کو نہیں روکا گیا۔ بلکہ ابلاغ کی تاکید کی گئی ہے :” اے رسول ﷺ آپ پہنچائیں وہ جو اتارا گیا آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے۔ اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے نہیں پہنچایا اس کے پیغام کو “۔ (المائدۃ :67) اس سے معلوم ہوا کہ جو بھی امتی دعوت دین اور اصلاح کا کام کرتا ہے ‘ اس کو اپنی کوشش کا ثواب بہرحال ملے گا ‘ خواہ اس کی کوشش کا سامنے والے پر اثر ہو یا نہ ہو۔ نوٹ (4) : یہاں سے ایک اصول یہ بھی ملتا ہے کہ کسی کی ذمہ داری دوسروں کے غلط رویہ کی وجہ سے ختم نہیں ہوتی۔ مثلاً کوئی استاد یہ کہہ کر نہیں بچ سکے گا کہ طلبہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے تھے اس لیے میں نے نہیں پڑھایا۔ کسی طالب علم کا یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ استاد کو پڑھانا نہیں آتا تھا اس لیے میں نے نہیں پڑھا۔ ہر فریق اپنی اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے اور اس میں کوتاہی کا نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے رویہ کو دوسروں کے رویہ کا تابع مت بنائو۔ اگر کوئی تمہارا حق مارتا ہے ‘ تو تم اس کا حق ادا کرو۔
Top