Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
[ اُولٰٓـئِکَ : یہی لوگ ] [ عَلٰی ھُدًی : ہدایت پر ہیں ] [ مِّنْ رَّبِّھِمْ : اپنے رب کی جانب سے ] [ وَاُولٰٓـئِکَ : اور یہ لوگ ] [ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : ہی مراد پانے والے ہیں ] ل ح فَلَحَ یَفْلُحُ (ن) فَلْحًا : پھاڑنا ‘ زمین میں ہل چلانا۔ ثلاثی مجرد سے فعل یا اسم قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ اَفْلَحَ یُفْلِحُ (افعال) فَلَاحًا : اس کا مصدر اِفْلَاحٌ کے بجائے فَلَاحٌ استعمال ہوتا ہے۔ مشکلات اور رکاوٹوں کو پھاڑ کر یعنی عبور کر کے اپنا مطلوب حاصل کرلینا۔ مراد پالینا (فعل لازم ہے) ۔ { وَاعْبُدُوْا رَبَّـکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَـعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ } (الحج) ” تم لوگ بندگی کرو اپنے رب کی اور بھلے کام کرو شاید کہ تم لوگ مراد پائو۔ “ مُفْلِحٌ (اسم الفاعل) : مراد پانے والا۔ ترکیب :” اُولٰٓئِکَ “ کا اشارہ گزشتہ آیت 2 میں ” اَلْمُتَّقِیْنَ “ کی طرف ہے۔ نیز اس آیت میں ” اُولٰٓئِکَ “ مبتدأ ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ ” عَلٰی ھُدًی “ قائم مقام خبر ہے۔ ” مِنْ رَّبِّھِمْ “ متعلق خبر کہلائے گا۔ خبر محذوف اگر ” قَائِمُوْنَ “ مانیں تو جملہ ہوگا ” اُولٰٓئِکَ قَائِمُوْنَ عَلٰی ھُدًی مِّنْْ رَّبِّھِمْ “۔ نوٹ : نجات پانے اور مراد پانے کا فرق سمجھ لیں۔ نجات پانے میں مفہوم یہ ہے کہ دوزخ میں جانے سے بچ گیا۔ جس طرح 33 فیصد نمبر حاصل کرنے والا اور سو فیصد نمبر حاصل کرنے والا ‘ دونوں طالب علم فیل ہونے سے بچ جاتے ہیں اور پاس ہوجاتے ہیں جبکہ مراد پانے میں مفہوم یہ ہے کہ اپنی محنت اور توقع کے مطابق یا اس سے زیادہ نمبر لے کر پاس ہونا۔
Top