Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 92
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس مُوْسٰى : موسیٰ بِالْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد وَاَنْتُمْ : اور تم ظَالِمُوْنَ : ظالم ہو
تمہارے پاس موسیٰؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے
وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ : اور آچکے تمہارے پاس ] [ مُّوْسٰى : موسیٰ ] [ بِالْبَيِّنٰتِ : واضح نشانیوں کے ساتھ ] [ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ : پھر تم لوگوں نے بنایا ] [ الْعِجْلَ : بچھڑے کو الہ ] [ مِنْۢ بَعْدِهٖ : ان کے بعد ] [ وَاَنْتُمْ : اور تم لوگ ] [ ظٰلِمُوْنَ : ہو ہی ظلم کرنے والے ] اللغۃ زیر مطالعہ پورے قطعہ میں (جو دو آیات پر مشتمل ہے) لغوی تشریح کے لیے ایک بھی نیا لفظ نہیں ہے۔ تمام کلمات بلا واسطہ (یعنی اپنی موجودہ ہی شکل میں) جو اس قطعہ میں آتی ہے) یا بالواسطہ (یعنی مادہ و اشتقاق کی اصل کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں۔ تاہم چونکہ ہمارا ایک کام یا مقصد موجودہ اردو تراجم کا تقابلی مطالعہ (لغوی و نحوی بنیاد سمجھانے کے لیے) کرنا بھی ہے۔ اس لیے ہم ذیل میں ان آیات کو نحوی لحاظ سے موزوں اکائی بننے والے چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کرکے ہر ایک جملہ کے کلمات کا صرف ترجمہ مع گزشتہ حوالہ (برائے طلب مزید) لکھ کر ہر ایک جملے کے آخر پر تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی کریں گے۔ ؤ [ وَلَقَدْ جَآئَ کُمْ مُوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ] ۔ ” وَ “ (اور) [ 2:7:1 (1)] ” لَ “ (ضرور) لام مفتوحہ کے لیے دیکھئے [ 2:41:1 (6)] ” قَدْ “ (تحقیق بےشک) دیکھئے [ 2:38:1 (8)] بعض نے تو ” لَقَدْ “ کا ترجمہ ” البتہ “ تحقیق ہی کیا ہے، بعض نے دونوں (لَ +قد) میں زور اور تاکید کا مفہوم سامنے رکھتے ہوئے صرف ” بیشک “ سے ہی ترجمہ کیا ہے اور بیشتر حضرات نے اردو محاورے میں اس کا ترجمہ لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ البتہ اگلے فعل ” جاء کم “ کا ترجمہ اس طرح کردیا ہے۔ (مثلاً آچکا) کہ ” لقد “ کا مفہوم بھی اس میں آجاتا ہے۔ ۔ ” جاء کم “ اس کے آخر پر توضمیر منصوب ” کُم “ ہے جس کا یہاں ترجمہ ” تم کو “ کی بجائے ” تمہارے پاس “ کرنا پڑتا ہے کیونکہ فعل ” جائ “ (آیا) کا تقاضا یہی ہے اور فعل ” جائ “ کے مادہ (ج ی ئ) اور وزن (فعل) کے معنی (آنا) وغیرہ کی وضاحت البقرہ :71 [ 2:44:1 (14)] میں کی جاچکی ہے۔ ۔ ” موسیٰ “ نام ہے ایک عظیم الشان پیغمبر کا۔ اس لفظ کی اصل کے لیے دیکھئے [ 2:33:1 (2)] ۔ ” بِالبیّنٰت “ کی ابتدائی باء (ب) وہ صلہ ہے جو فعل ” جائ “ کو متعدی بنانے کے لیے لگتا ہے، یعنی ” جائ “= آیا اور ” جاء ب… =… کو لایا “ (دراصل ”… کے ساتھ آیا “ ) بیشتر مترجمین نے اس ” آنا “ ”…کے ساتھ آنا ‘ اور ” لانا “ تینوں کے مفہوم کو جمع کرتے ہوئے ” جاء کم بِ…“ کا ترجمہ ہی ” لے کر آیا “ (اور احتراماً ) ” لے کر آئے “ کی صورت میں کیا ہے جو عمدہ ترجمہ ہے۔ ؤ کلمہ ” البینات “ (برسم املائی) کے مادہ (ب ی ن) اور اس سے فعل مجرد وغیرہ پر تو البقرہ :68 [ 2:43:1 (6)] میں بات ہوئی تھی۔ اور خود اسی لفظ ” بینات “ (جو جمع مؤنث سالم ہے) کی ساخت اور وزن و معانی پر [ 2:53:1 (3)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے اصل معنی تو ہیں ” واضح اور کھلی دلیلیں “ اس لیے اس کا ترجمہ ” صریح معجزے “ ” صاف صاف دلیلیں “ ، ” کھلے نشان “ ، ” کھلی نشانیاں “ ، ” کھلے ہوئے معجزات “ اور ” کھلے ہوئے نشان “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے، بس لفظوں کا انتخاب اپنا اپنا ہے۔ ؤ [ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ ] ۔ ” ثُمَّ “ (پھر) پہلی دفعہ البقرہ :28 [ 2:2:1 (4)] میں گزرا ہے۔ ۔ ” اتَّخَذْتُمُ “ (تم نے پکڑا۔ بنا لیا) کے مادہ (أخ ذ) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ [ 2:31:1 (5)] میں گزرے۔ اور ” اِتَّخَذْتُمْ “ جو بلحاظ وزن ” اِفْتَعَلْتُمْ “ ہے (مگر اس کا ہمزہ الوصل تلفظ سے گرگیا ہے) کہ باب (افتعال) کے معنی و استعمال پر البقرہ :51 [ 2:33:1 (5)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ۔ ” العِجْلَ “ (بچھڑا - گوسالہ) کی مزید لغوی تشریح چاہیں تو دیکھئے البقرہ :51 [ 2:33:1 (6)] ۔ ” مِنْ بَعْدِہٖ “ کا ” بعد “ (پیچھے) تو اردو میں بھی رائج ہے، مزید چاہیں تو دیکھئے [ 2:33:1 (7)] ” مِن بعدہ “ (اس کے بعد - کے پیچھے) سے مراد ” ان کی غیر حاضری میں “ ہے۔ ویسے یہی پورا جملہ ” ثم اتخذتم العجل من بعدہ “ البقرہ :51 (2:33:1) میں گزر چکا ہے۔ اس کے مزید تراجم وغیرہ وہاں دیکھ لیجئے۔ ؤ [ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ] ” اور تم ظلم کرنے والے (تھے : ہو) “ بعینہٖ یہی عبارت البقرہ :51 [ 2:33:1] میں گزر چکی ہے اور اس کے مختلف تراجم (جن میں ” ظالم “ کی بجائے ” بےانصاف “ اور جملہ اسمیہ کی بجائے جملہ فعلیہ سے ترجمہ کرنے پر بھی بات ہوئی تھی) وہیں بیان ہوئے ہیں۔
Top