Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو لوگ مسلمان ہوئے130 اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صائبین جو ایمان لایا (ان میں سے) اللہ پر اور روز قیامت پر اور کام کئے نیک تو ان کے لئے ہے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس اور نہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے
130 ۔ یہ آیت نوع اول کا تتمہ ہے۔ اور الذین امنوا سے مراد امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ہے۔ ای من امن بمحمد ﷺ (بحر ص 240 ج 1) وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا۔ یہودیت کے پیرو یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت۔ وَالنَّصٰرٰى۔ دین عیسوی کے متبعین وَالصّٰبِـــِٕيْنَ ۔ یہ لوگ بھی اہل کتاب ہی کا ایک گروہ ہیں۔ فرقۃ من اھل الکتاب (ابن کثیر ص 104 ج 1) مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ ۔ ہر فرقہ اپنے اپنے لقب اور نام پر خوش ہے مگر اصل ذریعہ نجات یہ القاب اور انتسابات نہیں ہیں بلکہ نجات کا مدار تو ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ یہاں یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ آیت میں صرف اللہ پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر ایمان لانا نجات کے لیے کافی ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لانا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس کی تمام صفات کمال اور نعوت جلال میں وحدہ لا شریک، یکتا اور بےمثل مانا جائے اور اس کے تمام احکام کی تعمیل کی جائے لہذا یہ جملہ ایمان بالرسل ایمان بالکتب، ایمان بالملئکۃ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ قد دخل فی الایمان باللہ الایمان بما اوجبہ اعنی الایمان برسلہ (کبیر ص 550 ج 1) دوسری بات یہ ہے یہاں ایمان باللہ کا ذکر اجمالی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں اس کی تفصیل موجود ہے چناچہ سورة حجرات رکوع 2 میں ارشاد ربانی ہے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔ اس آیت میں صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ مومن صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے تمام رسولوں پر بھی ایمان لائیں اور ایمان بھی ایسا لائیں جو ریب وتردد اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہو اور پھر ان کی عملی زندگی بھی اس ایمان کے عین مطابق ہو اور رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لائیں اور سب کو اللہ کے سچے رسو مانیں ایسا نہ ہو کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا 150؀ۙاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا۔ (النساء :151) اس آیت سے دونوں باتیں واضح طور پر معلوم ہوگئیں۔ اول یہ کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے رسول پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر نجات ناممکن ہے دوم یہ کہ بلا تفریق تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) پر ایمان لانا ضروری ہے۔ بعض پر ایمان لانا اور بعض پر ایمان نہ لانا نجات اور ایمان کے لیے کافی نہیں ہے بعض پیغمبروں کا انکار تمام پیغمبروں کے انکار کے برابر ہے۔ والیوم الاخر یوم آخرت اور اس میں جو کچھ ہونیوالا ہے سب پر ایمان لائے۔ تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ یوم آخرت پر ایمان لانا اٰمن باللہ میں داخل ہے لیکن اس کے باوجود اس کا ذکر صراحت سے کیا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود ونصاری اگرچہ آخرت پر ایمان رکھتے تھے مگر ان کا تصور آخرت قرآن کے پیش کردہ تصور سے بالکل جدا گانہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ آخرت میں صرف یہودی یا نصرانی ہی جنت میں جائیں گے۔ ان کے سوا اور کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوم آخرت پر امان لانے کا علیحدہ ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ آخرت پر اس طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح محمد ﷺ نے وحی کے ذریعے اس کے احوال بیان فرمائے ہیں کہ آخرت میں کسی قوم یا گروہ کی اجارہ داری نہیں ہوگی بلکہ وہاں صرف ایمان اور عمل صالح کام آئیں گے۔ نوع ثانی (اس میں نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کے باپ دادوں کی تین خباثتیں اور شرارتیں بیان کی گئی ہیں)
Top