Mutaliya-e-Quran - An-Nahl : 33
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت تُبْعَثُوْنَ : اٹھائے جاؤگے
پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے
ثُمَّ اِنَّكُمْ [ پھر بیشک تم لوگ ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن ] تُبْعَثُوْنَ [ (دوبارہ ) اٹھائے جاؤگے ] نوٹ ۔ 1: حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر ائمہ کرام نے خلقا اخر کی تفسیر نفخ روح سے فرمائی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ غالبا اس روح سے مراد روح حیوانی ہے کہ وہ بھی مادی اور ایک جسم لطیف ہے جو جسم حیوانی کے ہر ہر جز میں سمایا ہوا ہوتا ہے جس کو طبیب لوگ اور فلسفی لوگ روح کہتے ہیں ۔ اس کی تخلیق تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے ۔ اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے وہیں سے لا کر اس کا کوئی رابطہ روح حیوانی سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے فرما دیتا ہے جس کی حقیقت کو پہچاننا انسان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہوچکی ہے ۔ ان ارواح کو اللہ تعالیٰ نے ازل میں جمع کرکے الست بربکم فرمایا ۔ اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے ۔ اس جگہ نفخ روح سے اگر یہ مراد لی جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے ۔ (معارف القرآن ) ۔
Top