Mutaliya-e-Quran - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
پھر وہ کہنے لگا "اے میرے رب، مَیں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے" چنانچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی، وہ غفور رحیم ہے
قَالَ [ انھوں علیہ السام نے کہا ] رَبِّ [ اے میرے رب ] اِنِّىْ ظَلَمْتُ [ بیشک میں نے ظلم کیا ] نَفْسِيْ [ اپنے آپ پر ] فَاغْفِرْ لِيْ [ پس تو بخش دے مجھ کو ] فَغَفَرَ لَهٗ ۭ [ تو اس نے بخش دیا ان (علیہ السلام) کو ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] هُوَ الْغَفُوْرُ [ ہی بےانتہا بخشنے والا ہے ] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ] نوٹ۔ 2: حکم اور علم کے مختلف مدراج ہیں ۔ اس کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو انبیاء کو حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں بالکل یہی الفاظ انبیاء کے علم کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ لیکن یہاں ظاہر ہے کہ وہ علم و حکمت مراد نہیں ہے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اس کے بہت بعد میں ملی ہے (تدبر قرآن ) ۔ یہاں حکم سے مراد حکمت و دانائی ہے اور علم سے مراد دینی اور دنیوی دونوں علوم ہیں ۔ کیونکہ والدین کے ساتھ ربط و ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا کی تعلیمات سے بھی واقفیت حا صل ہوگئی ، اور فرعون کے ہاں شہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے میں مصر میں رائج تھے ۔ بائبل کی کتاب الاعمال میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والے تھے ۔ تلمود کا بیان ہے کہ وہ اکثر اس علا قے میں جاتے تھے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو قبطی حکومت کے کارندے ان کی قوم پر کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ہی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لئے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انھوں نے فرعون سے کہا کہ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت کے کام کا نقصان ہوگا ۔ (تفہیم القرآن )
Top