Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 114
قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَعَمْ : ہاں وَاِنَّكُمْ : اور تم بیشک لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین
فرعون نے جواب دیا "ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے"
[ قَالَ : اس نے کہا ] [ نَعَمْ : ہاں ] [ وَاِنَّكُمْ : اور بیشک تم لوگ ] [ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : یقینا قریب کیے ہوؤں میں سے ہوگے ] نوٹ ۔ 1: یہ بات نوٹ کرلیں کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصے میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ ایک وہ جس کے زمانے میں آپ پیدا ہوئے اور اسی کے گھر میں پرورش پائی ۔ اس کا نام رعمسیس تھا ۔ دوسرا اس کا بیٹا منفتاح ہے۔ یہ اس وقت حکمران تھا جب موسیٰ اسلام کی دعوت لے کر مصر پہنچے تھے اور یہی غرق ہوا تھا ۔ نوٹ۔ 2:ـ چند قوموں اور ان کے پیغمبروں کا حوالہ دینے کے بعد اب موسیٰ اور فرعون کا واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کیا جارہا ہے ۔ اس میں متعدد مضامین اور اسباق ہیں ۔ لیکن اس سارے قصے میں جو سب سے اہم سبق ہے وہ صحابہ کرام کے بھی تھا اور قیامت تک ہر اس اہل حق گروہ کے لیے رہے گا جو باطل سے پنجہ آزمائی ” حماقت “ کرتا ہے ۔ اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے ۔ اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ، حق کی تو پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک معمولی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سازو سامان کے اس باطل کے خلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے ۔ پھر بھی آخر کار حق ہی غالب آکر رہتا ہے ۔ اس قصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں ۔ وہ کس طرح الٹی پڑتی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ باطل کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اس کو کتنی کتنی طویل مدت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیت چلا جاتا ہے ۔ اور جب وہ کسی بات کا اثر قبول نہیں کرتا تو پھر اسے ہلاک کردیا جاتا ہے اور نشان عبرت بنادیا جاتا ہے ۔ (تفہیم القرآن )
Top