Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ [ اور بیشک ہم نے پیدا کیا ہے تم لوگوں کو ] ثُمَّ [ پھر ] صَوَّرْنٰكُمْ [ ہم نے شکل دی تمہیں ] ثُمَّ [ پھر ] قُلْنَا [ ہم نے کہا ] لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ [ فرشتوں سے ] اسْجُدُوْا [ تم لوگ سجدہ کرو ] لِاٰدَمَ ڰ [ آدم کے لئے ] فَسَجَدُوْٓا [ تو انہوں نے سجدہ کیا ] اِلَّآ [ سوائے ] اِبْلِيْسَ ۭ [ ابلیس کے ] لَمْ يَكُنْ [ وہ نہیں تھا ] مِّنَ السّٰجِدِيْنَ [ سجدہ کرنے والوں میں سے ] ذء م : (ف) ذاما ۔ عیب لگانا ۔ مذء وم ۔ اسم المفعول ہے ۔ عیب لگایا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18 ۔ دح ر : (ف) دحورا ۔ کسی کو کہیں سے زبردستی نکالنا ۔ ہانکنا ، کھدیرنا ۔ وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُوْرًا [ اور ان پر پھینکے جاتے ہیں ہر طرف سے کھدیرتے ہوئے ] 37:8 ۔ مدحور۔ اسم المفعول ہے ۔ ہانکا ہوا ۔ کھدیرا ہوا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18 ۔ نوٹ۔ 1: تخلیق انسانی کے جس آغاز کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے اس کی تفصیل کو سمجھنا ہمارے مشکل ہے ۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانے میں سائنس کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان ایک غیر انسانی حالت سے مختلف مدارج طے کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔ اس کے برعکس قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے ۔ اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعا کوئی رشتہ نہیں رکھتی اور اول روز سے انسان ہی بنایا گیا ہے ۔ انسانیت کی تاریخ کے یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں جن سے انسانیت کے دو بالکل مختلف تصور پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک تصور میں انسان دراصل حیوان کی ہی ایک شاخ نظر آتا ہے ۔ اس لیے اگر کوئی انسان حیوانات کا سا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو یہ بالکل فطری طرز عمل ہوگا ۔ اس کے برعکس قرآنی تصور میں انسان کو جانور کے بجائے انسان کی حیثیت سے دیکھا جائے گا ۔ اسے حیوان ناطق نہیں بلکہ اللہ کا خلیفہ سمجھا جائے گا ۔ انسان کو دوسری مخلوقات سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اس کا نطق (بات کرنے کی صلاحیت ) نہیں ہے بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ) ۔ اوپر مولانا مودودی نے کہا ہے کہ دیگر مخلوقات سے انسان کو ممتاز کرنے والی چیز نطق یعنی بات کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ اس کی وجہ کو سمجھ لیں ۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات سے یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ کچھ دیگر مخلوقات کو بھی اللہ تعالیٰ نے نطق کی صلاحیت عطا کی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی بات چیز کو یا تو ہم سن نہیں سکتے اور اگر سنتے ہیں تو سمجھ نہیں پاتے ۔ مثال کے طور پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو آتا دیکھ کر ایک چیونٹی نے چیونٹیوں سے کہا تھا کہ تم لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے نہ صرف اس بات کو سن لیا بلکہ سمجھ بھی لیا ۔ اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی قرآن مجید میں نقل کی گئی ہے ۔ طلباء کو چاہیے کو وہ یہ دعا یاد کرلیں ۔ (27:16 تا 19) اس کے آگے آیت نمبر ۔ 22 میں ہدہد کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے بات کرنے کا بھی ذکر ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ ہر نئے نظریہ کو آنکھ بند کرکے قبول کرلیتے ہیں پھر دوسروں پر اپنی قابلیت کا رعب ڈالنے کے لیے اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں ۔ اساتذہ طلبا سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ اکثر کے علم میں نہیں ہوتا یا ہم بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے جو سنی سنائی بات کو تحقیق کیے بغیر آگے بڑھا دے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہی ” سائنسی “ نظریات جب مغربی محققین کی سائٹفک کسوٹی پر غلط ثابت ہوجاتے ہیں تو اس کا چرچا نہیں ہوتا ۔ ایسی تحقیقی باتوں کو عام کرنا مغربی میڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ وہ اگر چپ سادھ لیتے ہیں تو ان پر شکایت بےسود ہے ۔ یہ مسلمان اہل علم کی ذمہ داری ہے جس سے ہم کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہورہے ہیں۔ مغرب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو دفن ہوئے برسوں گزر چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسے آج تک سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
Top