Al-Qurtubi - Yunus : 21
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
الرا، یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں۔
آیت نمبر : 1۔ قولہ تعالیٰ : الر نحاس نے کہا ہے : اسے ابو جعفر احمد بن شعیب بن علی ابن حسین بن حریث پر پڑھا گیا تو انہوں نے کہا : ہمیں علی بن حسین نے اپنے باپ سے اور انہوں نے یزید سے یہ خبر دی ہے کہ عکرمہ نے اسے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے : الر، حم، اور نون، یہ الرحمن کے حروف ہیں جو الگ الگ بیان کیے گئے ہیں، تو میں نے اس کا ذکر اعمش سے کیا تو انہوں نے : تیرے پاس اس کی مثل (اور) بھی ہیں اور تو مجھے اس کے بارے خبر نہ دے ؟ اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے : الر کا معنی ہے انا اللہ اری (2) (المحرر الوجیز، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 102) (میں اللہ ہوں دیکھ رہا ہوں) نحاس نے کہا ہے : میں نے ابو اسحاق کو دیکھا کہ وہ اس قول کی طرف مائل ہیں، کیونکہ سیبویہ نے عربوں سے اس کی مثل بیان کیا ہے اور شعر بھی بیان کیا ہے : بالخیر خیرات وان شرافا ولا ارید الشر الا ان تا : اور حسن اور عکرمہ نے کہا ہے : (آیت) ” الر قسم ہے۔ اور سعید نے حضرت قتادہ (رح) سے بیان کیا ہے : (آیت) ” الر “ سورت کا نام ہے، مزید کہا : قرآن کریم میں تمام حروف تہجی اس طرح ہیں، اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ سورتوں کے فواتح اور آغاز ہیں۔ اور محمد بن یزید نے کہا ہے : یہ حروف تنبیہ ہیں اور اسی طرح تمام حروف تہجی ہیں۔ اور کو بغیر امالہ کے پڑھا گیا ہے۔ اور امالہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے تاکہ یہ حروف میں سے حروف میں سے ما اور لہ کے مشابہ نہ ہوجائیں۔ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین قولہ تعالیٰ : (آیت) ” تلک ایت الکتب الحکیم “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے، یعنی یہ جن کا ذکر جاری ہے کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ حضرت مجاہد (رح) اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : کتاب سے مراد تورات، انجیل اور سابقہ کتب ہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 102) کیونکہ (آیت) ” تلک “ مونث غائب کی طرف اشارہ ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” تلک “۔ بمعنی ھذہ ہے، یعنی ہذہ آیات الکتاب الحکیم “۔ (یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں) اور اسی سے اعشی کا قول ہے : تلک خیلی منہ وتلک رکابی ھن صفراولادھا کالزبیب : مراد ھذہ خیلی ہے (2) (تفسیر ماوردی، جلد 2 صفحہ، 420) اور (آیت) ” الکتب “۔ سے مراد قرآن کریم ہے اور یہی صواب کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ سابقہ کتابوں کا ذکر جاری نہیں ہے۔ اور اس لیے بھی کہ (آیت) ” الحکیم “۔ قرآن کی صفت ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” الر، کتب احکمت ایتہ “۔ (ہود : 1) یہ معنی سورة البقرہ : کے اول میں ہوچکا ہے۔ اور (آیت) ” الحکیم “۔ جس کے سات حلال و حرام، حدود اور احکام کے بارے فیصلہ کیا جائے۔ یہ ابو عبیدہ وغیرہ نے کہا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : حکیم بمعنی حاکم ہے، یعنی بیشک یہ حلال و حرام کے بارے فیصلہ کرنے والا ہے اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ فعیل بمعنی فاعل ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) وانزل معھم الکتب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ “۔ (البقرہ : 213) (اور نازل فرمائی ان کے ساتھ کتاب برحق تاکہ فیصلہ کر دے لوگوں کے درمیان جن باتوں میں وہ جھگڑنے لگے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکیم بمعنی محکوم فیہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں عدل و احسان کرنے اور ذوالقربی کو دینے کے بارے میں فیصلہ فرمایا اور اس میں فحشاء اور منکر سے نہی کے بارے فیصلہ کیا اور اس کے بارے جنت کا فیصلہ کیا جس نے اطاعت کی اور اس کے بارے جہنم کا فیصلہ کیا جس نے نافرمانی کی، تو یہ فعیل بمعنی مفعول ہے۔ یہ حسن وغیرہ نے کہا ہے۔ اور مقاتل (رح) نے کہا ہے : حکیم بمعنی محکم من الباطل (جو باطل سے محفوظ ہو) ہے اس میں نہ کذب ہے اور نہ اختلاف، یہ فعیل بمعنی مفعل ہے، جیسے اعشی کا قول ہے وہ اپنا وہ قصیدہ بیان کرتا ہے جو اس نے کہا ہے : وغریبۃ تاتی الملوک حکیمۃ قد قلتھا لیقال من ذا قالھا :
Top