Al-Qurtubi - Yunus : 28
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ١ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُھُمْ : ہم اکٹھا کرینگے انہیں جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اَشْرَكُوْا : جنہوں نے شرک کیا مَكَانَكُمْ : اپنی جگہ اَنْتُمْ : تم وَشُرَكَآؤُكُمْ : اور تمہارے شریک فَزَيَّلْنَا : پھر ہم جدائی ڈال دیں گے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان وَقَالَ : اور کہیں گے شُرَكَآؤُھُمْ : ان کے شریک مَّا كُنْتُمْ : تم نہ تھے اِيَّانَا : ہماری تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے
اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے اور انکے شریک (ان سے) کہیں گے کہ تم ہم کو تو نہیں پوجا کرتے تھے۔
آیت نمبر : 28۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویوم نحشرھم “۔ اور جس دن ہم انہیں جمع کریں گے اور حشر کا معنی جمع کرنا ہے، (آیت) ” جمیعا “ یہ حال ہے، (آیت) ” ثم نقول للذین اشرکوا “۔ پھر ہم حکم دیں گے ان کو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنائے، (آیت) ” مکانکم “ یعنی تم اپنی اپنی جگہ کو لازم پکڑو اور اسی پر ثابت قدم رہو۔ اور اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو۔ (آیت) ” انتم وشرکآؤکم “۔ (تم اور تمہارے جھوٹے معبود) اور یہ وعید ہے۔ (آیت) ” فزیلنا بینھم “۔ یعنی ہم تفریق ڈال دیں گے اور ہم اس دوستی اور تعلق کو توڑ دیں گے جو ان کے درمیان دنیا میں قائم تھا، کہا جاتا ہے : زیلتہ فتزیل، ای فرقتہ فتفرق (میں نے اسے علیحدہ کیا پس وہ علیحدہ ہوگیا) اور یہ فعلت کیونکہ اس کے مصدر میں تو تزیلا کہتا ہے (مقصود یہ بتانا ہے کہ یہ باب تفعیل ہے) اور اگر فیعلت ہوتا تو پھر تو مصدر زیلۃ کہتا، اور المزایلۃ کا معنی المفارقۃ ہے : کہا جاتا ہے : زایلہ اللہ مزایلۃ وزیالا جب اللہ تعالیٰ اسے جدا اور علیحدہ کر دے، اور التزایل کا معنی التباین (جدا ہونا) ہے، فراء نے کہا ہے : بعض نے فزایلنا بینھم پڑھا ہے، کہا جاتا ہے : لا ازایل فلانا، ای لا افارقہ (میں اسے جدا نہیں کروں گا) اور اگر تو کہے : لا ازاولہ تو اس کا معنی دوسرا ہے اور وہ ہے لا اخاتلہ (میں اسے فریب اور دھوکہ نہیں دوں گا) (آیت) ” وقال شرکآؤھم اس میں شرکاء سے مراد ملائکہ ہیں، بعض نے کہا ہے : شیاطین ہیں، اور بعض نے کہا ہے : بت ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی قدرت دے گا اور یہ گفتگو ان کے اپنے درمیان ہوگی، اور یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے ان شیاطین کے خلاف دعوی کیا جن کی انہوں نے اطاعت وپیروی کی اور ان بتوں کے خلاف دعوی کیا جن کی وہ عبادت کرتے رہے کہ انہوں نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا اور وہ کہیں گے : ہم نے تمہاری عبادت نہیں کی یہاں تک کہ تم نے ہمیں حکم دیا۔ حضرت مجاہد (رح) نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ بتوں کو بولنے کی قدرت دے گا، پس وہ کہیں گے : ہم تو اس بارے شعور ہی نہیں رکھتے تھے کہ تم ہماری عبادت کر رہے ہو اور نہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا، اور اگر شرکاء کو شیاطین پر محمول کیا جائے تو معنی یہ ہوگا تو معنی یہ ہوگا کہ وہ مدہوش ہو کر یہ کہتے ہیں یا وہ جھوٹ اور خلاصی کا حیلہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں، اور اس کی مثل کل جاری ہوگا، اگرچہ معارف ضروریہ اور بدیہی ہے۔
Top