Al-Qurtubi - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
آیت نمبر 83 قولہ تعالیٰ : (آیت) فمآامن لموسی الا ذریۃ من قومہ اس میں ہاضمیر موسیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ حضرت مجاہد۔ نے کہا ہے : یعنی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا، بلاشبہ بنی اسرائیل میں سے ان کی اولاد ایمان لائی جن کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجا گیا تھا، طویل وقت گزر گیا آبا و اجداد ہلاک ہوگئے اور بیٹے باقی رہے پس وہ ایمان لائے (1) (تفسیر طبری، سورة یونس، جلد 11، صفحہ 172 (مفہوم ) ۔ اور یہ علامہ طبری کی پسند ہے اور ذریت سے مراد انسان کے پیچھے آنے والی نسل ہے اور کبھی یہ کثیر ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت سے بنی اسرائیل کے مومن مراد لیے ہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ چھ لاکھ تھے۔ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) مصر میں بہتر افراد کے ساتھ داخل ہوئے پھر وہ مصر میں بچوں کی ولادت کے سبب بڑھتے رہے یہاں تک کہ چھ لاکھ تک پہنچ گئے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی فرمایا : من قومہ یعنی فرعون کی قوم سے۔ ان میں سے آل فرعون کے مومن اور فرعون کا خازن اور اس کی بیوی اور فرعون کی بیٹی کی ماشطہ (اسے بنائو سنگار کرنے والی) اور اس کے خازن کی بیوی (یہ مومن تھے) اور یہ بھی کیا گیا ہے : یہ وہ اقوام ہیں جن کے آباء قبطی تھے اور ان کی مائیں بنی اسرائیل میں سے تھیں پس انہیں ذریت کا نام دیا گیا جیسا کہ ان گھوڑوں کی اولاد کو ابناء کا نام دیا جاتا ہے جو یمن اور بلاد عرب سے پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی مائیں ان کا باپوں کی جنس سے نہیں۔ یہ فراء نے کہا ہے۔ اور اس بنا پر قومہ میں ہاضمیر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹ رہی ہے کیونکہ انہیں مائوں کی جہت سے قرابت حاصل ہے اور فرعون کی طرف لوٹتی ہے جب وہ (آبائ) قبطی ہوں۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) علی خوف من فرعون کیونکہ وہ سرکشی کرتے ہوئے ان پر مسلط ہے (اس لیے وہ فرعون سے ڈرتے ہیں) (آیت) وملاء ھم (اور اپنے سرداروں سے) یہاں وملئہ نہیں کہا۔ اسکے چھ جواب دیئے گئے ہیں : (1) کہ فرعون جب جابر و ظالم تھا تو اس کی طرف سے تمام کے فعل کی خبر دی گئی (2) کہ فرعون کا جب ذکر کیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ اور بھی ہیں پس ضمیر اس (فرعون) کی طرف اور دوسرے تمام کی طرف لوٹائی۔ یہ فراء کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ (3) کہ فرعون کو ثمود کی طرف جماعت کا نام دیا گیا ہے (اس لیے ضمیر جمع لوٹائی گئی) (4) تقدیر عبارت یہ ہو : علی خوف من آل فرعون پس یہ مضاف کے حذف کے باب سے ہوگا جیسا کہ واسئل القریۃ میں ہے اور یہ فراء کا دوسرا قول ہے۔ اور یہ جواب سیبویہ اور خلیل کے مذہب کے مطابق غلط ہے۔ ان دونوں کے نزدیک یہ جائز نہیں قامت ھند کہہ کر تیری مراد اس کا غلام ہو۔ (5) اخفش سعید کا مذہب یہ ہے کہ ضمیر ذریۃ کی طرف لوٹ رہی ہے مراد ذریۃ (اولاد) کے سردار ہیں اور یہی علامہ طبری کی پسند ہے (6) کہ ضمیر فرعون کی قوم کی طرف لوٹ رہی ہو۔ نحاس نے کہا ہے : یہ جواب گویا زیادہ بلیغ ہے۔ ان یفتنھم فرعون کے بارے خبر دینے کی بنا پر یفتنھم کو واحد ذکر کیا ہے کہ انہیں سزائوں کے سبب اپنے دین سے پھیر دے اور یہ محل جر میں ہے اس بنا پر کہ یہ بدل اشتمال ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ خوف کے سبب نسخ کے محل میں ہو اور فرعون غیر منصرف ہے کیونکہ یہ عجمی اسم ہے اور یہ معرفہ ہے۔ (آیت) وان فرعون لعال فی الارض یعنی فرعون سرکشی کرنے والا متکبر ہے۔ (آیت) وانہ لمن المسرفین اور بیشک وہ کفر میں حد سے بڑھنے والوں میں سے ہے، کیونکہ وہ بندہ ہے اور اس نے دعوی ربوبیت کا کیا ہے۔
Top