Al-Qurtubi - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
(خدا نے) فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے راستے نہ چلنا۔
آیت نمبر 89 قولہ تعالیٰ : (آیت) قال قد اجیبت دعوتکما ابو العالیہ نے کہا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے آمین کہی، چونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے دعا پر آمین کہی اسی وجہ سے انہیں داعی (دعا مانگنے والا) کہا گیا اور التامین علی الدعا کا معنی آمین کہنا ہے۔ اور تیرا قول ” آمین “ یہ بھی دعا ہے، یعنی اے میرے پروردگار ! میرے لیے اسے قبول فرما۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر دعا بھی کی۔ اور اہل معانی نے کہا ہے : یہ اس قبیل میں سے ہے جس میں عرب واحد کو خطاب تثنیہ کے صیغے کے ساتھ خطاب کرتے ہیں، جیسا کہ شاعر کا قول ہے : فقلت لصاحبہ لاتعجلانا بنزع اصولہ فاجتز شیحا یہ اس بنا پر ہے کہ آمین دعا نہ ہو اور یہ کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے دعا نہ کی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : میں نے علی بن سلیمان کے یہ کہتے ہوئے سنا ہے : اس پر دلیل کہ دعا دونوں نے کی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ربنا ہے کیونکہ آپ نے رب (اے میرے رب) نہیں کہا۔ اور علی اور سلمی نے دعواتکما پڑھا ہے اور اس کے بعد دعوۃ کو نصب دی ہے۔ اور آمین کے بارے میں مکمل بحث سورة فاتحہ کے آخر میں گزرچکی ہے۔ اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کے ساتھ ہمارے نبی حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خاص کیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو تین چیزیں عطا فرمائی ہیں جو ان سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں اسلام اور اہل جنت کا تحیہ اور سلام ہے اور ملائکہ کا صفیں بنانا اور آمین مگر یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے پاس بھی تھی “ (1) (نوادرالاصول، صفحہ 185) ۔ اسے حکیم ترمذی نے ” نوادرالاصول “ میں ذکر کیا ہے۔ اور سورة فاتحہ میں اس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) فاستقیمافراء وغیرہ نے کہا ہے : یہ دونوں کو اپنے امر پر استقامت اختیار کرنے اور فرعون اور اس کی قوم کو ایمان کی طرف دعوت دینے کے معاملہ میں ثابت قدم رہنے کا حکم ہے یہاں تک کہ دونوں پر دعا کی قبولیت کا اثر ظاہر ہوجائے۔ محمد بن علی اور ابن جریج نے کہا ہے : فرعون اور اس کی قوم اس دعا کے قبول ہونے کے بعد چالیس برس تک باقی رہے پھے ہلاک کردیئے گئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : استقیما تم دونوں دعا پر استقامت اختیار کرو۔ اور دعا میں استقامت کا معنی حصول مقصود میں جلدی کرنے کو ترک کرنا ہے اور یہ جلدی کا مطالبہ دل سے زائل نہیں ہوتا مگر اس میں راحت اور سکون کے آنے کے ساتھ اور وہ راحت اور سکون حاصل نہیں ہوسکتا مگر اس سب کے ساتھ حسن رضا مندی کے ساتھ جو غیب سے ظاہر ہوتا ہے۔ (آیت) ولا تتبعان سبیل الذین لایعلمون یہ نون مشدد ہا کے ساتھ ہے اور صیغہ نہی ہونے کی وجہ سے محل جزم میں ہے اور نون توکیر ہے اور اسے التقاء ساکنین کی وجہ سے حرکت دی گئی ہے اور اس کے لیے کسرہ کو اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ یہ نون تثنیہ کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ اور ابن ذکوان نے نفی کی بنا پر نون کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ استقیما سے حال ہے ای استقیما غیر متبعین اور اس کا معنی ہے تم دونوں اس کے راست پر نہ چلو جو میرے وعدہ اور وعید کی حقیقت کو نہیں جانتا۔
Top