ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لیے جو (روبرو) طعنے دیتا ہے پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرتا ہے۔
ویل کے بارے میں وضاحت کئی مواقع پر گزر چکی ہے اس کا معنی رسوائی، عذاب اور ہلاکت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ جہنم میں ایک وادی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد چغل خور، دوستوں کے درمیان فساد برپاد کرنے والے، پاکباز لوگوں پر عیب لگانے والے ہیں۔ اس تاویل کی بنا پر دونوں کا معنی ایک ہی ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا : شرار عباد اللہ تعالیٰ المشاون بالنمیمۃ المفسدون بین الاحبۃ الباغون للبراء العیب۔ اللہ کے بندوں میں سے سب سے برے چغل خور، دوستوں میں فساد برپا کرنے والے اور پاک باز لوگوں پر عیب لگانے والے ہیں۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ الھمزہ سے مراد چغل خور المزہ سے مراد عیب لگانے والے ہیں۔ ابو العالیہ، حضرت حسن بصری، مجاہد اور عطا بن ابی رباح نے کہا : الھمزہ سے مراد ہے جو غیب کرتا ہے۔ اور لوگوں کے سامنے ان پر طعن وتشنیع کرتا ہے اور اللمزہ سے مراد ہے جب آدمی موجود نہ ہو تو پیٹھ کے پیچھے اس کی غیبت کرتا ہے : اس معنی میں حضرت حسان بن ثابت کا شعر ہے :
ھمزتک فاختضعت بذل نفس۔۔۔ بقافیۃ تاجج کا لشواظ
میں نے تیرے ایسے اشعار کے ساتھ غیبت کی جو شعلہ کی طرح بھڑک رہا تھا تو تو اپنے نفس کی ذلت کے ساتھ پست ہوگیا۔
نحاس نے اس قول کو پسند کیا ہے اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومنھم من یلمزک فی الصدقات۔ (التوبہ) ان میں سے کچھ وہ ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں۔ مقاتل نے اس کلام کے مخالف گفتگو کی ہے کہ ھمزۃ اسے کہتے ہیں جو عدم موجود گی میں غیبت کرتا ہے اور لمزۃ اسے کہتے ہیں جو سامنے عیب جوئی کرتا ہے۔ قتادہ اور مجاہد نے کہا : ھمزہ اسے کہتے ہیں جو لوگوں کے اخلاف کے بارے میں طعن کرتا ہے۔ اور لمزۃ اسے کہتے ہیں جو ان کے نسب میں طعن کرتا ہے۔
ابن زید نے کہا : ھامزا سے کہتے ہیں جو ہاتھ سے لوگوں کو اذیت دیتا ہے اور انہیں مارتا ہے۔ اور لمزۃ اسے کہتے ہیں جو زبان سے انہیں اذیت دیتا ہے اور انہیں عیب لگاتا ہے۔ سفیان ثوری نے کہا : جو زبان سے اذیت دیتا ہے اسے ھمزۃ کہتے ہیں اور جو آنکھ سے اذیت دیتا ہے اسے لمزۃ کہتے ہیں۔ ابن کیسان نے کہا : ھمزۃ اسے کہتے ہیں جو اپنے ہم مجلس افراد کو برے الفاظ کے ساتھ اذیت دیتا ہے اور لمزۃ اسے کہتے ہیں جو اپنی نظریں اپنے ساتھی پر گاڑھ دیتا ہے اور اپنے سر، اپنی آنکھوں اور اپنے آبروؤں سے اشارہ کرتا ہے۔ ایک دفعہ کہا : دونوں برابر ہیں۔ وہ چغل خور اور انسان پر طعن کرنے والا ہے جب وہ غائب ہوجائے۔ زیاد اعاجم نے کہا :
تدلی بودی اذا لا قیتنی کذبا۔۔۔ وان اغیب فانت الھامز اللمزہ
جب تو مجھ سے ملاقات کرتا ہے تو جھوٹ کے عالم میں میری محبت کا وسیلہ پکڑتا ہے اور اگر میں غائب ہوں تو تو چغل خور اور طعن کرنے والا ہے۔
ایک اور شاعر نے کہا :
اذا لقیتک عن سخط تکاشرنی۔۔۔ وان تغیبت کنت الھامزہ اللمزۃ۔
جب میں تجھے ملتا ہوں تو تو ناراضگی کی وجہ سے دانت نکالتا ہے اور جب میں غائب ہوتا ہوں تو تو چغل خور اور طعن کرنے والا ہوتا ہے۔
الشحط کا معنی بعد ہے اور ھمزۃ ایسا اسم ہے جو مبالغہ کے لیے وضع کیا گیا ہے جس طرح کہا جاتا ہے : سخرۃ، ضحکۃ جو مذاق کرتا ہے اور لوگوں کو ہنساتا ہے۔ ابو جعفر محمد بن علی اور اعراج نے ھمزۃ اور لمزۃ میم کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اگر یہ دونوں سے قرات ثابت ہو تو یہ اسم مفعول کے معنی میں ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے آتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں، اس پر ہنستے ہیں اور وہ انہیں غیبت پر برانگیختہ کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابو وائل، نخعی اور اعمش نے اسے ویل للھمزۃ اللمزۃ پڑھا ہے۔ ھمز کا اصل معنی توڑنا، کسی شی کو سختی سے کاٹنا ہے۔ اس معنی میں ھمز الحرف ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : ھمزۃ راسہ میں نے اس کے سر کو توڑ دیا۔ ھمزت الجوز بکفی میں نے ہتھیلی سے اخروٹ توڑا، ایک بدو نے کہا : اتھمز الفارۃ ؟ کیا بلی ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے۔ تو اس نے کہا : اسے بلی ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے۔ْ صحاح میں جو جملہ مذکورہ ہے وہ یہ ہے ایک بدو سے کہا گیا : اتھمز الفارۃ ؟ تو اس نے کہا : اسے بلی ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے۔ پہلا قول ثعلبی کا ہے یہ اس امر پر دال ہے کہ بلی کو ھمزۃ کہتے ہیں۔ عجاج نے کہا :
ومن ھمزنا راسہ تھشما
جس کے سر کو ہم توڑیں تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : ھمز اور لمز کا اصل معنی دھکیلنا اور مارنا ہے : لمزہ یلمزہ لمزا جب وہ اسے مارے اور دھکے دے اس طرح ھمزہ ہے جب وہ اسے دھکے دے اور اسے مارے۔ راجز نے کہا :
ومن ھمزناہ عزہ تبرکعا۔۔۔ علی استہ زوبعۃ او زوبعا
جس کی عزت کو ہم پھاڑ دیں تو وہ اپنی سرین کے بل بگولہ کی صورت میں یا حقیر ہو کر جا گرتا ہے۔
برکعۃ کا معنی ہے چار اعضا پر کھڑا ہونا برکعہ فتبرکع میں نے اسے گرایا تو وہ اپنی سرین کے بل گرگیا ۔ یہ صحاح میں کہا : آیت کریمہ اخنس بن شریق کے حق میں نازل ہوئی جو ضحاک نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے۔ وہ لوگوں کی غیبت کرتا تھا اور ان کی عیب جوئی کرتا تھا وہ موجود ہوتے یا غائب ہوتے۔ اب جریج نے کہا : یہ آیت ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی وہ نبی کریم کی عدم موجودگی میں آپ کی غیبت کرتا اور سامنے بدگوئی کیا کرتا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ آیت ابی بن خلف کے حق میں نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ جمیل بن عامر ثقفی کے حق میں نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ بغیر تخصیص کے عموم کے لیے ہے ؛ یہ اکثر علماء کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : یہ کسی کے ساتھ بھی خاص نہیں بلکہ یہ ہر کسی کے لیے ہے جس کی یہ صفت ہے۔ فراء نے کہا : یہ جائز ہے کہ عام ذکر کیا جائے اور خاص کا قصد کیا جائے ایک کا قصد کیا جب کوئی یہ کہے : لا ازورک ابدا تو تو کہتا ہے : من لم یزرنی فلست بزائرہ یعنی وہ صرف قائل کا ارادہ کرتا ہے یعنی من عموم پر دلالت کرتا ہے ہر کوئی مراد ہونا چاہیے مگر وہ صرف اس فرد کا ارادہ کرتا ہے جس نے یہ بات کہی تھی۔