Al-Qurtubi - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو جبکہ وہاں کے باشندے نیکوکار ہوں ازراہ ظلم تباہ کردے۔
آیت نمبر 117 تا 119 قولہ تعالیٰ : وماکان ربک لیھلک القرٰی اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ برباد کردے بستیوں یعنی بستیوں والوں کو۔ القری سے مراد اھل القری ہے۔ بظلمٍ یعنی شرک اور کفر سے واھلھامصلحون یعنی ان کے درمیان حقوق کی باہم ادائیگی ہورہی ہو، یعنی ایسا نہیں کہ وہ انہیں صرف کفر کی وجہ سے ہلاک کرے یہاں تک کہ اس کے ساتھ ساتھ فساد بھی برپا ہوجائے، جس طرح مثلاً اس نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو کم تولنے کی وجہ سے ہلاک کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو لواطت کی وجہ سے ہلاک کیا، اور یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دنیا میں شرک کی نسبت نافرمانی اور گناہ ہلاکت و بربادی کے عذاب تک پہنچانے میں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں، اگرچہ آخرت میں شرک کا عذاب زیادہ مشکل ہوگا۔ صحیح ترمذی میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” لوگ جب ظالم کو دیکھتے ہیں اور اپنے سامنے اسے نہیں پکڑے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے سب پر عذاب کو عام کردے “۔ یہ پہلے گزر چکی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے : معنی یہ ہے کہ آپ کا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو برباد کردے، حالانکہ ان میں رہنے والے مسلمان ہوں وہ تو ان کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے، یعنی اس نے اعذار اور اندار کے بعد ہی کسی قوم کو ہلاک اور برباد کیا ہے۔ زجاج نے کہا : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا معنی یہ ہو کہ آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ کسی کو اس طرح ہلاکرے کہ وہ اس پر ظلم کررہا ہو، اگرچہ وہ اصلاح وہدایت کی انتہاء پر ہے، کیونکہ اس نے اپنی ملکیت میں تصرف کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے کسی پر ظلم نہ کرنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے : ان اللہ لایظلم الناس شیئاً (یونس :44) یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ ھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور ایک قول یہ ہے : یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردے جب کہ وہ مخلص ہوں۔ مصلحون سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو ایمان میں مخلص ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ظلم سے مراد معاصی اور گناہ ہوں گے۔ قولہ تعالیٰ : ولو شآء ربک لجعل الناش امۃً واحدۃً حضرت سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا : امۃً واحدۃ ً سے مراد صرف ملت اسلامیہ ہے یعنی اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو صرف ملت اسلامیہ بنا دیتا ۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد ایک دین والے ہیں یعنی سب کو گمراہ کردیتا یا پھر سب کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ۔ ولایزالون مختلفین یعنی مختلف ادیان پر رہیں گے۔ یہ مجاہد اور حضرت قتادہ ؓ کا قول ہے۔ الامن رحم ربک یہ استثنا منقطع ہے، یعنی جس پر تیرے رب نے ایمان اور ہدایت کے ذریعے رحمت فرمائی تو ذریعے فرمائی تو اس نے اختلاف نہیں کیا۔ اور ایک قول یہ ہے : اس سے مراد مختلفین فی الرزق ہیں یعنی رزق میں اختلاف کرتے رہیں گے یا مختلف ہوں گے، یعنی یہ کہیں گے کہ یہ غنی ہے اور یہ فقیر، الامن رحم ربک مگر وہ لوگ جن پر تیرے رب نے قناعت عطا فرما کر رحم کیا، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ ولذٰلک خلقھم حضرت حسن، مقاتل اور عطا نے کہا : یہ اختلاف کی طرف اشارہ ہے یعنی اللہ نے انہیں اختلاف کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، مجاہد، حضرت قتادہ اور ضحاک نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت کے لیے انہیں پیدا فرمایا ہے۔ اور الرحمۃ کے مونث ہونے کے باوجود ولذٰلک فرمایا ولتلک نہیں فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مصدر ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رحمۃ کی تانیث حقیقی نہیں تو اسے فضل کے معنی پر محمول کیا گیا ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ذالک کے ساتھ اختلاف اور رحمت دونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعض اوقات ذلک کے ذریعے دومتضاد چیزوں کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کے ارشاد لافارض ولابکر۔ؕعوان بین ذٰلک (البقرہ :68) میں ہے، بین ذٰلک فرمایا ہے بین ذینک ولا تینک نہیں فرمایا۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا : والذین اذآالنفقوالم یسرفواولم یفتروا وکان بین ذٰلک قوامًا۔ (الفرقان) پھر فرمایا : ولا تجھربصلاتک ولاتخافت بھاوابتع بین ذٰلک سبیلا۔ (الاسراء) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد قل بفضل اللہ وبرحمتہٖ فبذٰلک فلیفرحوا (یونس :58) (ان سب ارشادات میں دومتضاد چیزوں کی طرف ذالک کے ذریعے اشارہ کیا گیا مثلا فارض اور بکر، اسراف اور بخل، جہر اور سر اور آخری آیت میں فضل اور رحمت (مذکر اور مونث) کی طرف بھی ذالک کے ذریعے ہی اشارہ کیا گیا ہے) اور یہ سب اقوال سے بہتر قول ہے، کیونکہ یہ عام ہے۔ اس کی طرف حضرت امام مالک (رح) نے اشارہ فرمایا ہے جسے آپ سے اشہب نے روایت کیا : اشہب نے کہا : میں نے آیت کے متعلق امام مالک سے پوچھا تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ ایک فریق جنت میں ہو اور ایک فریق دوزخ میں، یعنی اہل اختلاف کو اختلاف کے لیے پیدا فرمایا اور اہل رحمت کو رحمت کے لیے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ہی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ نے انہیں دو فریقوں میں پیدا فرمایا، ایک فریق پر وہ رحم فرماتا ہے اور ایک فریق پر رحم نہیں فرماتا ہے۔ مہدوی نے کہا : اس تقدیر کے مطابق کلام میں تقدیم وتاخیر ہے، یعنی اصل کلام یوں ہے : ولایزالون مختلفین إلامن رحم ربک وتمت کلمۃ ربک لأملأن جھنم من الجنۃ الناس اجمعین، ولذالک خلقھم اور ایک قول کے مطابق یہ ذٰلک یوم مجموع لہ الناس وذٰلک یوم مشھود کے ارشاد کے متعلق ہے یعنی ولشھود ذلک القوم خلقھم اس دن کے شہود کے لیے اس نے انہیں پیدا فرمایا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فمنھم شقی و سعید کے متعلق ہے یعنی سعادت اور شقاوت کے لیے اس نے انہیں پیدا فرمایا ہے۔ وتمت کلمۃ ربک، تمت کا معنی ثبت ہے، یعنی جس طرح اس نے ازل میں مقدر فرمایا اور خبردی وہ ثابت ہوگیا، اور کلمے کے تمام سے مراد اس کا تغیر وتبدیل کو قبول کرنے سے ممتنع ہونا ہے۔ لاملن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین، من بیان جنس کے لیے ہے۔ یعنی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین تاکید ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ جہنم کو بھرے گا اسی طرح اپنے نبی ﷺ کی زبان مقدس کے ذریعے یہ خبر بھی دی ہے کہ وہ جنت کو بھرے گا آپ ﷺ نے فرمایا :” ہر ایک کو تمہیں میں سے لوگوں کے ذریعے بھرے گا “ ، اس کو حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرویات میں سے امام بخاری (رح) نے روایت کیا ہے اور یہ گزر بھ چکی ہے۔
Top