Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ ہم نے بھیجے رُسُلًا : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے دیں لَهُمْ : ان کو اَزْوَاجًا : بیویاں وَّذُرِّيَّةً : اور اولاد وَمَا كَانَ : اور نہیں ہوا لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کے لیے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : لائے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا : بغیر بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کی اجازت سے لِكُلِّ اَجَلٍ : ہر وعدہ کے لیے كِتَابٌ : ایک تحریر
اور (اے محمد ﷺ ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی۔ اور کسی پیغمبر کے اخیتار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضاُ (کتاب میں) مرقوم ہے۔
آیت نمبر 38 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: کہا گیا ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم ﷺ پر ازواج مطہرات کے حوالے سے نقطہ چینی کی انھوں نے کہا : ہم اس آدمی کے سوائے بیویوں اور نکاح کے کوئی خواہش نہیں دیکھتے، اگر یہ نبی ہوتا تو امر نبوت اس کو نکاح سے مشغول رکھتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کو حضرت داود و سلمان (علیہما السلام) کا معاملہ یاد دلاتے ہوئے فرمایا : ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ یعنی ہم نے ان کو بشر بنایا اور شہوات دنیا میں جو اللہ نے حلال کیں ان کو وہ پورا کرتے ہیں ان کی تخصیص صرف وحی میں ہے (یعنی ان کے پاس وحی آتی ہے) مسئلہ نمبر 2: یہ آیت نکاح میں ترغیب پر دلالت کرتی ہے اور اس پر ابھارتی ہے، جبکہ تبثل یعنی ترک نکاح سے روکتی ہے، اس آیت کے مطابق یہ رسولوں کی سنت ہے اور سنت بھی اس کے معنی پر وارد ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم شادیاں کرو، میں تمہاری وجہ سے دیگر امتوں پر کثرت دکھانے والا ہوں گا “۔ الحدیث، سورة ” آل عمران “ میں یہ گزر چکی ہے۔ آپ نے فرمایا : ” جس نے شادی کی اس نے نصف دین کی تکمیل چاہی پس اسے دوسرے نصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح زنا سے بچاتا ہے اور پاکدامنی ان دو خصلتوں میں سے ہے جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جس کو اللہ تعالیٰ نے دو کے شر سے محفوظ رکھا وہ جنت میں داخل ہوگیا (ایک) جو دو جبڑوں کے درمیان ہے (زبان) اور (دوسرا) جو ٹانگوں کے درمیان ہے (شرمگاہ) “۔ اس کو مؤطا اور دیگر کتب کے مصنفین نے روایت کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : تین آدمیوں کا گروہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آیا وہ نبی کریم ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھتے رہے، جب انہیں بتایا گیا تو گویا انہوں نے اپنی عبادت کو کم سمجھا، انھوں نے کہا : ہم نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اگلے پچھلے گناہوں سے محفوظ رکھا، ان میں سے ایک نے کہا : میں ہمیشہ رات کو نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا : میں ساری زندگی روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا بس شادی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے آپ نے فرمایا : ” تم وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ، یہ کہا، اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں اور اس کی پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں “۔ امام مسلم نے اس کو بالمعنی روایت کیا، اور یہ واضح ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے آپ نے کہا : اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ضرور ہم اپنے آپ کو خصی کرلیتے۔ ” آل عمران “ میں بچے کی طلب پر ابھارنا اور جو اس سے ناواقف ہے اسکی تردید گزر چکی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے : میں عورت کے ساتھ شادی کرتا ہوں حالانکہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، اور میں اس کے ساتھ وطی کرتا ہوں حالانکہ مجھے اس کی کوئی خواہش نہیں۔ آپ کو کہا گیا : اے امیر المومنین ! کون سی چیز آپ کو اس پر ابھارتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس بات کی محبت کہ اللہ تعالیٰ مجھ میں سے وہ اولاد پیدا کرے جس کی وجہ سے قیامت کے دن حضرت محمد ﷺ دیگر انبیاء پر فخر کریں گے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ” تمہارے اوپر باکرہ عورتوں کے ساتھ شادی کرنا لازم ہے بیشک وہ منہ کے اعتبار سے بہت زیادہ میٹھی، اخلاق کے لحاظ سے بہت زیادہ عمدہ اور بچے پیدا کرنے کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوتی ہیں اور میں قیامت کے دن تمہارے ذریعے ایگر امتوں پر فخر کروں گا “۔ اتتق ارحاما سے آپ نے زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت مراد لی ہے ؛ زیادہ بچے پیدا والی عورت کو ناتق کہا جاتا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت معقل بن یسار سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا : ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس نے کہا : مجھے ایک حسب نسب والی عورت مل رہی ہے لیکن وہ بچے نہیں جنتی، کیا میں اس کے ساتھ شادی کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں “ پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے اسے پھر منع فرمایا، پھر تیسری مرتبہ آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت کے ساتھ شادی کرو، میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا “۔ ابو محمد عبد الحق نے اس کو صحیح قول قرار دیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ انھوں نے آیات کے نزول کی خواہش کی تھی جس کا ذکر اسی سورت میں ہی گزر چکا ہے۔ دوبارہ اسی کے بارے میں کلام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا۔ کلام کا ظاہر تو ممانعت پر دلالت کرتا ہے مگر اس کا معنی نفی ہے کیونکہ جس کی کوئی استطاعت ہی نہ رکھتا ہو اس کے حوالے سے اس کو منع نہیں کیا جاسکتا۔ لکل اجل کتاب یعنی ہر وہ کام جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا وہ اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے، یہ حضرت حسن کا قول ہے : اس میں تقدیم و تاخیر ہے، معنی یہ ہوگا : لکل کتاب اجل یہ فراء اور ضحاک کا قول ہے یعنی ہر کام جس کو اللہ نے لکھ دیا ہے اس کی مدت مقرر اور وقت معلوم ہے، اس کی مثال لکل نبا مستقر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ عذاب کے نازل ہونے میں قوموں کے مطالبے بنیاد نہیں ہوتے بلکہ اس کی بنیاد لکل اجل کتاب ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مدت کے لیے لکھی ہوئی کتاب اور امر مقدر ہوتا ہے جس پر فرشتے بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ حکیم ترمذی نے ” نوادر الاصول “ میں شہر بن حوشب عن ابی ہریرہ ؓ ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طور سیناء میں ارتقا فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی انگلی میں انگوٹھی ملاحظہ فرمائی تو فرمایا : اے موسیٰ ! یہ کیا ہے ؟ حالانکہ وہ ان سے زیادہ اس کو جانتا تھا، آپ نے عرض کیا : مرد کے زیورات میں سے ایک چیز ہے، اللہ نے فرمایا : کیا اس پر میرے اسماء یا کلام میں سے کچھ لکھا ہوا ہے ؟ آپ نے عرض کیا : نہیں، تو اللہ نے فرمایا : اس پر لکل اجل کتاب لکھ دو ۔
Top