Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 39
یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ١ۖۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ
يَمْحُوا : مٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيُثْبِتُ : اور باقی رکھتا ہے وَعِنْدَهٗٓ : اور اس کے پاس اُمُّ الْكِتٰبِ : اصل کتاب (لوح محفوظ)
خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسکو چاہتا ہے) قائم رکھتا ہے۔ اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔
آیت نمبر 39 قولہ تعالیٰ : یمحوا اللہ ما یشآء ویثبت یعنی اس کتاب سے جس کو چاہتا ہے وہ اس کے اہل پر واقع ہو اور اس کو پہنچے تو اسے مٹاتا ہے ویثبت جس کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے یعنی اس کے وقت تک اس کو مؤخر کردیتا ہے۔ محوت الکتاب محوا کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس کا اثر ختم کردیا۔ ویثبت یعنی یثبتہ جس طرح اللہ کا ارشاد : والذکرین اللہ کثیرا والذکرت (الاحزاب) یعنی والذاکرات اللہ۔ ابن کثیر، ابو عمرو اور عاصم نے ویثبت تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اور باقیوں نے مشدد پڑھا ہے، یہی حضرت ابن عباس ؓ کی قرات ہے اور زیادہ لوگوں کی قرأت ہونے کی وجہ سے ابو حاتم نے اور ابو عبیدہ نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد دلیل بھی ہے : یثبت اللہ الذین امنوا (ابراہیم :27) ابن عمر نے کہا : میں نے حضرت محمد ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے سوائے سعادت، بدبختی اور موت کے “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سوائے چند اشیاء کے جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے، تخلیق، اخلاق، موت، رزق، سعادت اور شقاوت۔ آپ ہی سے مروی ہے : سوائے ام الکتاب کے یہ دو کتابیں ہیں، ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے، تخلیق، اخلاق، موت، رزق، سعادت اور شقاوت۔ آپ ہی سے مروی ہے : سوائے ام الکتاب کے یہ دو کتابیں ہیں، ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے، وعندہ ام الکتب وہ جس میں سے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوتی۔ قشیری نے کہا : کہا جاتا ہے کہ سعادت، شقاوت، تخلیق، اخلاق اور رزق میں کوئی تبدیلی نہیں، لہٰذا آیت کریمہ ان چیزوں کے علاوہ کے بارے میں ہے اور اس قسم میں گویا تحکم کی صورت پائی جاتی ہے۔ میں (قرطبی) نے کہا : اس قسم کی چیزوں کی رائے اور اجتہاد کے ذریعے نہیں جانا جاسکتا بلکہ یہ تو حقیقی ہوتی ہیں، پس اگر یہ صحیح ہے تو اس کے مطابق قول لازم ہوتا ہے اور اس کے ہاں روک دیا جاتا ہے ورنہ آیت تمام چیزوں کو عام ہوگی، اور یہی زیادہ ظاہر ہے۔ اللہ اعلم۔ اور یہ معنی حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو وائل، حضرت کعب احبار اور دیگر صحابہ ؓ سے مروی ہے، اور یہی کلبی کا قول ہے۔ حضرت ابو عثمان نہدی ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے : یا اللہ ! اگر تو نے مجھے سعادت مندوں میں لکھ دیا ہے تو مجھے ان میں ثابت رکھ اور اگر اہل شقاوت اور گناہگاروں میں لکھ دیا ہے تو مجھے ان میں سے مٹا دے اور اہل سعادت و مغفرت میں لکھ دے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے عرض کیا : یا اللہ ! اگر تو نے مجھے سعادت مندوں میں لکھا ہے تو ان میں مجھے باقی رکھو، اور اگر بدبختوں میں لکھا ہے تو مجھے ان میں سے مٹا دے اور سعادت مندوں میں لکھ دے، بیشک تو جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہے باقی رکھتا ہے، اور تیرے پاس ام الکتاب ہے۔ اور حضرت ابو وائل اکثر دعا مانگتے تھے : یا اللہ ! اگر تو نے ہمیں بد بختوں میں لکھا ہوا ہے تو مٹادے اور سعادت مندوں میں لکھ دے، اور اگر سعادت مندوں میں لکھا ہوا ہے تو باقی رکھ، بیشک تو جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے، حضرت کعب نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو کہا : اگر اللہ کی کتاب میں آیت نہ ہوتی تو قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے میں تجھے اس سے ضرور آگاہ کردیتا، آیت سے مراد یمحوا اللہ ما یشآء و یثبت، وعندہ ام الکتب۔ حضرت مالک بن دینار نے جس عورت کے متعلق دعا کی تھی (یہی کہا تھا): اے اللہ ! اگر اس کے پیٹ میں بچی ہے تو اسے بچے میں تبدیل فرما بیشک تو جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور تیرے پاس ام الکتب ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت گزر چکی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : میں نے رسول ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کی موت میں تاخیر کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے “۔ اسی طرح کی روایت حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من احب جس کو یہ بات پسند ہے۔ باقی حدیث بعینہ وہی ہے یعنی پہلی روایت میں من سرہ کے الفاظ ہیں جبکہ اس میں من احب کے علاوہ باقی الفاظ میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی دو تاویلیں ہیں ایک معنوی تاویل ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اچھی تعریف، عمدہ ذکر اور اجر متکرر میں سے اس کے بعد باقی رہ جائیں گی، تو ایسا ہوگا کہ گویا وہ مراہی نہیں۔ اور دوسری تاویل یہ ہے کہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی اجل اور وہ اجل جس کے بارے میں اللہ کے علم میں یہ تھا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اس کو مؤخر کردیا جاتا ہے۔ جس طرح اللہ کا ارشاد : یمحوا اللہ ما یشآء ویثبت، وعندہ ام الکتب ہے۔ جب حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث صحیح روایت کی کہ آپ نے فرمایا :” جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی عمر اور اجل لمبی ہوجائے اور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے تو وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے “۔ تو کہا گیا کہ عمر اور اجل میں کیسے اضافہ کیا جاتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ عزو جل نے فرمایا : ھو الذی خلقکم من طین ثم قضی اجلا، واجل مسمی عندہ (الانعام :2) وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اجل کا فیصلہ کیا اور اجل اس کے ہاں مقرر ہے۔ پہلی اجل بندے کی وہ اجل ہے جو اس کی ولادت سے لیکر وفات تک ہوتی ہے جب کہ دوسری اجل یعنی جو اللہ کے ہاں مقرر ہے وہ بندے کی وفات سے لیکر اس دن تک ہے جس دن برزخ میں اس کی ملاقات ہوگی اس کے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، جب بندہ تقوی اختیار کرے اور صلہ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ بندے کی برزخ کی اجل سے پہلی عمر کی مدت میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے اور اگر وہ نافرمانی کرے اور قطع رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا میں جتنی چاہتا ہے عمر کم کرتا ہے، اور اس کی برزخی زندگی کی مدت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ اور جب اللہ کے علم میں اس کی سابق اجل حتمی ہو تو پھر زیادتی اور کمی ممتنع ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا جآء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔ (الاعراف) یعنی جب اس کی اجل آجائے گی تو نہ ایک لمحہ تاخیر سے آئے گی اور نہ ہی پہلے۔ پس اس طرح حدیث اور آیت میں مطابقت ہوگئی۔ اور یہی نفس عمر اور اجل میں ظاہری لفظوں کے اعتبار سے اضافہ ہے اسی کو حبر الأمۃ نے اختیار کیا ہے، واللہ اعلم۔ مجاہد نے کہا : اللہ تعالیٰ سال کے معاملات کا رمضان المبارک میں قطعی فیصلہ فرما دیتا ہے پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے سوائے زندگی و موت، اور شقاوت وسعادت کے، اس کے بارے میں پہلے گفتگو ہوچکی ہے۔ ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ کراما کاتبین کے رجسٹروں سے ایسے امور جن کی کوئی ثواب و سزا نہیں ہوتی ان میں جن کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جن میں ثواب و عقاب ہوتا ہے ان کو باقی رکھتا ہے، اس کا معنی ابو صالح نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ کلبی نے کہا : رزق میں سے مٹاتا ہے اور اضافہ کرتا ہے، اور اجل میں سے مٹاتا ہے اور اضافہ کرتا ہے، اور انہوں نے اس کو نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ پھر کلبی سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : وہ ساری کی ساری باتیں لکھتا ہے یہاں تک کہ جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اس میں سے ہر اس چیز کو علیحدہ کردیا جاتا ہے جس میں ثواب و عقاب نہیں ہوتا، جیسے مثلاً تمہارا قول : میں نے کھایا، میں نے پیا، میں داخل ہوا اور میں نکلا وغیرہ اور اس گفتگو میں بندہ سچا بھی ہو، اور جن میں ثواب و عقاب ہوتا ہے ان کو باقی رکھتا ہے۔ حضرت قتادہ، ابن زید اور سعید بن جبیر نے کہا : اللہ تعالیٰ فرائض و نوافل میں سے جو چاہتا ہے مٹاتا ہے پس انھیں منسوخ کردیتا ہے اور بدل دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ان کو منسوخ نہیں کرتا۔ اور جملہ ناسخ و منسوخ اس کے ہاں ام الکتاب میں ہیں۔ نحاس اور مہدوی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس طرح روایت کیا ہے، نحاس نے کہا : حدثنا بکر بن سہل قال حدثنا ابو صالح عن معاویہ بن صالح عن علی بن أبی طلحہ عن ابن عباس ؓ یمحوا اللہ ما یشآء یعنی اللہ تعالیٰ قرآن سے جو چاہتا ہے تبدیل کردیتا ہے اور اسے منسوخ کردیتا ہے۔ ما یشآء ویثبت یعنی اسے تبدیل نہیں کرتا، وعندہ ام الکتب آپ فرماتے ہیں : ناسخ و منسوخ سب اس کے ہاں ام الکتاب میں ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے بھی فرمایا : یمحو ما یشاء یعنی یغفر ما یشاء ہے یعنی اپنے بندوں کے گناہوں میں سے جو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور یثبت ما یشاء یعنی یترک ما یشاء یعنی جو چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔ عکرمہ نے کہا : یمحو ما یشاء ویثبت یعنی تو بہ کے ذریعے تمام گناہوں کو مٹاتا ہے اور گناہوں کے بدلے نیکیاں لکھ دیتا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : الا من تاب وامن و عمل عملا صالحا آیۃ (الفرقان :70) حضرت حسن نے فرمایا : یمحوما یشاء یعنی جس کی اجل آجائے اسے مٹا دیتا ہے ویثبت اور جس کی اجل نہ آئے اسے باقی رکھتا ہے۔ اور حضرت حسن ہی نے کہا : اباء کو مٹاتا ہے اور ابناء کو باقی رکھتا ہے۔ اور آپ ہی سے مروی ہے : کراما کاتبین کو گناہوں میں سے کچھ بھلا دیے جاتے ہیں اور کچھ نہیں بھلائے جاتے۔ سدی نے کہا : یمحوا اللہ ما یشآء۔ یعنی چاند کو مٹاتا ہے ویثبت اور سورج کو باقی رکھتا ہے، اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے : فمحونا ایۃ الیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ (الاسراء :12) پس ہم نے رات کی نشانی کو مٹایا اور دن کی نشانی کو دکھائی دینے والا بنایا۔ حضرت ربیع بن انس نے کہا : یہ نیند کی حالت میں ارواح کے حوالے سے ہے، نیند کے وقت وہ اس پر قبضہ کرتا ہے، پھر جب اچانک اس کی موت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے روک لیتا ہے، اور جس کو باقی رکھنا چاہتا ہے اس کو ثابت رکھتا ہے اور اسے اپنے صاحب کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ اس کا بیان اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے : اللہ یتوفی الانفس حین موتھا الایۃ (الزمر : 42) حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نسلوں اور قوموں میں سے جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے جیسے اللہ کا ارشاد : الم یروا کم اھلکنا قبلھم من القرون (یٰسٓ: 31) کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا ہے۔ اور ان میں جن کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے جیسے اللہ کا ارشاد گرامی : ثم انشانا من بعدھم قرنا اخرین۔ (المومنون) پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا کردیا۔ پس ایک نسل کو مٹاتا ہے اور دوسری نسل کو ثابت رکھتا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اس سے مراد وہ آدمی ہے جو عرصہ دراز تک اللہ کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے پھر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور گمراہی پر ہی مر جاتا ہے، پس یہی ہے جس کو وہ مٹاتا ہے اور جو باقی رہتا ہے اس سے مراد وہ آدمی ہے جو طویل عرصہ تک اللہ کی نافرمانی پر ہی عمل کرتا ہے پھر تو بہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ گناہوں کے رجسٹر سے اسے مٹاتا ہے اور نیکیوں کے رجسٹر میں اسے باقی رکھتا ہے، ثعلبی اور ماوردی نے اسے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے۔ ایک قول کے مطابق : یمحوا اللہ ما یشآء سے مراد ان یا اور یثبت سے مراد آخرت ہے۔ قیس بن عباد نے رجب کے دسویں دن کہا : یہی وہ دن ہے جس میں اللہ جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ؛ جبکہ مجاہد سے مروی روایت گزر چکی ہے کہ یہ رمضان میں ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی سفید پتھر سے بنی ہوئی ایک لوح محفوظ ہے جس کی مسافت پانچ سو سال کی ہے، سیاہ یا قوت کی اس کی دو جلدیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر روز تین سو ستر مرتبہ اسے دیکھتا ہے، جس کی چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ حضرت ابو الدرداء نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب رات کی تین ساعتیں باقی ہوتی ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ” الذکر “ کو کھولتا ہے، اس کتاب کو دیکھتا ہے جس کو اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، تو یہ مٹانا اور ثابت رکھنا ان امور میں ہوتا ہے جن کے بارے میں قضا گزر چکی ہے، اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ قضا میں وہ بھی ہوتی ہے جو حتمی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے تو یہ ثابت ہے اور قضا کی ایک صورت ایسی ہے جو اسباب کے ذریعے وقوع پذیر ہوتی ہے یہ مٹنے والی ہے۔ واللہ اعلم۔ غزنوی نے کہا : میرے نزدیک یہ ہے کہ لوح میں بعض ملائکہ کے احاطہ کرلینے کی وجہ سے جو غیب سے نکل چکی ہو تو وہ تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے، کیونکہ مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے سارے علم کا احاطہ کرنا محال ہے اور اشیاء کی تقدیر میں جو اللہ کے علم میں ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ وعندہ ام الکتب یعنی وہ اصل جن میں آجال وغیرہ لکھی ہوئی ہیں۔ ایک قول یہ ہے : ام الکتاب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا : جس کا وہ خالق ہے اور جس کو اس نے پیدا کیا ہے وہ اس کے علم کے مطابق عمل پیرا ہوتا ہے سو اللہ نے اپنے علم کو فرمایا : ” تو کتاب بن جا، اور اللہ کے علم میں کوئی تبدیلی نہیں، اور آپ ہی سے مروی ہے کہ یہ الذکر ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر (الانبیاء : 105) اور ہم نے زبور میں الذکر کے بعد لکھ دیا ہے۔ یہ اس کے معنی کو پہلے کی طرف راجع کرتا ہے اور یہی حضرت کعب کے قول کا معنی ہے۔ حضرت کعب احبار نے فرمایا : ام الکتب اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق اور جن کا وہ خالق ہے کے بارے میں علم ہے۔
Top