Al-Qurtubi - Ibrahim : 45
وَّ سَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ تَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَ ضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ
وَّسَكَنْتُمْ : اور تم رہے تھے فِيْ : میں مَسٰكِنِ : گھر (جمع) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا تھا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں پر وَتَبَيَّنَ : اور ظاہر ہوگیا لَكُمْ : تم پر كَيْفَ : کیسا فَعَلْنَا : ہم نے (سلوک) کیا بِهِمْ : ان سے وَضَرَبْنَا : اور ہم نے بیان کیں لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں
اور جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے تم ان کے مکانوں میں رہتے تھے اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح (کا معاملہ) کیا تھا اور تمہارے (سمجھانے) کیلئے مثالیں بھی بیان کردی تھیں۔
آیت نمبر 45 تا 46 قولہ تعالیٰ : وسکنتم فی مسکن الذین ظلموا انفسھم وتبین لکم کیف فعلنا بھم وضربنا لکم الامثال یعنی قوم ثمود اور اس جیسی دیگر قوموں کے شہروں میں تم نے ان کے گھروں سے کیوں عبرت حاصل نہیں کی، حالانکہ تم پر واضح ہوچکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے تمہارے لیے قرآن میں طرح طرح کی مثالیں بھی بیان کردی تھیں۔ ابو عبد الرحمن سلمی نے ونبین لکم نون اور جزم کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس صورت میں صبغہ مستقبل کا ہے جب کہ معنی ماضی کا اور دوسری وجہ یہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کیف فعلنا بھم کے مناسب و مطابق ہوجائے جب کہ جماعت کی قراءت وتبین ہے اور یہ معنی اس میں اس کی مثل ہے، کیونکہ یہ بھی ان پر اللہ ہی کے واضح کرنے سے واضح ہوئی۔ قولہ تعالیٰ : وقد مکروا مکرھم حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور رسولوں کی تکذیب اور دشمنی جیسی چالبازیاں انہوں نے کیں، وعند اللہ مکرھم، وان کان مکرھم لتذول منہ الجبال، ان بمعنی ما ہے یعنی ان کا مکر ضعف اور کمزوری کی وجہ سے ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہاڑ اکھڑ جاتے۔ قرآن مجید میں پانچ مقامات پر ان بمعنی ما استعمال ہوا ہے۔ ایک اس مقام پر، دوسرا فان کنت فی شک مما انزلنا الیک (یونس : 94) تیسرا، لو اردنا ان نتخذ لھوا لا تخذنہ من لدنا، ان کنا (انبیاء :17) یعنی ما کنا۔ چوتھا، قل ان کان للرحمن ولد (الزخرف :81) پانچواں، ولقد مکنھم فیما ان مکنکم فیہ (الاحقاف : 26) جماعت نے ان کان نون کے ساتھ پڑھا ہے جب کہ عمرو بن علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابی نے وان کا د دال کے ساتھ پڑھا ہے اور عام لوگوں نے لتزول میں لام جحود ہونے کی وجہ سے اسے مکسور پڑھا اور نصب کی وجہ سے دوسری لام کو مفتوح پڑھا۔ اور ابن محیصن، ابن جریج اور کسائی نے لتزول لام ابتدائی ہونے کی وجہ سے پہلی لام کو مفتوح پڑھا اور دوسری کو مرفوع پڑھا ہے۔ اور ان کو مخففہ من مثقلہ بنایا ہے، اور اس قراءت کی صورت میں ان کے مکر کو بڑا سمجھنا مقصود ہے، یعنی ان کا فریب بہت بڑا تھا حتی کہ قریب تھا کہ اس سے پہاڑ اکھڑ جائیں۔ طبری نے کہا : مختار پہلی قراءت ہے، کیونکہ اگر پہاڑ زائل ہوجاتے تو وہ ثابت تو پھر نہ تھے۔ ابوبکر انباری نے کہا : اس حدیث میں مسلمانوں کے مصحف کے خلاف کوئی حجت نہیں جو ہمیں احمد بن حسین نے بیان کی ہے : حدثنا عثمان بن ابی شبیۃ حدثنا وکیع بن الجراح عن اسرائیل عن ابی اسحاق عن عبد الرحمن بن دانیل انہوں نے کہا میں نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کہتے ہوئے سنا ہے : جابر لوگوں میں سے ایک جابر نے کہا میں تب تک نہیں رکوں گا جب تک یہ معلوم نہیں کرلیتا کہ آسمان میں کون ہے ؟ تو اس نے گدھوں کے بچے پالے اور گوشت پکانے کا حکم دیا یہاں تک یہ وہ سخت اور مضبوط ہوجائے۔ پھر اس نے ایک ایسا تابوت بنانے کا حکم دیا جس میں دا آدمیوں کی گنجائش ہو اور اس کو لمبی لکڑیاں لگانے کا حکم دیا جس کے سروں پر سخت سرخ رنگ کا گوشت لگایا جائے۔ اور میخوں کے ذریعے گدھوں کی ٹانگوں کے ساتھ اسے لے کر اڑے۔ جب گدھوں نے گوشت کو دیکھا تو اس کی طلب میں تابوت کو اوپر اڑاتے گئے حتی کہ وہ وہاں تک پہنچ گئے جہاں اللہ نے چاہا۔ اس جابر نے اپنے دوست کو کہا : دروازہ کھول اور دیکھ تجھے کیا نظر آتا ہے ؟ اس نے کہا : میں پہاڑوں کو یوں دیکھ رہا ہوں کہ وہ مکھیاں ہیں، اس نے کہا : دروازہ بند کر۔ پھر وہ گدھ تابوت کو لے کر وہاں تک چڑھے جہاں تک اللہ نے چاہا کہ وہ چڑھیں۔ تو جابر نے اپنے دوست کو کہا : دروازہ کھول اور دیکھر تجھے کیا نظر آتا ہے۔ اس نے کہا : اب تو مجھے آسمان نظر آرہا ہے اور یہ ہم سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ اس نے کہا : لکڑی کو توڑ دے اس نے اسے توڑ دیا، گدھیں گر گئیں۔ جب تابوت زمین پر گرا تو بہت بلند اور سخت آواز سنی گئی قریب تھا کہ پہاڑ اپنی جگہوں سے ہٹ جاتے۔ راوی نے کہا : میں نے حضرت علی ؓ کو وان کان مکرھم لتزول پہلے لام کے فتحہ اور دوسرے لام کے ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہوئے بھی سنا ہے۔ ثعلبی نے اس خبر کو اپنے معنی کے ساتھ روایت کیا ہے اور جابر سے مراد نمرود تھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تھا۔ عکرمہ نے کہا : اس کے ساتھ تابوت میں ایک بغیر داڑھی کے لڑکا تھا، اس نے ایک کمان اور تیر اٹھایا ہوا تھا تو اس نے تیر پھینکا وہ خون کے ساتھ لت پت اس کے پاس واپس لوٹا۔ اس نے کہا : اے آسمان کے خدا ! میں نے تیرا کام تمام کردیا۔ عکرمہ نے کہا : آسمان کی مچھلی کے خون سے تیر خون آلود ہوا جس مچھلی نے اپنے آپ کو سمندر سے ہوا میں پھینکا اور ہوا میں معلق ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ایک پرندہ تھا جسے تیر لگا پھر نمرود نے اپنے ساتھی کو کہا کہ لکڑی توڑ دے اور گوشت کو نیچے گرا دے، تو گدھیں تابوت سمیت گر گئیں۔ پہاڑوں نے تابوت اور گدھوں کے گرنے کی آواز سنی تو گھبرا گئے۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ آسمان میں کوئی واقعہ پیش آگیا ہے اور قیامت قائم ہوگئی ہے، پس یہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وان کان مکرھم لتذول منہ الجبال ہے۔ قشیری نے کہا : یہ واقعہ پہاڑوں میں زندگی کی تخلیق کی تقدیر کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ مارودی نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے کہ نمرود بن کنعان نے کوفہ کے گردو نواح میں رس نامی بستی میں ایک محل بنایا اس نے اس کی لمبائی پانچ ہزار پچاس ذراع اور چوڑائی تین ہزار پچیس ذراع بنائی، اس سے گدھوں کے ساتھ وہ اوپر چڑھا، جب اسے معلوم ہوا کہ آسمان میں اس کے لیے کوئی راستہ نہیں تو اس نے اسے قلعہ بنالیا اور اسمیں گھروالوں اور بیٹوں کو جمع کیا تاکہ وہ اس میں ان کی حفاظت کرے، اللہ تعالیٰ نے اس کی عمارت اور محل کو بنیادوں سمیت اٹھایا، وہ محل ان پر گر پڑا اور وہ سارے ہلاک ہوگئے، وقد مکروا مکرھم کا یہی معنی ہے اور ان کے مکرو فریب کی وجہ سے جن پہاڑوں کا زوال مراد لیا گیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ زمین کے پہاڑ ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے مراد اسلام اور قرآن ہے، کیونکہ یہ اپنے ثبوت اور رسوخ میں پہاڑوں کی طرح ہیں۔ قشیری نے کہا : وعند اللہ مکرھم سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے فریب کو جانتا ہے۔ پس وہ انہیں اس کی سزا دے گا، یا اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے مکر کی جزا ہے یعنی عند اللہ جزاء مکرھم تو جزا جو کہ مضاف ہے اسے حذف کردیا گیا۔ وان کان مکرھم لتزول منہ الجبال، لتزول کی پہلی لام کے کسرہ کے ساتھ، یعنی ان کا مکر کوئی ایسا مکر نہیں کہ جس کا اللہ کے ہاں کوئی اثر ہو اور جس سے کوئی خطرہ ہو، اور پہاڑ نبی کریم ﷺ کے امر کی ضرب المثل ہے۔ اور ایک قول یہ ہے : وان کان مکرھم، فی تقدیریھم، لتذول منہ الجبال یعنی اگرچہ ان کا مکر ان کے اندازے میں ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ اکھڑ جاتے اور اسلام کو باطل قرار دینے میں موثر تھا۔ اور اس کو لتزول منہ الجبال پہلی لام کے فتحہ اور دوسری کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی وہ بہت بڑا مکر تھا اس سے پہاڑ اکھڑ جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت فرمائی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ومکروا مکرا کبارا۔ (نوح) کی طرح ہے اور پہاڑ نہیں اکھڑتے یہ کسی چیز کے بڑا ہونے سے عبارت ہے، اور ایسا ہوتا رہتا ہے۔
Top