Al-Qurtubi - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو (فوائد دنیاوی سے) متمتع کیا ہے تم ان کی طرف (رغبت سے) آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آنا۔
آیت نمبر 88 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : لا تمدن عینیک اس کا معنی ہے : تحقیق میں نے اپ کو غنی کردیا ہے قرآن کریم کے ساتھ ہر اس شی سے جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، کیونکہ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو قرآن کے ساتھ مستغنی نہیں ہوا یعنی وہ ہم میں سے نہیں ہے جس نے یہ خیال کیا کہ قرآن کریم میں سے جو کچھ اس کے پاس ہے اس کے ساتھ وہ غنی نہیں ہے یہاں تک کہ اس کی نظر دنیوی زیب و آرائش کی طرف اٹھتی رہی حالانکہ اس کے پاس معارف مولیٰ موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے : یہ اس بارے میں کہ بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہودیوں کے ساتھ قافلے ایک دن میں بصریٰ اور اذرعات سے آئے، اور ان کے پاس گندم، خوشبو، جواہرات اور سامان بحر موجود تھا، تو مسلمانوں نے کہا : اگر یہ اموال ہمارے پاس ہوتے تو یقیناً ہم ان کے ساتھ تقویت پاتے اور ہم انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ولقد اتینک سبعا من المثانی یعنی یہ تمہارے لئے ان سات قافلوں سے بہتر ہے، پس تم ان کی طرف اپنی آنکھیں اٹھا کر بھی نہ دیکھئے، اور اس طرف ابن عینیہ گئے ہیں، اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد بھی ذکر کیا ہے : لیس منا من لم یتغن بالقران۔ یعنی وہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کے ساتھ مستغنی نہیں ہوا۔ اور یہ معنی کتاب کے شروع میں گزر چکا ہے۔ اور ازواجا منھم کا معنی ہے جو مال و نعم میں ان کی مثل ہیں، یعنی اغنیاء اور مالدار جو غنی اور مال میں بعض بعض کی مثال ہوتے ہیں، پس وہ ازواج ہی ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: یہ آیت دائمی طور پر سامان دنیا سے آراستہ اور مزین ہونے سے زجرو توبیخ کرنے اور بندے کو اپنے مولیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اور اسی کی مثل یہ آیت ہے ولا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم زھرۃ الحیواۃ الدنیا لنفتنھم فیہ الآیہ (اور آپ مشتاق نگاہوں سے نہ دیکھئے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے کافروں کے چند گروہوں کو یہ محض زیب وزینت ہیں دنیوی زندگی کی اور (انہیں اس لئے دی ہیں تاکہ ہم آزمائیں انہیں) حالانکہ اس طرح نہیں، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : حبب الی من دنیاکم النساء والطیب وجعلت قرۃ عینی فی الصلواۃ (تمہاری دنیا سے میرے لئے عورتوں اور خوشبو کو پسندیدہ بنایا گیا ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) اور آپ ﷺ عورتوں کے ساتھ مشغول ہوتے تھے انسانی فطرت کے اعتبار سے اور خلقت انسانیہ کی تزیین اور آراستگی کے لئے، اور خوشبو پر دوام اختیار فرماتے تھے، مگر آپ ﷺ کی آنکھ فقط اپنے مولیٰ کی مناجات کے وقت نماز میں ٹھنڈی ہوتی تھی، اور آپ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مناجات اور عبادت کرنا کسی اور سے زیادہ موزوں، لائق اور اولیٰ ہے۔ اور حضور نبی رحمت حضرت محمد ﷺ کے دین میں رہبانیت نہیں ہے اور نہ ہی کلی طور پر دنیا سے قطع تعلقی کرکے ہمہ وقت اعمال صالحہ اور عبادت و ریاضت میں متوجہ ہونا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں تھا، بیشک اللہ تعالیٰ نے دین کے ستاھ تمسک اور میلان، فیاضی جو مشقت سے خالی ہو اور آدمی پر خفیف اور آسان ہو کر مشروع قرار دیا ہے۔ وہ آدمیت سے اس کی شہوات کو لیتا ہے اور قلب سلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ قراء اور فضلاء میں سے مخلصین نے لذات سے رکنا اور زمین و آسمان کے پروردگار کے لئے خلوص اختیار کرنا آج اولیٰ اور بہتر دیکھا ہے، کیونکہ دنیا پر حرام غالب آچکا ہے، اور بندہ اپنی معاش میں ایسے لوگوں کے ساتھ اختلاط پر مجبور ہے جن کے ساتھ اس کا اختلاط اور ملنا جائز نہیں اور آدمی ان کے ساتھ کاروبار کرنے پر مجبور ہے جن کا کاروبار حرام ہے، پس قرأت کرنا افضل ہے، اور دنیا سے فرار اختیار کرنا بندے کے لئے زیادہ صحیح اور درست ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مسلمان کا بہترین مال بکریوں کا ریوڑ ہوگا وہ ان کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا رہے گا اور اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے جائے گا “۔ قولہ تعالیٰ : ولا تحزن علیھم یعنی آپ مشرکوں پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اگر وہ ایمان نہیں لائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے آپ اس (مال) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں جس سے انہیں دنیا میں لطف اندوز کیا گیا ہے بیشک آپ کیلئے آخرت میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ ان پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اگر وہ عذاب کی طرف جا رہے ہیں بیشک وہ اہل عذاب ہی ہیں۔ واخفض جناحک للمؤمنین یعنی آپ اس کے لئے اپنا پہلو نرم کیجئے جو آپ کے ساتھ ایمان لایا ہے اور آپ ان کے لیے تواضع اختیار کیجئے۔ اور اس کا اصل معنی ہے کہ پرندہ جب اپنے بچے کو اپنے ساتھ ملا لے پھر اپنے پر پھیلائے اور انہیں بچوں پر بچھا دے، پس کسی بھی انسان کے لئے اپنے پیروکاروں کو اپنے قریب لانے کے لئے یہی وصف بنایا گیا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : فلان خافض الجناح، یعنی فلاں بڑے وقار اور سکون میں ہے۔ اور ابن آدم کے دو پر اس کے دو پہلو ہیں، اور اسی سے یہ ہے واضمم یدک الیٰ جناحک (طہ : 22) اور (حکم ملا) دبالو اپنے ہاتھ اپنے بازو کے نیچے) ۔ اور پرندے کے پر اس کے ہاتھ ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : وحسبک فتیۃ لزعیم قوم یمد علی أخی سقم جناحا یعنی تواضع اور نرمی کرتے ہوئے۔
Top