Al-Qurtubi - An-Nahl : 11
یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
يُنْۢبِتُ : وہ اگاتا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے بِهِ : اس سے الزَّرْعَ : کھیتی وَالزَّيْتُوْنَ : اور زیتون وَالنَّخِيْلَ : اور کھجور وَالْاَعْنَابَ : اور انگور وَ : اور مِنْ : سے۔ کے كُلِّ : ہر الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرتے ہیں
اسی پانی سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور (اور بیشمار درخت) اگاتا ہے اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے) غور کرنے والوں کے لئے اس میں (قدرت خدا کی بڑی) نشانی ہے۔
آیت نمبر 11 قولہ تعالیٰ : ینبت لکم بہ الزرع والزیتون والنخیل والاعناب ومن کل الثمرت ابوبکر نے حضرت عاصم سے تعظیم کی بنا پر تبتنون کے ساتھ پڑھا ہے۔ عام قرأت یا کے ساتھ ہے۔ معنی یہ ہے ینبت اللہ لکم (یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اگاتا ہے) ۔ کہا جاتا ہے : نبتت الأرض وأبنتت یہ دونوں ہم معنی ہیں (زمین نے اگایا) ، اور بنت البقل و أنبت یہ دونوں ایک معنی میں ہیں (یعنی سبزی اگی) ۔ اور فراء نے شعر کہا ہے : رأیت ذوی الحاجات حول بیوتھم قطینا بھا حتی اذا أنبت البقل اس میں أبنت بمعنی نبت ہے۔ اور أبنتہ اللہ فھو منبوت (اللہ تعالیٰ نے اسے اگایا پس وہ اگ گئی) ، تو یہ خلاف قیاس ہے۔ اور أنبت الغلام یعنی بچے کے زیر ناف بال نکل آئے۔ اور نبت الشجر غرسہ (اس کے درخت لگانے نے درخت کو اگایا) ۔ کہا جاتا ہے : نبت أجلک بین عینیک (تو اپنی موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ) ۔ اور نبت الصبی تنبیتا یعنی تو نے بچے کی پرورش اور تربیت کی۔ اور المنبت سے مراد سبزہ اگنے کی جگہ ہے۔ کہا جاتا ہے : ما أحسن نابتۃ بنی فلان یعنی اسی پر ان کے اموال اور ان کی اولاد بڑھ رہی ہے۔ اور نبتت لھم نابتۃ جب ان کے چھوٹے بچے جوان ہوجائیں۔ اور إن بنی فلان لنابتۃ شر (بےشک بنی فلاں شر پھیلا رہے ہیں) اور النوابت من الأحداث الأغمار (نوجوان بچے ناتجربہ کار ہیں) ۔ اور النبیت یہ یمن کا ایک محلہ ہے۔ اور الینبوت، خشخاش کا پودا۔ یہ سب جوہری سے منقول ہے۔ والزیتون یہ زیتونۃ کی جمع ہے۔ اور نفس درخت کو بھی زیتونۃ کہا جاتا ہے اور پھل کو بھی زیتونۃ کہا جاتا ہے۔ پھلوں کی زکوٰۃ کا حکم سورة الانعام میں گزر چکا ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ان فی ذلک بیشک اس اترنے اور اگانے میں لایۃ نشانی اور دلالت ہے۔ لقوم یتفکرون اس قوم کے لئے جو غور و فکر کرتی ہے۔
Top