Aasan Quran - Al-Israa : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارے بات یہی ہے کہ اس کو کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔
آیت نمبر 40 اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا کہ اس پر پیدا کرنا کتنا آسان ہے، یعنی جب ہم ارادہ کریں گے کہ اسے ہم دوبارہ زندہ کریں جو ایک بار مرچکا ہے تو وہ ہم پر مشکل نہیں ہوگا اور نہ انہیں زندہ کرنے میں کوئی دقت ہوگی، اور علاوہ ازیں بھی جو کام ہم کرتے ہیں ان میں کوئی مشکل اور دقت نہیں، کیونکہ ہم اس کو کہتے ہیں تو ہوجا وہ ہوجاتا ہے۔ ابن عامر اور کسائی کی قرأت فیکون ہے اور یہ ان نقول پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ وہ کن کا جواب ہونے کی بنا پر منصوب ہو۔ اور باقیوں نے ا سے مرفوع پڑھا ہے اس لئے کہ معنی یہ ہے فھو یکون (پس وہ ہوجاتا ہے) اور اس بارے میں مکمل بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اور ابن الانباری نے کہا ہے : لفظ شے کو ہر اس پر واقع کیا گیا ہے جو اپنی خلقت سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس معلوم ہو کیونکہ یہ اس کے قائم مقام ہے جو پالی گئی اور اس کا مشاہدہ کرلیا گیا۔ اور آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ قرآن کریم غیر مخلوق ہے، کیونکہ اگر اس کا قول : کب مخلوق ہو تو پھر وہ ایک دوسرے قول کا محتاج ہے، اور دوسرا تیسرے کا محتاج ہوگا اور پھر اسی طرح تسلسل جاری رہے گا اور یہ محال ہے۔ اور اس پر دلیل موجود ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جملہ واقعات و حوادث کا ارادہ فرماتا ہے چاہے ان میں خیر ہو یا شر، وہ نفع بخش ہوں یا ضرر رساں اور اس پر دلیل یہ ہے کہ جو کوئی اپنی سلطنت میں ایسی چیز دیکھتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور وہ اس کا ارادہ بھی نہیں کرتا تو اس کی دو میں سے ایک وجہ ہے : یا تو وہ اس کے جاہل اور ناواقف ہونے کی وجہ سے ہے وہ اسے جانتا ہی نہیں، اور یا پھر اس وجہ سے کہ وہ مغلوب ہے اور اس کی طاقت نہیں رکھتا، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وصف میں ان میں سے کوئی شی بھی جائز نہیں ہے، تو پھر اس پر دلیل قائم ہوگئی کہ وہی بندوں کی کمائی کا خالق ہے، اور یہ محال ہے کہ وہ کوئی کام کرنے والا ہو اور اس کا ارادہ فرمانے والا نہ ہو، کیونکہ ہمارے اکثر افعال ہمارے مقصود اور ارادہ کے خلاف حاصل ہوتے ہیں، پس اگر حق سبحانہ و تعالیٰ بھی ارادہ کرنے والا نہ ہو تو یقینا اس کے بھی وہ افعال بغیر قصد و ارادہ کے حاصل ہوں) اور یہ طبیعیین کا قول ہے، اور موحدوں کا اس کے خلاف اور اس کے فاسد ہونے پر اجماع ہے۔
Top