Al-Qurtubi - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرو گے کہ تم (دنیا میں) بہت کم (مدت) رہے۔
آیت نمبر 52 قولہ تعالیٰ : یوم یدعوکم فتستجیبون بحمدہٖ ، الدعا سے مراد میدان حشر کی طرف ایسے کلام کے ساتھ بلانا اور ندا دینا ہے جسے تمام سنے گی، اس میں اللہ تعالیٰ انہیں (قبروں سے) نکلنے کے بارے ندا دے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ایسی چیخ ہے جسے وہ سب سنیں گے، پس وہی ان کو قیامت کی زمین میں جمع ہونے کی دعوت ہوگی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بیشک قیامت کے دن تمہیں اپنے ناموں اور اپنے باپوں کے ناموں سے بلایا جائے گا اس لئے اپنے نام خوبصورت رکھو۔ “ فتستجیبون بحمدہٖ یعنی اس کے حمد کے مستحق ہونے کے سبب (تم اس کی حمد کرتے ہوئے جواب دو گے) اور ابوسہل نے کہا ہے : مراد الحمد للہ کہنا ہے۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : فانی بحمد اللہ لاثوب فاجر لبست ولا من غدرۃ أتقنع اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد ہے : تم جواب دوگے اس حل میں کہ تم اپنی زبانوں سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کررہے ہو گے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا ہے : کفار اپنی قبروں سے نکلیں گے اور وہ کہہ رہے ہوں گے سبحانک وبحمدک، لیکن اس کا اعتراف انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : بحمدہٖ سے مراد بامرہ (یعنی اس کے حکم سے) ہے، یعنی تم اقرار کر گے کہ وہی تمہارا خالق ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اس کی معرفت اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اس کی قدرت کے ساتھ۔ اور یہ قول بھی ہے : اس کے تمہیں بلانے کے ساتھ۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور یہی صحیح ہے، کیونکہ صور میں پھونکنا ان کے قبروں سے نکلنے کا سبب ہوگا اور بالحقیقت یہ حق کی دعوت و پکار کے ساتھ مخلوق کا باہر نکلنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یوم یدعو کم فتستجیبون بحمدہٖ پس وہ یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے سبحانک اللھم وبحمدک۔ فرمایا : پس قیامت کا دن وہ دن ہے جس کا آغاز بھی حمد سے ہوگا اور اسی کے ساتھ اختتام ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یوم یدعوکم فتستجیبون بحمدہٖ اور اس کے آخر کے بارے میں فرمایا : وقضی بینھم بالحق وقیل الحمدللہ رب العٰلمین۔ (الزمر) (اور فیصلہ کردیا گیا ہوگا ان کے درمیان حق کے ساتھ اور کہا جائے گا سب تعریفیں اللہ کے لئے جو رب العالمین ہے۔ ) وتظنون ان لبثتم الاقلیلاً یعنی دو نفخوں کے درمیان (تم نہیں ٹھہرے مگر ٹھوڑا عرصہ) اور یہ اس لئے ہوگا کہ دو نفخوں کے درمیان ان سے عذاب روک دیا جائے گا جنہیں پہلے عذاب دیا جارہا تھا، اور وہ عرصہ چالیس برس ہوگا وہ سوجائیں گے اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : من بعثنا من مرقدنا (یٰسین :52) (کس نے ہمیں اٹھاکھڑا کیا ہے ہماری خواب گاہ سے ؟ ) اور یہ کفار کے لئے خاص ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : قیامت کے دن سے پہلے کافروں کو ہلکی سی نیند آئے گی وہ اس میں نیند کا ذائقہ ہی پائیں گے ؛ تو اچانک اہل قبور کے لئے چیخ ماری جائے گی تو وہ خوفزدہ، گھبرائے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ ان کی نگاہوں میں حقیر اور قلیل ہوجائے گی جس وقت وہ قیامت کے دن کو دیکھیں گے۔ حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ ان کی نگاہوں میں حقیر اور قلیل ہوجائے گی جس وقت وہ قیامت کے دن کو دیکھیں گے۔ حسن نے کہا : و تظنون ان لبثتم الاقلیلا آخرت میں اپنے طویل ٹھہرنے کی وجہ سے تم گمان کروگے کہ دنیا میں تم نہیں ٹھہرے مگر تھوڑا عرصہ۔
Top