Al-Qurtubi - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کردیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا
آیت نمبر 5 قولہ تعالیٰ : فاذا جآء وعداولٰھما یعنی جب ان کی فساد کی دوباریوں میں پہلی بار آگئی۔ بعثنا علیکم عبادًا لنا اولی باسٍ شدید وہ اہل بابل تھے، اور ان پر پہلی بار میں بخت نصر حاکم تھا جس وقت انہوں نے حضرت ارمیاء کو جھٹلایا، انہیں زخمی کردیا اور انہیں قید کرلیا : یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے۔ اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : ان پر جالوت کو بھیجا اور اس نے انہیں قید کرلیا : یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے۔ اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : ان پر جالوت کو بھیجا اور اس نے انہیں قتل کردیا پس وہ اس کی قوم بڑے کرخت اور سخت تھے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : فارس سے ایک لشکر ان کے پاس آیا وہ ان کی خبروں کی جاسوسی کرنے لگے اور ان کے ساتھ بخت نصر بھی تھا پس اس نے اپنے ساتھیوں کے درمیان سے ان کی باتیں یاد کرلیں، پھر وہ فارس کی طرف لوٹ گئے اور جنگ نہ ہوئی، اور یہ پہلی بار میں ہوا، پس ان کی طرف سے آبادیوں میں گھسنا اور گھومنا پھرنا ہوا قتال اور جنگ نہ ہوئی ) ، اسے قشیری ابونصر نے ذکر کیا ہے۔ اور مہدوی نے حضرت مجاہد (رح) سے ذکر کیا ہے کہ ان کے پاس بخت نصر آیا اور بنی اسرائیل نے اسے شکست دی، پھر وہ دوسری بار ان کے پاس آیا اس نے انہیں قتل کیا اور انہیں مکمل طور پر تباہ وبرباد کردیا۔ اور ابن ابی نجیح نے اسے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے : اسے نحاس نے ذکر کیا ہے۔ اور محمد بن اسحاق نے ایک طویل خبر میں کہا ہے : بیشک شکست کھانے والا سخاریب بادشاہ بابل تھا، وہ آیا اور اس کے ساتھ چھ لاکھ جھنڈے تھے اور پر جھنڈے کے نیچے ایک لاکھ شہسوار تھے پس وہ بیت المقدس کے گرد آکر اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شکست سے دوچار کیا اور سخاریب اور اس کے کاتبوں میں سے پانچ آدمیوں کے سوا سبھی کو مار دیا، اور بنی اسرائیل کے بادشاہ جس کا نام صدیقہ تھا اسے سخاریب کی تلاش میں بھیجا پس وہ اپنے پانچوں ساتھیوں سمیت پکڑا گیا، ان میں سے ایک بحت نصر تھا، پس ان کی گردنوں میں طوق ڈالے گئے اور انہیں ستر دن تک بیت المقدس اور ایلیاء کے اردگرد گھمایا اور چکر لگوایا جاتا رہا۔ اور وہ ان میں سے ہر آدمی کو ہر روز جو کی دورٹیاں دیتا تھا، پھر اس نے انہیں چھوڑ دیا اور وہ بابل کی طرف واپس لوٹ گئے، پھر سات برس بعد سخاریب فوت ہوگیا، اور اس نے بخت نصر کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا اور نبی اسرائیل میں نئے واقعات اور بدعات بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے محارم کو حلال قرار دیا تھا اور اپنے نبی حضرت شعیا (علیہ السلام) کو قتل کردیا تھا، پس بخت نصر وہاں آیا اور وہ اپنے لشکر سمیت بیت المقدس میں داخل ہوگیا اور بنی اسرائیل کا قتل عام کیا یہاں تک کہ انہیں فناہ اور بالکل تباہ کردیا۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت مسعود ؓ نے کہا ہے کہ پہلا فساد حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قتل ہے۔ اور ابن اسحاق نے کہا : پہلی بار میں ان کا فساد اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیا (علیہ السلام) کو درخت میں قتل کرنا ہے۔ وہ اس طرح کہ صدیقہ قوت ہوگیا تو ان کے بادشاہ نے ان کا معاملہ (کام) خراب کردیا اور وہ بادشاہ پر غالب آگئے اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اور اپنے نبی (علیہ السلام) کی بات بھی نہ سنتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا : اٹھو اپنی قوم میں جاؤ اور اپنی زبان میں انہیں پیغام پہنچاؤ۔ پس جب وہ اس کے بیان سے فارغ ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھی تو وہ لوگ آپ پر دوڑ کر آگئے تاکہ وہ آپ کو قتل کردیں پس آپ بھاگ پڑے اور آپ کے لئے ایک درخت پھٹ گیا (اس میں شگاف ہوگیا) اور آپ اس میں داخل ہوگئے، اور شیطان نے آپ کو پالیا پس اس نے آپ کے کپڑے کا پلو پکڑلیا اور انہیں وہ دکھا دیا، تو انہوں نے اس درخت کے درمیان میں آری رکھ دی اور اسے چیر ڈالا یہاں تک کہ انہوں نے درخت کو اور اس کے وسط میں آپ کو بھی کاٹ ڈالا۔ اور ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے انہیں یہ خبر دی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا وصال اپنی طبعی موت سے ہوا، انہیں قتل نہیں کیا گیا اور جنہیں قتل کیا گیا وہ حضرت شعیا (علیہ السلام) تھے۔ اور حضرت سعید بن جبیر نے قول باری تعالیٰ : بعثنا علیکم عباد لنا اولی باسٍ فجاسوا خلٰل الدیار میں کہا ہے : وہ موصل کے اہل نینوی میں سے سخاریب بادشاہ بابل تھا۔ اور یہ اس کے خلاف ہے جو ابن اسحاق نے کہا ہے۔ فاللہ اعلم اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک وہ عمالقہ تھے اور وہ کافر تھے، یہ حسن نے کہا ہے۔ اور جاسوا کا معنی ہے : انہوں نے فساد برپا کیا اور قتال کیا اور اسی طرح حاسوام ھاسوا اور داسوا بھی ہیں : یہ ابن عزیز نے کہا ہے، اور یہی قتبی کا قول ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے اسے حاسواحا مہملہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابوزید نے کہا ہے : الحوس، الجوس، العوس اور الھوس ان تمام کا معنی رات کے وقت گھومنا، چکر لگانا ہے۔ اور جوہری نے کہا ہے : الجوس تیرے قول جاسوا خلال الدیار کا مصدر ہے یعنی وہ آبادی میں گھس گئے اور اسے تلاش کیا جو کچھ اس میں تھا جیسا کہ ایک آدمی خبریں تلاش کرتا ہے اور اسی طرح لفظ اجتیاس بھی ہے۔ اور الجوسان (واؤ متحرک کے ساتھ) رات کا طوفان یا تباہ کن موت ہوتی ہے اور یہ ابوعبیدہ کا قول ہے۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : وہ گھروں کے درمیان گھومتے رہے اور انہیں تلاش کرنے لگے اور شدت اور سختی کے ساتھ قتل کرنے لگے، پس انہوں نے اہل لغت کے قول کے درمیان تطبیق کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : وہ چلے اور آبادی اور گھروں کے درمیان گھومنے لگے۔ اور فراء نے کہا ہے : انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں میں قتل کیا ہے۔ اور حضرت حسان کا یہ شعر بھی نقل کیا : ومنا الذی لاقی بسیف محمد فج اس بہ الأعداء عرض العساکر اور قطرب نے کہا ہے : وہ اترے۔ شاعر نے کہا ہے : فجسنا دیارھم عنوۃً وأبنا بسادتھم موثقینا وکان وعدًا مفعولاً یعنی یہ وعدہ اس طرح پورا ہونے والا ہے جس کا خلاف ہر گزنہ ہوگا۔
Top