Al-Qurtubi - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
آیت نمبر 4 قولہ تعالیٰ : وقضینا الیٰ بنی اسرآء یل فی الکتٰب حضرت سعید بن جبیر اور ابو العالیہ نے لفظ جمع کے ساتھ فی الکتب پڑھا ہے۔ اور کبھی لفظ واحد ہوتا ہے اور اس کا معنی جمع ہوتا ہے، پس دونوں قرآتیں ایک ہی معنی میں ہوں گی۔ اور قضینآ کا معنی اعلمنا اور أخبرنا (ہم نے آگاہ کیا، اور ہم نے خبردی) ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : معنی حکمنا ہے یعنی ہم نے فیصلہ کیا۔ اور قضا کا اصل معنی کسی شے کا فیصلہ کرنا اور اس سے فارغ ہونا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : قضینا بمعنی أوحینا (ہم نے وحی کی) ہے : اسی لئے فرمایا : الیٰ بنی اسرآء یل اور حضرت قتادہ کے قول کے مطابق الی بمعنی علی ہے : یعنی قضینا علیھم وحکمنا (ہم نے ان پر وحی کی اور ہم نے فیصلہ کیا) اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہ کہا ہے۔ اور الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ لتفسدن حضرت ابن عباس ؓ نے لتفسدن اور عیسیٰ ثقفی نے لتفسدن پڑھا ہے۔ اور دونوں قرأتوں میں معنی قریب قریب ہے، کیونکہ جب انہوں نے فساد برپا کیا تو وہ فاسد ہوگئے، اور یہاں فساد سے مراد تورات کے احکام کی مخالف کرنا ہے۔ فی الارض اس سے مراد شام، بیت المقدس اور اس کے آس پاس کی زمین ہے۔ مرتین ولتعلن۔ لتفسدن اور لتعلن میں لام لام قسم مضمر ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ علوا کبیرًا اس سے مراد تکبر، بغاوت، سرکشی، رعونت اور عداوت ودشمنی ہے۔
Top