Al-Qurtubi - Maryam : 4
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں وَهَنَ : کمزور ہوگئی الْعَظْمُ : ہڈیاں مِنِّيْ : میری وَاشْتَعَلَ : اور شعلہ مارنے لگا الرَّاْسُ : سر شَيْبًا : سفید بال وَّ : اور لَمْ اَكُنْ : میں نہیں رہا بِدُعَآئِكَ : تجھ سے مانگ کر رَبِّ : اے میرے رب شَقِيًّا : محروم
(اور) کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں اور سر (ہے کہ بڑھاپے کی وجہ) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال رب انی و ھن العظم منی اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال رب انی وھن بھی پڑھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کمزور ہونا۔ کہا جاتا ہے : وھن یھن وھنا فھوداھن۔ کمزور ہونا۔ ابو زید نے کہا : وھن یھن او و ھن یومن بھی کہا جاتا ہے۔ العظم کا ذکر کیا کیونکہ یہ بدن کا عمود ہے اس کے ساتھ جسم کا قوام ہے۔ یہ اس کی بنا (ڈھانچہ) کی اصل ہے جب ہڈیاں کمزور ہوتی ہے تو جسم کی تمام تر قوتیں کمزور ہوجاتی ہے کیونکہ جسم میں ہڈی ہی سخت اور مضبوط ہوتی ہے جب ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں تو دوسرا جسم بدرجہ اولیٰ کمزور ہوجاتا ہے۔ عظم واحد ذکر فرمایا کیونکہ واحد جنسیت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ قصد فرمایا کہ یہ وہ جنس ہے جو عمود اور قوام کا باعث ہے اور جس جس سے مرکب ہوتا ہے اس میں سخت ترین یہ ہے اس کو بھی کمزوری لاحق ہوچکی ہے۔ اگر جمع ذکری کی جاتی تو دوسرے مفہوم کا ارادہ ہوتا اور وہ یہ کہ اس سے بعض ہڈیاں کمزور نہیں ہوئیں لیکن اکثر کمزور ہوئی ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واشتعل الراس شیبا۔ ابو عمرو نے سین کو شین میں ادغام کیا ہے۔ یہ عرب کا کلام میں خوبصورت ترین استعارہ ہے۔ الاشتعال کا معنی ہے آگ کی شعاع بکھرنا، اس کے ساتھ سر میں بڑھاپے کے پھیلنے کو تشبیہ دی گئی ہے، یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے کہا : میں کمزور اور بوڑھا ہوچکا ہوں۔ اشتعال کو بالوں کے پیداہ ہونے کی جگہ کی طرف منسوب کیا اور وہ سر ہے۔ راس (سر) کو مضاف نہیں کیا کیونکہ مخاطب کو علم ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا سر مراد ہے۔ شبیاً اس کی نصب میں دو وجود ہیں۔ (ا) یہ مصدر ہے کیونکہ اشتعل کا معنی ہے شاب۔ یہ اخفش کا قول ہے اور زجاج نے کہا : یہ بد تمیز کی بنا پر منصوب ہے۔ نحاس نے کہا : احفش کا قول اولیٰ ہے کیونکہ وہ فعل سے مشتق ہے پس مصدر بنانا اولیٰ ہے۔ الشیب کا معنی ہے سفید اور سیاہ بالوں کا ملنا۔ مسئلہ نمبر 3: ہمارے علماء نے فرمایا : انسان کے لیے مستجب ہے کہ اپنی دعا میں ان انعامات کو یاد کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر کیے ہیں اور ایسی چیزوں کا ذکر کرے جو خضوع کے مناسب ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و ھن العظم من خضوع کا اظہار ہے اور ولم اکن بدعآ ئک رب شقیا۔ دعا قبول کرنے میں فضل کرنے کی عادت کا اظہار ہے یعنی تجھ سے دعا مانگنے میں کبھی شقی نہیں ہوا، یعنی جب بھی میں نے تجھ سے دعا مانگی تو میں دعا میں محروم نہیں رہا، یعنی تو نے مجھے دعا کی قبولیت کا عادی بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے : شقی بکذا یعنی اس میں تھک گیا اور مقصود حاصل نہ ہوا۔ بعض علماء سے مروی ہے کہ محتاج نے اس سے سوال کیا اور کہا : میں وہ ہوں تو نے فلاں وقت میں اس سے احسان کیا تو اس نے کہا : خوش آمدید اسے جو ہمارے ذریعے ہم تک پہنچا اور پھر اس کی حاجت پوری کردی۔
Top