Al-Qurtubi - Maryam : 57
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا
وَّرَفَعْنٰهُ : اور ہم نے اسے اٹھا لیا مَكَانًا : ایک مقام عَلِيًّا : بلند
اور ہم نے انکو اونچی جگہ اٹھا لیا تھا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ورفعنہ مکانا علیا۔ حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو سعید وغیرہما نے کہا (1): مکانا علیا سے مراد چوتھا آسما چھٹا آسمان ہے (2) یہ مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : بخاری میں شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے مروی ہے فرمایا میں نے حضرت انس کو یہ فرماتے ہوئے سنا : وہ رات جس میں نبی پاک ﷺ کو کعبہ کی مسجد سے سیر کرائی گئی۔ اس حدیث میں ہے ” ہر آسمان میں انبیاء تھے۔ “ آپ نے نام بیان کیے ان میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا دوسرے آسمان میں ہونے کا ذکر کیا۔ یہ وہم ہے صحیح یہ ہے کہ چوتھے آسمان پر تھے۔ اسی طرح ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے : یہ مسلم نے صحیح میں ذکر کیا ہے۔ حضرت مالک بن صعصعہ نے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جب مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو میں ادریس (علیہ السلام) کے پاس چوتھے آسمان میں آیا “ (1) ۔ یہ بھی مسلم نے نقل کیا ہے حضرت ادریس (علیہ السلام) کو بلند کرنے کا سبب وہ ہے جو حضرت ابن عباس اور کعب وغیرہ نے کہا ہے : ایک دن وہ کسی کام کے لیے چلے تو انہیں سورج کی گرمی لگی تو انہوں نے کہا : یا رب ! میں ایک دن چلا ہوں۔ (تو یہ حالت ہے) جو ایک دن میں پانچ سو سال اس کو اٹھائے گا اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ اللہ اس سے اس کا بوجھ ہلکا کر دے یعنی سورج کے فلک پر متعین فرشتہ۔ حضرت ادریس نے کہا : اے الللہ ! اس سے اس کا بوجھ ہلکا کر دے اور اس سے اس کی گرمی اٹھا لے۔ جب فرشتے نے صبح کی تو اس نے سورج کی خفت اور ایسا سایہ پایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔ اس فرشتہ نے عرض کی : یا رب ! تو مجھے سورج کے اٹھانے کے لیے پیدا کیا تھا پھر یہ کیا فیصلہ فرمایا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے ادریس نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں تجھ سے اس کے بوجھ اور اس کی گرمی میں تخفیف کر دوں تو میں نے اس کی دعا قبول کی ہے۔ اس فرشتے نے عرض کی : یا رب ! مجھے اور اسے جمع کر دے، میرے اور اس کے درمیان دوستی بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو اجازت دی حتیٰ کہ وہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا اور کہا : مجھے خبر دی گئی ہے کہ تو ملائکہ میں سے معزز فرشتہ ہے اور مللک الموت کے ہاں تیری دوسروں کی نسبت سے زیادہ عزت ہے، تم میری اس کے پاس سفارش کرو تاکہ وہ میری عمر میں ڈھیل دے دے تاکہ اللہ کا شکر اور عبادت زیادہ کروں۔ فرشتے نے کہا : اللہ تعالیٰ کسی نفس کو ڈھیل نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے۔ حضرت ادریس کو اپنے پَر کے اوپر اٹھایا اور آسمان کی طرف بلند کیا اور انہیں سورج کے مطلع کے پاس اتارا پھر فرشتے نے ملک الموت نے کہا : یہ میرے بس میں نہیں اگر تو پسند کرتا ہے کہ وہ جان لے کہ وہ کب فوت ہوگا تو میں اسے یہ بتا دیتا ہوں۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے یہی بتا دو ۔ پھر ملک الموت نے اپنے دیوان میں دیکھا تو فرمایا : تو مجھ سے ایسے انسان کے بارے سوال کر رہا ہے میں اسے نہیں دیکھتا کہ وہ کبھی فوت ہوگا فرشتے نے کہا : وہ کیسے ؟ ملک الموت نے کہا : میں نے اس کی موت کو نہیں پایا مگر سورج کے طلوع ہونے کے پاس۔ فرمایا : میں تیرے پاس آیا ہوں جبکہ ادریس کو میں اسی جگہ چھوڑ آیا ہوں۔ ملک الموت نے کہا : تم جائو میں تجھے نہیں دیکھتا مگر یہ کہ تو اسے فوت شدہ پائے گا۔ اللہ کی قسم ! ادریس (علیہ السلام) کی عمر سے کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ وہ فرشتہ واپس آیا تو حضرت ادریس (علیہ السلام) کو فوت شدہ پایا۔ سدی نے کہا : ایک دن حضرت ادریس (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے تو انہیں سورج کی گرمی بڑی شدید لگی وہ اٹھے تو وہ اس کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔ عرض کی : اے اللہ ! سورج کے فرشتے سے سورج کی گرمی میں تخفیف کر اور اس کی اس کے بوجھ پر مدد فرما کیونکہ وہ گرم آگ برداشت کرتا ہے سورج کے فرشتے نے صبح کی تو اس کے لیے نور کی ایک کرسی لگائی گئی تھی اور اس کے پاس ستر ہزار فرشتے دائیں طرف اور ستر ہزار فرشتے بائیں طرف اس کی خدمت کرتے تھے اور اس کا حکم اور عمل بجا لاتے ہیں تھے۔ سورج کے فرشتے نے کہا : یا رب ! یہ میرے لیے کہاں سے آیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تیرے لیے بنی آدم میں سے ایک نے دعا کی ہے جسے ادریس کہا جاتا ہے۔ پھر کعب کی حدیث کی طرح ذکر کیا ہے فرمایا : سورج کے فرشتے نے حضرت ادریس سے کہا : تیری کیا حاجت ہے ؟ حضرت ادریس نے کہا : میری خواہش ہے کہ میں جنت کو دیکھوں۔ فرمایا : اس فرشتے نے آپ کو اپنے پروں پر اٹھایا پھر اڑ گیا جب وہ چوتھے آسمان میں تھا تو اس کی ملاقات ملک الموت سے ہوئی وہ آسمان میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ سورج کے فرشتے نے ملک الموت پر سلام کیا اور کہا : اے ادریس یہ ملک الموت ہے پس تو اس پر سلام کر۔ ملک الموت نے کہا : سبحان اللہ ! تو اسے یہاں کس لیے لایا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے اسے اس لیے پسند کیا ہے تاکہ اسے جنت دکھائوں فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ادریس (علیہ السلام) کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں۔ میں نے کہا : یا رب ! ادریس چوتھے آسمان پر کیسے۔ و گا ؟ پس میں چوتھے آسمان پر اترا تو وہ تمہارے ساتھ تھے پس اس کی روح قبض کی اور جنت کی طرف اسے بلند کیا۔ ملائکہ نے آپ کے جسم کو چوتھے آسمان میں دفن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ورفعنہ مکانا علیا کا یہی مفہوم ہے۔ وہب بن منبہ نے کہا : حضرت ادریس (علیہ السلام) کی ہر روز عبادت میں سے اس کی مثل بلندہوتا تھا جتنا کہ اہل زمین کے لیے اس زمانہ میں بلند ہوتا تھا۔ ملائکہ نے اس پر تعجب کیا اور ملک الموت کو آپ کی ملاقات کا شوق ہوا۔ ملک الموت نے آپ کی زبازیارت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو آپ کی ملاقات کا شوق ہوا۔ ملک الموت نے آپ کی زیارت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو اجازت مرحمت فرمائی۔ ملک الموت انسانی شکل میں آپ کے پاس آئے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) دن کو روزہ رکھتے تھے جب افطار کا وقت ہوتا تھا تو ملک الموت کو کھانے پر بلاتے تھے تو وہ کھانے سے انکار کرتا تھا یہ اس کے ساتھ تین دن کیا پھر ادریس نے عجیب سمجھا اور اس سے پوچھا : تو کون ہے ؟ فرمایا : میں ملک اللموت ہوں۔ میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ میں آپ سے ملوں تو اس نے مجھے اجازت دی۔ حضرت ادریس نے کہا : مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ حضرت ملک الموت نے کہا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : تو میری روح قبض کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی فرمائی کہ اس کی روح قبض کرلے۔ مللک اللموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ ایک لمحہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی روح لوٹا دی۔ ملک اللموت نے حضرت ادریس سے کہا : تیری روح قبض کرنے میں کیا فائدہ ہوا ؟ فرمایا : تاکہ میں موت کی تکلیف چکھ لوں اور میں اس کے لیے زیادہ استعداد حاصل کروں۔ پھر حضرت ادریس نے ملک الموت سے کہا : مجھے تجھ سے ایک اور کام ہے۔ ملک الموت نے کہا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا تو مجھے آسمان کی طرف بلند کرتا کہ میں جنت اور دوزخ کو دیکھوں۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو اذن دیا کہ اسے آسمانوں کی طرف لے جائے۔ حضرت ادریس نے آگ دیکھی تو غشی طاری ہوگئی جب افاقہ ہوا تو کہا : مجھے جنت دکھائو۔ وہ اسے جنت میں لے گئے پھر حضرت ادریس سے ملک الموت نے کہا : جنت سے باہر نکلو تاکہ میں تجھے اپنی جگہ پر لوٹا دوں تو حضرت ادریس نے ایک درخت کو پکڑ لیا اور کہا : میں جنت سے نہیں نکلوں گا۔ پس الللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ کے لیے ایک فرشتہ بھیجا جس نے فیصلہ کرنا تھا اس فرشتے نے حضرت ادریس سے پوچھا : تم جنت سے کیوں نہیں نکلتے ؟ حضرت ادریس نے کہا : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کل نفس ذائقۃ الموت ( آل عمران :185) (ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) اور میں موت کا ذائقے چکھ چکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وان منکم الاواردھا تم میں سے ہر ایک نے دوزخ پر وارد ہونا ہے۔ اور میں اس پر وارد ہوچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وماھم منھا بمخرجین۔ (الحجر) وہ اس (جنت) سے نکلنے والے نہیں ؟ پھر میں اس سے کیسے نکلوں ؟ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے فرمایا : میرے اذن سے وہ جنت میں داخل ہوئے تھے اور میرے حکم سے ہی باہر نکلیں گے، پس حضرت ادریس (علیہ السلام) جنت میں زندہ ہیں اور ورفعنہ مکانا علیا۔ سے یہی مراد ہے۔ النحاس نے کہا : ادریس کا قول : وماھم منھا بمخرجین ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس کو یہ سکھایا ہو پھر اس کو قرآن میں نازل کیا ہو۔ وہب بن منبہ نے کہا : حضرت ادریس جنت میں کبھی کھاتے پیتے ہیں اور کبھی ملائکہ کے ساتھ آسمان میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
Top