Al-Qurtubi - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانی خفت الموالی من ورآئی و کا نت امراتی عاقراً فھب لی من لدنک ولیا۔ اس میں سات مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانی خفت الموالی حضرت عثمان بن عفان، محمد بن علی اور علی بن حسین اور یحییٰ بن یعمر ؓ نے خفت خاکے فتحہ اور فاکلی شد اور تا کے کسرہ کے ساتھ اور الموالی کو یا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ خفت کی وجہ سے یہ محل رفع میں ہے۔ اس کا معنی ہے میرے رشتہ دار موت کے ساتھ ختم ہوگئے۔ اور باقی قراء نے خفت خاء کے کسرہ، فا کے سکون اور تا کے ضمہ اور موالی کے یا کی نصب کے ساتھ پڑھا ہے، کیونکہ خفت کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ الموالی سے یہاں مراد قریبی رشتہ دار ہیں۔ اور چچا کے بیٹے اور وہ عصبات ہیں جو نسب میں ان سے ملتے تھے۔ عرب چچا کے بیٹوں کو بھی الموالی کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا : مھلا بنی عمنا مھلا موالینا لا تنبشوا بیننا ما کان مدفونا حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد اور قتادہ نے کہا : حضرت زکریا (علیہ السلام) کو اندیشہ ہوا کہ قریبی رشتہ دار وارث بنیں گے اور باپ اور بیٹے کے علاوہ وہ لوگ وارث بنیں گے۔ ایک جماعت نے کہا : آپ کے رشتہ دار دین کے لیے سستی کرنے والے تھے تو آپ کو اپنی موت سے دین کے ضیاع کا خوف ہوا، پس آپ نے ایسا ولی طلب کیا جو ان کے بعد دین کو قائم رکھے، یہ قول زجاج نے حکایت کیا ہے۔ اس قول کی بنا پر آپ نے مال کے وارث کا سوال نہیں کیا کیونکہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے۔ یہ قول آیت کی تاویل میں دونوں قول میں سے صحیح ہے، کیونکہ انہوں نے علم، نبوت کی وراثت کا ارادہ فرمایا تھا مال کی وراثت کا ارادہ نہیں فرمایا تھا، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’ ہم انبیاء کا گروہ میراث نہیں چھوڑتے جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے “۔ (1) ۔ ابودائود کی کتاب میں ہے ” علماء انبیاء کے ورثاء ہیں، انبیاء دینار و درہم کا وارث نہیں بناتے اور وہ علم کا وارث بناتے ہیں “ (2) اس کی مزید وضاحت یرثنی کے قول کے تحت آئے گی۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ حدیث مسند تفسیر میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وورث سلیمن دائود (النمل :16) اور حضرت زکریا کے قول کو یوں تعبیر فرمایا : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یقعوب۔ اور اس میں عموم کی تخصیص ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، حضرت دائود (علیہ السلام) کے مال کے وارث نہ بنے تھے۔ اپنے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) نے حضرت سلیمان کو خلیفہ بنایا تھا اور اس سے حکمت و علم کے وارث ہوئے تھے، اسی طرح حضرت یحییٰ (علیہ السلام) آل یعقوب سے وارث ہوئے تھے۔ رافضیوں کے علاوہ مفسرین نے اس قرآنی آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے مگر حسن بصری سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : یرثنی مال کا وارث بنے۔ و یرث من ال یعقوب نبوت و حکمت کا وارث بنے۔ ہر وہ قول جو نبی کریم ﷺ کے قول کے مخالف ہو وہ مردود، مہجور ہے، یہ ابو عمر کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : مفسرین میں اکثر کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے مال کی وراثت کا ارادہ کیا اور نبی کریم ﷺ کے قول : ” ہم انبیاء کا گروہ میراث نہیں چھوڑتے “ ( 1) ۔ احتمال رکھتا ہے کہ آپ نے اس سے عموم مراد نہ لیا ہو بلکہ اس سے مراد غالب امر ہو۔ یہ مقام غور ہے۔ اظہر اور مناسب حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لیے یہ ہے کہ انہوں نے وارثت علم اور دین مراد لی ہے۔ اس صورت میں وراثت، مستعارہ ہوگی کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ولی طلب کیا تو انہوں نے بچے کو خاص نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی امنگ کو کامل طور پر پورا فرمایا۔ ابو صالح وغیرہ نے کہا : من ال یعقوب سے مراد علم اور نبوت کی میراث ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من ورا آئی ابن کثیر نے اسے مد اور ہمزہ اور یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ان سے مقصود اور یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا بھی مروی ہے، جیسے عصایٰ اور باقی قراء نے ہمزہ، مد اور یا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور قراء خفت کی قرأت پر ہیں جیسے نمت، مگر جو ہم نے عثمان سے ذکر کیا ہے یہ بہت شاذ قرأت ہے حتی کہ بعض علماء نے فرمایا : وہ جائز ہی نہیں ہے۔ فرمای : وہ کیسے یہ کہتے ہوں گے : خفت الموالی من بعدی ؟ یعنی میرے وصال کے بعد حالانکہ وہ زندہ تھے۔ نحاس نے کہا : اس کی تاویل ہو سکتی ہے کہ من ورآی سے مراد من بعد موتی نہ ہو لیکن من ورائی فی ذالک الوقت ہو۔ یہ تاویل بھی بعید ہے اور دلیل کب محتاج ہے کہ وہ اس وقت کم تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کثرت کی خبر دی ہے جب انہوں نے کہا : ایھم یکفل مریم (آل عمران : 44) ابن عطیہ نے کہا : من ورآی کا مطلب ہے اس زمانہ میں میرے بعد (2) اور یہ بھی وراء ہے جیسا کہ سورة الکہف میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و کا نت امراتی عاقراً آپ کی بیوی ایشاع بنت فاقوذ ابن قبیل تھی۔ یہ حنتہ بنت فاقوذ کی بہن تھی، یہ طبری کا قول ہے۔ حنہ یہ حضرت مریم (علیہما السلام) کی والدہ ہے جیسا کہ سورة عمران میں گزر چکا ہے۔ قتبی نے کہا : حضرت زکریا کی بیوی ایشاع بنت عمران تھی۔ اس قول کی بنا پر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی خالہ کے بیٹے ہوں گے اور دوسرے قول کی بنا پر حضرت پر عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی خالہ کے بیٹے ہوں اور حدیث اسراء میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا فلقیت ابنی الخالۃ یحییٰ و عیسیٰ میں خالہ کے بیٹوں اور عیسیٰ سے ملا۔ یہ قول پہلے قول کا شاہد ہے۔ واللہ اعلم۔ العاقر اس عورت کو کہتے ہیں جو عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے کا جنم نہیں دیتی اس کا ذکر آل عمران میں ہوچکا ہے اور عورتوں میں عاقر اس کو بھی کہتے ہیں جو عمر کے زیادہ ہونے کے باوجود بھی بچے جنم نہیں دیتی اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویجعل من یشاء عقیما (الشوری :50) اسی طرح مردوں میں بھی العاقر ہوتا ہے شاعر کا قول ہے : لبئس افتی ان کنت اعرا عاقراً جبانا فما عذری لدی کل محضر مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یہ سوال اور دعا ہے بیٹے کے لیے، صراحتہً دعا نہیں کی، کیونکہ انہیں اپنی حالت بھی معلوم تھی اور عورت کے بارے بھی علم تھا۔ قتادہ نے کہا : ان کے لیے یہ امر جاری ہوا جبکہ عمر ستر سال سے زائد تھی۔ مقاتل نے کہا : پچہتر (75) سال تھی یہ زیادہ مناسب ہے۔ حضرت زکریا کا غالب گمان تھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کا بچہ پیدا نہ ہوگا اسی وجہ سے کہا : وقد بلغت من الکبیر عتیا۔ ایک جماعت نے کہا : بلکہ انہوں نے بچہ طلب کیا (1) پھر اس بات کی قبولیت طلب کی کہ وہ زندہ رہے حتی کہ وہ وارث بنے، اس بات سے حفاظت کے لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بچے کے بارے میں دعا قبول ہو لیکن پھر وہ ختم ہوجائے اور اس سے غرض پوری نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ علماء نے فرمایا : حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بچے کے لیے دعا کی تاکہ ان کے دین کا غلبہ ہو اور ان کی نبوت کا احیا ہو اور ان کے اجر میں اضافہ ہو دنیا کی خاطر دعا نہیں کی تھی۔ رب کریم نے انہیں قبولیت کا عادی بنا دیا تھا اسی وجہ سے انہوں نے کہا : لم اکن بدعآ ئک رب شقیا۔ یہ ایک اچھا وسیلہ ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر نعمت کے وسیلہ سے سفارش طلب کی اور اس کے فضل کا، اس کے فضل کے وسیلہ سے سوال کیا۔ روایت ہے کہ حاتم طائی جو بہت سخی تھا اسے ایک شخص ملا اور اس نے اس سے سوال کیا۔ حاتم نے اسے کہا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں وہ ہوں جس پر تو نے پہلے سال احسان کیا تھا۔ حاتم نے کہا : خوش آمدید جس نے ہماری بارگاہ میں ہمیں ہی شفیع بنایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بغیر اذن کے خارق للعادت امر کا کیسے سوال کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے انبیاء کے زمانوں میں جائز تھا اور قرآن حکیم میں اس مفہوم کی وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یمریم انی لک ھذا قالت ھو من عنداللہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب۔ جب خارق للعادت امر کو دکھا تو دعا کی قبولیت میں ان یک امید مزید مستحکم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ (آل عمران :38) مسئلہ نمبر 7 ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ آیت بچے کے لیے دعا کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اموال اور اولاد کی آفات سے ڈرایا ہے اور ان کے مفاسد پر تنبیہ کی ہے فرمایا : انما اموالکم و اولادکم فتنۃ (التغابن : (15 ان من ازواجکم و اولادکم عدوالکم فاحزروھم (التغابن :14) اس کا جواب یہ ہے کہ بچے کے لیے دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ پھر حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بری اولاد سے بچائو کیا۔ عرض کی : ذریۃ طیبۃ (آل عمران :38) اور کہا : واجعلہ رب رضیاً ۔ جب بچہ ان صفات کا حامل ہو تو دنیا و آخرت میں والدین کے لیے نفع بخش ہوتا ہے اور وہ عداوت اور فتنہ کی حد سے نکل جاتا ہے اور مسرت و نعمت کا باعث ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم انس کے لیے دعا فرمائی : اللھم اکثر مالہ و ولدہ وبارک لہ فیما اعطیتہ۔ (1) اے اللہ ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما اور جو تو اسے عطا فرمائے اس میں برکت دے۔ آپ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی تاکہ اس کثرت سے بچایا جائے جو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بندے کو اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی اولاد کی ہدایت اور دنیا و آخرت میں اس کی نجات کی دعا کرنی چاہیے تاکہ انبیاء (علیہم السلام) اور فضلاء و اولیا کی اقتدار ہوجائے۔ اس کا بیان سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔
Top