Al-Qurtubi - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویقول الانسان ءاذا مامت لسوف اخرج حیا۔ انسان سے مراد یہاں ابی بن بن خلف ہے اس نے پرانی ہڈیاں پائیں پھر انہیں اپنے ہاتھ سے مسل دیا اور کہا : محمد ﷺ کا خیال ہے کہ ہم مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے ؛ یہ کلبی کا قول ہے، یہ واحدی، ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ اور مہدوی نے کہا : یہ ولید بن مغیرہ اور اس کے ساتھیوں کے ببارے میں نازل ہوئی ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ لسوف میں لام تاکید کے لیے ہے گویا اسے کہا گیا : جب تو مرے گا تو یقینا زندہ کر کے اٹھایا جائئے گا تو اس نے کہا : کیا جب میں مر جائوں گا تو مجھے پھر زندہ کر کے نکالا جائے گا ؟ یہ اس نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ پس لام اس کے جواب میں آیا جیسا کہ پہلے قول میں تھا اگر یہ ابتدائی کلام ہوتی تو اس پر لام داخل نہ ہوتا کیونکہ یہ تاکید اور ایجاب کے لیے ہوتا ہے وہ دوببارہ اٹھنے کا منکر تھا۔ ابن ذکوان نے : مامت پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے استفہام کے ساتھ پڑھا ہے جیسا کہ اس کا ہمزہ میں اصول ہے۔ حسن اور اببو حیوہ نے لسوف اخرج حیا پڑھا ہے۔ یہ اس نے استہزا کیا تھا کیونکہ وہ دوبارہ اٹھنے پر یقین نہیں کرتا تھا اور یہاں انسان سے مراد کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولا یذکر الانسان، یعنی کیا یہ کہنے والے کو یاد نہیں ؟ انا خلقنہ من قبل یعنی اس کے سوال اور اس کے اس قول سے پہلے ہم نے اسے پیدا کیا۔ ولم یک شیا۔ جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا، اعادہ ابتدا کی طرح ہوتا ہے پس تناقض نہیں۔ عاصم کے سوا اہل کوفہ، اہل مکہ، ابو عمرو اور ابو جعفر نے اولا یذکر پڑھا ہے۔ شیبہ، نافع اور عاصم نے اولای ذکر تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ بہتر تشدید ہے اس کی اصل یتذکر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما یتذکر اولوالالباب۔ (الزمر) اور اس قسم کے دوسرے ارشادات ہیں۔ اور ابی کی قرات میں اولا یتذکر ہے ؛ یہ قرأت تفسیر کی بنا پر ہے کیونکہ مصحف کے خط کے مخالف ہے۔ یتذکر کا معنی یتفکر ہے اور یذکر کا معنی یتنبہ اور یعلم ہے ؛ یہ نحاس کا قول ہے۔
Top