Al-Qurtubi - Maryam : 6
یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا
يَّرِثُنِيْ : میرا وارث ہو وَيَرِثُ : اور وارث ہو مِنْ : سے۔ کا اٰلِ يَعْقُوْبَ : اولادِ یعقوب وَاجْعَلْهُ : اور اسے بنا دے رَبِّ : اے میرے رب رَضِيًّا : پسندیدہ
جو میری اولاد اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو اور (اے) میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بنائیو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یرثنی و یرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیاً ۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یرثنی اہل حرمین، حسن، عاصم اور حمزہ نے یرثنی اور یرث دونوں کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں دھب کا جواب نہیں ہیں جیسا کہ سیبویہ کا مذہب ہے۔ اس کی تقدیر اس طرح ہے : ان تھبۃ یرثنۃ و یرث۔ معنی کے اعتبار سے پہلا قول زیادہ درست ہے کیونکہ انہوں نے موصوف وارث طلب کیا تھا یعنی تو مجھے ایسا ولی عطا فرما جو اس حالت اور صفت پر ہو کیونکہ ان میں بعض اولیاء وارث نہیں ہوتے۔ فرمایا : ھب لی الزی یکون ورائی۔ یعنی مجھے عطا فرما جو میرے پیچھے رہنے والا ہو، یہ ابو عبیدہ کا قول ہے اور جزم کی قرأت کا رد کیا ہے۔ فرمایا : اس کا معنی ہے اگر تو مجھے عطا فرمائے تو تو اسے وارث بھی بنا وہ کیسے اللہ تعالیٰ کو اس کے متعلق خبر دے رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق اس سے بہتر جانتا ہو۔ نحاس نے کہا : یہ مشہور حجت ہے کیونکہ نحویوں کے نزدیک جواب امر میں شرط اور جزا کا معنی ہوتا ہیۃ تو کہتا ہے : اطع اللہ ید خلک الجنۃ۔ یعنی ان تطعہ ید خلک الجنۃ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے جنت میں داخل کرے گا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ نحاس نے کہا : یرثنی و یرث من ال یعقوب کے معنی کے متعلق علماء کے تین جواب ہیں : بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد نبوت کی وراثت ہے۔ بعض نے فرمایا : حکمت کی وراثت ہے۔ بعض نے فرمایا : مال کی وراثت ہے۔ رہا ان کا قول کہ نبوت کی وراثت ہے یہ محال ہے کیونکہ نبوت میں میراث نہیں چلتی۔ اگر اس میں میراث ہوتی تو کہنے والا کہتا : لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہیں جبکہ وہ نبی مرسل ہے۔ اور علم و حکمت کی میراث کا قول عمدہ ہے۔ حدیث میں ہے : العلماء ورثۃ الانبیاء۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور رہا مال کی وراثت کا قول تو یہ بھی ممتنع نہیں اگرچہ ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا نورث ما ترکنا صدقۃ۔ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔ اس میں کوئی حجت نہیں کیونکہ ایک اپنے متعلق جمع کی اخبار کے ساتھ خبر دے رہا ہے کھبی اس کی اس معنی کے ساتھ تاویل کی جاتی ہے۔ لانورث الذی ترکنا صدقۃ۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے کوئی ایسی چیز پیچھے نہیں چھوڑی جو آپ کی طرف سے بطور میراث ہوتی اور یہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں آپ کے لیے اس قول : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ و للرسول (الانفال :41) سے مباح فرمایا تھا کیونکہ للہ کا مطلب ہے سبیل اللہ۔ اور سبیل اللہ میں سے وہ تھا جو رسول اللہ ﷺ کی مصلحت میں تھا جب تک آپ ظاہری حیات میں تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض روایات میں ہے : انا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ۔ اس میں دو تاویلیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ ما بمعنی الذی ہے اور دوسرا یہ کہ جس کی یہ حالت ہو وہ میراث نہیں چھوڑتا۔ لا نورث ما ترکنا صدقۃ کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے اور یہ اکثر علماء اور جمہور علماء کا قول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میراث نہیں چھوڑی اور جو چھوڑا وہ صدقہ ہے۔ دوسراقول یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی میراث جاری نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ شان بخشی کہ آپ کا سارا مال صدقہ بنا دیا آپ کی فضیلت میں زیادتی کے لیے جیسا کہ نکاح میں، بعض چیز آپ کے لیے مباح کی گئی ہیں جبکہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے حرام ہیں، یہ قول بعض اول بصرہ کا ہے ان میں اسے ایک ابن علیہ ہے اور باقی تمام علماء اسلام کی پہلا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من ال یعقوب بعض علماء نے فرمایا : اس سے مرادیعقوب اسرائیل ہے۔ حضرت زکریا کی شادری مریم بنت عمران کی بہن سے ہوئی تھی اور اس کا نسب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرف لوٹتا ہے کیونکو وہ حضرت سلیمان بن داؤد کی اولاد سے تھی اور وہ یہود ابن یعقوب کی اولاد سے تھے۔ اور حضرت زکریا (علیہ السلام) ہارون کی اولاد سے تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے۔ حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ ، لاوی بن یعقوب کی اولاد سے تھے۔ اور نبوت یعقوب بن اسحاق کی اولاد میں تھی۔ بعض علماء نے فرمایا : یہاں یعقوب سے مراد یعقوب بن ماتان ہے جو عمران بن ماتان کا بھائی تھا اور عمران حضرت مریم کا والد تھا۔ یہ دونوں حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کی نسل سے دونوں بھائی تھے، کیونکہ یعقوب اور عمران، ماتان کے بیٹے تھے اور بنو ماتان بنی اسرائیل کے رئوسا تھے، یہ مقاتل وغیرہ کا قول ہے۔ کلبی نے کہا : ّل یعقوب آپ کے ماموں تھے اور وہ یعقوب بن ماتان تھے اور ان میں بادشاہت تھی اور حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت ہارون بن عمران کی اولاد سے تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے۔ قتادہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یرحم اللہ تعالیٰ زکریا ما کان علیہ من ورثتہ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) پر رحم فرمایا اس وجہ سے جوان پر ان کی ورثاء کی طرف سے تھا۔ یعقوب غیر منصرف ہے کیونکہ عجمہ ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واجعلہ رب رضیا۔ یعنی جس کے اخلاق اور افعال میں پسندیدگی ہو۔ بعض نے فرمایا : جو تیری قضاء وقدرت پر راضی ہو۔ بعض نے فرمایا : جو ایسا نیک ہو جس سے تو خوش ہو۔ ابو صالح نے کہا : اسے ایسا نبی بنا جیسے تو نے اس کے باپ کو نبی بنایا۔
Top