Al-Qurtubi - Maryam : 87
لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ
لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ اختیار نہیں رکھتے الشَّفَاعَةَ : شفاعت اِلَّا : سوائے مَنِ اتَّخَذَ : جس نے لیا ہو عِنْدَ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے پاس عَهْدًا : اقرار
(تو لوگ) کسی کی سفارش کا اختیار نہ رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یملکون الشفاعۃ یعنی یہ کفار کسی کے لیے شفاعت کے مالک نہیں۔ الا من اتخذ عند الرحمن عھداً اس سے مراد مسلمان ہیں جو شفاعت کے مالک ہوں گے۔ یہ کسی چیز کا استثناء غیر جنس سے ہے یعنی لیکن وہ جنہوں نے خداوند رحمن سے کوئی وعدہ لیا ہے وہ شفاعت کریں گے۔ من اس بنا پر محل نصب میں ہے۔ بعض نے فرمایا : یملکون کی واو سے بدل کی بنا پر محل رفع میں ہے یعنی کوئی اللہ کی بارگاہ میں شفاعت کا مالک نہیں ہوگا مگر جس نے اللہ کی بارگاہ میں عہد لیا وہ مالک ہوگا اس بنا پر استثنا متصل ہوگا اور نسوق المجرمین میں المجرمین سے کفار اور نافرمان سب مراد ہیں۔ پھر خبر دی کہ وہ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے مگر گنہگار مومنین وہ شفاعت کے مالک ہوں گے کہ ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” میں شفاعت کرتا رہوں گا حتیٰ کہ میں کہوں گا : یا رب ! میری شفاعت ان کے حق میں قبول فرما، جنہوں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد ﷺ ! یہ تمہارے لیے نہیں بلکہ یہ میرے لیے ہے “ (1) مسلم نے اس حدیث کا مفہوم نقل کیا ہے۔ یہ پہلے گزر چکی ہے۔ اخبار متفق ہیں کہ اہل علم اور اہل فضل شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پہلے قول پر کلام ہے۔ واتخذوا من دون اللہ الھۃ لیکونوا لھم عزا۔ سے متصل ہوگی۔ قیامت کے روز بتوں کے پجاریوں کی شفاعت کسی کے حق میں قبول نہ ہوگی اور نہ بتوں کی شفاعت کسی کے لیے ہوگی اور نہ وہ کسی کی شفاعتکا اختیار ررکھتے ہوں گے یعنی شفاعت انہیں فائدہ نہ دے گی جیسا کہ فرمایا : فما تنفعھم شفاعۃ الشفعین۔ (المدثر) بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ہم متقین اور مجرمین کو جمع کریں گے کوئی شفاعت کا اختیار نہ رکھتا ہوگا مگر جسنے خداوند رحمن سے عہد لیا ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ نے جسکو شفاعت کا اذن دیا ہوگا جیسے فرمایا : من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ (البقرہ : 255) اور یہ وہ عہد ہے جس کے بارے فرمایا : ام اتخذ عند الرحمن عھدا۔ یہ لفظ ایمان اور ان اعمال صالحہ کا جامع ہے جن کے ذریعے انسان شفاعت کے مفہوم پر پہنچتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : العھد سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ مقاتل اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کوئی شفاعت نہیں کرے گا مگر جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اپنی ہر قوت و طاقت سے براءت کر کے اللہ تعالیٰ کی قوت پر بھروسہ کیا وہ امید نہیں رکھتا مگر اللہ تعالیٰ سے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے صحابہ سے یہ کہتے ہوئے سنا : ” کیا تم میں سے کوئی عاجز ہے کہ وہ ہر صبح و شام اللہ کی بارگاہ سے عہد کرلے “ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ وہ کیا ہے فرمایا : ” وہ ہر صبح و شام کہے : اللھم فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انی اعھد الیک فی ھذہ الحیاۃ الدنیا بانی اشھد ان لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک وان محمداً عبدک ورسولک فلا تکلنی الی نفسی فانک ان تکلنی الی نفسی تباعدنی من الخیر وتقرینی من الشروانی لا اثق الا برحمتک فاجعل لی عندک عھد اتوفینیہ یوم القیامۃ انک لا تخلف المعیاد۔ جب آدمی یہ کہے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر مہر لگا دے گا اور اسے عرش کے نیچے رکھ دے گا جب قیامت کا دن ہوگا تو ندا دینے والا ندا دے گا : کہاں ہیں وہ لوگ جن کے لیے اللہ کی بارگاہ میں عہد ہے ؟ پس وہ کھڑا ہوگا اور جنت میں داخل ہوگا (1) ۔
Top