Al-Qurtubi - Al-Baqara : 118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِينَ : جو لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے لَوْلَا : کیوں نہیں يُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے اللّٰہُ : اللہ اَوْ تَأْتِينَا : یا نہیں آتی ہمارے پاس اٰيَةٌ : کوئی نشانی کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِينَ : جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : بات ان کی تَشَابَهَتْ : ایک جیسے ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے واضح کردیں الْآيَاتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ : قوم کے لئے يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھنے والے
اور جو لوگ (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ؟ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی انہیں کی سی باتیں کیا کرتے تھے ان لوگوں کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں جو لوگ صاحب یقین ہیں ان کے (سمجھانے کے) لیے ہم نے نشانیاں بیان کردیں ہیں
آیت نمبر 118 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقال الذین لا یعلمون حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد یہود ہیں۔ مجاہد نے کہا : نصاریٰ ہیں۔ طبری نے اس کو راجح کہا ہے کیونکہ پہلی آیت میں ان کا ذکر ہے۔ ربیع، سدی اور قتادہ نے کہا : اس سے مراد عرب کے مشرک ہیں ولو لا بمعنی ھلا ہے۔ یہ حرف تحطیض (2) (ابھارنا) ہے۔ جیسے اشہب بن رمیلہ نے کہا : تعدون عقر النیب افضل مجدکم بنی ضوطری لو لا لکمی المقنعا (1) اس شعر میں لو لا بمعنی ھلا ہے۔ یہ لولا نہیں ہے جو ایک چیز کے پائے جانے کی وجہ سے دوسری چیز کے نہ پائے جانے پر دلالت کرتا ہے (یعنی شرط کے پائے جانے کی وجہ سے جزا کے نہ پائے جانے پر دلالت کرتا ہے) ان دونوں کے درمیان علماء لغت کے درمیان یہ فرق ہے کہ لولا جو تحضیض کے معنی میں ہوتا ہے، اس کے ساتھ فعل ظاہر یا فعل مقدر ملا ہوا ہوتا ہے اور جو امتناع کے لئے ہوتا ہے اس کے ساتھ مبتدا ملا ہوا ہوتا ہے اور عادت جاری ہے کہ خبر حذف ہوتی ہے (2) ۔ کلام کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کے متعلق ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا تاکہ ہم جان لیں کہ وہ نبی ہے پھر ہم اس پر ایمان لے آئیں یا ہمارے پاس وہ کوئی نشانی کیوں نہیں لے آتے جو ان کی نبوت کی علامت ہو۔ الایۃ کا معنی دلالت اور علامت ہے۔ الذین من قبلھم جن علماء نے الذین لا یعلمون سے مراد کفار قریش لئے ہیں ان کے نزدیک اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں اور جنہوں نے الذین لا یعلمون سے مراد یہود ونصاریٰ لئے ہیں ان کے نزدیک اس سے مراد پہلی قومیں ہیں، اور جنہوں نے الذین لا یعلمون سے مراد نصاریٰ لئے ہیں ان کے نزدیک اس سے مراد یہود ہیں۔ تشابھت قلوبھم بعض علماء نے فرمایا : ان کے دل ہٹ دھرمی، اقتراح اور ترک ایمان میں ان کے مشابہ ہیں۔ فراء نے کہا : ان کے دل کفر میں متفق ہونے میں مشابہ ہیں۔ قد بینا الایت لقومٍ یوقنون اس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔
Top