Al-Qurtubi - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے
آیت نمبر 117 اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بدیع السموت۔ مبالغہ کے لئے فعیل کا وزن ہے، مبتدا محذوف کی خبر کی حیثیت سے مرفوع ہے۔ اسم فاعل مبدعٌ ہے جیسے بصیر سے مبصرٌ ہے ابدعت الشیء لاعن مثالٍ یعنی میں نے بغیر کسی مثال کے چیز کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ بدیع السموت والارض ہے یعنی ان کو پیدا کرنے والا، ان کا موجد، ان کو نئے سرے سے بنانے والا اور بغیر کسی مثال اور حد کے ایجاد کرنے والا ہے۔ ہر وہ شخص جو کوئی نئی چیز پیدا کرے جس سے پہلے وہ چیز کسی نے پیدا نہ کی ہو تو اسے مبدع کہا جاتا ہے۔ اسی سے اصحاب البدع ہیں۔ بدعت کو بدعت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کہنے والا اپنے امام کی کلام اور فعل کے بغیر کہتا ہے۔ بخاری میں ہے : نعمت البدعۃ ھذہ۔ یعنی رمضان کا قیام اچھی بدعت ہے۔ مسئلہ نمبر 2: ہر وہ بدعت جو مخلوق سے صادر ہو اس کی دو صورتیں ہوں گی یا تو اس کی شرع میں اصل ہوگی یا شرع میں اس کی اصل نہ ہوگی۔ اگر تو اس کی کوئی اصل ہو، وہ اس عموم کے تحت واقع ہو جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے اور اس پر رسول اللہ ﷺ نے برانگیختہ کیا ہے تو وہ مدح کے مقام پر ہوگی اگرچہ اس کی مثال موجود نہ ہو جیسے جو دوسخا کی نوع، اور نیکی کا کوئی فعل، تو یہ فعل، افعال محمودہ سے ہوگا۔ اگرچہ اس سے پہلے کوئی کرنے والا نہ بھی ہو۔ اس قول کی تائید حضرت عمر ؓ کا قول کرتا ہے : نعمت البدعۃ ھذہ (1) یہ اچھی بدعت ہے جب وہ بدعت افعال خیر میں سے تھی اور مدح کے تحت داخل تھی۔ قیام رمضان نبی کریم ﷺ نے کیا تھا مگر اسے ترک کردیا تھا اور اس پر دوام اختیار نہیں فرمایا تھا اور نہ لوگوں کو جمع کیا تھا۔ پس حضرت عمر کی اس پر محافظت اور لوگوں کو اس پر جمع کرنا اور انہیں اس کی طرف بلانا، بدعت تھا لیکن یہ بدعت محمودہ ممدوحہ تھی۔ اگر وہ کوئی ایسا عمل ہو جو اللہ اور اس کے رسول کے امر کے خلاف ہو تو وہ مذمت و انکار کے مقام میں ہوتا ہے۔ یہ معنی خطابی وغیرہ نے بیان کیا ہے میں کہتا ہوں : نبی کریم ﷺ کے ارشاد جو خطبہ میں فرمایا اس کا یہی معنی ہے : وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ (2) برے امور بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ یعنی ایسی بدعت جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو یا صحابہ کے عمل کے موافق نہ ہو اور اس حقیقت کو اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا : من سن فی الاسلام سنۃً حسنۃ کان لہ اجرھا واجر من عمل۔۔۔۔۔ من اوزارھم شیءٌ (3) ۔ یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام شروع کیا تو اسے اس کا اجر اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا اور ان کے اجور میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی برا کا عمل شروع کیا تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے، ان کے گناہوں میں کمی کئے بغیر۔ یہ اشارہ ہے جو قبیح یا حسن بدعت شروع کی جاتی ہے۔ یہ اس باب کی اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عصمت وتوفیق کا سوال ہے اور اس کے علاوہ کوئی پالنے والا نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا قضی امرًا فانما یقول لہ کن فیکون جب کسی امر کے احکام اور اتقان کا ارادہ فرماتا ہے۔۔۔۔ جیسا کہ اس کے علم میں پہلے تھا۔۔۔۔ تو اسے کن فرماتا ہے۔ ابن عرفہ نے کہا : قضاء الشی کا مطلب اس کا احکام اور اس کا جاری کرنا اور اس سے فارغ ہونا ہے، اسی وجہ سے قاضی کو قاضی کہتے ہیں کیونکہ جب وہ فیصلہ فرماتا ہے تو جھگڑا کرنے والوں کے جھگڑا سے فارغ ہوجاتا ہے۔ الازہری نے کہا : لغت میں قضیٰ کے کئی معانی ہیں اس کا مرجع کسی چیز کو ختم کرنا اور مکمل کرنا ہے۔ ابو ذؤیب نے کہا : وعلیھما مسرودتان قضاھما داؤد او صنع السوابغ تبع ان کے اوپر دو زرہیں ہیں جنہیں داؤد نے بنایا ہے یا تبع نے مکمل کی ہیں۔ شماخ نے حضرت عمر بن خطاب کے بارے میں فرمایا : قضیت اموراً ثم غادرت بعدھا بوائق فی اکمامھا لم تفتق تو نے کاموں کو مکمل کیا الخ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قضیٰ کا لفظ مشترک ہے کبھی یہ خلق کے معنی میں ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقضھن سبع سمواتٍ فی یومین (فصلت : 12) یہ قضی بمعنی خلق (پیدا کرنا) ہے کبھی یہ اعلام کے معنی میں ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقضینا الی بنی اسراء یل فی الکتب (الاسراء :4) یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو آگاہ کیا۔ کبھی یہ امر (حکم) کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ (الاسراء :23) یعنی تمہارے رب نے حکم دیا۔۔۔۔ کبھی الزام اور احکام کو جاری کرنے کے معنی میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلما قضیٰ موسیٰ الاجل (القصص :29) (جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت پوری کردی) کبھی ارادہ کے معنی میں ہوتا ہے جیسے واذا قضیٰ امراً ۔۔۔۔ الخ جب اللہ کسی شے کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا (1) : قضی بمعنی قدر (اندازہ کرنا) اور کبھی بمعنی امضی بھی آتا ہے۔ اہل سنت کے مذہب پر اس آیت میں یہ دونوں معانی مراد ہو سکتے ہیں یعنی ازل میں مقدر فرمایا اور اپنا حکم نافذ فرمایا اور معتزلہ کے مذہب پر خلق اور ایجاد حکم نافذ فرمایا۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : امراً ، الامر واحد ہے اس کی جمع الامور ہے یہ امر یامر کا مصدر نہیں ہے (2) ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قرآن میں امر چودہ معانی میں استعمال ہوا ہے۔ 1۔ دین : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حتی جاء الحق وظھرا مر اللہ (توبہ :48) حتیٰ کہ حق آیا اور اللہ کا دین اسلام ظاہر ہوا۔ 2۔ قول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا جاء امرنا (المومنون :28) یعنی جب ہمارا قول آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فتنازعوا امرھم بینھم (طہ :62) یہاں بھی امر بمعنی قول ہے۔ 3۔ عذاب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لما قضی الامر (ابراہیم :22) یعنی جب دوزخیوں کے بارے عذاب کا فیصل ہوگیا۔ 4۔ عیسیٰ (علیہ السلام) : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا قضی امراً (البقرہ :117) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کا فیصلہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ بغیر باپ کے ہوں گے۔ 5۔ بدر میں قتل : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا جاء امر اللہ (غافر :78) یعنی بدر میں قتل اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیقضی اللہ امراً کان مفعولاً (انفال :42) اس آیت میں مکہ کے کفار کا قتل مراد ہے۔ 6۔ فتح مکہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرٍ (توبہ : 24) ۔ یہاں امر سے مراد فتح مکہ ہے۔ 7۔ قریظہ کا قت اور بنی نضیر کی جلا وطنی : فاعفوا واصفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ (البقرہ : 109) اس آیت میں امر سے مراد قتل قریظہ اور بنی نضیر کی جلاوطنی ہے۔ 8۔ قیامت : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اتی امر اللہ (النحل :1) اللہ کا امر (قیامت) آگیا۔ 9۔ القضاء : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یدبر الامر (السجدہ :5) اس میں امر بمعنی فیصلہ ہے۔ 10۔ وحی : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یدبر الامر من السماء الی الارض (السجدہ :5) وہ آسمان سے زمین کی طرف وحی نازل فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یتنزل الامر بینھن (طلاق :12) 11۔ امر الخلق : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا الی اللہ نصیرا الامور۔ (الشوریٰ ) یعنی مخلوق کے امور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہیں۔ 12۔ النصر (مدد، نصرت): اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یقولون ھل لنا من الامر من شیء (آل عمران : 154) (کہتے : کیا ہمارا بھی اس کام میں کچھ دخل ہے) 13۔ الذنب (گناہ): اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فذاقت وبال امرھا (الطلاق :9) یعنی اپنے گناہ کی سزا۔ 14۔ شان اور فعل : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما امر فرعون برشید۔ (ہود) اس میں امر سے مراد فعل اور شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیحذر الذین یخالفون عن امرۃ۔ (نور : 63) اس آیت میں بھی امر سے مراد فعل ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کن بعض علماء نے فرمایا : کاف، کینونہ سے ہے اور نون نور سے ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد اعوذ بکلمات التامۃ من شرما خلق سے یہی مراد ہے۔ بکلمۃ اللہ التامۃ یعنی مفرد بھی مروی ہے۔ جمع اس اعتبار سے ہے کہ جب یہ کلمہ تمام امور میں ہے، پس جب ہر امر کے لئے کن کہا اور ہر شے کے لئے کن کہا تو یہ بہت سے کلمات ہوگئے۔ اس پر دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ذر سے مروی ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے اور آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عطافی کلام وعذابی کلامٌ میری عطا کلام ہے اور میرا عذاب کلام ہے۔ ان الفاظ کو ایک طویل حدیث میں امام ترمذی نے نقل کیا ہے کلمہ، کلمات کے معنی میں بھی ہوتا ہے لیکن جب ایک کلمہ تمام اوقات میں تمام امور میں جدا جدا ہو یہ بہت سے کلمات ہوگئے اور ان کا مرجع ایک کلمہ ہے، اور قامۃ فرمایا کیونکہ اہل لغت کے نزدیک کم از کم کلام کے تین حروف ہوتے ہیں۔ ایک حرف جس سے آغاز کیا جاتا ہے ایک حرف جس کے ساتھ کلمہ جمع کیا جاتا ہے اور ایک حرف جس پر سکوت کیا جاتا ہے جب کسی کلمہ کے دو حرف ہوں تو وہ ان کے نزدیک ناقص ہوتا ہے جیسے ید، دم، ضم یہ علت کی وجہ سے ناقص ہیں۔ یہ کلمات آدمیوں کی طرف سے منقوصات میں سے ہیں کیونکہ یہ دو حرفوں پر مشتمل ہیں نیز کیونکہ یہ ادوات کے ساتھ تلفظ کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تامہ ہیں کیونکہ یہ بغیر ادوات کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کی شبہ سے بلند وبالا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فیکون یہ نون کے رفع کے ساتھ پڑھا گیا ہے علیحدہ کلام کے اعتبار سے (1) ۔ سیوبیہ نے کہا : یہ فھو یکون ہے یا فانہ یکون ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ یقول پر معطوف ہے (2) ۔ پہلی صورت میں یہ امر کے بعد ہوگا اگرچہ پہلے معدوم ہوگا، کیونکہ یہ موجود کے قائم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ معلوم ہے اس کا بیان آگے آئے گا اور دوسری صورت میں امر کے ساتھ موجود ہوگا، اس کو طبری نے پسند کیا ہے۔ فرمایا اس نے کسی شے کو کن کے ساتھ حکم دیا جاتا ہے وہ حکم کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور کوئی شے موجود نہیں ہوتی مگر وہ جسے وجود کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اس کی مثال، لوگوں کا قبور سے کھڑا ہونا ہے اللہ تعالیٰ کے بلاوا سے نہ مقدم ہوں گے نہ مؤخر۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اذا دعا کم دعوۃً من الارض اذا انتم تخرجون۔ (الروم) ابن عطیہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فرمایا : یہ معنی کی جہت سے غلط ہے کیونکہ یہ قول تقاضا کرتا ہے کہ قول، تکوین اور وجود کے ساتھ ہے۔ (3) اس آیت میں عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معدومات کا ہمیشہ سے آمر ہے ان کے وجود کی شرط کے ساتھ۔ مقدورات کے تأخر کے ساتھ قادر ہے۔ معلومات کے تأخر کے ساتھ عالم ہے۔ پس آیت میں ہر وہ چیز جو استقبال کا تقاضا کرتی ہے وہ مامورات کے اعتبار سے ہے کیونکہ محدثات نہ ہونے کے بعد ہوتی ہیں، ہر وہ صفت جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے قدرت اور علم سے وہ قدیم اور ہمیشہ ہوتی ہے (4) پس (کن) کی عبارت جس معنی کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قدیم اور قائم بالذات ہے۔ ابو الحسن الماوردی نے کہا : اگر کہا جائے کس حال میں وہ اسے کن کہتا ہے کہ وہ ہوجاتی ہے کیا عدم کی حالت میں یا اس کے وجود کی حالت میں۔ اگر تو وہ حالت عدم میں ہوتی ہے تو حکم کرنا محال ہے مگر مامور کو۔ جیسے محال ہوتا ہے امر ہونا مگر آمر کی طرف سے۔ اگر وہ حالت وجود میں ہے تو یہ ایسی حالت ہے جس میں وجود اور حدوث کا امر جائز ہی نہیں ہے کیونکہ وہ موجودحادث ہے۔ اس سوال کے تین جوابات دئیے گئے ہیں۔ 1۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے اس کی موجود مخلوق میں اس کے اوامر کے نفوذ کی، جیسے اس نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ دھتکارے ہوئے بندر بن جائیں اور یہ معدومات کی ایجاد میں وارد نہیں ہوتا۔ 2۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے ہونے سے پہلے اسے جانتا ہے۔ پس وہ اشیاء جو موجود نہیں وہ اس کے علم میں اپنے ہونے سے پہلے ان چیزوں کے مشابہ ہیں جو موجود ہیں۔ پس انہیں کونی کہنا جائز ہے۔ وہ انہیں حالت عدم سے حالت وجود کی طرف نکلنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ وہ حالت عدم میں ان کو جانتا ہے۔ 3۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے جس کو اس نے پیدا کرنا ہے تمام کو شامل ہے جب وہ اس کی پیدائش اور تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے وہ پیدا ہوجاتی ہے اور پائی جاتی ہے بغیر اس کے کہ وہاں اسے قول فرمائے۔ یہ اس کا فیصلہ ہے جو وہ چاہتا ہے، اس کو قول سے تعبیر فرمایا ہے اگرچہ قول نہ بھی ہو۔ جیسے ابو النجم کا قول ہے۔ قد قالت الانساع للبطن الحق (1) یہ کوئی قول نہیں ہے، اس نے ارادہ کیا کہ پیٹھ پیٹ کے ساتھ لاحق ہوگئی ہے۔ جیسے عمرو بن حممہ الدوسی نے کہا : فاصبحت مثل النسر طارت فراخہ اذا رام تطیاراً یقال لہ قع میں گدھ کی طرح ہوگیا جس کے بچے اڑ گئے۔ جب وہ اڑنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے قع کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا : قالت جناحاہ لساقیہ الحقا ونجیا لحمکما ان یمزقا اس کے پروں نے اس کی پنڈلیوں کو کہا : مل جاؤ اور اپنے گوشت کو پھٹنے سے بچا لو۔
Top