Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ
: پیدا کرنے والا
السَّمَاوَاتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَاِذَا
: اور جب
قَضٰى
: وہ فیصلہ کرتا ہے
اَمْرًا
: کسی کام کا
فَاِنَّمَا
: تو یہی
يَقُوْلُ
: کہتا ہے
لَهٗ كُنْ
: اسے ہوجا
فَيَكُوْنُ
: تو وہ ہوجاتا ہے
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے
آیت نمبر
117
اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بدیع السموت۔ مبالغہ کے لئے فعیل کا وزن ہے، مبتدا محذوف کی خبر کی حیثیت سے مرفوع ہے۔ اسم فاعل مبدعٌ ہے جیسے بصیر سے مبصرٌ ہے ابدعت الشیء لاعن مثالٍ یعنی میں نے بغیر کسی مثال کے چیز کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ بدیع السموت والارض ہے یعنی ان کو پیدا کرنے والا، ان کا موجد، ان کو نئے سرے سے بنانے والا اور بغیر کسی مثال اور حد کے ایجاد کرنے والا ہے۔ ہر وہ شخص جو کوئی نئی چیز پیدا کرے جس سے پہلے وہ چیز کسی نے پیدا نہ کی ہو تو اسے مبدع کہا جاتا ہے۔ اسی سے اصحاب البدع ہیں۔ بدعت کو بدعت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کہنے والا اپنے امام کی کلام اور فعل کے بغیر کہتا ہے۔ بخاری میں ہے : نعمت البدعۃ ھذہ۔ یعنی رمضان کا قیام اچھی بدعت ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: ہر وہ بدعت جو مخلوق سے صادر ہو اس کی دو صورتیں ہوں گی یا تو اس کی شرع میں اصل ہوگی یا شرع میں اس کی اصل نہ ہوگی۔ اگر تو اس کی کوئی اصل ہو، وہ اس عموم کے تحت واقع ہو جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے اور اس پر رسول اللہ ﷺ نے برانگیختہ کیا ہے تو وہ مدح کے مقام پر ہوگی اگرچہ اس کی مثال موجود نہ ہو جیسے جو دوسخا کی نوع، اور نیکی کا کوئی فعل، تو یہ فعل، افعال محمودہ سے ہوگا۔ اگرچہ اس سے پہلے کوئی کرنے والا نہ بھی ہو۔ اس قول کی تائید حضرت عمر ؓ کا قول کرتا ہے : نعمت البدعۃ ھذہ (
1
) یہ اچھی بدعت ہے جب وہ بدعت افعال خیر میں سے تھی اور مدح کے تحت داخل تھی۔ قیام رمضان نبی کریم ﷺ نے کیا تھا مگر اسے ترک کردیا تھا اور اس پر دوام اختیار نہیں فرمایا تھا اور نہ لوگوں کو جمع کیا تھا۔ پس حضرت عمر کی اس پر محافظت اور لوگوں کو اس پر جمع کرنا اور انہیں اس کی طرف بلانا، بدعت تھا لیکن یہ بدعت محمودہ ممدوحہ تھی۔ اگر وہ کوئی ایسا عمل ہو جو اللہ اور اس کے رسول کے امر کے خلاف ہو تو وہ مذمت و انکار کے مقام میں ہوتا ہے۔ یہ معنی خطابی وغیرہ نے بیان کیا ہے میں کہتا ہوں : نبی کریم ﷺ کے ارشاد جو خطبہ میں فرمایا اس کا یہی معنی ہے : وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ (
2
) برے امور بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ یعنی ایسی بدعت جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو یا صحابہ کے عمل کے موافق نہ ہو اور اس حقیقت کو اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا : من سن فی الاسلام سنۃً حسنۃ کان لہ اجرھا واجر من عمل۔۔۔۔۔ من اوزارھم شیءٌ (
3
) ۔ یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام شروع کیا تو اسے اس کا اجر اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا اور ان کے اجور میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی برا کا عمل شروع کیا تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے، ان کے گناہوں میں کمی کئے بغیر۔ یہ اشارہ ہے جو قبیح یا حسن بدعت شروع کی جاتی ہے۔ یہ اس باب کی اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عصمت وتوفیق کا سوال ہے اور اس کے علاوہ کوئی پالنے والا نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا قضی امرًا فانما یقول لہ کن فیکون جب کسی امر کے احکام اور اتقان کا ارادہ فرماتا ہے۔۔۔۔ جیسا کہ اس کے علم میں پہلے تھا۔۔۔۔ تو اسے کن فرماتا ہے۔ ابن عرفہ نے کہا : قضاء الشی کا مطلب اس کا احکام اور اس کا جاری کرنا اور اس سے فارغ ہونا ہے، اسی وجہ سے قاضی کو قاضی کہتے ہیں کیونکہ جب وہ فیصلہ فرماتا ہے تو جھگڑا کرنے والوں کے جھگڑا سے فارغ ہوجاتا ہے۔ الازہری نے کہا : لغت میں قضیٰ کے کئی معانی ہیں اس کا مرجع کسی چیز کو ختم کرنا اور مکمل کرنا ہے۔ ابو ذؤیب نے کہا : وعلیھما مسرودتان قضاھما داؤد او صنع السوابغ تبع ان کے اوپر دو زرہیں ہیں جنہیں داؤد نے بنایا ہے یا تبع نے مکمل کی ہیں۔ شماخ نے حضرت عمر بن خطاب کے بارے میں فرمایا : قضیت اموراً ثم غادرت بعدھا بوائق فی اکمامھا لم تفتق تو نے کاموں کو مکمل کیا الخ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قضیٰ کا لفظ مشترک ہے کبھی یہ خلق کے معنی میں ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقضھن سبع سمواتٍ فی یومین (فصلت :
12
) یہ قضی بمعنی خلق (پیدا کرنا) ہے کبھی یہ اعلام کے معنی میں ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقضینا الی بنی اسراء یل فی الکتب (الاسراء :
4
) یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو آگاہ کیا۔ کبھی یہ امر (حکم) کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ (الاسراء :
23
) یعنی تمہارے رب نے حکم دیا۔۔۔۔ کبھی الزام اور احکام کو جاری کرنے کے معنی میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلما قضیٰ موسیٰ الاجل (القصص :
29
) (جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت پوری کردی) کبھی ارادہ کے معنی میں ہوتا ہے جیسے واذا قضیٰ امراً ۔۔۔۔ الخ جب اللہ کسی شے کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا (
1
) : قضی بمعنی قدر (اندازہ کرنا) اور کبھی بمعنی امضی بھی آتا ہے۔ اہل سنت کے مذہب پر اس آیت میں یہ دونوں معانی مراد ہو سکتے ہیں یعنی ازل میں مقدر فرمایا اور اپنا حکم نافذ فرمایا اور معتزلہ کے مذہب پر خلق اور ایجاد حکم نافذ فرمایا۔ مسئلہ نمبر
4
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : امراً ، الامر واحد ہے اس کی جمع الامور ہے یہ امر یامر کا مصدر نہیں ہے (
2
) ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قرآن میں امر چودہ معانی میں استعمال ہوا ہے۔
1
۔ دین : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حتی جاء الحق وظھرا مر اللہ (توبہ :
48
) حتیٰ کہ حق آیا اور اللہ کا دین اسلام ظاہر ہوا۔
2
۔ قول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا جاء امرنا (المومنون :
28
) یعنی جب ہمارا قول آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فتنازعوا امرھم بینھم (طہ :
62
) یہاں بھی امر بمعنی قول ہے۔
3
۔ عذاب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لما قضی الامر (ابراہیم :
22
) یعنی جب دوزخیوں کے بارے عذاب کا فیصل ہوگیا۔
4
۔ عیسیٰ (علیہ السلام) : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا قضی امراً (البقرہ :
117
) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کا فیصلہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ بغیر باپ کے ہوں گے۔
5
۔ بدر میں قتل : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا جاء امر اللہ (غافر :
78
) یعنی بدر میں قتل اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیقضی اللہ امراً کان مفعولاً (انفال :
42
) اس آیت میں مکہ کے کفار کا قتل مراد ہے۔
6
۔ فتح مکہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرٍ (توبہ :
24
) ۔ یہاں امر سے مراد فتح مکہ ہے۔
7
۔ قریظہ کا قت اور بنی نضیر کی جلا وطنی : فاعفوا واصفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ (البقرہ :
109
) اس آیت میں امر سے مراد قتل قریظہ اور بنی نضیر کی جلاوطنی ہے۔
8
۔ قیامت : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اتی امر اللہ (النحل :
1
) اللہ کا امر (قیامت) آگیا۔
9
۔ القضاء : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یدبر الامر (السجدہ :
5
) اس میں امر بمعنی فیصلہ ہے۔
10
۔ وحی : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یدبر الامر من السماء الی الارض (السجدہ :
5
) وہ آسمان سے زمین کی طرف وحی نازل فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یتنزل الامر بینھن (طلاق :
12
)
11
۔ امر الخلق : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا الی اللہ نصیرا الامور۔ (الشوریٰ ) یعنی مخلوق کے امور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہیں۔
12
۔ النصر (مدد، نصرت): اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یقولون ھل لنا من الامر من شیء (آل عمران :
154
) (کہتے : کیا ہمارا بھی اس کام میں کچھ دخل ہے)
13
۔ الذنب (گناہ): اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فذاقت وبال امرھا (الطلاق :
9
) یعنی اپنے گناہ کی سزا۔
14
۔ شان اور فعل : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما امر فرعون برشید۔ (ہود) اس میں امر سے مراد فعل اور شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلیحذر الذین یخالفون عن امرۃ۔ (نور :
63
) اس آیت میں بھی امر سے مراد فعل ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کن بعض علماء نے فرمایا : کاف، کینونہ سے ہے اور نون نور سے ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد اعوذ بکلمات التامۃ من شرما خلق سے یہی مراد ہے۔ بکلمۃ اللہ التامۃ یعنی مفرد بھی مروی ہے۔ جمع اس اعتبار سے ہے کہ جب یہ کلمہ تمام امور میں ہے، پس جب ہر امر کے لئے کن کہا اور ہر شے کے لئے کن کہا تو یہ بہت سے کلمات ہوگئے۔ اس پر دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ذر سے مروی ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے اور آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عطافی کلام وعذابی کلامٌ میری عطا کلام ہے اور میرا عذاب کلام ہے۔ ان الفاظ کو ایک طویل حدیث میں امام ترمذی نے نقل کیا ہے کلمہ، کلمات کے معنی میں بھی ہوتا ہے لیکن جب ایک کلمہ تمام اوقات میں تمام امور میں جدا جدا ہو یہ بہت سے کلمات ہوگئے اور ان کا مرجع ایک کلمہ ہے، اور قامۃ فرمایا کیونکہ اہل لغت کے نزدیک کم از کم کلام کے تین حروف ہوتے ہیں۔ ایک حرف جس سے آغاز کیا جاتا ہے ایک حرف جس کے ساتھ کلمہ جمع کیا جاتا ہے اور ایک حرف جس پر سکوت کیا جاتا ہے جب کسی کلمہ کے دو حرف ہوں تو وہ ان کے نزدیک ناقص ہوتا ہے جیسے ید، دم، ضم یہ علت کی وجہ سے ناقص ہیں۔ یہ کلمات آدمیوں کی طرف سے منقوصات میں سے ہیں کیونکہ یہ دو حرفوں پر مشتمل ہیں نیز کیونکہ یہ ادوات کے ساتھ تلفظ کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تامہ ہیں کیونکہ یہ بغیر ادوات کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کی شبہ سے بلند وبالا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فیکون یہ نون کے رفع کے ساتھ پڑھا گیا ہے علیحدہ کلام کے اعتبار سے (
1
) ۔ سیوبیہ نے کہا : یہ فھو یکون ہے یا فانہ یکون ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ یقول پر معطوف ہے (
2
) ۔ پہلی صورت میں یہ امر کے بعد ہوگا اگرچہ پہلے معدوم ہوگا، کیونکہ یہ موجود کے قائم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ معلوم ہے اس کا بیان آگے آئے گا اور دوسری صورت میں امر کے ساتھ موجود ہوگا، اس کو طبری نے پسند کیا ہے۔ فرمایا اس نے کسی شے کو کن کے ساتھ حکم دیا جاتا ہے وہ حکم کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور کوئی شے موجود نہیں ہوتی مگر وہ جسے وجود کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اس کی مثال، لوگوں کا قبور سے کھڑا ہونا ہے اللہ تعالیٰ کے بلاوا سے نہ مقدم ہوں گے نہ مؤخر۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اذا دعا کم دعوۃً من الارض اذا انتم تخرجون۔ (الروم) ابن عطیہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فرمایا : یہ معنی کی جہت سے غلط ہے کیونکہ یہ قول تقاضا کرتا ہے کہ قول، تکوین اور وجود کے ساتھ ہے۔ (
3
) اس آیت میں عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معدومات کا ہمیشہ سے آمر ہے ان کے وجود کی شرط کے ساتھ۔ مقدورات کے تأخر کے ساتھ قادر ہے۔ معلومات کے تأخر کے ساتھ عالم ہے۔ پس آیت میں ہر وہ چیز جو استقبال کا تقاضا کرتی ہے وہ مامورات کے اعتبار سے ہے کیونکہ محدثات نہ ہونے کے بعد ہوتی ہیں، ہر وہ صفت جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے قدرت اور علم سے وہ قدیم اور ہمیشہ ہوتی ہے (
4
) پس (کن) کی عبارت جس معنی کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قدیم اور قائم بالذات ہے۔ ابو الحسن الماوردی نے کہا : اگر کہا جائے کس حال میں وہ اسے کن کہتا ہے کہ وہ ہوجاتی ہے کیا عدم کی حالت میں یا اس کے وجود کی حالت میں۔ اگر تو وہ حالت عدم میں ہوتی ہے تو حکم کرنا محال ہے مگر مامور کو۔ جیسے محال ہوتا ہے امر ہونا مگر آمر کی طرف سے۔ اگر وہ حالت وجود میں ہے تو یہ ایسی حالت ہے جس میں وجود اور حدوث کا امر جائز ہی نہیں ہے کیونکہ وہ موجودحادث ہے۔ اس سوال کے تین جوابات دئیے گئے ہیں۔
1
۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے اس کی موجود مخلوق میں اس کے اوامر کے نفوذ کی، جیسے اس نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ دھتکارے ہوئے بندر بن جائیں اور یہ معدومات کی ایجاد میں وارد نہیں ہوتا۔
2
۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے ہونے سے پہلے اسے جانتا ہے۔ پس وہ اشیاء جو موجود نہیں وہ اس کے علم میں اپنے ہونے سے پہلے ان چیزوں کے مشابہ ہیں جو موجود ہیں۔ پس انہیں کونی کہنا جائز ہے۔ وہ انہیں حالت عدم سے حالت وجود کی طرف نکلنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ وہ حالت عدم میں ان کو جانتا ہے۔
3
۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے جس کو اس نے پیدا کرنا ہے تمام کو شامل ہے جب وہ اس کی پیدائش اور تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے وہ پیدا ہوجاتی ہے اور پائی جاتی ہے بغیر اس کے کہ وہاں اسے قول فرمائے۔ یہ اس کا فیصلہ ہے جو وہ چاہتا ہے، اس کو قول سے تعبیر فرمایا ہے اگرچہ قول نہ بھی ہو۔ جیسے ابو النجم کا قول ہے۔ قد قالت الانساع للبطن الحق (
1
) یہ کوئی قول نہیں ہے، اس نے ارادہ کیا کہ پیٹھ پیٹ کے ساتھ لاحق ہوگئی ہے۔ جیسے عمرو بن حممہ الدوسی نے کہا : فاصبحت مثل النسر طارت فراخہ اذا رام تطیاراً یقال لہ قع میں گدھ کی طرح ہوگیا جس کے بچے اڑ گئے۔ جب وہ اڑنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے قع کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا : قالت جناحاہ لساقیہ الحقا ونجیا لحمکما ان یمزقا اس کے پروں نے اس کی پنڈلیوں کو کہا : مل جاؤ اور اپنے گوشت کو پھٹنے سے بچا لو۔
Top