Al-Qurtubi - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی خونزیری سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
اس میں بارہ مسئلہ ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یسئلونک “ اس لفظ کے بارے گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ جریر بن عبدالحمید اور محمد بن فضیل نے عطا بن سائب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : میں نے حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اصحاب سے زیادہ بہتر قوم کوئی نہیں دیکھی۔ انہوں نے آپ ﷺ سے صرف تیرہ مسائل کے بارے میں سوال کیا اور وہ تمام کے تمام قرآن کریم میں موجود ہیں۔ مثلا (آیت) ” یسئلونک عن المحیض “۔ (آیت) ” یسئلونک عن الشھر الحرام “۔ اور (آیت) ” یسئلونک عن الیتمی “۔ اور وہ سوال نہ کرتے تھے مگر ایسی شے سے متعلق جو ان کے لئے نفع بخش ہوتی تھی۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے : تیرہ مسئلوں میں سے سوائے تین کے حدیث طیبہ میں کوئی نہیں ہے۔ ابو الیسار نے جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ایک جتھہ بھیجا اور ان پر ابو عبیدہ بن حارث یا عبیدہ بن حارث کو امیر مقرر کیا۔ پس جب وہ روانہ ہونے کے لئے آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے، تو وہ رسول اللہ ﷺ کی فرط محبت سے فریفتہ ہو کر رونے لگے۔ تو آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو (امیر بنا کر) بھیج دیا اور انہیں ایک خط لکھ کر عطا فرمایا اور ساتھ ہی یہ حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اس خط کو کھول کر نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ فلاں جگہ تک پہنچ جائیں اور ارشاد فرمایا : اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو سفر پر مجبور نہ کرنا۔ پس جب وہ اس مقررہ جگہ پر پہنچے تو خط پڑھا اور (آیت) ” انا للہ وانا الیہ رجعون “۔ پڑھا اور کہا : ” سمعا وطاعۃ للہ ولرسولہ “۔ (کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کی رجا اور خوشنودی کے لئے حکم کی تعمیل میں دل وجان حاضر ہے) راوی کا بیان ہے : دو آدمی واپس لوت آئے اور باقی افراد ان کے ساتھ آگے چلے گئے۔ چناچہ ان کی ملاقات ابن حضرمی سے ہوئے، تو انہوں نے اسے قتل کردیا اور انہیں اس کا علم نہ تھا کہ آج رجب کا پہلا دن ہے، تو اس پر مشرکین نے کہا : تم نے شہر حرام میں قتل کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” یسئلونک عن الشھر الحرام “۔ الآیہ (1) (تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 655۔ 656) اس آیت کے سبب نزول میں یہ روایت بھی ہے کہ بنی کلابہ کے دو آدمی عمرو بن امیہ ضمری سے ملے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دونوں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس تھے اور وہ دن رجب کا پہلا دن تھا۔ چناچہ اس نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ تب قریش نے کہا : اس نے ان دونوں کو شہر حرام (حرام مہینے) میں قتل کیا ہے، پس یہ آیت نازل ہوئی۔ لیکن اس آیت کے سبب نزول میں حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کا واقعہ اکثر اور زیادہ مشہور ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں نوافراد کے گروہ کے ساتھ بھیجا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ افراد کے ساتھ غزوہ بدر سے دو ماہ پہلے جمادی الآخر میں بھیجا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رجب میں بھیجا تھا۔ ابو عمر نے کتاب الدرر میں اس کے بارے کہا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کرز بن جابر کی تلاش سے واپس لوٹ کر آئے۔ اس خروج کو بدراولی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ ﷺ جمادی الثانی کے بقیہ ایام اور رجب کا مہینہ مدینہ طیبہ میں قیام فرما رہے اور رجب میں آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش بن رکاب الاسدی کو بھیجا اور ان کے ساتھ مہاجرین میں سے آٹھ افراد اور بھی تھے۔ اور وہ تھے ابو حذیفہ بن عتبہ، عکاشہ بن محصن، عتبہ بن عزوان، سہیل بن بیضاء فہری، سعد بن ابی وقاص، عامر بن ربیعہ واقد بن عبداللہ تمیمی، اور خالد بن بکیر لیثی۔ اور آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے لئے ایک خط تحریر فرمایا اور انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اسے کھول کر نہ دیکھیں یہاں تک کہ وہ دو دن سفر کرلیں، پھر اسے کھول کر پڑھیں۔ پس آپ نے وہی کچھ کیا جس طرح کرنے کا حکم آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اور آپ اپنے اصحاب میں سے کسی کو مجبور نہ کریں اور آپ ان کے امیر ہیں۔ پس حضرت عبداللہ بن جحش ؓ نے ایسے ہی کیا جیسے آپ نے حکم ارشاد فرمایا تھا۔ پاس آپ نے خط کھولا اور اسے پڑھا، تو اس میں پایا کہ جب تو میرے اس خط میں دیکھے تو پھر اس پر عمل کرنا یہاں تک کہ تو مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر اترنا اور وہاں قریش کی تاک میں رہنا اور ہمیں ان کی خبروں کے بارے میں آگاہ کرنا۔ ” اذا انظرت فی کتابی ھذا فامض حتی تنزل نخلۃ بین مکۃ والطائف فترصد بھا قریشا، و تعلم لنا من اخبارھم۔ پس جب آپ نے تحریر پڑھی تو کہا : سبعا وطاعۃ (دل وجان سے تعمیل ارشاد کے لئے حاضر ہیں) پھر اپنے ساتھیوں کو بھی اس کے بارے آگاہ کیا اور اس کے بارے میں بھی کہ وہ ان میں سے کسی کو مجبور نہ کریں گے اور یہ کہ وہ آپ کی خوشنودی کے لئے انہیں کو ساتھ لے کر اٹھیں گے جنہوں نے آپ کی اطاعت کی اور یہ کہ اگر کسی نے بھی آپ کی اطاعت نہ کی تو پھر وہ اکیلے ہی آگے بڑھیں گے۔ پس جو کوئی شہادت کو پسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ (آگے بڑھنے کے لئے) اٹھے، اور جو کوئی موت کو ناپسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ واپس لوٹ جائے، تو ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تمام کے تمام اس (کام) میں رغبت رکھتے ہیں جس میں آپ رغبت رکھتے ہیں۔ اور ہم میں سے ہر ایک یقینا رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل کے لئے دل وجان سے حاضر ہے۔ اور وہ سارے آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجاز کی طرف چل پڑے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ بھاگ گیا، وہ دونوں اس کا پیچھا کرتے رہے اور اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئے۔ اور حضرت عبداللہ بن جحش ؓ اپنے ساتھیوں سمیت آگے چلے گئے یہاں تک کہ مقام نخلہ پر جا کر اترے، تو وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا، جو کشمش اور دیگر سامان تجارت اٹھائے ہوئے تھا اور اس میں عمرو حضرمی تھا۔ حضرمی کا نام عبداللہ بن عباد ہے جو صدف سے تعلق رکھتا تھا اور صدف حضرموت کا ایک قبیلہ ہے اور عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اور اس کا بھائی نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ مخزوی اور حکم بن کیسان مولی بنی مغیرہ بھی شامل تھے۔ پس مسلمانوں نے باہمی مشاورت کی اور کہا : ہم شہر حرام رجب کے آخری دن میں ہیں، پس اگر ہم ان سے قتال کرتے ہیں، تو ہم شہر حرام کی حرمت کو پامال کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگر ہم انہیں آج رات چھوڑ دیتے ہیں تو پھر وہ حرم پاک میں داخل ہوجائیں گے۔ چناچہ انہوں نے ان کے ساتھ لڑنے پر اتفاق کرلیا اور واقد بن عبداللہ تمیمی نے تیر مارا اور عمرو بن حضرمی کو قتل کردیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو قیدی بنالیا اور نوفل بن عبداللہ بھاگ گیا۔ پھر سامان سے لدے ہوئے اونٹ اور دو قیدیوں کو ساتھ لے آئے اور حضرت عبداللہ بن جحش ؓ نے انہیں کہا : جو مال غنیمت ہم نے حاصل کیا ہے اس سے رسول اللہ ﷺ کے لئے خمس علیحدہ کر دو ۔ پس انہوں نے ایسا ہی کردیا۔ اسلام میں پہلا خمس یہی تھا۔ پھر قرآن کریم نازل ہوا : (آیت) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ “ الآیہ ترجمہ : اور جان لو کہ جو کوئی چیز تم غنیمت میں حاصل کرو تو اللہ کے لئے ہے اس کا پانچواں حصہ الخ) (الانفال : 41 ) پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے فعل کو برقرار رکھا اور اسے پسند کیا اور یوم قیامت تک اسے امت کے لئے سنت قرار دیا۔ پہلی غنیمت ہے جو اسلام میں حاصل ہوئی اور (حضرت عبداللہ بن جحش ؓ پہلے امیر ہیں اور عمرو بن حضرمی پہلا مقتول ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شہر حرام میں ابن حضرمی کے قتل کو ناپسند کیا اور اس معاملہ کو قوم پر چھوڑ دیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “۔ تا قولہ ھم فیھا خلدون “۔ (217) اور رسول اللہ ﷺ نے دونوں قیدیوں کا فدیہ قبول کرلیا۔ پھر عثمان بن عبداللہ حالت کفر میں ہی مکہ مکرمہ میں فوت ہوا اور حکم بن کیسان نے اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ہی رہے یہاں تک کہ انہوں نے بئر معونہ میں جام شہادت نوش کیا اور حضرت سعد اور حضرت عتبہ رحمۃ اللہ علہیم صحیح سالم مدینہ طیبہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ اور کہا گیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عتبہ ؓ کا اپنے اونٹ کی تلاش میں جانا حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کی اجازت سے تھا۔ اور عمرو بن حضرمی اور اس کے ساتھیوں نے جب رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو دیکھا، تو وہ ان سے خوفزدہ ہوگئے، تو حضرت عبداللہ بن جحش ؓ نے فرمایا بیشک یہ قوم تم سے خوفزدہ ہو کر گھبرا گئی ہے، پس تم اپنے میں سے ایک آدمی کا سر مونڈ دو اور پھر اسے چاہئے کہ وہ ان کے پاس چلا جائے۔ پس جب انہوں نے اسے دیکھا جس کا سر مونڈا ہوا تھا، تو وہ امن میں ہوگئے اور کہنے لگے : یہ قوم عمار ہے تم پر کوئی حرج اور خطرہ نہیں ہے اور پھر انہوں نے ان کے قتال کے بارے میں باہمی مشاورت کی۔ الحدیث۔ یہودیوں نے فال نکالی اور کہا : واقد سے مراد وقدت الحرب ہے یعنی جنگ بھڑک اٹھی اور عمرو سے مراد عمرت الحرب ہے یعنی جنگ قائم ہوگئی اور حضرمی سے مراد حضرت الحرب ہے جنگ شروع ہوگئی۔ اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہم ان دونوں کا فدیہ قبول نہیں کریں گے یہاں تک کہ حضرت سعد ؓ اور حضرت عتبہ ؓ آجائیں اور اگر وہ دونوں نہ آئے تو ہم ان دونوں کو ان کے بدلے قتل کردیں گے۔ پس جب وہ دونوں آگئے تو ان دونوں نے فدیہ ادا کردیا۔ پھر حکم نے تو اسلام قبول کرلیا اور مدینہ طیبہ میں ہی مقیم ہوگیا یہاں تک کہ عزوہ بئر معونہ میں شہید کر یا گیا۔ رہا عثمان ! تو وہ مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ گیا اور وہیں حالت کفر میں مرگیا اور رہا نوفل ! تو اس عزوہ احزاب کے دن اپنے گھوڑے کو ایڑی لگائی تاکہ وہ خندق کو عبور کر کے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکے، تو وہ اپنے گھوڑے سمیت خندق میں گرگیا اور دونوں کے اعضائے بدن ٹوٹ گئے۔ پس اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے مار ڈالا۔ مشرکین نے اس کا مردہ جسم ثمن کے عوض طلب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم اسے اٹھا لو کیونکہ اس کا مردہ بدن بھی ناپاک ہے اور اس کی دیت بھی ناپاک ہے “ خذوہ فانہ خبیث الجیفۃ خبیث الدیۃ “ پس یہی اس ارشاد باری تعالیٰ کے نزول کا سبب ہے : (آیت) ” یسئلونک عن الشھر الحرام “۔ الآیۃ۔ ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ عمرو بن حضرمی کا قتل رجب کے آخری دن میں ہوا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور طبری نے سدی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ جمادی الثانی کے آخری دن قتل ہوا، لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے، اس بنا پر کہ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ رجب کی پہلی رات میں ہوا اور مسلمان اسے جمادی الثانی میں سے گمان کرتے تھے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے کہ صاحب بن عباد نے اپنے رسالہ المعروفہ بالاسدیہ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو اس وقت امیر المومنین کا نام دیا گیا اس لئے کہ انہیں مومنین کی ایک جماعت پر امیر مقرر کیا گیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (2) علماء کا اس آیت کے نسخ کے بارے میں اختلاف ہے، پس جمہور اس کے نسخ کے قائل ہیں اور یہ کہ اشہر حرام میں مشرکین کے ساتھ قتال کرنا مباح ہے۔ البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں ان کا اختلاف ہے۔ زہری نے کہا ہے : اسے ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” وقاتلوا المشرکین کافۃ “۔ (التوبہ : 36) ترجمہ : اور جنگ کرو تمام مشرکوں سے۔ نے منسوخ کردیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے حضور نبی کریم ﷺ کے شہر حرام میں بنی ثقیف کے ساتھ جنگ کرنے نے منسوخ کیا ہے اور آپ ﷺ نے ابو عامر کو شہر حرام میں اوطاس کی طرف جنگ کے لئے بھیجا تھا (لہذا آپ ﷺ کا یہ عمل اس حکم کے لئے ناسخ ہے) اور ایک قول یہ کیا گیا ہے : ذوالقعدہ کے مہینہ میں جنگ پر بیعت رضوان لینے نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ اور یہ ضعیف ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس جب مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیئے جانے کی خبر پہنچی اور یہ کہ وہ (اہل مکہ) آپ ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس وقت آپ ﷺ نے مسلمانوں سے ان کے دفاع پر بیعت لی (کہ وہ ان کا مقابلہ پوری جرات کے ساتھ کریں گے) نہ کہ آپ ﷺ نے یہ بیعت ان سے جنگ کی ابتدا کرنے کے لئے لی۔ اور امام بیہقی نے عروہ بن زبیر سے محمد بن اسحاق کی حدیث کے علاوہ حضرمی کے قصہ میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ الآیہ۔ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی کتاب میں یہ بیان کیا ہے کہ شہر حرام میں قتال اسی طرح حرام ہے جیسے پہلے تھا اور جس سبب سے مومنین اسے حلال سمجھتے ہیں تو وہ اس (قتال) سے بڑا جرم ہے۔ وہ یہ کہ (کفار) انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کرکے جائیں، وہ انہیں بیڑیاں پہنا دیتے ہیں، انہیں طرح طرح کی اذیتیں دیتے اور ستاتے ہیں اور انہیں محبوس کرلیتے ہیں، وہ خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور مسلمانوں کو حج وعمرہ اور نماز کے لئے مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور وہ مسجد حرام کے باسیوں کو باہرنکالتے ہیں حالانکہ اس کے مکین مسلمان ہیں اور دین کے بارے میں انہیں طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا رکھتے ہیں اور ہم تک یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ابن حضرمی کے قتل کی دیت ادا فرمائی اور شہر حرام کو اسی طرح حرام قرار دیا جس طرح وہ انہیں حرام قرار دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ”’ برآءۃ من اللہ ورسولہ “ (التوبہ : 1) ترجمہ : یہ قطع تعلق (کا اعلان) ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے) (1) دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد 3، صفحہ 17۔ 18) حضرت عطا کہتے ہیں کہ یہ آیت محکم ہے اور اشہر حرام میں قتال جائز نہ ہوگا اور اسی پر حلف اٹھایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کے بعد وارد ہونے والی آیات زمانہ کے اعتبار سے عام ہیں اور یہ خاص ہے اور بالاتفاق عام خاص کے لئے ناسخ نہیں ہو سکتا۔ اور ابو الزبیر نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہر حرام میں جنگ نہ کرتے تھے مگر یہ کہ آپ کے ساتھ جنگ کی جاتی۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قتال فیہ “۔ اس میں قتال سیبویہ کے نزدیک بدل اشتمال ہے، کیونکہ سوال مہینے اور قتال دونوں پر مشتمل ہے۔ یعنی کفار مہینے کی حرمت کو توڑنے پر تعجب کرتے ہوئے آپ سے سوال کر رہے ہیں۔ پس ان کا سوال شہر (مہینے) کے متعلق ہوا، صرف اس لئے کہ اس میں قتال پایا گیا۔ زجاج نے کہا ہے : معنی یہ ہے کہ وہ آپ سے شہر حرام میں جنگ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اور قطبی نے کہا : وہ آپ سے شہر حرام میں جنگ کرنے کے بارے پوچھتے ہیں : کیا یہ جائز ہے ؟ پاس اسی وجہ سے انہوں نے قتال کو شہر سے بدل قرار دیا ہے اور سیبویہ نے ایک شعر بھی بیان کیا ہے : فما کان قیس ھل کہ ھلک واحد ولکنہ بنیان قوم تھدما قیس کا ہلاک ہوجانا ایک آدمی کا ہلاک ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا ہلاک ہونا تو پوری قوم کے محل کے گر جانے کے مترادف ہے۔ (تو اس میں ھل کہ قیس سے بدل ہے) عکرمہ نے اس طرح قرات کی ہے۔ ” یسالونک عن الشھر الحرام قتل فیہ قل قتل “۔ یعنی دونوں مقامات پر (قتال کو) بغیر الف کے پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ آپ سے شہر حرام کے بارے میں اور اس میں جنگ کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں (یعنی یسالونک عن الشھر الحرام وعن قتال فیہ) حضرت ابن مسعود ؓ نے اسی طرح قرات کی ہے۔ پس اس صورت میں قتال، عن، مکروہ کی وجہ سے مجرور ہوگا۔ کسائی نے یہی کہا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے کہ قتال مجرور ہے کیونکہ اس سے پہلے عن۔ نیۃ موجود ہے۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ قتال جوار کی بنا پر مجرور ہے۔ (یعنی چونکہ یہ مجرور کے پڑوس میں ہے جو کہ الشھر الحرام ہے، اس لئے اس کا اعراب اسے بھی دے دیا گیا ہے) نحاس نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ کتاب اللہ میں کسی لفظ کو حق جوار کی بنا پر کوئی اعراب دے دیا جائے اور نہ ہی کسی اور کلام میں ایسا کرنا جائز ہے۔ کیونکہ محض جوار کا اعتبار غلط ہے اور جہاں کہیں ایسا ہوا ہے وہ شاذ ہے۔ جیسا کہ عربوں کا یہ قول ہے : ” ھذا جحرضب خرب “ اور اس کے غلط ہونے پر دلیل تثنیہ میں عربوں کا یہ قول ہے : ” ھذان جھر اضب خربان “۔ بلاشبہ یہ ” اقوئ “ (شعر کے قافیہ کو مختلف کرنا یعنی کسی کو رفع دینا اور کسی کو جر دینا) کے قائم مقام ہے۔ لہذا یہ جائز نہیں ہوگا کہ کتاب اللہ میں سے کسی شے کو اس پر محمول کیا جائے اور افصح اور اصح لغات کے سوا اس طرح نہیں ہو سکتا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اور ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہ حق جوار کی بنا پر مجرور ہے، ان کا یہ قول خطا ہے۔ نحاس نے کہا ہے کہ ” عن “ کو مضمر کرنا جائز نہیں ہے اور اس بارے میں یہ قول کرنا کہ یہ بدل ہے (بھی جائز نہیں) اعرج نے قتال کو مرفوع پڑھا ہے یعنی یسالونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “۔ نحاس نے کہا ہے : یہ عربی میں ابہام اور پیچیدگی ہے اور اس میں معنی یہ ہے کہ وہ آپ سے شہر حرام کے بارے سوال کر رہے ہیں، کیا اس میں قتال جائز ہے ؟ اور ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” یسئلونک “ استفہام پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ امرؤ القیس نے کہا ہے : اصاح تری برقا اریک ومیضہ کلمع الیدین فی حبی مکلل : اے میرے ساتھی ! کیا تو اس بجلی کو دیکھ رہا ہے جس کی چمک تجھے دکھائی گئی اونچے بادلوں کی چمک میں دونوں ہاتھوں کی چمک (حرکت) کی طرح۔ تو اس میں تری سے پہلے الف استفہام کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اصاح کا الف اس پر دلالت کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ حرف ندا ہے۔ اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا ہے : تروح من الحی ام تبتکر : کیا تو قبیلے سے شام کے وقت جائے گا یا صبح کے وقت۔ تو اس میں بھی اصل عبارت اتروح ہے، ہمزہ استفہام کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ ام اس پر دلالت کر رہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل قتال فیہ کبیر “۔ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ یعنی اس میں قتال کرنا انتہائی ناپسندیدہ اور گناہ کا عمل ہے۔ کیونکہ شہر حرام میں قتال کو حرام قرار دینا اس وقت ثابت ہے جبکہ ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہو۔ آیت میں لفظ ” الشھر “ اسم جنس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کے لئے شہر حرام کو قوام بنا دیا تھا، وہ اس دوران اعتدال برتتے تھے، وہ خون نہیں بہاتے تھے اور نہ ہی اشہر حرام میں غارتگری کرتے تھے۔ اشہر حرام سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم ہیں۔ ان میں تین مسلسل اور لگا تار ہیں اور ایک منفرد ہے۔ اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ سورة المائدہ میں آئے گی۔ مسئلہ نمبر : (5) قول باری تعالیٰ : (آیت) ” وصد عن سبیل اللہ “۔ مبتدا ہے اور وکفر بہ ‘ صد پر معطوف ہے۔ اور ” والمسجد الحرام “۔ کا سبیل اللہ پر عطف کیا گیا ہے۔ (آیت) ” واخراج اھلہ منہ “۔ بھی صد پر معطوف ہے۔ اور مبتدا کی خبر (آیت) ” اکبر عند اللہ “ ہے۔ یعنی مذکورہ اعمال کرنا شہر حرام میں قتال کرنے سے بھی بڑھ کر گناہ ہیں۔ یہ قول مبرد وغیرہ نے کیا ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ اس میں لوگوں کو طویل عرصہ تک کعبہ معظمہ کا طواف کرنے سے روکنا ہے۔ اور (آیت) ” وکفربہ “ میں ضمیر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہو سکتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور بعض نے کہا ہے : اس سے مراد ہے ” بالحج والمسجد الحرام “۔ یعنی حج اور مسجد حرام میں کفر کا ارتکاب کرنا۔ اور (آیت) ” واخراج اھلہ منہ اکبر “۔ یعنی وہاں سے باسیوں کو نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہر حرام میں قتال کرنے سے بھی بڑا جرم اور گناہ ہے (اور اس کی سزا زیادہ ہے) فراء نے کہا ہے : ” صد “ کا عطف ” کبیر “ پر کیا گیا ہے اور (آیت) ” والمسجد الحرام “ کا عطف بہ کی ہاضمیر پر کیا گیا ہے۔ پس یہ کلام عطف نسق اور متصل ہے منقطع نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ غلطی ہے کیونکہ معنی جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ اوکفر بہ “۔ ای باللہ کا عطف بھی ” کبیر “ پر کردیا جائے۔ اور اس سے یہ معنی ظاہر ہوگا کہ اہل مسجد کو مسجد سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کفر سے بھی بڑا جرم ہے اور اس معنی کا فاسد ہونا بالکل ظاہر اور بین ہے۔ جمہور کے قول کے مطابق آیت کا معنی یہ ہے : اے کفار قریش ! بلاشبہ تم ہمارے بارے میں شہر حرام میں جنگ کرنے کو بہت بڑا جرم سمجھ رہے ہو، حالانکہ جو کچھ تم کر رہے ہو یعنی جو کوئی اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا، تمہارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور تمہارا اہل مسجد کو مسجد سے نکالنا، جیسا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعینکے ساتھ کیا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ اور بڑا جرم ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 290) حضرت عبداللہ بن جحش ؓ نے کہا ہے : تعدون قتلا فی الحرام عظیمۃ و اعظم منہ لویری الرشد راشد “۔ تم ماہ حرام میں قتل کو بڑا گناہ شمار کر رہے ہو حالانکہ اگر کوئی ہدایت یافتہ راہ ہدایت کو دیکھے تو اس سے بھی بڑے گناہ یہ ہیں : صدودکم عما یقول محمد وکفر بہ واللہ رای وشاھد :۔ محمد ﷺ کے ارشادات سے تمہاری مخالفت اور آپ سے کفر، اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اس کا گواہ ہے۔ واخراجکم من مسجد اللہ اھلہ لئلا یری للہ فی البیت ساجد : اور تمہارا اللہ کی مسجد سے اس میں بسنے والوں کو نکال دینا تاکہ بیت اللہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی سجدہ کرنے والا نظر نہ آئے۔ فانا وان عیر تمونا بقتلہ وارجف بالاسلام باغ وحاسد : اگرچہ تم نے ہمیں قتل کی عار دلائی اور سرکش اور حسد کرنے والوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔ سقینا من ابن الحضرمی رماحنا بنخلۃ لما اوقد الحرب واقد : لیکن ہم نے وادی نخلہ میں ابن حضرمی کے خون سے اپنے نیزوں کو سیراب کیا جب واقد نے جنگ کی آگ بھڑکائی۔ دما وابن عبداللہ عثمان بیننا ینازغہ غل من القد عائد : عثمان بن عبداللہ ہمارے پاس ہے، تسمے کے خون آلود طوق نے اسے جکڑ رکھا ہے۔ زہری اور مجاہد وغیرہما نے کہا ہے کہ قول باری تعالیٰ (آیت) ” قل قتال فیہ کبیر “۔ منسوخ ہے اور اس کا ناسخ یہ ارشاد ہیں (آیت) ” وقاتلوا المشرکین کافۃ “۔ اور (آیت) ” فاقتلوالمشرکین “۔ (توبہ : 5) حضرت عطا نے کہا ہے : یہ منسوخ نہیں ہے اور اشہر حرام میں قتال نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والفتنۃ اکبر من القتل “ مجاہد وغیرہ نے کہا ہے کہ یہاں فتنہ سے مراد کفر ہے۔ یعنی تمہارا کفر کرنا ہمارے قتل کرنے سے بڑا جرم ہے۔ جمہور نے کہا ہے : یہاں فتنہ سے مراد ان (کفار) کا مسلمانوں کو ان کے دین کے بارے میں فتنہ اور آزمائش میں مبتلا کرنا ہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگئے، یعنی تمہارا یہ رویہ اختیار کرنا اشہر حرام میں تمہیں قتل کرنے سے زیادہ شدید اور سخت جرم ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 290) ۔ تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 659) مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یزالون “۔ یہ ابتداء اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر ہے، اور اس کے ذریعہ مؤمنین کو کافروں کے شر سے ڈرانا ہے۔ مجاہد نے کہا ہے : مراد کفار قریش ہیں اور ” یردوکم “ حتی کے سبب منصوب ہے، کیونکہ یہ خالصۃ غایت ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن یرتدد “ اور جو کوئی اسلام سے کفر کی جانب لوٹ جائے۔ (آیت) ” فاولئک حبطت “ تو ان کے عمل باطل ہوگئے اور فاسد ہوگئے، اسی سے الحبط بھی ہے۔ مراد وہ بیماری ہے جو جانوروں کے پیٹوں میں بہت زیادہ گھاس اور چارہ وغیرہ کھا جانے سے لگ جاتی ہے۔ اس کے سبب ان کے پیٹ پھول جاتے ہیں اور بسا اوقات اسی سبب سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ آیت مسلمانوں کے لئے بطور تہدید ہے تاکہ وہ دین اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ مسئلہ نمبر : (9) علماء کے مابین مرتد کے بارے یہ اختلاف ہے کہ کیا اسے توبہ کی ترغیب دی جائے گی یا نہیں ؟ کیا نفس روت کے ساتھ ہی اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں یا نہیں ؟ مگر یہ کہ اس کی موت کفر پر واقع ہو ؟ کیا اسے وارث بنایا جائے گا یا نہیں ؟ یہ تین مسائل ہیں۔ (1) ایک گروہ نے کہا ہے : اسے توبہ کی ترغیب دی جائے گی، پس اگر وہ توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ ان میں سے بعض نے کہا ہے : ایک ساعت ترغیب دی جائے گی اور دوسروں نے کہا ہے : ایک مہینہ تک اسے توبہ کی رغبت دلائی جائے گی اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اسے تین (بار) توبہ کے لئے کہا جائے گا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے۔ یہی قول حضرت امام مالک (رح) کا ہے جسے آپ سے ابن قاسم نے روایت کیا ہے۔ حسن نے کہا ہے : اسے سو بار توبہ کی ترغیب دلائی جائے گی اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اسے توبہ کی رغبت دلائے بغیر ہی قتل کردیا جائے گا۔ امام شافعی نے بھی اپنے ایک قول میں یہی کہا ہے اور یہی طاؤس اور عبید بن عمیر کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ سحنون نے ذکر کیا ہے کہ عبدالعزیز بن ابی سلمہ ماجشون کہا کرتے تھے : مرتد کو قتل کیا جائے گا اور اسے توبہ کی ترغیب نہیں دی جائے گی اور انہوں نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جب حضرت ابو موسیٰ ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھیجا۔ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : تشریف رکھیے اور ان کے لئے تکیہ وغیرہ رکھا، تو اس وقت ان کے پاس ایک آدمی تھا۔ جسے بیڑیاں پہنائی گئی تھیں، تو آپ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا یہ یہودی تھا، اس نے اسلام قبول کیا، اس نے پھر اپنے دین کو برے دین کی طرف لوتا دیا ہے اور یہ یہودی ہوگیا ہے، تو حضرت معاذ ؓ نے کہا : میں نہیں بیٹھوں گا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا جائے، یہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کا فیصلہ ہے، تو حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا : آپ بیٹھ جائیے۔ انہوں نے کہا : (ہاں) میں نہیں بیٹھوں گا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا جائے، یہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے۔ تین بار آپ نے یہی کہا۔ چناچہ ابو موسیٰ ؓ نے اس کے بارے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا، یہ روایت امام مسلم وغیرہ نے بیان کی ہے۔ (1) (بخاری شریف : باب : حکم المرتدد المرتدۃ الخ حدیث نمبر : 6412 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت امام ابو یوسف (رح) نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے نقل کیا ہے کہ مرتد پر اسلام پیش کیا جائے گا، اگر وہ اسلام قبول کرلے تو فبہا، ورنہ اسی جگہ اسے قتل کردیا جائے گا مگر اس صورت میں کہ وہ مہلت کا مطالبہ کرے۔ پس اگر اس نے مہلت کا مطالبہ کیا، تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی لیکن آپ سے اور آپ کے اصحاب سے مشہور قول یہ ہے کہ مرتد کو قتل نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسے توبہ کی ترغیب دی جائے، ان کے نزدیک زندیق اور مرتد برابر ہیں، اور امام مالک (رح) نے کہا ہے کہ زنادقہ کو قتل کیا جائے گا اور انہیں توبہ کی ترغیب نہیں دی جائے گی۔ یہ پہلے سورة البقرہ (ج : 1 ص : 198) میں گزر چکا ہے۔ جو کوئی کفر کی ایک نوع سے نکل کر کفر کی ہی دوسری نوع میں داخل ہوا۔ تو اس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) اور جمہور فقہاء نے کہا ہے : اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، کیونکہ اس طرح وہ اسی کفر کی طرف ہی منتقل ہوا ہے جس پر وہ ابتدا میں تھا لہذا اسے اسی پر برقرار رکھا جائے گا۔ ابن عبد الحکم نے حضرت امام شافعی (رح) سے بیان کیا ہے کہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : من بدل دینہ فاقتلوہ “ جو کوئی اپنا دین بدل دے تم اسے قتل کر دو ۔ (2) (بخاری شریف : باب : لا یعذب بعذاب اللہ، حدیث نمبر : 2794 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آپ نے کسی مسلمان کو کافر سے خاص نہیں کیا۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : حدیث کا معنی یہ ہے جو کوئی اسلام سے نکل کر کفر کی طرف جائے اور رہا وہ جو کفر سے کفر کی طرف نکلا تو وہ اس حدیث سے مراد نہیں۔ یہی فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ امام شافعی (رح) سے مشہور قول وہ ہے جو مزنی اور ربیع نے ذکر کیا ہے کہ اہل ذمہ میں سے اپنا دین بدلنے والے کو امام وقت دارالحرب بھیج دے گا اور اسے اپنے شہر (ملک) سے نکال دے گا اور حربیوں کے اموال کے ساتھ اس کا مال بھی حلال ہوجائے گا اور دارالحرب پر غلبہ پالیا گیا۔ کیونکہ امام وقت نے اسے اس دین کی بنا پر ذمی بنایا تھا جس پر وہ عقد ذمہ کے وقت تھا۔ مرتدہ عورت کے بارے علماء کے مابین اختلاف ہے : امام مالک (رح)، امام اوزاعی، امام شافعی اور لیث بن سعد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : مرتد ہونے والی عورت کو قتل کردیا جائے گا جیسا کہ مرتد آدمی کو قتل کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں برابر ہیں۔ اور ان کی دلیل ظاہر حدیث ہے ” من دینہ فاقتلوہ “ اور اس میں لفظ ” من “ مذکر ومونث “ دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امام ثوری، امام اعظم ابو حنیفہ، اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ مرتدہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، یہی ابن شبرمہ کا قول ہے، اسی کو ابن علیہ نے اختیار کیا ہے اور یہی حضرت عطا اور حسن کا قول ہے اور انہوں نے استدلال اس سے کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” من بدل دینہ فاقتلوہ۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے مرتدہ عورت کو قتل نہیں کیا اور جو حدیث روایت کرتا ہے وہ اس کی تاویل اور مفہوم بہتر جانتا ہے۔ اور حضرت علی ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے نیز آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور پہلے فریق نے آپ ﷺ نے اس ارشاد سے بھی استدلال کیا ہے : ” کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے ایک کے ساتھ (یعنی) ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا۔۔۔۔ الحدیث۔ “ پس یہ حکم ہر اس آدمی کو شامل ہوگا جس نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (10) امام شافعی (رح) نے کہا ہے : بیشک وہ آدمی جو مرتد ہوا (نعوذ باللہ) پھر اسلام کی طرف واپس آگیا تو نہ اس کے اعمال ضائع ہوں گے اور نہ ہی اس کا وہ حج ضائع ہوگا جس سے وہ فارغ ہوچکا۔ بلکہ اگر وہ حالت ردت پر ہی فوت ہوگیا تب اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا ہے : مرتد ہوتے ہی اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے، اختلاف کا اظہار مسلمان میں ہوگا کہ جب وہ حج کرے، پھر مرتد ہوجائے اور پھر اسلام قبول کرلے۔ پس امام مالک نے فرمایا کہ اس پر حج کرنا لازم ہوگا، کیونکہ اس کا پہلا حج ردت کے سبب ضائع ہوچکا ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس پر حج کا اعادہ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ ابھی اس کے عمل باقی ہیں۔ ہمارے علماء نے اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” لئن اشرکت لیحبطن عملک “۔ (الزمر : 65) ترجمہ : کہ اگر (بفرض محال) آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے) انہوں نے کہا : یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے، کیونکہ آپ ﷺ سے شرعا ردت کا پایا جانا محال ہے۔ اور امام شافعی (رح) کے اصحاب نے کہا ہے : بلکہ امت پر بطریق تغلیظ یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہی ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ اپنے شرف مرتبہ کے باوجود اگر شرک کا ارتکاب کریں تو ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے، تو پھر تمہارا کیا حال ہوگا ؟ لیکن آپ اپنے مرتبہ کے فضل وشرف کے سبب شرک نہیں کریں گے، جیسا کہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ینسآء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین “۔ (الاحزاب : 30) ترجمہ : اے نبی کریم کی بیبیو ! جس کسی نے تم میں سے کھلی بیہودگی کی تو اس کے لئے عذاب کو دو چند کردیا جائے گا) اور یہ ان کے شرف مرتبہ کے سبب ہے۔ ورنہ ان سے اس قسم کے فعل کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کہا جاسکتا ان کے زوج مکرم ومعظم کی حفاظت وصیانت کی خاطر، یہ ابن عربی نے کہا ہے۔ (1) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 147) ہمارے علماء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کی دونوں شرطوں کو پورا کرنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس پر خلود فی النار کی جزا کو معلق کیا ہے، پس جو کوئی کفر پر قائم رہا اللہ تعالیٰ اس آیت کے مطابق اسے ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دے گا اور جس کسی نے شکر کا ارتکاب کیا دوسری آیت کے مطابق اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ پس یہ دونوں آیتیں دو معنوں اور دو مختلف حکموں کے لئے مفید ہیں اور جو خطاب آپ ﷺ کو کیا گیا ہے تو وہی آپ کی امت کے لئے ہے تاکہ آپ کا اختصاص ثابت ہوجائے اور جو آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے وارد ہے، تو بلاشبہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے تاکہ وہ یہ واضح کر دے کہ اگر ایسا تصور بھی کیا جائے تو یقینا اس میں دو بےعزتیاں ہیں۔ اس میں ایک حرمت دین کی ہتک ہے اور دوسری حرمت نبی کریم ﷺ کی ہتک ہے اور ہر حرمت کی ہتک پر عقاب اور سزا ہے۔ اور یہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا جس نے شہر حرام میں، یا بلد حرام میں، یامسجد حرام میں گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب کیا اور جتنی حرمتوں کو اس نے پامال کیا ان کی تعداد کے مطابق اس پر عذاب دو چند کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (11) مرتد کی میراث میں علماء کا اختلاف ہے : حضرت علی بن ابی طالب ؓ ، حسن، شعبی، حکم، لیث، ابوحنیفہ اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : مرتد کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کے لئے ہے۔ امام مالک، ربیعہ، ابن ابی لیلی، شافعی اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اس کی میراث بیت المال میں جائے گی، ابن شبرمہ، ابو یوسف، محمد اور اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم نے دو روایتوں میں سے ایک میں کہا ہے کہ مرتد نے ردت کے بعد جو کچھ کمایا وہ اس کے مسلمان ورثاء کے لئے ہوگا۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : مرتد نے حالت ردت میں جو کچھ کمایا وہ مال فے ہے، اور حالت اسلام میں جو کچھ اس نے کمایا پھر مرتد ہوگیا تو اس کے وارث اس کے مسلمان ورثاء ہوں گے۔ لیکن ابن شبرمہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم دونوں امروں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور حضور نبی مکرم ﷺ کا مطلق ارشاد گرامی ” لا وراثۃ بین اھل ملتین “۔ (دو دین رکھنے والوں کے درمیان کوئی وراثت نہیں) ان کے قول کے باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے تمام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ اس کے کافر ورثاء اس کے وارث نہیں بنیں گے۔ لیکن آپ نے کہا ہے کہ وہ اس کے وارث بن سکتے ہیں۔
Top