Al-Qurtubi - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے لیے (نیک عمل) آگے بھیجو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے رو برو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر ﷺ ایمان والوں کو بشارت سنادو
آیت نمبر : 223۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم ائمہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ (1) (بخاری شریف : باب : کتاب تفسیر القران، حدیث نمبر : 4164، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں، فرمایا : یہودی کہتے تھے جب کوئی آدمی اپنی عورت کے ساتھ اس کی دبر کی جانب سے اس کی قبل (فرج) میں وطی کرتا ہے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم “۔ اور زہری سے ایک روایت میں یہ زائد ہے : اگر چاہے تو اسے اوندھا لٹائے اور اگر چاہے تو سیدھا لٹائے مگر وطی ایک سوراخ میں ہو اور صام کا لفظ سام سین کے ساتھ بھی مروی ہے۔ ترمذی نے یہی کہا ہے۔ (1) (سنن ترمذی : باب : سورة البقرہ، حدیث نمبر : 2904، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور امام بخاری نے حضرت نافع سے روایت کیا ہے (2) (بخاری شریف : باب : کتاب التفسیر القرآن، حدیث نمبر : 4163، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ انہوں نے فرمایا : حضرت ابن عمر ؓ جب قرآن کریم پڑھتے تھے تو گفتگو نہ کرتے تھے یہاں تک کہ قرات سے فارغ ہوجاتے، پس ایک دن میں قرآن کریم اٹھائے ہوئے تھا اور انہوں نے سورة البقرہ پڑھی یہاں تک کہ اس مقام (اس آیت) پر پہنچ کر رک گئے فرمایا : کیا تو جانتا ہے کیونکر یہ آیت نازل کی گئی ہے ؟ میں نے عرض کی نہیں، فرمایا : یہ اس اس میں نازل ہوئی ہے، پھر آپ آگے پڑھنے لگے۔ اور عبدالصمد نے بیان کیا ہے کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ مجھے ایوب نے نافع کے واسطہ سے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث بیان کی ہے۔ (آیت) ” فاتوا حرثکم انی شئتم “۔ کے بارے انہوں نے کہا : یاتیھا فی۔ یعنی اس میں مجرور محذوف ہے۔ حمیدی نے کہا ہے : وہ الفرج ہے۔ (3) (ایضا) یعنی وہ اس کے ساتھ فرج میں جماع کرے۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : بلاشبہ حضرت ابن عمر ؓ کو وہم ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، بلاشبہ یہ انصار کا ایک قبیلہ تھا، وہ بت پرست تھے اور اس قبیلے کے ساتھ یہودی بھی تھے اور وہ اہل کتاب ہیں۔ اور وہ ان کو اپنے اوپر علم میں فضیلت دیتے تھے اور وہ بہت سے افعال میں ان کی اقتدا کرتے تھے اور اہل کتاب کے امور میں سے ایک یہ تھا کہ وہ عورتوں کے ساتھ ایک طرف پر جماع کرتے تھے اور یہ عورت کے لئے زیادہ باعث ستر ہوتا تھا، پس انصار کے اس قبیلے نے ان کے افعال میں سے اس فعل کو بھی اختیار کرلیا اور یہ قبیلہ قریش میں سے تھا جو عورتوں کو گدی کے بل لٹا کر ان سے وطی کرتے تھے اور ان سے لذت حاصل کرتے تھے، کبھی سامنے کی جانب سے، کبھی پیچھے کی جانب سے اور کبھی چت لٹا کر، پس جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی اور وہ اس کے ساتھ وہی کچھ کرنے لگا، تو اس نے اسے ناپسند کیا اور ایسا کرنے سے روکا اور کہا : ہمارے ہاں عورت کے ساتھ ایک طرف سے جماع کیا جاتا ہے پس تو بھی اسی طرح کر ورنہ مجھ سے دور ہوجا، یہاں تک کہ ان دونوں کا معاملہ بڑھ گیا اور وہ حضور نبی مکرم ﷺ تک جا پہنچا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” فاتوا حرثکم انی شئتم “۔ یعنی سامنے کی جانب سے، پیچھے کی جانب سے اور چت لیٹنے کی حالت میں (محل حرث میں جماع کرو) اور یہی ولد ہے۔ (4) سنن ابی داؤد، باب : فی جامع النکاح، حدیث نمبر 1849، ایضا) امام ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں ہلاک ہوگیا، آپ نے فرمایا : کس شے نے تمہیں ہلاک کیا ہے ؟ عرض کی : آج رات میں نے اپنے پالان (مراد بیوی ہے) کو الٹا کردیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ راوی نے بیان کیا : پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف یہ آیت وحی فرمائی : (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم، فاتو حرثکم انی شئتم “۔ اقبل وادبرواتق الدبر والحیضۃ “۔ ترجمہ : تو سامنے کی جانب سے اور پیچھے کی جانب سے وطی کر اور دبر اور حالت حیض میں وطی کرنے سے بچ۔ فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (1) (سنن ترمذی، باب من سورة البقرۃ، حدیث نمبر 2906، ایضا) اور نسائی نے ابو النضر سے بیان کیا ہے کہ اس نے نافع مولی ابن عمر ؓ کو کہا : تمہارے بارے میں اکثر قول ہے کہ تم حضرت ابن عمر ؓ سے یہ روایت کرتے ہو کہ انہوں نے یہ فتوی دیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کی دبروں میں جماع کیا جاسکتا ہے، تو حضرت نافع ؓ نے فرمایا : تحقیق انہوں نے میرے بارے میں جھوٹ بولا : البتہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ معاملہ کیسے تھا۔ ایک دن حضرت ابن عمر ؓ نے قرآن کریم مجھے دیا اور میں ان کے پاس تھا یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے۔ (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم “۔ فرمایا : نافع ! کیا تو جانتا ہے اس آیت کا حکم کیا ہے ؟ بیشک ہم گروہ قریش عورتوں کو منہ کے بل اوندھا لٹاتے تھے، جب ہم مدینہ منورہ میں آئے اور ہم نے انصار کی عورتوں سے نکاح کیے تو ہم نے ان سے وہی کرنا چاہا تو ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے تو ان عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور اسے برا معاملہ قرار دیا، کیونکہ انصار کی عورتوں کے ساتھ ان کے پہلوؤں کے بل جماع کیا جاتا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم، فاتو حرثکم انی “۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ احادیث تمام کیفیات اور حالت کی اباحت میں نص ہیں بشرطیکہ وطی محل حرث میں ہو، یعنی جس کیفیت میں تم چاہو پیچھے کی جانب سے اور آگے کی جانب سے وہ سینے کے بل لیٹی ہوئی ہو یا چت یا پہلو کے بل، اور رہا محل حرث کے سوا کسی جگہ میں وطی کرنا تو یہ نہ مباح رہا ہے اور نہ اسے مباح کیا جائے گا اور حرث کا ذکر اس پر دلالت کرتا ہے کہ محل حرث کے سوا میں وطی کرنا حرام ہے۔ اور حرث یہ تشبیہ ہے، کیونکہ ان میں بھی بیج بویا جاتا ہے اور لفظ حرث واضح کرتا ہے کہ اباحت صرف اور صرف فرج میں واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ وہی بیج ڈالنے کا محل ہے اور ثعلب نے کہا ہے : انما الارحام ارض دن لنا محترثات۔ بے شک ارحام زمینیں ہیں ہمارے لئے کھیتیاں بنائی گئی ہیں۔ فعلینا الزرع فیھا و علی اللہ النبات : پس ہمارے اوپر ان میں بیج ڈالنا ہے اور اگانا (یعنی اولاد عطا کرنا) اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ پس عورت کی فرج زمین کی طرح ہے اور نطفہ بیج کی مانند ہے اور بچہ نباتات کی طرح ہے۔ پس الحرث بمعنی المحترث ہے اور الحرث کو واحد لایا گیا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : رجل صوم، وقوم صوم۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” انی شئتم “۔ جمہور صحابہ کرام، تابعیں عظام اور ائمہ فتوی کے نزدیک اس کا معنی ہے : جس طرح تو چاہو سامنے کی جانب سے اور پشت کی جانب سے جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ اور ” انی “ سوال کے لئے اور کسی کام کی خبر دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی کئی جہتیں ہیں اور یہ لغوی اعتبار سے کیف، این اور متی سے عام ہے۔ یہی انی میں عربی استعمال ہے اور لوگوں نے اس آیت میں انہی الفاظ کے ساتھ انی کی تفسیر بیان کی ہے۔ اور سیبویہ نے کیف اور این دونوں کے ساتھ اکٹھی اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ اور فرقہ نے این کے ساتھ اس کی تفسیر بیان کی ہے اور یہ موقف اپنایا ہے کہ دبر میں وطی مباح ہے اور جن کی طرف یہ قول منسوب ہے وہ حضرت سعید بن مسیب، حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضرت محمد بن کعب قرظی اور عبدالملک بن ماجشون رحمۃ اللہ علہیم ہیں اور اسے امام مالک سے ان کی جس کتاب سے بیان کیا گیا ہے اس کا نام کتاب السر ہے اور امام مالک (رح) کے ماہر اصحاب اور ان کے مشائخ اس کتاب کا انکار کرتے ہیں اور امام مالک کا مقام و مرتبہ اس سے کہیں بلند اور اعلی ہے کہ ان کے لئے کتاب السر ہو اور یہ قول العتبیہ میں ہے۔ اور علامہ ابن عربی نے ذکر کیا ہے کہ ابن شعبان نے اس قول کے جواز کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علہیم میں سے بہت بڑی جماعت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور امام مالک (رح) کی طرف بہت سی روایات کتاب جماع النسوان و احکام القرآن “ میں منسوب کی ہیں اور ال کیا الطبری نے کہا ہے : محمد بن کعب قرظی سے روایت ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہ دیکھتے تھے اور وہ اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پیش کرتے تھے : (آیت) ” اتاتون الذکران من العلمین، وتذرون ماخلق لکم ربکم من ازواجکم “۔ (الشعرائ) ترجمہ : کیا تم بدفعلی کے لئے جاتے ہو مردوں کے اپس ساری مخلوق سے اور چھوڑ دیتے ہو جو پیدا کی ہیں تمہارے لئے تمہارے رب نے تمہاری بیویاں۔ اور فرمایا : تقدیر کلام یہ ہے ” تترکون مثل ذلک من ازواجکم “ یعنی تم اس کی مثل اپنی بیویاں چھوڑ دیتے ہو، اگر اس کی مثل بیویوں سے مباح نہ ہوتا تو یہ صحیح نہ ہوتا اور اس کی مثل کسی دوسرے محل میں مباح نہیں، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے : تم وہ کرتے ہو اور اس کی مثل مباح کو چھوڑ دیتے ہو۔ ال کیا نے کہا : یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے : اور تم چھوڑ دیتے ہو جو پیدا کی ہیں تمہارے لئے تمہارے رب نے تمہاری بیویاں جن میں تمہاری شہوت کی تسکین ہے اور جماع کی لذت ہے۔ یہ دونوں ایک ساتھ حاصل ہوجاتی ہیں، پس اس معنی پر زجر وتوبیخ جائز ہے، قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ “۔ اس ارشاد گرامی کے ساتھ : (آیت) ” فاتوا حرثکم “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ محل جس میں واقع ہونا ہے وہ خاص ہے اور اسی میں مقصور ہے جو محل ولد ہے، (یعنی جس محل میں وطی کرنے اولاد کا ہونا ممکن ہے وہی محل حرث ہے اور اسی میں جماع جائز ہے تو چونکہ دبر میں یہ عمل کرنے سے اولاد کا امکان نہیں، اس لئے نہ وہ محل حرث ہے اور نہ ہی اس میں وطی مباح ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں : اس مسئلہ میں یہی حق اور صحیح ہے۔ ابو عمر بن عبدالبر نے ذکر کیا ہے کہ علماء نے رتقاء میں اختلاف نہیں کیا، یہ ایسی عورت ہے جس سے وطی نہیں کی جاسکتی، یہ عیب ہے اس کے سبب اسے رد کیا جاسکتا ہے، مگر وہ روایت جو حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کئی طرق سے مروی ہے وہ قوی نہیں ہے وہ یہ کہ رتقاء کو نہیں لوٹایا جائے گا اور نہ کسی اور کو، تمام کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں کیونکہ مسیس (وطی) ہی نکاح کا مقصود ہے اور اس پر انکے اجماع میں اس بات پر دلیل موجود ہے کہ دبر محل وطی نہیں ہے اور اگر یہ وطی کا محل ہوتی تو پھر اسے رد نہ کیا جاتا جس کی فرج میں وطی نہ کی جاسکتی ہو۔ اور ان کے اجماع میں اس پر بھی دلیل موجود ہے کہ ایسی بانجھ عورت جو بچے نہیں جنتی اسے رد نہیں کیا جائے گا، اور اس مسئلہ میں صحیح وہی ہے جو ہم نے بیان کردیا ہے اور وہ جو امام مالک اور ان کے اصحاب کی طرف منسوب ہے وہ باطل ہے اور وہ اس سے بری الذمہ ہیں، کیونکہ وطی کی اباحت محل حرث کے ساتھ مختص ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” فاتوا حرثکم “ اور اس لئے بھی کہ بیویوں کو پیدا کرنے میں حکمت نسل کو پھیلانا ہے اور جو اس کا محل نہیں ملک نکاح اسے شامل ہی نہیں ہوتی۔ یہی بات حق ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب نے کہا ہے : ہمارے نزدیک وہ (یعنی دبر میں وطی کرنا) اور ذکر کو ساتھ مس کرنا حکم میں برابر ہیں۔ کیونکہ محل نجاست میں قذر (گندگی) اور اذیت دم حیض کی نسبت زیادہ ہے، پس وہ زیادہ شنیع اور برا ہے اور رہی بول کی تکلیف تو یہ رحم کی تکلیف کے سوا ہے۔ علامہ ابن عربی نے قبس میں کہا ہے کہ ہمیں الشیخ الامام فخر الاسلام ابوبکر محمد بن احمد بن حسین فقیہ وقت اور امام وقت نے کہا : فرج پینتیس چیزوں کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے اور انہوں نے اپنے ہاتھ پر گن کر بتایا اور کہا : بول کا راستہ تیس کے ماتحت ہے اور ذکر اور فرج کا راستہ وہ ہے جس پر پانچ مشتمل ہیں۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرج کو حالت حیض میں عارضی نجاست کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے تو پھر دبر کو لازمی نجاست کی وجہ سے حرام قرار دیا جانا بدرجہ اولی ہے۔ اور امام مالک نے ابن وہب اور علی بن زیاد کو اس وقت کہا جب ان دونوں نے انہیں یہ خبر دی کہ مصر میں لوگ آپ کے بارے میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ وہ اسے (دبر میں وطی کو) جائز قرار دیتے ہیں تو آپ نے اس سے نفرت کی (اسے انتہائی ناپسند کیا) اور ناقل کی تکذیب بالفور کی اور فرمایا : انہوں نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ہے، انہوں نے میری تکذیب کی ہے، انہوں نے میری طرف جھوٹی نسبت کی ہے۔ (کذبوا علی، تین بار کہا) پھر فرمایا : کیا تم عرب قوم نہیں ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا (آیت) ” نسآؤکم حرث لکم “ تو کیا اگانے والے محل کے سوا کوئی کھیت ہوسکتا ہے (اور وہ محل فرج ہی ہے) اور جس سے مخالف نے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” انی شئتم “ یہ اپنی عمومیت کے اعتبار سے تمام راستوں کو شامل ہے (یعنی قبل اور دبر دونوں کو) تو اس میں ان کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے کیونکہ جو ہم نے اس کے بارے ذکر کیا ہے اس کے سبب یہ خاص ہوچکا ہے اور ان احادیث کے سبب جو صحیح، حسن اور مشہور ہیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ سے بارہ صحابہ کرام نے مختلف متنوں کے ساتھ روایت کیا ہے وہ تمام کی تمام عورتوں کے ساتھ ان کی دبروں میں وطی کے حرام ہونے پر دال ہیں۔ انہیں امام احمد بن حنبل (رح) نے اپنی مسند میں، ابو داؤد، نسائی اور ترمذی رحمۃ اللہ علہیم وغیرہم نے روایت کیا ہے اور انہیں ابو الفرج بن جوزی نے ان کی سندوں سمیت ایک جز میں جمع کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے، تحریم المحل المکروہ اور ہمارے شیخ ابو العباس نے بھی ایک جز میں جمع کیا ہے اور اس کا نام رکھا اظہار ادبار من اجاز الوطی فی الادبار۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہی وہ حق ہے جس کی اتباع کی گئی ہے اور اس مسئلہ میں صحیح (نظریہ) ہے اور اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے ساتھ ایمان رکھنے والے کو نہیں چاہئے کہ وہ اس مصیبت میں پڑے کیونکہ یہ عالم کی خطا اور لغزش ہے اس کے بعد کہ اس کے بارے میں صحیح روایات موجود ہیں اور ہمیں عالم کی غلطی سے ڈرایا اور محفوظ رکھا گیا ہے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے اس کے خلاف مروی ہے اور جس نے ایسا کیا اس کی تکفیر مروی ہے اور یہی آپ ؓ کے لائق اور شایان شان ہے۔ اسی طرح حضرت نافع ؓ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے جس نے آپ کی طرف سے اس بارے میں بیان کیا، جیسا کہ امام نسائی نے ذکر کیا ہے اور وہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور امام مالک (رح) نے اس کا انکار کیا اور اسے بہت بڑا قدم قرار دیا اور جس نے اسے آپ کی طرف منسوب کیا اسے جھوٹا قرار دیا۔ اور الدارمی ابو محمد نے اپنی مسند میں سعید ابن یسار ابی الحباب سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا : آپ ان عورتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جن کے ساتھ تحمیض کی جائے ؟ آپ نے فرمایا : تحمیض کیا ہے ؟ تو میں نے عرض کیا : ” دبر “ تو آپ نے فرمایا : کیا مسلمانوں میں سے بھی کوئی ایسا کرتا ہے۔ اور حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ سے مسند روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ” اے لوگو بیشک اللہ تعالیٰ حق سے حیاء نہیں کرتا تم عورتوں کی دبروں میں وطی نہ کرو۔ “ اور اسی کی مثل حضرت علی بن طلق سے بھی مروی ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مسند روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے عورت کے ساتھ اس کی دبر میں وطی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر (کرم) نہیں فرمائے گا۔ “۔ اور ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں حضرت قتادہ سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی رحمت ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ لواطت صغری ہے “ (1) (مسند امام احمد حدیث نمبر 6706) یعنی عورت کی دبر میں وطی کرنا۔ اور حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے ساتھ ان کی دبروں میں وطی کرنے سے ہی قوم لوط کا عمل شروع ہوا تھا۔ ابن منذر نے کہا ہے : جب کوئی شے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوجائے تو پھر جو بھی اس کے سوا ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وقدموا لانفسکم “۔ یعنی پہلے پہلے وہ عمل کرلو جو کل (یعنی آخرت میں) تمہارے لئے باعث نفع ہوں، اس میں مفعول کو حذف کردیا گیا ہے اور اس کی تصریح اس ارشاد باری تعالیٰ میں کی گئی ہے : (آیت) ” وما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ “۔ (البقرہ : 110) ترجمہ : اور جو کچھ آگے بھیجو گے اپنے لئے نیکیوں سے ضرور پاؤ گے اس کا ثمر اللہ کے ہاں) پس معنی یہ ہوا تم اپنے لئے طاعت اور عمل صالح آگے بھیجو (یعنی پہلے پہلے کرلو) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اولاد اور نسل کی چاہت ہے کیونکہ اولاد دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ تحقیق بیٹا شفیع بھی ہوتا ہے اور ڈھال بھی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس سے مراد پاک دامن عورتوں سے شادی کرنا ہے تاکہ اولاد صالح اور طاہر ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد افراط کو آگے بھیجنا ہے۔ جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ” جس نے تین بچے آگے بھیجے جو سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو آگ اسے مس نہ کرے گی مگر کفارہ قسم کے طور پر “ الحدیث (1) (صحیح بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ : واقسموا باللہ جھد ایمانھم، حدیث نمبر 6164، ایضا) اس کا بیان سورة مریم میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عطاء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا ہے : جماع کے وقت پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” اگر تم میں سے کوئی جب اپنی بیوی کے پاس مجامعت کے لئے آیا اور اس نے یہ پڑھا ” بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا “۔ (اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ تو ہمیں شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے) تو اگر ان دونوں کے مابین بچہ مقدر ہوا تو شیطان کبھی بھی اسے ضرر نہ پہنچائے گا “۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واتقوا اللہ “ یہ تحذیر ہے۔ (آیت) ” واعلموا انکم ملقوہ “۔ یہ خبر ہے جو تحذیر میں مبالغہ کا تقاضا کرتی ہے، یعنی وہ تمہیں نیکی اور گناہ پر جزا دے گا۔ ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے اور کہا ہے : میں نے سعید بن جبیر کو سنا انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا اور انہوں نے فرمایا : میں نے سعید بن جبیر کو سنا انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا اور انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران خطبہ یہ فرماتے ہوئے سنا : ” بلاشبہ تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو گے اس حال میں کہ تم سر اور پاؤں سے ننگے ہوگئے پیدل ہوگئے اور غیر مختون ہوگے۔ “ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” واتقوا اللہ واعلموا انکم ملقوہ “۔ مسلم نے اسے اسی معنی میں روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وبشر المؤمنین “۔ یہ نیکی کرنے والے اور ہدایت کے طریقے تلاش کرنے والے کے لئے تانیس ہے۔ (2) (بخاری شریف : باب : کیف العشر، حدیث نمبر : 6043، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
Top