Al-Qurtubi - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا (کے نام) کو اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا کر سلوک کرنے اور پرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
آیت نمبر 224۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) علماء نے فرمایا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے اور یتیموں کے ساتھ زندگی گزارنے اور عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم فرمایا تو فرمایا : تم مکارم اخلاق میں سے کسی شے سے انکار نہ کرو اس علت کی بنا پر کہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم اس طرح نہ کریں گے، یہ معنی حضرت ابن عباس ؓ ابراہیم نخعی، مجاہد اور ربیع رحمۃ اللہ علہیم اور ان کے سوا کئی دوسروں نے بیان کیا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے بیان کیا : مراد ایسا آدمی ہے جو قسم کھا لیتا ہے کہ وہ نیکی نہ کرے گا اور صلہ رحمی نہ کرے گا اور نہ لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، پس اسے کہا جاتا ہے : تو نیکی کر تو وہ کہتا ہے : میں نے تو (نیکی نہ کرنے کا) قسم کھا رکھی ہے۔ اور بعض تاویل کرنے والوں نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ جھوٹ بولتے ہوئے قسمیں نہ کھاؤ جب تم نیکی، پرہیز گاری اور اصلاح (صلح کرانے) کا ارادہ کرو، پس ان کے بعد لا کو مقدر ماننے کی ضرورت نہ ہوگی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہے تم اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کثرت سے قسمیں نہ کھاؤ کیونکہ یہ دلوں کو خوفزدہ کردیتی ہیں ‘ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واحفظوا ایمانکم “۔ ترجمہ : اور تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اور کثرت سے قسمیں کھانے والے کی مذمت بیان فرمائی۔ سو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ولا تطع کل حلاف مھین “۔ (القلم) ترجمہ : اور نہ بات مانیے کسی (جھوٹی) قسمیں کھانے والے ذلیل شخص کی۔ اور عرب کم قسمیں کھانے کے سبب تعریف کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا : قلیل الالایا حافظ لیمینہ وان صدرت منہ الالیۃ برت : کم قسمیں کھانے والا اپنی قسم کی حفاظت کرتا ہے اور اگر اس سے قسم صادر ہوجائے تو وہ سچی ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر ان ” تبروا “۔ کا معنی ہے تم قسمیں کم کھاؤ اس میں نیکی اور پرہیز گاری ہے، کیونکہ کثیر قسموں کے ساتھ حنث (قسم توڑنا) بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی رعایت اور پاسداری میں کمی واقع ہوتی ہے، یہ تاویل حسن اور اچھی ہے۔ حضرت امام مالک بن انس (رح) نے فرمایا : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ قسم ہر شے میں رائج ہے اور کہا گیا ہے : معنی یہ ہے کہ تم ہر حق اور باطل میں تصرف کے لئے قسم نہ کھاؤ۔ اور زجاج وغیرہ نے کہا ہے : آیت کا معنی ہے کہ ایک آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جب اس سے فعل خیر کا مطالبہ کیا جائے تو اللہ کے ساتھ عذر پیش کرتا ہے اور کہہ دیتا ہے : مجھ پر قسم ہے، حالانکہ اس نے قسم نہیں کھائی ہوتی قتبی نے کہا ہے : معنی یہ ہے کہ جب تم یہ قسم کھاؤ کہ تم صلہ رحمی نہ کرو گے، صدقہ نہ کرو گے اور صلح نہیں کراؤ گے اور انہیں کے مشابہ نیکی اور خیر کے کاموں سے متعلق قسمیں تو تم قسم کا کفارہ ادا کر دو ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ (تاویل) حسن ہے اس کے لئے جو ہم نے بیان کیا ہے اور اسی پر سبب نزول بھی دلالت کرتا ہے، ہم اس کے بعد والے مسئلہ میں اسے بیان کریں گے۔ مسئلہ نمبر : (2) کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی وجہ سے نازل ہوئی، جب انہوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ مسطح پر (مال) خرچ نہ کریں گے جس وقت اس نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بارے باتیں کیں (اور آپ پر تہمت لگائی) جیسا کہ حدیث الافک میں ہے، اس کا بیان سورة النور میں آئے گا، یہ ابن جریج سے مرومی ہے۔ (1) (بخاری شریف : باب : کتاب تفسیر سورة نور حدیث نمبر : 4381، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ مہمانوں کے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے۔ (1) (بخاری شریف : باب : کتاب الادب، حدیث نمبر : 5675، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے یہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ بشیر بن نعمان ؓ کے ساتھ کلام نہیں کریں گے اور وہ آپ کی بہن کی نسبت سے آپ کے داماد تھے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” عرضۃ الایمانکم “ یعنی کھڑی کی ہوئی علامت۔ یہ جوہری سے منقول ہے۔ اور فلاں عرضۃ ذاک ‘ یعنی فلاں اس کے لئے علامت (رکاوٹ) ہے، یعنی وہ اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور وہ اس پر قوی اور غالب ہے اور عرضہ کا معنی الحمۃ بھی ہے، کسی نے کہا : ھم الانصار عرض تھا اللقاء : وہ انصار ہیں ان کا ارادہ لشکر سے ملاقات ہے۔ اور فلاں عرضۃ للناس اور فلاں لوگوں کا ٹارگٹ ہے : وہ مسلسل اس میں واقع ہوتے رہتے ہیں۔ وجعک فلانا عرضۃ لکذا ‘ یعنی میں نے فلاں کو اس کے لئے علامت قرار دیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرضۃ یہ شدت اور قوت سے ہے اور اسی سے عورت کے لئے ان کا قول ہے : عرضۃ للنکاح، جب وہ نکاح کی صلاحیت رکھے اور اس کے لئے قوی ہوجائے۔ اور لفلاں عرضۃ : یعنی فلاں کے لئے سفر اور جنگ کی قوت و طاقت ہے۔ کعب بن زہیر نے کہا ہے : من کل نفاحۃ الذفری اذا عرقت عرض تھا طامس الاعلام مجھول : اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا : فھذی لایام الحروب و ھذہ للھوی وھذی عرضۃ لارتحالنا : پس یہ جنگ کے دنوں کے لئے ہے اور لہو ولعب کے لئے ہے اور یہ ہمارے سفر کے لئے قوت و طاقت ہے، یعنی تیاری ہے۔ اور ایک دوسرے نے کہا ہے : فلا تجعلنی عرضۃ للوائم : اور اوس بن حجر نے کہا ہے : وادماء مثل الفحل یوما عرض تھا لرحلی وفیھا ھزۃ وتقاذف : اور معنی یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ قسم کھانے کو اپنے لئے قوت نہ بناؤ اور نیکی سے رکنے کے لئے بہانہ نہ بناؤ۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان تبروا وتتقوا “ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے یعنی البر والتقوی والاصلاح اولی وامثل : یعنی نیکی کرنا، تقوی اختیار کرنا اور صلح کرانا زیادہ بہتر اور زیادہ اچھا ہے۔ جیسا کہ یہ قول ہے (آیت) ” طاعۃ وقول معروف “ یہ زجاج اور نحاس سے منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا محل نصب ہے۔ یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم نیکی، تقوی اور صلح کرانے سے باز نہ رکھے، یہ بھی زجاج سے منقول ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مفعول من اجلہ ہے اور یہ قول بھی ہے کہ اس کا معنی ’ الاتبروا “ اور لا کو حذف کردیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” یبین لکم ان تضلوا “۔ ای لئلا تضلوا۔ ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ طبری اور نحاس نے اسی طرح کہا ہے اور وجوہ نصب میں سے چوتھی وجہ یہ ہے : کراھۃ ان تبروا “ اور فی مضمر کردیا گیا اور اس کے ساتھ اسے جر دی گئی۔ اور (آیت) ” سمیع “ یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے اقوال کو سننے والا ہے۔ (آیت) ” علیم “ اور ان کی نیتوں کو جاننے والا ہے۔
Top