Al-Qurtubi - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا اور خدا بخشنے والا بردبار ہے
آیت نمبر : 225۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” باللغو “۔ اللغو : یہ مصدر ہے لغایلغو ویلغی، ولغی یلغی لغا “۔ جب کلام میں کوئی ایسی شے ذکر کی جائے جس کی حاجت اور ضرورت نہ ہو یا ایسی شے کو لانا جس میں خیر اور بھلائی نہ ہو یا ایسی شے جس کا گناہ لغو ہوجائے اور حدیث میں ہے : ” جب تو اپنے ساتھی کو کہے ” خاموش ہوجا “ اس حال میں کہ امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو تو تو نے لغو عمل کیا “۔ (1) (بخاری شریف : باب : کتاب الجمعہ، حدیث نمبر : 882، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی لغت میں، لغوت کی بجائے لغیت ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : ورب اسراب حجیج کظم عن اللغا ورفث التکم : اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : ولست بما خوذ بالغو تقولہ اذا لم تعمد عاقدات العزائم : مسئلہ نمبر : (2) علماء کا یمین لغو کے باے میں اختلاف ہے : حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : کسی آدمی کا وہ قول جو اس کے کلام کے درمیان میں ہو اور محاورہ میں اس کی عجلت پسندی کے سبب ہو : لا واللہ اور بلی واللہ “۔ یہ (الفاظ) قسم کے ارادے سے نہ ہوں۔ مروزی نے کہا ہے : وہ یمین لغو جس پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ لغو ہے وہ آدمی کا یہ قول ہے : لا واللہ اور بلی واللہ “۔ جبکہ یہ اس کی گفتگو اور کلام میں واقع ہوں نہ اس سے قسم کا اعتقاد ہو اور نہ ہی قسم کا ارادہ ہو۔ اور ابن وہب نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عروہ ؓ نے انہیں بتایا کہ ام المومنین زوج النبی ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : یمین لغو وہ ہے جو (محض) دکھاوا، تمسخر اور مزاح میں ہو اور وہ بات جس پر دل کا اعتقاد نہ ہو۔ اور بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت) ” لا یؤاخذ کم اللہ باللغو فی ایمانکم “۔ ایک آدمی کے اس قول کے بارے میں نازل ہوا : (یعنی) لا واللہ اور بلی واللہ۔ اور کہا گیا ہے لغو وہ ہے جس کے بارے میں کوئی ظن کی بنا پر قسم کھاتا ہے اور وہ امر قسم کے خلاف ہوتا ہے، امام مالک (رح) نے یہی کہا ہے آپ سے اسے ابن قاسم نے بیان کیا ہے اور اسلاف میں سے ایک جماعت نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : جب آدمی کسی شے کی قسم کھائے اور اس کا ظن یہی ہو کہ وہ اسی طرح ہے جبکہ (فی الحقیقت) وہ اس طرح نہ ہو تو وہ قسم لغو ہوگی اور اس میں کفارہ نہیں ہے، اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور روایت ہے کہ ایک قوم نے رسول اللہ ﷺ کے پاس گفتگو کا تبادلہ کیا اور وہ آپ ﷺ کی موجودگی میں تہمت عائد کرنے لگے تو ان میں سے ایک نے قسم کھائی کہ میں نے درست کہا اور اسے فلاں ! تو نے غلط بیانی کی ہے، جبکہ معاملہ اس کے خلاف نکلا، تو اس آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ وہ حانث ہوگیا ہے، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا۔ ” ایمان الرماۃ لغو لا حنث فیھا ولا کفارۃ “۔ (ا) (تفسیر طبری، جلد 4، صفحہ 31) (گفتگو میں زیادتی کی قسم لغو ہے، اس میں نہ حانث ہونا ہے اور کوئی کفارہ ہے) اور مؤطا میں حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا ہے : اس بارے میں جو سب سے اچھا میں نے سنا ہے (وہ یہ ہے) کہ اللغو سے مراد انسان کا کسی شے کے بارے میں قسم کھانا ہے جس کے بارے وہ یقین رکھتا ہو کہ وہ اسی طرح ہے پھر وہ اس کے برعکس پائی جاتی ہے، اس میں کفارہ نہیں ہے اور وہ جو کسی شے کے بارے میں قسم کھاتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس میں گنہگار ہے، جھوٹا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ کسی کو راضی کرے یا مخلوق کے لئے معذرت کرے یا وہ اس کے ذریعہ مال ہتھیا لے تو یہ اس سے بڑھ کر ہے کہ اس میں کفارہ ہو۔ اور کفارہ اس پر ہوگا جس نے یہ قسم کھائی کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا حالانکہ اس کے لیے اس کا کرنا مباح ہے پھر وہ اسے کر گزرتا ہے یا (یہ قسم کھائے) کہ وہ اس طرح کرے گا پھر وہ ایسا نہ کرے، مثلا اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ اپنا کپڑا دس درہم کے عوض نہیں بیچے گا پھر وہ اتنے کے عوض ہی فروخت کردیتا ہے یا کسی نے قسم کھائی کہ وہ اپنے غلام کو ضرور مارے گا پھر وہ اسے نہ مارے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اگر آپ سے یہ روایت صحیح ہے آپ نے فرمایا : یمین لغو یہ ہے کہ تو قسم کھائے درآنحالیکہ تو غصے میں ہو اور طاؤس نے یہی کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” لایمین فی غضب “۔ (2) (تفسیر طبری، جلد 4، صفحہ 26) حالت غضب میں قسم نہیں ہوتی، اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا : یہ (اللغو سے مراد) حلال کو حرام قرار دینا ہے، پس وہ کہتا ہے : میرا مال مجھ پر حرام ہے اگر میں نے اس طرح کیا اور حلال مجھ پر حرام ہے، مکحول دمشقی نے اسی طرح کہا ہے۔ اور امام مالک نے بھی یہی کہا ہے، سوائے بیوی کے کیونکہ اس نے اس میں تحریم لازم کردی ہے مگر یہ کہ قسم کھانے والا اپنے دل کے ساتھ اسے خارج کر دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لغو سے مراد معصیت کی قسم ہے، حضرت سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور حضرت زبیر ؓ کے دونوں بیٹوں حضرت عمروہ اور حضرت عبداللہ ؓ نے یہی کہا ہے جیسا کہ کوئی یہ قسم کھاتا ہے : ” وہ شراب ضرور پیے گا یا وہ قطع رحمی ضرور کرے گا۔ “ پس اس کی نیکی اس فعل کو ترک کرنا ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور ان کی دلیل حضرت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اس کے غیر کو اس سے بہتر اور اچھا دیکھا تو اسے چاہیے کہ وہ اسے چھوڑ دے اور بیشک اس کا ترک کرنا ہی اس کا کفارہ ہے (1) (مسند احمد، حدیث نمبر 6736) اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ عنقریب اس کا ذکر بھی ” المائدہ “ میں آئے گا۔ اور حضرت زید بن اسلم ؓ نے کہا ہے کہ یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے بارے میں بددعا کرے : (مثلا) اللہ تعالیٰ اس کی بصارت کو اندھا کر دے، اللہ تعالیٰ اس کا مال ضائع کر دے، وہ یہودی ہے، وہ مشرک ہے، وہ ولد الزنا ہے اگر اس نے اس طرح کیا۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : دو آدمی خرید وفروخت کرتے ہیں، پس ان میں سے ایک کہتا ہے : قسم بخدا ! میں تجھے اتنے کے عوض نہیں بیچوں گا اور دوسرا کہتا ہے : قسم بخدا میں اتنے کے عوض اسے نہیں خریدوں گا۔ حضرت ابراہیم نخعی نے کہا ہے : وہ آدمی جو قسم کھاتا ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا پھر وہ بھول جاتا ہے اور اسے کر گزرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اور حضرت ضحاک نے کہا ہے : بیشک یمین لغو وہ ہے جس کا کفارہ ادا کیا جائے، یعنی جب قسم کا کفارہ ادا کردیا جائے تو وہ ساقط ہوجاتی ہے اور لغو ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا کفارہ ادا کرنے کے سبب اور اس سے بہتر کی طرف لوٹنے کے سبب مواخذہ نہیں فرمائے گا۔ ابن عبدالبر نے ایک قول بیان کیا ہے کہ لغو سے مراد مکرہ کی قسم ہے۔ حضرت ابن عربی (رح) نے کہا ہے : وہ قسم جو نسیان اور بھول کے ساتھ ہو اس کے لغو ہونے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ وہ اس کے قصد اور ارادہ کے خلاف واقع ہوئی ہے، پس وہ محض لغو ہے۔ (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 635) میں (مفسر) کہتا ہوں : مکرہ کی قسم اپنے انجام سمیت جس نے بالاکراہ قسم کھائی اس کا حکم ” النحل “ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابن عربی نے کہا ہے : رہا وہ جس نے کہا کہ لغو سے مراد یمین المعصیۃ ہے تو یہ باطل ہے، کیونکہ ترک معصیت پر قسم کھانے والے کی قسم عبادت ہونے کے اعتبار سے منعقد ہوجاتی ہے اور معصیت کا ارتکاب کرنے پر قسم کھانے والے کی قسم معصیت ہونے کے اعتبار سے منعقد ہوجائے گی اور اسے کہا جائے گا : تو معصیت کا ارتکاب نہ کر اور کفارہ ادا کر دے اور اگر اس نے اقدام فعل کیا تو وہ اپنے اقدام میں گنہگار ہوگا اور اپنی قسم سے بری ہوجائے گا۔ اور رہا وہ جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد انسان کا اپنے خلاف دعا کرنا ہے اگر اس طرح نہ ہوا تو اس کے عوض اس طرح آفات نازل ہوں، تو یہ قول لغو ہے کفارہ کے طریق میں، لیکن فی القصد یہ قول منعقد ہوجائے گا اور مکروہ ہے اور بسا اوقات اس کے سبب مواخذہ بھی کیا جاتا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی اپنے بارے میں بددعا نہ کرے بسا اوقات اتفاقیہ ایسی ساعت ہوتی ہے کہ جو کوئی اس میں اللہ تعالیٰ سے کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو وہ اسے ضرور عطا فرما دیتا ہے۔ “ اور رہا وہ جس نے کہا اس سے مراد یمین الغضب ہے تو حضور نبی کریم ﷺ کا حالت غضب میں قسم کھانا اس کی تردید کرتا ہے کہ وہ اشعر یین کی بوجھ اٹھانے میں مدد۔۔۔۔۔ کریں گے اور پھر آپ نے ان کی مدد کی اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ اس کا ذکر ” سورة براء ۃ “ میں آئے گا۔ حضرت ابن عربی (رح) نے فرمایا : رہا وہ جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد وہ قسم ہے جس کا کفارہ ادا کردیا گیا تو یہ اس کے متعلق نہیں جو بیان کیا جا رہا ہے اور اسے ابن عطیہ (رح) نے بھی ضعیف اور کمزور قرار دیا ہے اور کہا : تحقیق اللہ تعالیٰ نے مطلقا لغو سے مواخذہ اٹھا لیا ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کفارہ ہے اور قسم میں مواخذہ یمین غموس میں جو کہ حالف نے اپنے ذمہ لازم کر رکھی ہو اور اس میں جس کا کفارہ ادا کرنا ترک کردیا گیا ہو حالانکہ وہ اس میں سے ہو جن میں کفارہ ہوتا ہے آخرت کی سزا ہے اور لازم کرنے میں دنیا کی سزا ہے، پس یہ قول ضعیف ہوجاتا ہے اس سبب سے کہ یہ یمین المکفرہ ہے، کیونکہ اس میں مواخذہ واقع ہوا ہے اور مواخذہ کو فقط آخرت کے ساتھ خاص کرنا یہ مرضی کا فیصلہ ہے (جس کی کوئی حقیقت نہیں) مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فی ایمانکم “ الایمان یمین کی جمع ہے اور الیمین کا معنی قسم ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ عرب لوگ جب آپس میں قسم اٹھاتے تھے یا باہم عقد کرتے تھے تو ایک آدمی اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا پھر یہ رواج بہت زیادہ بڑھ گیا یہاں تک کہ نفس قسم اور عہد کا نام ہی یمین پڑگیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمین فعیل کے وزن پر یمن سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی برکت ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نام اس لئے دیا ہے کیونکہ یہ حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور یمین کا لفظ مذکر و مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، اس کی جمع ایمان اور ایمن ہے۔ زہیر نے کہا ہے : فتجمع ایمن منا ومنکم : (پس ہماری طرف سے اور تمہاری طرف سے بہت سی قسمیں جمع ہو رہی ہیں) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم “ یہ اس قول کی مثل ہے : (آیت) ” ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان “۔ (المائدہ : 89) اس کے تحت اس کے بارے میں بحث آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور حضرت زید بن اسلم ؓ نے کہا : قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم “ یہ ایسے آدمی کے بارے میں ہے جو یہ کہتا ہے : وہ مشرک ہے اگر وہ ایسا کرے، یعنی یہ لغو ہے مگر یہ کہ وہ اپنے دل سے شرک کرنے کا اعتقاد اور اس کا ارادہ کرے اور (آیت) ” غفور حلیم “۔ یہ دونوں صفتیں ہیں جو اس کے مناسب ہیں جو مواخذہ چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ نرمی اور وسعت کے باب سے ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ)
Top