Al-Qurtubi - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق یافتہ عورتیں يَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں ثَلٰثَةَ : تین قُرُوْٓءٍ : مدت حیض وَلَا يَحِلُّ : اور جائز نہیں لَهُنَّ : ان کے لیے اَنْ يَّكْتُمْنَ : وہ چھپائیں مَا : جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَرْحَامِهِنَّ : ان کے رحم (جمع) اِنْ : اگر كُنَّ يُؤْمِنَّ : ایمان رکھتی ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ : اور خاوند ان کے اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِرَدِّھِنَّ : واپسی ان کی فِيْ ذٰلِكَ : اس میں اِنْ : اگر اَرَادُوْٓا : وہ چاہیں اِصْلَاحًا : بہتری (سلوک) وَلَهُنَّ : اور عورتوں کے لیے مِثْلُ : جیسے الَّذِيْ : جو عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر (فرض) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر دَرَجَةٌ : ایک درجہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کو جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور عورتوں کو حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر البتہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے
آیت نمبر : 228۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” (آیت) ” والمطلقت “۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایلاء کا ذکر فرمایا اور بلاشبہ اس میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے طلاق ہوجانے کے بعد عورت کے حکم کو بیان فرمایا۔ ابو داؤد اور نسائی کی کتاب میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “۔ الآیہ کے بارے میں فرمایا کہ آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ اسے تین طلاقیں دے تو پس یہ منسوخ ہے (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب فی نسخ المراجعۃ، جلد 1، صفحہ 297، وزارت تعلیم) اور فرمایا : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ الآیہ۔ اور (آیت) ” المطلقت “۔ لفظ عام ہے لیکن اس سے مراد خاص ہے اور وہ ہے مدخول بہا عورتیں اور دخول سے پہلے جس عورت کو طلاق دے دی گئی وہ سورة الاحزاب کی آیت کے تحت اس سے خارج ہوگئی۔ (آیت) ” فمالک علیھن من عدۃ تعتدونھا “۔ (الاحزاب : 49) ترجمہ : پس تمہارے لئے ان پر عدت گزارنا ضروری نہیں جسے تم شمار کرو) اس کا بیان آگے آئے گا اور اسی طرح حاملہ عورت اس ارشاد کے ساتھ اس سے خارج ہوگئی۔ (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ (الطلاق : 4) ترجمہ : اور حاملہ عورتوں کی میعاد ان کے بچے جننے تک ہے) اور اقراء سے مقصود استبرا ہے، بخلاف عدت وفات کے کہ وہ عبادت ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) اور وہ صغیرہ جسے ابھی تک حیض نہ آئے اور وہ کبیر جو ناامیدی کی عمر کو پہنچ جائے، اللہ تعالیٰ نے انکی عدت مہینے مقرر کی ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : بلاشبہ ” المطلقات “ میں عموم ان تمام کو شامل ہے پھر انہیں منسوخ کردیا گیا ہے، یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ یہ آیت صرف ان عورتوں کے بارے میں ہے جو حائضہ ہیں اور یہی عورتوں کا عرف ہے اور اسی پر ان کا بڑا حصہ ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : یتربصن “۔ التربص کا معنی انتظار کرنا ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں۔ یہ (بظاہر) خبر ہے لیکن اس سے مراد امر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” والوالدت یرضعن اولادھن “۔ (بقرہ : 233) اور جمع رجل علیہ ثیابہ، (اور آدمی اپنے اوپر اپنے کپڑے لے) اور حسبک درھم یعنی تو ایک درہم پر اکتفا کر۔ یہ اہل زبان کا قول ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس میں جو ابن الشجرمی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : یہ باطل ہے اور بلاشبہ یہ حکم شریعت کے بارے خبر ہے، پس تو کسی مطلقہ کو پائے کہ وہ انتظار نہیں کرتی تو یہ حکم شریعت کے مطابق نہیں ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی خبر کا مخبر کے خلاف واقع ہونا لازم نہیں آئے گا (2) (احکام القرآن للماوردی، جلد 1 صفحہ 288، دارالفکر) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ” لیتربصن “۔ (یعنی چاہئے کہ وہ انتظار کریں) اور پھر لام کو حذف کردیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) جمہور لوگوں نے ” قروئ “۔ فعول کے وزن پر قرات کی ہے، اس میں لام کلمہ ہمزہ ہے اور حضرت نافع ؓ سے ” قرو “ روایت کیا گیا ہے یعنی واؤ کے کسرہ اور شد کے شد کے ساتھ بغیر ہمزہ کے۔ اور حسن نے قرء قاف کے فتحہ، را کے سکون اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) اور قرؤ، اقرؤ، اور اقراء کی جمع ہے (4) (معالم التنزیل، جلد، 1، صفحہ 302، دارالفکر) اور واحد ” قرء قاف کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اصمعی نے یہی کہا ہے۔ اور ابو زید نے کہا ہے : قری قاف کے فتحہ کے ساتھ ہے اور ان دونوں کے کہا ہے : اقرات المراۃ ‘ جب عورت حائضہ ہوجائے۔ فھی مقرء۔ اور اقرات کا معنی طھرت بھی ہے جب وہ پاک ہوجائے۔ اور اخفش نے کہا ہے : اقرات المراۃ (یہ کہا جاتا ہے) جب عورت حیض والی ہوجائے اور جب اسے حیض آئے تو تو کہے گا : قرات، بغیر الف کے۔ کہا جاتا ہے : اقرات المراۃ حیضۃ اوحیضتین، (عورت کو ایک حیض آیا یا دو ) اور القرء کا معنی حیض کا ختم ہونا بھی ہے اور بعض نے کہا ہے : اس سے مراد وہ ایام ہیں جو دو حیضوں کے درمیان ہوتے ہیں (یعنی طہر) اور اقرات حاجتک : تیری حاجت قریب آگئی۔ یہ جوہری سے منقول ہے۔ اور ابو عمرو ابن العلاء نے بیان کیا ہے کہ عربوں میں سے بعض حیض کو قرء کا نام دیتے ہیں، بعض طہر کو قرء کہتے ہیں اور ان میں سے بعض دونوں کو ایک ساتھ قرء کہتے ہیں، پس طہر کو حیض کے ساتھ قرء کہا جاتا ہے۔ اسے نحاس نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اقراء کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے : اہل کوفہ نے کہا ہے : اقراء سے مراد حیض ہیں، حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ، حضرت مجاہد ؓ ، حضرت قتادہ ؓ ، حضرت ضحاک ؓ ، حضرت ؓ ، اور حضرت سدی ؓ ، نے یہی کہا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) اور اہل حجاز نے کہا ہے : اقراء سے مراد اطہار ہیں، حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت زہری ؓ ، حضرت ابان بن عثمان ؓ ، اور حضرت امام شافعی (رح) کا یہی قول ہے۔ پس جنہوں نے حیض کو قرء ‘ کا نام دیا ہے تو انہوں نے رحم میں خون جمع ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھا ہے اور جنہوں نے اسے طہر کا اسم قرار دیا ہے تو وہ بدن میں خون جمع ہونے کی وجہ سے ہے اور وہ جو القرء میں اس اصل کو تیرے لئے ثابت کر رہا ہے وہ وقت ہے، کہا جاتا ہے : ھبت الریح لقرئھا وقارئھا ای لوقتھا (یعنی ہوا چلی اپنے وقت کے سبب) شاعر نے کہا ہے : کرھت العقر عقر بنی شلیل اذا ھبت لقارئھا الریاح (2) (النکت والعیون لم اور دی، جلد 1، صفحہ 292، مؤسسۃ الکتب الثقافۃ بیروت) میں نے بنی شلیل کی بستی العقر کو ناپسند کیا جب کہ ہوائیں چلیں اپنے وقت پر۔ اور کہا گیا ہے کہ حیض کے لئے ایک وقت ہے اور طہر کے لئے بھی ایک وقت ہے، کیونکہ یہ دونوں ایک معین وقت کی طرف راجع ہوتے ہیں اور اعشی نے الاطھار کے بارے میں کہا ہے : افی کل عام انت جاشم غزوۃ تشد الاقصاھا عزیم عزائکا۔ مورثۃ عزا وفی الحی رفعۃ لما ضاع فیھا من قرؤ نسائکا : (3) معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 303، دارالفکر) اور ایک دوسرے نے حیض کے بارے میں کہا ہے : یا رب ذی ضغن علی فارض لہ قروء کفرؤ الحائض : (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) یعنی اس نے اسے نیزہ مارا تو اس کا خون حیض والی عورت کے خون کی طرح تھا۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : یہ قرء الماء فی الحوض سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد حوض میں پانی کا جمع ہونا ہے۔ (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) اور اسی سے القرآن ہے کیونکہ یہ معانی کو مجتمع ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اجتماع حروف کی وجہ سے قرآن کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے : ” ما قرات الناقۃ سلی قط “۔ یعنی کبھی اس کے پیٹ میں جیلی جمع نہیں ہوئی اور عمرو بن کلثوم نے کہا ہے : ذراعی عیطل ادماء بکر ھجان اللون لم تقرا جنینا “۔ (6) (احکام القرآن للجصاص، جلد 1، صفحہ 365، دارالکتب العربیۃ بیروت) تو گویا رحم حیض کے وقت خون کو جمع کرتا ہے اور جسم طہر کے وقت اسے جمع کرتا ہے۔ ابو عمر بن عبدالبر نے کہا ہے : اس کا قول جس نے یہ کہا کہ القراء ان کے اس قول سے ماخوذ ہے : قریت الماء فی الحوض (میں نے حوض میں پانی جمع کیا) یہ کوئی شے نہیں ہے، کیونکہ القرء مہموز ہے اور یہ غیر مہموز ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اہل لغت کی نقل کے مطابق یہ صحیح ہے، یعنی جوہری وغیرہ نے یہ کہا ہے اور اس پانی کا نام قری ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ القرء کا معنی ہے الخروج (نکلنا) یا طہر سے حیض کی طرف یا حیض سے طہر کی طرف، اسی بنا پر امام شافعی (رح) نے ایک قول میں کہا ہے : القرء الانتقال من الطھر الی الحیض، یعنی القرء کا معنی طہر سے حیض کی طرف منتقل ہونا ہے اور وہ حیض سے طہر کی طرف نکلنے کو قرء نہیں کہتے۔ اور اشتقاق کے حکم کے مطابق تو لازم آتا ہے کہ وہ بھی قرء ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروئ “۔ کا معنی ہوگا تین ادوار یا تین انتقالات اور مطلقہ عورت صرف دو حالتوں سے متصف ہوتی ہے، پس کبھی وہ طہر سے حیض کی طرف منتقل ہوتی ہے اور کبھی حیض سے طہر کی طرف اس کلام کا معنی صحیح ہوجائے گا اور اس کی دلالت طہر اور حیض دونوں پر ہوگی اور یہ اسم مشترک ہوگا۔ اور کہا جاتا ہے : جب یہ ثابت ہوگیا کہ القرء سے مراد انتقال (تبدیل ہونا) ہے تو عورت کا طہر سے حیض کی طرف نکلنا آیت میں بالکل مراد نہیں اور اسی لئے حالت حیض میں طلاق کا ہونا طلاق سنی (سنت والی) نہیں ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور نہ عدت کے لئے وہ طلاق ہے، کیونکہ عدت کے لئے طلاق وہ ہے جو حالت طہر میں ہو اور یہ القرء کے انتقال سے ماخوذ ہونے پر دلالت کرتا ہے اور جب حالت طہر میں طلاق وہ ہے جو حالت طہر میں ہو اور یہ القرء کے انتقال سے ماخوذ ہونے پر دلالت کرتا ہے اور جب حالت طہر میں طلاق سنی ہے تو پھر تقدیر کلام یہ ہوگی : ” فعدتھن ثلاثۃ انتقالات ‘، (پس ان کی عدت تین انتقالات ہیں) ان میں سے پہلا اس طہر سے انتقال ہے جس میں طلاق واقع ہوئی اور وہ انتقال جو حیض سے طہر کی طرف ہے اسے قرء نہیں بنایا گیا، کیونکہ لغت اس پر دلالت نہیں کرتی، لیکن ہمیں دوسری دلیل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیض سے طہر کی طرف منتقل ہونے کا ارادہ نہیں کیا ہے اور جب ان دو میں سے ایک معنی مراد بہ ہونے سے خارج ہوگیا تو دوسرا مراد بہ باقی رہ گیا اور وہ ہے طہر سے حیض کی طرف منتقل ہونا، پس اس بنا پر اس کی عدت تین انتقالات ہے، ان میں سے پہلا طہر ہے اور اس معنی کی بنا پر کامل تین اقراء کو پورا کرنا ممکن ہوتا ہے بشرطیکہ طلاق حالت طہر میں ہو اور کسی اعتبار سے اسے مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ الکیاطبری نے کہا ہے : امام شافعی (رح) کے مذہب کی انتہائی توجیہ کے لئے یہ گہری نظر ہے اور ممکن ہے کہ ہم اس میں وہ راز ذکر کریں جسے شریعت کی حکمتوں کی باریکیوں میں سے سمجھنا بعید نہ ہوگا اور وہ ہے طہر سے حیض کی طرف منتقل ہونا، اسے قرء کہا گیا ہے کیونکہ یہ براءت رحم پر دلالت کرتا ہے تو چونکہ حاملہ عورت کو اغلبا حیض نہیں آتا پس اسے حیض آنا اس کے لئے برات رحم کی علامت ہے اور حیض سے طہر کی طرف منتقل ہونا اس کے خلاف ہے اور حیض والی عورت کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے حیض کے بعد حاملہ ہوجائے اور جب حمل برقرار رہے اور بچہ قوی ہوجائے تو اس کا خون منقطع ہوجاتا ہے اسی وجہ سے عرب حالت طہر میں اپنی عورتوں کے حمل کے سبب تعریف کرتے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی مدح بیان کی۔ شاعر کہتا ہے : ومبرء من کل غبر حیضۃ و فساد مرضعۃ وداء مغیل : یعنی یہ کہ اس کی ماں اپنے حیض کے باقی ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ حاملہ نہیں ہوئی۔ پس یہ وہ ہے جو علماء اور اہل زبان نے القراء کی تاویل میں کہا ہے۔ اور انہوں نے کہا : قرات المراۃ قرءا “۔ جب وہ (عورت) حائضہ ہو یا پاک ہو۔ اور قرات تب بھی بولا جاتا ہے جب وہ حاملہ ہو اور اس پر انہوں نے اتفاق کیا ہے کہ القرء سے مراد الوقت ہے اور جب تو کہے : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ “۔ اوقات، تو آیت عدد میں مفسر ہوجائے گی درآنحالیکہ معدود میں احتمال ہوگا۔ اور پھر معدود کے لئے بیان کی تلاش کسی دوسری آیت میں ضروری ہوگی، پس ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “۔ اور انہیں طلاق دو ان کی عدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسے طہر کے وقت طلاق دینے کے بارے حکم دیا جائے گا پس ضروری ہے کہ وہی (طہر) عدت میں بھی معتبر ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” فطلقوھن “۔ یعنی تم انہیں ایسے وقت میں طلاق دو جس کے ساتھ عدت گزاری جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” واحصوا العدۃ “۔ ترجمہ : اور تم عدت کو شمار کرو “۔ اس سے مراد وہ ہے جس کے ساتھ مطلقہ عدت گزارتی ہے اور وہ وہ طہر ہے جس میں طلاق دی جاتی ہے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو فرمایا : ” اسے (یعنی اپنے بیٹے کو) حکم دو کہ وہ اس کی طرف رجوع کرلے پھر اسے چاہیے کہ وہ اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ (حیض سے) پاک ہوجائے۔ پھر وہ حائضہ ہو پھر وہ پاک ہو پس یہی وہ عدت ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کو اس وقت طلاق دی جائے۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض، جلد 1، صفحہ 476، قدیمی کتب خانہ) اسے مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ (2) (بخاری شریف : باب : کتاب الطلاق، حدیث نمبر : 4850، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ اس بیان میں نص ہے کہ طہر کا زمانہ ہی وہ ہے جسے عدت کا نام دیا جاتا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں عورتوں کو طلاق دی جائے گی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے حالت حیض میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہ کرے گی اور جس نے حالت طہر میں طلاق دی تو جمہور کے نزدیک وہ اس طہر کو عدت میں شمار کرے گی، پس یہی اولی اور بہتر ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن نے کہا ہے : ہم اپنے فقہاء میں سے کسی کو نہیں جانتے مگر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے قول کے مطابق وہ یہ کہتا ہے کہ اقراء سے مراد اطہار ہیں، پس جب آدمی ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے وطی نہ کی تو عورت مابقی طہر کو شمار کرلے گی اگرچہ وہ ایک ساعت اور ایک لحظہ ہو، پھر وہ حیض کے بعد دوسرے طہر کی طرف متوجہ ہوگی، پھر دوسرے حیض کے بعد تیسرے کی طرف متوجہ ہوگی، پس جب اس نے تیسرے حیض کا خون دیکھ لیا تو وہ ازواج کے لئے حلال ہوگئی۔ (یعنی وہ نئی شادی کرسکتی ہے) اور عدت سے نکل گئی۔ اور اگر طلاق دینے والے نے ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے مباشرت کی تھی تو طلاق ثابت ہوجائے گی اور وہ گنہگار ہوگا اور وہ اس طہر میں سے مابقی کے عدت گزارے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) اور زہری نے ایسی عورت کے بارے میں کہا ہے جسے طہر کے دوران طلاق دی گئی کہ وہ اس طہر کے مابقی دونوں کے سوا تین اطہار کے ساتھ عدت گزارے گی۔ () عورت کی عدت حیض کے اعتبار، ائمہ فقہ کا اس میں اختلاف ہے ائمہ احناف کے نزدیک حیض کے اعتبار سے ہے احناف کے دلائل قوی ہیں تفصیل ” ہدایہ “ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : میں کسی کو نہیں جانتا جس نے یہ کہا ہو کہ ” الاقراء “ سے مراد اطہار ہیں۔ یہ ابن شہاب زہری کے علاوہ کوئی کہتا ہے، کیونکہ انہوں نے کہا ہے وہ طہر جس میں طلاق دی گئی وہ لغو ہوجائے گا پھر وہ عورت تین اطہار کے ساتھ عدت گزارے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (آیت) ” ثلاثۃ قروئ “۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس قول کی بنا پر مطلقہ عورت حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ چوتھے حیض میں داخل ہوجائے اور ابن القاسم اور امام مالک اور آپ کے جمہور اصحاب، امام شافعی (رح) اور علمائے مدینہ رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے کہ مطلقہ عورت جب تیسرے حیض کا پہلا نقطہ دیکھے گی تو وہ عصمت (پابندی) سے نکل جائے گی (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) یہی حضرت زید بن ثابت، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مذہب ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل (رح) نے بھی کہا ہے اور اسی کی طرف داؤد بن علی اور ان کے اصحاب گئے ہیں۔ اور زہری کے خلاف دلیل یہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے طاہر کی طلاق میں بغیر جماع کے اجازت عطا فرمائی اور اول طہر اور آخر طہر کا ذکر نہ فرمایا۔ اور اشہب نے کہا ہے : عصمت اور میراث منقطع نہیں ہوتیں یہاں تک کہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دم حیض ہے، تاکہ ایک دفعہ خون کا آنا دم حیض کے سوا کوئی اور نہ ہو۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) علمائے کوفہ نے حضور ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے جو آپ ﷺ نے فاطمہ بنت ابی حبیش کو اس وقت فرمایا جب اس نے آپ کے پاس خون کی شکایت کی : ” بیشک وہ ایک رگ ہے پس تو ابھی دیکھ اور جب تجھے دم حیض آئے تو تو نماز نہ پڑھ اور جب حیض کے ایام گزر جائیں تو تو طہارت حاصل کر (غسل کرلے) پھر ایک حیض سے دوسرے حیض تک نمازیں پڑھتی رہ۔ (3) (سنن نسائی، کتاب الطہارۃ، باب ماء الرجل وماء المرائۃ، جلد، صفحہ 45، وزارت تعلیم) اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” والی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر “۔ (الطلاق : 4) ترجمہ : اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔ پس جس سے اسے ناامید اور مایوس قرار دیا گیا ہے وہ حیض ہے۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ وہی عدت ہے اور جو اس کا عوض بنایا گیا ہے وہ مہینے ہیں جبکہ وہ معدوم ہو (یعنی حیض نہ آنے کی صورت میں عدت مہینوں کے ساتھ ہوگی) اور حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی موجودگی میں کہا کہ لونڈی کی عدت دو حیض ہے (یعنی) آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے، اور اگر اس پر قدرت رکھتا کہ میں اس کی عدت ایک کامل اور ایک نصف حیض مقرر کرسکوں تو میں کردیتا اور کسی صحابی نے بھی آپ کی بات کا انکار نہ کیا۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ ان کی طرف سے اجماع ہے اور یہی دس صحابہ کرام کا قول ہے انہیں میں سے خلفائے اربعہ بھی ہیں۔ اور تیرے لئے وہی کافی ہے جو انہوں نے کہا ہے اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “۔ اس پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ اس کا معنی یتربصن ثلاتۃ اقرائ “ ہے اور اس سے مراد کامل تین حیض ہیں اور یہ ممکن نہیں ہو سکتا مگر ہمارے قول کے مطابق کہ اقراء سے مراد حیض ہیں کیونکہ جو کہتے ہیں کہ مراد طہر ہیں وہ جائز قرار دیتے ہیں کہ وہ دو طہر اور تیسرے کے بعد ایام عدت گزارے، کیونکہ جب اس نے حالت طہر میں طلاق دی تو وہ ان کے نزدیک اس طہر کا بقیہ حصہ عدت گزارے، یہی ایک قرء ہے اور ہمارے نزدیک وہ شروع حیض سے آغاز کرے گی تاکہ اسم (قرئ) صادق آجائے اور جب آدمی نے عورت کو ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے وطی نہ کی تو وہ متوجہ ہوگی حیض کی طرف پھر حیض کی طرف پھر حیض کی طرف (یعنی وہ تین حیض عدت گزارے گی) اور جب وہ تیسرے حیض سے غسل کرلے تو وہ عدت سے نکل جائے گی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد درد کرتا ہے : (آیت) ’ سخرھا علیھم سبع لیال وثمنیۃ ایام (الحاقۃ : 7) ترجمہ : (اللہ نے مسلط کردیا اسے ان پر (مسلسل) سات رات اور آٹھ دن تک۔ اور ثمانیۃ ایام میں ہاء کو ثابت رکھا ہے، کیونکہ الیوم مذکر ہے اور اسی طرح القرء ہے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ یہی مراد ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے ہمارے ساتھ اس میں موافقت کی ہے کہ عورت کو جب حالت حیض میں طلاق دی جائے کہ وہ اس حیض کو عدت میں شمار نہ کرے گی جس میں اسے طلاق دی گئی اور نہ ہی اس طہر کو جو اس حیض کے بعد ہوگا، بلکہ وہ عدت کا آغاز اس حیض سے کرے گی جو طہر کے بعد ہوگا اور ہمارے نزدیک وہ طہر سے عدت شروع کرے گی، جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے۔ اور اہل لغت نے جائز قرار دیا ہے کہ وہ بعض کو کل کے نام سے تعبیر کریں، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” الحج اشھر معلومت “ اور اس سے مراد شھران (دو مہینے) اور تیسرے کے بعض ایام ہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 185، دارالفکر) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” ثلثۃ قروء “ ہے۔ واللہ اعلم۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ قرء سے مراد حیض ہیں ان میں سے بعض نے کہا ہے جب وہ تیسرے حیض سے پاک ہوجائے تو غسل کے بعد اس کی عدت گزر گئی اور رجعت کا حق باطل ہوگیا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 304 دارالکتب العلمیہ) حضرت سعید بن جبیر، طاؤس، ابن شبرمہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے۔ اور شریک نے کہا ہے : جب عورت غسل میں بیس برس تک کوتاہی کرے گی تو اس کے خاوند کو اس پر رجعت کا حق حاصل رہے گا جب تک وہ غسل نہ کرلے۔ اور اسحاق بن راہویہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب تیسرے حیض میں عورت میں عیب پڑگیا تو وہ جدا ہوجائے گی اور خاوند کے لئے رجوع کا حق منقطع ہوجائے گا، مگر یہ کہ عورت کے لئے شادی کرنا حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ اپنے حیض سے غسل کرلے اور اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور یہ قول ضعیف ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فاذا بلغن اجلھن فلاجناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف “۔ (البقرہ : 234) ترجمہ ؛ اور جب پہنچ جائیں اپنی (اس) مدت کو تو کوئی گناہ نہیں تم پر اس میں جو کریں وہ اپنی ذات کے بارے میں مناسب طریقے سے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور رہا وہ جو امام شافعی (رح) نے ذکر کیا ہے کہ طہر سے حیض کی طرف نفس انتقال کو قرء کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا فائدہ عورت پر عدت کو کم کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ عورت کو اس کے طہر کی آخری ساعت میں طلاق دے پھر وہ حیض میں داخل ہوجائے تو وہ اسے ایک قرء شمار کرلے گی اور تیسرے طہر سے منتقل ہوتے ہی عصمت منقطع ہوگئی اور وہ حلال ہوجائے گی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ وہ لونڈی جسے حیض آتا ہے جب اس کا خاوند اسے طلاق دے تو اس کی عدت دو حیض ہوگی۔ اور ابن سیرین سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں لونڈی کی عدت کو آزاد عورت کی عدت کی طرح ہی دیکھتا ہوں مگر یہ کہ اس میں کوئی سنت جاری ہوچکی ہو، کیونکہ سنت زیادہ حق رکھتی ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ اور الاصم عبدالرحمن بن کیسان، داؤد بن علی اور اہل ظاہر کی ایک جماعت نے کہا ہے : بیشک طلاق اور وفات کی عدت مہینوں اور حیضوں کے ساتھ ہے اس سے متعلقہ آیات لونڈی اور آزاد عورت کے حق میں عام ہیں، پس آزاد اور لونڈی کی مدت برابر ہے۔ اور جمہور نے حضور ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : ” طلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان “۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، باب ماجاء ان طلاق الامۃ تطلیقتان، جلد 1، صفحہ 142، وزارت تعلیم) (لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں) اسے ابن جریج نے عطا عن مظاھرین اسلم عن ابیہ عن القاسم بن محمد عن عائشہ ؓ کی سند سے بیان کیا ہے۔ قالت : قال رسول اللہ ﷺ : طلاق الامۃ تطلقتان وقرؤھا حیضتان (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب لی سنۃ طلاق العبد، جلد 1، صفحہ 298، وزارت تعلیم) (جامع ترمذی، کتاب اطلاق باب : ماجاء ان طلاق الامۃ تطلیقتان، حدیث نمبر 1102، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (ابن ماجہ، کتاب الطلاق، حدیث نمبر : 2069، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) آپ نے طلاق اور عدت دونوں کی اکٹھی نسبت اس کی طرف کی ہے مگر مظاہر بن اسلم اس حدیث کے ساتھ منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے ان دونوں میں سے جو بھی غلام ہوا اس کی طلاق کم ہوگی۔ اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “۔ یعنی حیض میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے اسے چھپانا ان کے جائز نہیں۔ حضرت عکرمہ، زہری اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد حمل ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے اسی طرح کہا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس سے مراد حیض اور حمل دونوں ہیں اور یہ اس بنا پر ہے کہ حاملہ عورت حائضہ ہوتی ہے اور آیت سے معنی مقصود یہ ہے کہ جب عدت کا دارومدار حیض اور اطہار پر ہے اور دونوں پر اطلاع فقط عورتوں کی جانب سے ہو سکتی ہے تو پھر اس میں قول عورت کا ہی تسلیم کیا جائے گا جب وہ عدت کے گزرنے یا نہ گزرنے کا دعوی کرے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر امین بنا دیا ہے اور یہی اس ارشاد کا مقتضی ہے : قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) ٓٓاور سلیمان بن یسار نے کہا ہے : ہمیں حکم نہیں دیا گیا ہے کہ ہم عورتوں کو کھولیں اور ان کی شرمگاہوں کی طرف دیکھیں، بلکہ اسے ان کے سپرد کیا گیا ہے کیونکہ انہیں اپنے آپ پر امین بنایا گیا ہے۔ اور چھپانے سے منع کرنے کے معنی مرد کو نقصان پہنچانے اور اس کا حق ضائع کرنے سے منع کرنا ہے، پس جب مطلقہ نے کہا : میں حیض سے ہوں، حالانکہ وہ حیض سے ہو اس نے مرد کے رجوع کا حق ضائع کرنے سے منع کرنا ہے، پس جب مطلقہ نے کہا : میں حیض سے ہوں، حالانکہ وہ حیض سے نہ ہو تو اس نے مرد کے رجوع کا حق ضائع کردیا اور جب اس نے کہا : میں حیض سے نہیں ہوں، حالانکہ وہ حالت حیض میں ہو تو اس نے مرد پر وہ نفقہ لازم کردیا جو اس پر لازم نہیں تو اس طرح اس نے مرد کو ضرر اور نقصان پہنچایا یا وہ حیض کی نفی کے بارے اپنے جھوٹ سے یہ قصد کرتی ہے کہ اسے واپس نہ لوٹایا جاسکے یہاں تک کہ عدت گزر جائے اور شریعت اس کے حق کو ختم کر دے اور اسی طرح حاملہ عورت حمل کو چھپاتی ہے تاکہ وہ مرد رجوع کے حق کو ختم کر دے۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : دور جاہلیت میں انکی عادت تھی کہ وہ حمل کو چھپاتی تھیں تاکہ وہ بچے کو نئے خاوند کے ساتھ ملا دیں، پس اس بارے میں آیت نازل ہوئی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) اور بیان کیا گیا ہے کہ اشجع کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ میں نے اپنی بیوی کو طلاقیں دی ہے اور وہ حاملہ ہے اور مجھے اس کے شادی کرنے سے امن نہیں ہے اور میرا بیٹا دوسرے کے پاس چلا جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اشجعی کی عورت اس کے پاس لوٹا دی گئی۔ مسئلہ نمبر : (2) ابن منذر نے بیان کیا ہے : اہل علم میں سے ہر اس نے کہا جس سے میں نے حفظ کیا : جب عورت نے دس دنوں میں کہا : میں نے تین حیض گزار لئے ہیں اور میری عدت گزر چکی ہے، بلاشبہ اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور اس سے وہ قول قبول نہیں کیا جائے گا، مگر وہ یہ کہے : میں نے کچا بچہ (سقط) گرا دیا ہے تحقیق اس کی خلقت ظاہر ہوچکی تھی (تب اس کا قول قبول کرلیا جائے گا) اور اس مدت میں علماء کا اختلاف ہے جس میں عورت کے قول کی تصدیق کی جائے گی، تو حضرت امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب اس نے کہا ” میری عدت گزر چکی ہے “ یہ اتنی مدت میں کہا جس کی مثل میں عدت گزر سکتی ہے تو اس کا قول قبول کیا جائے گا۔ (3) (المدونۃ الکبری، کتاب ارخاء السور، باب دعوی المراۃ القضاء عدتھا، جلد 5، صفحہ 10، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور اگر اس نے اتنی مدت میں عدت گزرنے کی خبر دی جس میں شاذ ونادر ایسا ہو سکتا ہے تو اس کے بارے میں دو قول ہیں۔ آپ نے المدونہ میں فرمایا : جب عورت نے کہا میں نے ایک مہینے میں تین حیض گزار لئے ہیں اس کی تصدیق کرلی جائے بشرطیکہ عورتیں اس کی تصدیق کردیں۔ (4) ایضا، جلد 5، صفحہ 12) اسی طرح شریح نے کہا ہے اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے انہیں کہا : (آیت) ” قالون “۔ یعنی تو نے درست کہا اور اچھا کہا۔ اور کتاب محمد میں فرمایا : اس کی تصدیق نہ کی جائے گی مگر ڈیڑھ ماہ میں۔ اور اسی طرح ابو ثور کا قول ہے۔ ابو ثور نے کہا ہے : کم سے کم اس کے قول کی تصدیق سینتالیس دونوں میں ہوسکتی ہے اور وہ اس طرح کہ کم سے کم طہر کی مدت پندرہ دن ہے اور کم سے کم حیض کی مدت ایک دن ہے۔ اور حضرت نعمان (رح) نے فرمایا ہے : ساٹھ دونوں سے کم مدت میں عورت کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی، اسی طرح امام شافعی (رح) نے بھی کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان کن یؤمن باللہ والیوم الاخر “۔ رحم میں موجود شے کو چھپانے کی حرمت کی تاکید کے لئے یہ انتہائی شدید اور عظیم وعید ہے اور فی الحقیقت رحم میں جو کچھ ہے اس کے بارے خبر دینے کی امانت کی ادائیگی کے لئے واجب ہونے کا اظہار ہے، یعنی مومن عورتوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ حق کو نہ چھپائیں، (آیت) ” ان کن یؤمن باللہ “ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو ایمان نہیں رکھتا اس کے لئے چھپانا مباح ہے، کیونکہ ایسا کرنا اس کے لئے بھی حلال نہیں جو ایمان نہیں رکھتا، بلاشبہ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : ان کنت اخی فلا تظلمنی (اگر تو میرا بھائی ہے تو تو مجھ پر ظلم نہ کر) (بلکہ مقصود یہ ہے) کہ چاہئے ایمان تجھے ایسا کرنے سے روکے، کیونکہ ایسا کرنا اہل ایمان کے فعل میں سے نہیں ہے (یعنی ان کے شایان شان نہیں ہے) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وبعولتھن احق بردھن “۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وبعولتھن “۔ البعولۃ : البعل کی جمع ہے اور اس کا معنی زوج (خاوند) ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) اور اسے بعل اس لئے نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ زوجہ پر ان چیزوں کے بارے میں غالب اور بلند ہوتا ہے جن کا وہ اس کی زوجیت کے اعتبار سے مالک ہوتا ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” اتدعون بعلا “۔ (الصافات : 125) ای ربا، کیا تم رب کو پکارتے ہو۔ تو اسے ربوبیت میں بلند ہونے کی وجہ سے بعل کہا گیا ہے، کہا جاتا ہے : بعل وبعولۃ، جیسا کہ ذکر کی جمع میں کہا جاتا ہے۔ ذکر وذکورۃ اور فحل کی جمع میں کہا جاتا ہے : فحل وفحولۃ، اس کے آخر میں یہ ہا زائدہ ہے اور جمع مؤنث کی تاکید کے لئے ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) اور یہ شاذ ہے، اس پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اور اس میں سماع متعبر ہوتا ہے۔ پس لعب میں لعوبۃ نہیں کہا جاسکتا۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ ہا تانیث ہے تو فعول پر داخل کی گئی ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 305 دارالکتب العلمیہ) اور البعولۃ البعل “ کا مصدر بھی ہے اور بعل الرجل یبعل (مثل منع یمنع) بعولۃ، یعنی آدمی بعل ہوگیا اور البباعلۃ اور البعال کا معنی جماع ہے، اسی معنی میں حضور نبی مکرم ﷺ کا ایام تشریق کے بارے ارشاد گرامی ہے : انھا ایام اکل وشرب وبعال “۔ (4) سنن دارقطنی، کتاب طلوع الشمس بعد الافطار، جلد 3‘ صفحہ 212، حدیث نمبر 32، دارالمحاسن القاہرہ) (کہ وہ کھانے، پینے اور جماع کرنے کے دن ہیں۔ ) یہ پہلے گزر چکا ہے، پس آدمی عورت کے لئے بعل ہوتا ہے اور عورت مرد کے بعلۃ ہوتی ہے۔ اور باعل ” مباعلۃ کہا جاتا ہے جب وہ اس سے مباشرت کرے اور فلان بعل ھذا یعنی فلاں اس کا مالک اور مربی ہے۔ اس کے کثیر محامل ہیں وہ آگے آئیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” احق بردھن “ وہ انہیں واپس لوٹانے کا زیادہ حق رکھتا ہے : پس مراجعت کی دو صورتیں ہیں : ایک مراجعت عدت کے دوران اس کی بنا حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث پر ہے اور دوسری مراجعت عدت کے بعد اس کی بنا حضرت معقل کی حدیث پر ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر آیت میں اس کی تخصیص پر دلیل ہوگی جسے مسمیات کا عموم شامل ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قرؤئ “۔ عام ہے ان کے بارے میں بھی جنہیں تین طلاقیں دی گئیں ہوں اور ان کے بارے میں بھی جنہیں تین سے کم دی گئی ہوں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” وبعولتھن احق “۔ یہ اس کے بارے میں خاص حکم ہے جس کی طلاقیں تین سے کم ہوں۔ اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد آدمی جب اپنی آزاد بیوی کو طلاق دے ایک طلاق یا دو طلاقیں اور وہ مدخول بھابی ہو تو وہ اس کی طرف رجوع کا زیادہ رکھتا ہے جب تک اس کی عدت نہ گزرے اگرچہ عورت ناپسند بھی کرے اور اگر طلاق دینے والے نے اس کی طرف رجوع نہ کیا یہاں تک کہ اس کی عدت گزر گئی تو پھر وہ عورت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے اور وہ اس سے اجنبیہ ہوجائے گی اور وہ اس کے لئے دلی کی اجازت اور شاہدوں کی شہادت کی شہادت کے ساتھ نیا نکاح کیے بغیر حلال نہیں ہوگی نہ کہ مراجعت کے طریقہ پر، اس پر علماء کا اجماع ہے۔ مہلب نے کہا ہے : ہر وہ جس نے عدت کے دوران رجوع کرلیا صرف رجوع پر گواہ بنائے بغیر احکام نکاح میں سے کوئی شے اس پر لازم نہ ہوگی۔ اس پر بھی علماء کا اجماع ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف واشھدوا ذوی عدل منکم “۔ (الطلاق : 2) ترجمہ : تو جب پہنچنے لگیں اپنی میعاد کو تو روک لو انہیں بھلائی کے ساتھ یاجدا کر دو انہیں بھلائی کے ساتھ اور گواہ مقرر کرلو دو معتبر آدمی اپنے میں سے۔ پس رجعت میں تو گواہ بنانے کا ذکر کیا ہے اور نکاح اور طلاق میں اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : ہم نے کتاب اللہ میں جو مسائل اہل علم کے اجماع کے ساتھ ذکر کردیے ہیں وہ کافی ہیں ان کے ذکر کی حاجت نہیں جو اس باب میں متقدمین سے مروی ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) اس کے بارے میں اختلاف ہے جس کے ساتھ ایک آدمی عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب آدمی عدت کے دوران عورت سے وطی کرے اور وہ رجعت کا ارادہ رکھتا ہو اور وہ شاہد بنانے سے جاہل ہو اور ناواقف ہو تو رجعت ثابت ہوجائے اور عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کو مباشرت سے روکے، یہاں تک کہ وہ گواہ بنالے، اسی طرح اسحاق (رح) نے کہا ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : انما الاعمال بالنیات وانما لکل امری ما نوی “۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الایمان کیف کان بدء الوحی، جلد 1، صفحہ 2، وزارت تعلیم) (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ ) اور اگر اس نے عدت میں وطی کی لیکن وہ رجعت کی نیت نہیں کرتا تو امام مالک (رح) نے فرمایا ہے : وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے اور وہ اس سے وطی نہیں کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے فاسد پانی سے استبرا کرا لے (1) (المدونۃ الکبری : کتاب العدۃ و طلاق السنۃ، باب ماجاء فی عدۃ المطلقۃ، جلد 5، صفحہ 122، السعادۃ بجوار محافظۃ مصر) (یعنی یہ یقین کرلے کہ پہلی وطی سے استقرار حمل نہیں ہوا) ابن قاسم نے کہا ہے : اگر اس کی عدت گزر جائے تو وہ اور کوئی غیر بقیہ مدت استبرا میں اس کے ساتھ نکاح نہ کرے، اگر اس نے کیا تو اس کا نکاح فسخ کردیا جائے گا اور عورت مرد پر ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہوگی کیونکہ وہ پانی بھی تو اسی کا پانی ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : جب مرد نے عورت کے ساتھ مجامعت کرلی تو اس نے اس کی طرف رجوع کرلیا : اسی طرح حضرت سعید بن مسیب، حسن بصری، ابن سیرین، زہری، عطاء، طاؤس، اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ مزید کہا : اور وہ شاہد بنا لے گا، اسی طرح اصحاب الرائے، امام اوزاعی اور ابن ابی لیلی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے، اسے ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ اور ابو عمر نے کہا ہے : تحقیق کہا گیا ہے : اس کی وطی ہر حال میں رجوع ہوگی، چاہے وہ رجعت کی نیت کرے یا نہ کرے اور امام مالک (رح) کے اصحاب میں سے ایک فریق سے اسی طرح روایت کیا جاتا ہے اور یہی لیث نے اپنایا ہے۔ اور انہوں (علمائ) نے اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کیا جس نے اپنی لونڈی خیار کے ساتھ فروخت کی کہ اس کے لئے مدت خیار میں اس کے ساتھ وطی کرنا مباح ہے اور یہ کہ وہ اس کے ساتھ اسے اپنی ملکیت کی طرف واپس لوٹا لائے اور اسے اپنے اس فعل کے ساتھ بیع توڑنے کا اختیار ہے اور یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے لئے ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (4) جس نے بوسہ لیا یا مباشرت کی اور اس سے وہ رجعت کی نیت کرتا ہے تو رجعت ثابت ہوجائے گی اور اگر اس نے بوسہ اور مباشرت سے رجعت کی نیت نہ کی تو وہ گنہگار ہوگا اور رجوع کرنے والا نہ ہوگا اور سنت یہ ہے کہ وہ وطی کرنے سے پہلے یا بوسہ لینے یا مباشرت سے پہلے گواہ بنا لے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : اگر اس نے عورت سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ اسے مس کیا یا شہوت کے ساتھ اس کی فرج کی طرف دیکھا تو اس کی رجعت ثابت ہوجائے گی، یہی امام ثوری (رح) کا قول ہے اور اسے چاہیے کہ وہ گواہ بنالے اور امام امالک، امام شافعی، اسحاق، ابو عبید اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم کے قول کے مطابق رجعت ثابت نہ ہوگی، ابن منذر نے یہی کہا ہے اور المنتقی میں کہا ہے بالقول رجوع کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور رہابالفعل جیسا کہ جماع اور بوسہ وغیرہ تو قاضی ابو محمد (رح) نے کہا ہے : ان کے ساتھ اور ان تمام افعال کے ساتھ جو حصول لذت کے لئے کیے جاتے ہیں رجوع ہوتا ہے۔ ابن المواز نے کہا ہے : لذت کے لئے جسم کو چھونا یا اس کی فرج کی طرف دیکھنا یا اس کے مح اس میں سے جو اس کے قریب ہیں انہیں دیکھنا جبکہ وہ اس سے رجعت کا ارادہ کرے، بخلاف امام شافعی (رح) کے اس قول کے کہ رجعت صحیح نہیں ہوتی مگر بالقول، اسے ابن منذر نے ابو ثور، جابر بن زید اور ابو قلابہ رحمۃ اللہ علہیم سے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اگر اس نے عورت سے جماع کیا وہ رجعت کی نیت کرے یا اس کی نیت نہ کرے تو اس طرح رجعت ثابت نہ ہوگی اور اس کے لئے مرد پر مہر مثل ہوگا۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس کے لئے کوئی شے نہ ہوگی، کیونکہ اگر وہ اسے لوٹا لیتا تو اس پر کوئی مہر نہ تھا اور بغیر رجعت کے وطی مہر کے عوض رجعت سے ادلی نہیں ہوگی۔ اور ابو عمر نے کہا ہے : میں کسی کو نہیں جانتا سوائے امام شافعی کے کہ جس نے اس پر مہر مثل واجب کیا ہو اور اس کا قول قوی نہیں ہے، کیونکہ یہ عورت زوجات کے حکم میں ہے اور یہ اس مرد کی وارث بنتی ہے اور وہ اس کا وارث بنتا ہے تو کس طرح اس عورت کے ساتھ وطی کرنے میں مہر مثل واجب ہوگا جس کا حکم اپنے اکثر احکام میں زوجہ کے حکم کی مثل ہے، مگر یہ کہ امام شافعی (رح) کے قول میں شبہ قوی ہے، کیونکہ بغیر رجعت کے اس کو اس مرد پر حرام قرار دیا گیا ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے کہ وہ عورت جس کے ساتھ شبہ کے سبب وطی کی جائے اس کے لئے مہر واجب ہوتا ہے اور تجھے یہی کافی ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا آدمی عورت کی طرف رجوع کرنے پہلے اس کے ساتھ سفر کرسکتا ہے ؟ تو امام مالک (رح) اور امام مالک اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : وہ اس کے ساتھ سفر نہیں کرسکتا یہاں تک کہ وہ اس کے ساتھ رجوع کرلے (1) (المدونۃ الکبری، کتاب العدۃ و طلاق السنۃ جلد 5، صفحہ 146، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اسی طرح امام ابوحنیفہ (رح) اور امام زفر کے سوا آپ کے دیگر اصحاب رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ کیونکہ امام زفر سے حسن بن زیادہ نے روایت کیا ہے کہ آدمی کے لئے رجعت سے پہلے اس کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے اور ان سے عمرو بن خالد نے روایت کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ سفر نہیں کرسکتا یہاں کہ وہ رجوع کرلے۔ مسئلہ نمبر : (7) اس بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ کیا آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کے پاس داخل ہو اور اس کے محاسن میں سے کوئی شے دیکھے اور کیا وہ عورت اس کے لئے بناؤ سنگھار کرے گی اور پھر اس پر ظاہر ہوگی ؟ تو امام مالک (رح) نے فرمایا : وہ اس کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر اجازت کے وہ اس پر داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی طرف وہ دیکھ سکتا ہے مگر یہ کہ اس پر کپڑے ہوں اور نہ ہی وہ اس کے بالوں کی طرف دیکھ سکتا ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔ کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے بشرطیکہ ان دونوں کے ساتھ ان کے سوا کوئی اور بھی ہو اور نہ وہ ایک کمرے میں اس کے ساتھ رات بسر کرسکتا ہے بلکہ وہ اس سے (دوسرے کمرے میں) منتقل ہوجائے گا۔ ابن قاسم نے کہا ہے : امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے اور کہا ہے : نہ وہ اس پر داخل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے بال دیکھ سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے بناؤ سنگھار کرسکتی ہے، خوشبو لگا سکتی ہے، زیور پہن سکتی ہے اور اس کے سامنے بھی آسکتی ہے۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ نے فرمایا : جب آدمی اپنی عورت کو ایک طلاق دے دے تو وہ اس کے پاس اجازت لے کر آسکتا ہے اور وہ لباس اور زیور میں سے جو چاہے پہن سکتی ہے اور اگر ان دونوں کے لئے ایک کمرے کے سوا اور کوئی نہ ہو تو وہ اپنے درمیان پردہ ڈال لیں اور آدمی اس کے پاس داخل ہوتے وقت سلام کہے، اسی طرح حضرت قتادہ ؓ سے بھی مروی ہے اور وہ اسے کنکھار نے یا کھانسنے وغیرہ کے ساتھ اپنے آنے کا احساس دلائے جب وہ داخل ہو۔ حضرت امام شافعی (رح) نے کہا ہے : وہ عورت جسے ایک طلاق دی گئی ہو آدمی اس کی طرف رجوع کا مالک ہوتا ہے اور وہ طلاق دینے والے پر طلاق بائنہ والی کی طرح حرام کی گئی ہے یہاں کہ وہ رجوع کرلے اور وہ رجوع نہیں کرے گا مگر قول کے ساتھ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ طلاق دینے والے نے جب عدت گزرنے کے بعد کہا : بلاشبہ میں نے عدت میں تیری طرح رجوع کرلیا تھا اور اس نے انکار کردیا، تو اس میں عورت کا قول اس کی قسم کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا اور آدمی کو اس پر کوئی اختیار نہ رہے گا۔ مگر حضرت نعمان (امام اعظم ابوحنیفہ (رح)) نکاح اور رجعت میں قسم کا نظریہ نہیں رکھتے اور صاحبین نے اس میں ان کے ساتھ اختلاف کیا ہے اور ان دونوں نے دیگر تمام اہل علم کے قول کی مثل ہی کہا ہے اور اسی طرح جب بیوی لونڈی ہو اور آقا اور لونڈی کا اختلاف ہوجائے اور خاوند عدت گزرنے کے بعد عدت میں رجوع کا دعوی کرتا ہو اور اس (لونڈی) نے انکار کیا ہو تو اس میں قول زوجہ لونڈی کا معتبر ہوگا اگرچہ اس کا آقا اسے جھوٹا قرار دے، یہی امام شافعی (رح) ابو ثور اور نعمان رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے اور یعقوب اور محمد نے کہا ہے : قول آقا کا معتبر ہوگا کیونکہ وہی اس کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) لفظ رد عصمت کے زوال کا تقاضا کرتا ہے مگر ہمارے علماء نے کہا ہے : بیشک طلاق رجعی وطی کو حرام کردیتی ہے اور رجوع اسے حلت کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ اور لیث بن سعد، ابوحنیفہ اور جنہوں نے ان دونوں کے قول کے مطابق کہا ہے، ان کا بیان ہے کہ رجعت وطی کو حلال کردیتی ہے، طلاق کا فائدہ اس عدد کو کم کرنا ہے جو صرف اس کے لئے رکھا گیا ہے اور احکام زوجیت باقی ہیں ان میں سے کوئی شے نہیں کھلی، انہوں نے کہا : احکام زوجیت اگرچہ باقی ہیں۔ لیکن جب تک عدت میں ہے وہ عدت گزرنے کے ساتھ زوال کے راستے پر چل رہی ہے، پس رجعت اس راستے سے واپس لوٹانے کا نام ہے جسے عورت نے اپنے چلنے کے لئے اختیار کر رکھا ہے۔ اور یہ ردمجازی ہے اور وہ رد جس کے ساتھ ہم نے حکم لگایا وہ رد حقیقی ہے کیونکہ وہاں زوال رد پذیر ہوچکا ہے اور وہ وطی کو حرام قرار دینا ہے، پس اس سے حقیقۃ رد (رجوع) واقع ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (10) لفظ ” احق “ کا اطلاق دو حقوں کے درمیان تعارض کے وقت ہوتا ہے اور ان میں سے ایک حق ترجیح پا جاتا ہے۔ پس معنی یہ ہوئے کہ انتظار کی مدت (عدت) میں خاوند کا حق عورت کے بارے میں اس کے اپنے حق سے زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ عورت عدت گزرنے کے بعد اپنے نفس کی مالک بنتی ہے اور اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (1) (مسند امام احمد حدیث نمبر 1888) (بیوہ عورت اپنے بارے میں اپنے ولی کی نسبت زیادہ حق رکھتی ہے) یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) آدمی کے لئے رجوع مستحب ہے لیکن جب عورت کے لئے اپنے احوال کی اصلاح کے سبب اصلاح کا قصد کرے اور آپس میں وحشت کو زائل کرنے کا قصد کرے اور اگر عورت کو ضرر پہنچانے، عدت کو طویل کرنے اور اس کے ساتھ نکاح کے پٹے سے خلاصی پانے کو قطع کرنے کا قصد اور ارادہ کرے تو پھر اسے حرام قرار دیا گیا ہے، کیونکہ ارشاد ربانی ہے : (آیت) ” ولا تمسکوھن ضرار التعتدوا “۔ (البقرہ : 231) ترجمہ : اور نہ روکو انہیں تکلیف دینے کی غرض سے تاکہ زیادتی کرو۔ پھر جس نے ایسا کیا تو رجعت صحیح ہوگی۔ اگرچہ اس نے نہی کا ارتکاب کیا اور اپنے نفس پر ظلم کیا اور اگر ہم نے اس مقصد کو جان لیا تو ہم اسی پر چھوڑ دیں گے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف “۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولھن “۔ یعنی حقوق زوجیت میں سے ان کے حقوق مردوں پر ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں، اسی لئے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بلاشبہ میں اپنی بیوی کے لئے زیب وزینت کا انتظار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ میں اپنے وہ تمام حقوق اچھی طرح حاصل کروں جو میرے اس پر ہیں اور وہ اپنے وہ حقوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف “۔ ترجمہ : اور ان کے بھی حقوق ہیں (مردوں پر) جیسے مردوں کے حقوق ہیں ان پر دستور کے مطابق۔ یعنی ایسی زینت جس میں گناہ نہ ہو۔ اور آپ ہی سے یہ بھی روایت ہے : یعنی ان کے لئے حسن صحت اور حسن سلوک ان کے خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح اپنے خاوندوں کے لئے ان پر ہر اس کام میں اطاعت واجب ہے جو وہ ان پر لازم قرار دیں۔ اور کہا گیا ہے : بیشک ان کے لئے ان کے خاوندوں پر انہیں اذیت نہ دینا اسی طرح لازم ہے جس طرح اپنے خاوندوں کے لئے مضرت کو ترک کرنا ان پر لازم ہے۔ علامہ طبری (رح) نے یہی کہا ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : تم ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح کہ ان پر لازم ہے کہ وہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں (1) جامع البیان للطبری، جلد 2، صفحہ 543، داراحیاء التراث العربیۃ “۔ تمام معانی باہم قریب قریب ہیں اور یہ آیت حقوق زوجیت سے متعلقہ تمام حقوق کو شامل ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : ” بلاشبہ میں اپنی زوجہ کے لئے زیب وزینت کرتا ہوں “۔ (2) ایضا جلد 2، صفحہ 544) علماء نے کہا ہے : رہی مردوں کی زینت تو اس کا انحصار ان کے مختلف احوال پر ہوتا ہے۔ بیشک وہ اس کے اعمال نرم مزاجی، خوش اخلاقی اور اتفاق کی بنا پر کرتے ہیں، بسا اوقات ایک طرح کی زینت ایک وقت میں مناسب ہوتی ہے اور ایک وقت میں وہی مناسب نہیں ہوتی، کبھی ایک طرح کی زینت جوانوں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور ایک زینت بوڑھوں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور وہ جوانی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی، کیا تو دیکھتا نہیں کہ شیخ اور بوڑھا آدمی جب اپنی لبیں مونڈ دے تو یہ اس کے لئے موزوں ہے اور اس کے لئے باعث زینت ہے اور جوان جب ایسا فعل کرے تو وہ بدصورت ہوجاتا ہے اور اسے ناپسند کیا جاتا ہے، کیونکہ داڑھی ابھی بڑھی نہیں اور جب وہ اپنی لبیں مونڈ دے جونہی وہ پہلی بار ظاہر ہوں تو اس کا چہرہ قبیح ہوجاتا ہے اور جب اس کی داڑھی بڑھ جائے اور وہ اپنی لبوں کو مونڈ دے تو یہی اس کے لئے زینت بن جاتی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ سے بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے رب نے مجھے حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میں داڑھی مبارک کو بڑھنے کے لئے چھوڑ دوں اور اپنی لبوں کو کاٹوں (1) (کنز العمال، جلد 6، صفح 656، مؤسسۃ الرسالہ بیروت، بخاری شریف، باب تقلیم الاظفار، حدیث نمبر 5442، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسی طرح لباس کی کیفیت اور حالت بھی ہے۔ اور ان تمام میں حقوق کی طلب اور چاہت ہے۔ بلاشبہ وہ نرم مزاجی اور خوش اسلوبی سے کام کرتا ہے تاکہ وہ اپنی بیوی کے نزدیک اتنا حسین اور خوبصورت ہوجائے کہ اسے خوش کر دے۔ اور وہ اسے کسی بھی غیر مرد سے پاکدامن کر دے۔ اسی طرح سرمہ ہے مردوں میں سے بعض کے ساتھ وہ مناسبت رکھتا ہے اور بعض کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔ اور جہاں تک خوشبو لگانا، مسواک کرنا، دانتوں کا خلال کرنا، میل کچیل اور فالتو بالوں کو دور کرنے، پاکیزگی و طہارت حاصل کرنے اور ناخن تراشنے کا تعلق ہے تو یہ اعمال بالکل ظاہر اور تمام کے موافق ہیں اور خضاب بوڑھوں کے لئے اور انگوٹھی جوانوں اور بوڑھوں تمام کے لئے زینت ہے اور یہ مردوں کا زیور ہے۔ اس کا بیان سورة النحل میں آئے گا۔ پھر اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اس کی حاجت کے اوقات مقرر کرے اور اسے پاکدامن بنائے اور اسے کسی غیر کی طرف دیکھنے سے بےنیاز کر دے اور اگر آدمی اپنے آپ میں بستر پر عورت کے حقوق ادا کرنے سے عجز اور کمزوری دیکھے تو وہ ایسی ادویہ استعمال کرے جو اس کی قوت باہ میں اضافہ کریں اور اس کی شہوت کو تقویت پہنچائیں یہاں تک کہ وہ اسے پاکدامن بنا دے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وللرجال علیھن درجۃ “۔ یعنی مردوں کے لئے عورتوں پر درجہ اور رتبہ ہے۔ اور مدرجۃ الطریق : اس کا معنی ہے راستے کا بلند اور بڑا حصہ، اس میں اصل معنی الطی لپیٹنا ہے۔ کہا جاتا ہے ؛ درجوا “ یعنی طرواعمرھم “ انہوں نے اپنی اپنی عمریں لپیٹ لیں اور اسی سے وہ درجہ ہے جس پر وہ ترقی کرتا ہے اور کہا جاتا ہے : رجل بین الرجلۃ، یعنی ایسا آدمی جس کی قوت ظاہر ہو۔ وھو ارجل الرجلین اور وہ دو میں سے زیادہ قوی ہے اور فرس رجیل یعنی طاقتور گھوڑا اور اسی سے الرجل ہے کیونکہ اس میں چلنے کی قوت ہوتی ہے۔ پس آدمی کے مرتبہ کی زیادتی اس کی عقل اور اس کے خرچ کرنے کی قوت کے سبب اور دیت، میراث اور جہاد کے سبب ہے۔ حمید نے کہا : الدرجہ کا معنی داڑھی ہے، یہ اگر ان کی طرف سے صحیح بھی ہے تو بھی ضعیف ہے۔ اس کا تقاضا نہ آیت کا لفظ کرتا ہے اور نہ اس کا معنی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 306 دارالکتب العلمیہ) ابن عربی نے کہا ہے : بندے کے لئے اچھا اور خوبصورت یہ ہے کہ اس سے باز رہے جو وہ نہیں جانتا اور خصوصا کتاب اللہ کے بارے میں اور مردوں کی عورتوں پر فضیلت کسی ذی عقل پر مخفی نہیں ہے اور اگر اور کچھ نہ ہو تو بھی عورت مرد سے تخلیق کی گئی ہے۔ پس مرد اس کی اصل ہے۔ (3) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 188، 189، دارالفکر) اور مرد کے لئے جائز ہے کہ وہ اسے بغیر کے لئے جائز ہے کہ وہ اسے بغیر اجازت کے تصرف کرنے سے روکے اور وہ روزہ نہیں رکھ سکتی مگر مرد کی اجازت کے ساتھ اور وہ حج نہیں کرسکتی مگر مرد کے ساتھ۔ اور کہا گیا ہے کہ الدرجۃ کا معنی الصداق (دوستی) بھی ہے۔ شعبی نے یہی کہا ہے اور کہا گیا ہے اس کا معنی جواز الادب (ادب کا لحاظ رکھنا) جملہ معانی کے اعتبار سے الدرجہ کا لفظ تفضیل کا تقاضا کرتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ خاوند کا حق زوجہ پر اس سے زیادہ ہے جو بیوی کا حق خاوند پر ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ولو امرت احدا بالسجود لغیر اللہ لامرت المراۃ ان تسجد لزوجھا “۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المراۃ، جلد 1 صفحہ 134، وزارت تعلیم) (جامع ترمذی، باب جا فی حق الزوج علی المراۃ، حدیث نمبر 1079، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اگر میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے) ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ الدرجہ کا لفظ مردوں کو حسن معاشرت پر ابھارنے اور عورتوں کے لئے مال اور اخلاق میں وسعت ظرفی اپنانے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی بلاشبہ افضل کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر بوجھ برداشت کرے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول حسین اور عمدہ ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 306 دارالکتب العلمیہ) ماوردی نے کہا ہے : احتمال ہے کہ یہ حقوق نکاح میں ہو۔ اس کے لئے ان کے سوا کو عقد نے اٹھا دیا ہے اور عورت پر لازم ہوتا ہے کہ مرد کے بلانے پر اس کے بستر پر جائے اور مرد پر اس کی دعوت کو قبول کرنا لازم نہیں ہوتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں اسی کے بارے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ” جس عورت کو اس کے خاوند نے اپنے بستر کی جانب بلایا اور اس نے اس سے انکار کردیا تو ملائکہ صبح ہونے تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (3) (بخاری شریف : کتاب النکاح، حدیث نمبر : 4794، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (آیت) ” واللہ عزیز “۔ یعنی وہ مضبوط سلطان ہے، اس پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔ (آیت) ” حکیم “۔ یعنی وہ جاننے والا ہے اور جو وہ کرتا ہے وہی درست اور صحیح کرتا ہے۔
Top