Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ
: طلاق
مَرَّتٰنِ
: دو بار
فَاِمْسَاكٌ
: پھر روک لینا
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
اَوْ
: یا
تَسْرِيْحٌ
: رخصت کرنا
بِاِحْسَانٍ
: حسنِ سلوک سے
وَلَا
: اور نہیں
يَحِلُّ
: جائز
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ
: کہ
تَاْخُذُوْا
: تم لے لو
مِمَّآ
: اس سے جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: تم نے دیا ان کو
شَيْئًا
: کچھ
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
يَّخَافَآ
: دونوں اندیشہ کریں
اَلَّا
: کہ نہ
يُقِيْمَا
: وہ قائم رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا يُقِيْمَا
: کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَا
: ان دونوں پر
فِيْمَا
: اس میں جو
افْتَدَتْ
: عورت بدلہ دے
بِهٖ
: اس کا
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَا
: پس نہ
تَعْتَدُوْھَا
: آگے بڑھو اس سے
وَمَنْ
: اور جو
يَّتَعَدَّ
: آگے بڑھتا ہے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاُولٰٓئِكَ
: پس وہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدو سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
(آیت) ” نمبر
229
۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ یہ بات ثابت ہے کہ اہل جاہلیت کے نزدیک طلاق کے لئے کوئی عدد معین نہ تھا۔ البتہ ان کے نزدیک عدت (کی مدت) معین اور مقرر تھی اور ابتدائے اسلام میں بھی کچھ عرصہ یہی رہا، ایک آدمی اپنی عورت کو جو چاہتا تھا طلاق دے دیتا تھا اور جب وہ اس کی طلاق سے حلال ہونے کے قریب ہوتی تو وہ اس سے رجوع کرلیتا جب تک چاہتا، حضور نبی مکرم ﷺ کے زمانہ مقدس میں ایک آدمی نے اپنی عورت کو کہا : نہ میں تجھے گھر میں رکھوں گا اور نہ تجھے چھوڑوں گا کہ تو (کسی کے لئے) حلال ہوجائے، اس نے کہا : وہ کیسے ہوگا ؟ اس نے کہا : میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو میں تجھ سے رجوع کرلوں گا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
306
دارالکتب العلمیہ) تو اس عورت نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس اس کی شکایت کی اور آپ ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا، سو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جو آدمی کے لئے طلاق کی اس تعداد کو بیان کرتی ہے جس میں وہ بغیر مہر اور ولی کے رجوع کرسکتا ہے اور جو طریقہ ان میں رائج تھا اسے منسوخ کردیا۔ اس کا یہ معنی حضرت عروہ بن زبیر، حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہم نے بیان کیا ہے۔ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
1113
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت مجاہد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ نے کہا ہے : اس آیت سے مقصود سنت طلاق کی پہچان ہے، یعنی جو دو طلاقیں دے تو اسے تیسری کے بارے میں اللہ تعالیٰ ڈرنا چاہیے پس یا تو اس کے حقوق میں سے کسی شی کا ظلم کیے بغیر اسے چھوڑ دے یا پھر اسے حسن معاشرت کے ساتھ اپنے پاس روک لے اور آیت ان دونوں معنوں کو متضمن ہے (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
306
دارالکتب العلمیہ) (ابن ماجہ، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
2010
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
2
) طلاق سے مراد اس بندھن اور عصمت کو کھولنا ہے جو مخصوص الفاظ کے ساتھ زوجین کے درمیان منعقد اور قائم ہوئی، اس آیت اور اس کے علاوہ دیگر آیات کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق مباح ہے اور حدیث ابن عمر ؓ میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ہے : ” فان شاء امسک وان شاء طلق (
4
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق الایلاء جلد
4
،
10
، دار المحاسن قاہرہ۔ (بخاری شریف : کتاب الطلاق، حدیث نمبر :
4850
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (پھر اگر وہ چاہے تو اسے روک لے اور اگر چاہے تو طلاق دے دے) اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کو طلاق دی اور پھر ان کی طرف رجوع کرلیا۔ (
5
) سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
146
، وزارت تعلیم) اسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ (
6
) (ابن ماجہ، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
2005
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جس نے اپنی عورت کو ایسے طہر کے دوران طلاق دی جس میں اس نے اس سے مقاربت نہ کی ہو تو وہ سنت کے مطابق طلاق دینے والا ہے اور اس کے لئے وہ عدت ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جب عورت مدخول بہا ہو تو مرد کے لئے اس کی عدت گزرنے سے پہلے پہلے رجعت کا حق حاصل ہوگا اور جب عدت گزر گئی تو وہ بھی خطاب میں سے ایک خاطب (پیغام نکاح بھیجنے والا) ہے۔ کتاب اللہ، سنت اور اجماع امت اس پر دال ہے کہ طلاق مباح سے ممنوع نہیں ہے۔ ابن مندر نے کہا ہے : اس سے منع کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے جو ثابت ہو۔ مسئلہ نمبر : (
3
) دارقطنی نے روایت کیا ہے ” مجھے ابو العباس محمد بن موسیٰ بن الدولابی اور یعقوب بن ابراہیم دونوں نے حدیث بیان کی ہے اور ان دونوں نے کہا ہے : ہمیں حسن بن عرفہ، اسماعیل بن عیاش بن حمید ابن مالک اللخمی نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ذکر کیا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے معاذ ! روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک عتاق (آزاد کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر کوئی شے تخلیق نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک طلاق سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہو۔ پس جب کوئی آدمی اپنے غلام کو کہے انت حر انشاء اللہ تعالیٰ ، تو آزاد ہے اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا، تو وہ آزاد ہے اور اس کے لئے استثناء نہیں ہے اور اگر کوئی اپنی بیوی کو کہے انت طالق انشاء اللہ تعالیٰ تو اس کے لئے استثناء ہے اور اسے طلاق واقع نہ ہوگی۔ “ محمد بن موسیٰ بن علی، حمید بن ربیع، یزید بن ہارون نے ہمیں بیان کیا کہ اسماعیل بن عیاش نے اپنی اسناد کے ساتھ اسی طرح ہمیں خبر دی ہے۔ حمید نے کہا ہے کہ مجھے یزید بن ہارون نے کہا ہے : کون سی حدیث ہے اگر حمید ابن مالک الخمی معروف ہوتا، میں نے کہا : وہ میرے دادا ہیں ! تو یزید نے کہا : تو نے مجھے خوش کردیا ہے، اب یہ حدیث ہوئی ہے ! “ (
1
) (سنن دارقطنی، جلد
4
، صفحہ
35
، دارالمحاسن قاہرہ) ابن منذر نے بیان کیا ہے : جنہوں نے طلاق میں استثنا یعنی انشاء اللہ کو مؤخر قرار دیا ہے ان میں سے طاؤس، حماد، امام شافعی ابو ثور اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم ہیں۔ امام مالک اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم کے مطابق طلاق میں استثناء جائز نہیں ہے اور حسن اور قتادہ کا صرف طلاق کے بارے میں یہی قول ہے۔ فرمایا :” وبالقول الاول اقول “۔ میں تو پہلے قول کے مطابق کہتا ہوں۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فامساک بمعروف “ یہ مبتدا ہے اور خبر امثل یا احسن ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو، یعنی ” فعلیکم امساک بمعروف، یاقالوا اجب علیکم امساک بمایعرف انہ الحق “۔ (
2
) (زاد المسیر، جلد
1
، صفحہ
200
، دارالکتب العلمیۃ “۔ (یعنی تم پر واجب ہے روک لینا ایسے طریقہ سے جس کے بارے یہ معلوم ہو کہ یہ حق اور درست ہے) اور قرآن کے علاوہ اسے مصدر ہونے کی بنا پر فامساکا پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور (آیت) ” باحسان “۔ کا معنی یہ ہے کہ وہ بیوی کے حقوق میں سے کسی بھی شے میں اس پر ظلم نہ کرے اور نہ قول میں زیادتی اور حد سے تجاوز کرے۔ اور ” الامساک “۔ الاطلاق، کے خلاف ہے (یعنی امساک کا معنی روکنا اور اطلاق کا معنی چھوڑنا ہے) اور ” التسریح کا معنی ہے کسی شے کو چھوڑ دینا اور اسی سے تسریح الشعر (یعنی بالوں کو چھوڑ دینا ہے، تاکہ وہ بعض کو بعض سے علیحدہ کرلے اور سرح الماشیۃ : اس نے مویشی کو چھوڑ دیا اور تسریح کا لفظ دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے۔ ان میں سے ایک ہے کہ وہ اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ دوسری طلاق کی عدت مکمل ہوجائے اور وہ اپنے نفس کی زیادہ مالک ہوجائے یہ سدی اور ضحاک کا قول ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اسے تیسری طلاق دے اور اسے چھوڑ دے یہ حضرت عطا اور حضرت مجاہد وغیرہما کا قول ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
306
دارالکتب العلمیہ) اور تین وجوہ کی بناء پر یہ زیادہ صحیح ہے۔ (
1
) وہ حدیث جسے دارقطنی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ (طلاق دو بار ہے) تو یہ تین کیونکر ہوئیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (آیت) ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “۔ ایک روایت میں ہے : یہ تیسری طلاق ہے۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق، جلد
4
، صفحہ
4
، دارالمحاسن) اسے ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ (
2
) (آیت) ” تسریح “۔ الفاظ طلاق میں سے ہے، کیا تو جانتا نہیں کہ ان عزموا السراح بھی پڑھا گیا ہے۔ (
3
) بیشک ” فعل تفعیلا “۔ یعنی باب تفعیل اس پر دلالت کر رہا ہے کہ اس نے دوسری طلاق پر فعل کو مکرر کیا ہے اور ترک میں فعل کو نئے سرے سے کرنا نہیں ہے جسے تفعیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
306
دارالکتب العلمیہ) ابو عمر نے کہا ہے : اس پر علماء نے اجماع کیا ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” اوتسریح باحسان “۔ یہ دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی یہی مراد لی گئی ہے : (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ (البقرہ :
230
) ترجمہ (دو بار طلاق دینے کے بعد) پھر اگر وہ طلاق دے اپنی بیوی کو تو وہ حلال نہ ہوگی اس پر اس کے بعد یہاں تک کہ نکاح کرے کسی اور خاوند کے ساتھ) اور اس پر بھی علماء کا اجماع ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دیں تو اس کے لئے اس رجوع کا حق ہے اور اگر اسے تیسری طلاق دے دی تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی زوج سے شادی کرلے۔ (
4
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
307
، دارالفکر “۔ اور یہ قرآن کریم کا وہ محکم حکم ہے جس کی تاویل (اور معنی) میں کوئی اختلاف نہیں، اسی کی مثل عادل راویوں کی احادیث بھی مروی ہیں۔ سعید بن نصر نے بیان کیا کہ ہمیں قاسم بن اصبغ نے بیان کیا کہ ہمیں محمد بن وضاح نے بتایا، انہوں نے کہا : ہمیں ابوبکر بن ابی شیبۃ نے بیان کیا اور انہوں نے کہا : ہمیں ابو معاویہ نے اسماعیل بن سمیع کے واسطہ سے ابو رزین سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے فرمایا : ایک آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے آپ کا کیا خیال ہے۔ : (آیت) ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ تو اس میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وہ ہے) : (آیت) ” فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ اور اسے ثوری وغیرہ نے اسماعیل بن سمیع سے اور انہوں نے ابو رزین سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (
5
) (سنن دارقطنی، جلد
4
، صفحہ
4
، دارالمحاسن) میں (مفسر) کہتا ہوں : ال کیا الطبری نے یہ خبر ذکر کی ہے اور کہا ہے : یہ نقل کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے اور ضحاک اور سدی کے قول کو ترجیح دی ہے اور بلاشبہ تیسری طلاق ہی اس ارشاد گرامی میں سیاق خطاب میں مذکور ہے : (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ پس تیسری طلاق اس خطاب کی صلب میں مذکور ہے اور یہ ایسی بینونت کا فائدہ دیتی ہے جو تحریم کا موجب ہے مگر زوج (ثانی) کے بعد (وہ تحریم ختم ہوجاتی ہے) پس ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” اوتسریح باحسان “۔ کو نئے فائدہ پر محمول کرنا واجب ہے اور وہ عدت گزرنے کے ساتھ دو طلاقوں کے ساتھ بینونت کا واقع ہونا ہے اور اس پر (محمول کرنا واجب ہے) کہ آیت سے مقصود ایسی طلاق کے عدد کا بیان ہے جو تحریم کو ثابت کرتی ہے اور اسے منسوخ کرنا ہے جو ان میں بلاعدد محصور طلاق واقع کرنا جائز تھا اور اگر قول باری تعالیٰ (آیت) ” او تسریح باحسان “۔ تیسری طلاق ہو تو یہ تین کے ساتھ تحریم واقع کرنے کا مقصد ظاہر نہیں، کیونکہ اگر اس پر اقتصار کرلیا جائے تو پھر یہ اس کے لئے بینونت محرمہ کے وقوع پر دلیل نہیں مگر زوج کے بعد، بلاشبہ تحریم کا علم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوا : (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ تو پھر یہ ضروری ہے کہ (آیت) ” اوتسریح باحسان “۔ کا معنی تیسری طلاق نہ ہو۔ اور اگر (آیت) ” اوتسریح باحسان “۔ تیسری طلاق کے معنی میں ہو تو پھر اس کے پیچھے ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” فان طلقھا “۔ چوتھی طلاق ہوگی، کیونکہ فاء تعقیب کے لئے ہے اور یہ ان کے بعد نئی طلاق کا تقاضا کرتی ہے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، سوا سے ثابت ہوا کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” او تسریح باحسان “۔ سے مراد عورت کو چھوڑ دینا ہے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) امام بخاری نے اس آیت پر یہ عنوان باندھا ہے : باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ (آیت) ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ (یعنی یہ باب اس کے بیان میں ہے جس نے مذکورہ ارشاد گرامی کے ساتھ تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے) اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ تعداد بلاشبہ ان کے لئے وسعت ہے۔ پس جس نے اپنے اوپر تنگی اور شدت کی تو یہ اس پر لازم ہوجائے گی، ہمارے علماء نے کہا ہے : ائمہ فتوی کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں واقع کرنے سے لازم ہوجاتی ہے۔ اور یہی جمہور اسلاف کا قول ہے۔ اور طاؤس اور بعض اہل ظاہر نے یہ کہا ہے کہ ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں واقع کرنے سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے اور یہ محمد بن اسحاق اور حجاج بن ارطاۃ سے روایت کیا جاتا ہے اور ان دونوں سے یہ بھی منقول ہے کہ اس سے کوئی شے لازم نہیں ہوتی اور یہ مقاتل کا قول ہے اور داؤد سے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا (کوئی شے) واقع نہ ہوگی، اور حجاج بن ارطاۃ اور جمہور سلف اور ائمہ سے مشہور قول یہ ہے کہ وہ تینوں لازم اور واقع ہوجاتی ہیں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ تین طلاقیں اکٹھی ایک کلمہ کے ساتھ واقع کرے یا تین متفرق کلمات کے ساتھ۔ اور رہے وہ جنہوں نے یہ کہا کہ اس سے کوئی شے لازم نہ ہوگی انہوں نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قرؤئ “۔ کی دلیل سے استدلال کیا ہے۔ یہ ہر مطلقہ کو شامل ہے سوائے اس کے جسے اس سے خاص کردیا جائے اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور کہا : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ طلاق دو بار ہے اور تیسری (آیت) ” فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ ہے اور جس نے ایک کلمہ میں تین طلاقیں دیں پس وہ لازم نہ ہوگی، کیونکہ وہ قرآن کریم میں مذکور نہیں اور جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایک واقع ہوئی ہے تو انہوں نے تین احادیث سے استدلال کیا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت طاؤس، ابو صہباء اور عکرمہ کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے اور دوسری حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے اس کی روایت کے مطابق جس نے یہ بیان کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور آپ ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور وہ آپ کے لئے ایک طلاق شمار ہوئی (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق، جلد
4
صفحہ
7
، دارالمحاسن “۔ اور تیسری حدیث یہ ہے کہ حضرت رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں رجعت کا حکم فرمایا (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
298
، وزارت تعلیم، ایضا، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
1877
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور رجعت ایک طلاق واقع ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ ان احادیث کا جواب وہ ہے جو امام طحاوی (رح) نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعید بن جبیر ؓ ، حضرت مجاہد ؓ ، حضرت عطاء ؓ ، حضرت عمرو بن دینار ؓ ، حضرت مالک بن حویرث ؓ ، حضرت محمد بن ایاس بن بکیر ؓ ، اور حضرت نعمان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علہیم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کے بارے میں یہ روایت بیان کی ہے (کہ) جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دین اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوگئی اور اب وہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا مگر دوسرے زوج کے بعد (
3
) (شرح معانی الاثار الطلاق، جلد،
2
، صفحہ
34
، مکتبہ امدادیہ ملتان) اور اس بارے میں ان ائمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے جو روایت کی ہے وہ جماعت (جمہور کی رائے) سے موافقت رکھتی ہے اور طاؤس وغیرہ کی روایت وہن (کمزور) پر دلالت کرتی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ ایسے نہیں ہیں کہ وہ اپنے رائے کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مخالفت کریں۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے۔ حجاز، شام، عراق، مشرق اور مغرب کے شہروں کے فقہاء میں سے کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور یہ بھی گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے موالی میں سے ابو صہباء معروف نہیں ہیں۔ قاضی ابو الولید الباجی نے کہا ہے : میرے نزدیک ابن طاؤس سے اس بارے میں روایت صحیح ہے اور ان سے ائمہ نے روایت کی ہے : (یعنی) معمر اور ابن جریج وغیرہ اور ابن طاؤس امام ہیں اور وہ حدیث جس کی طرف وہ اشارہ کر رہے ہیں وہ ہے جسے ابن طاؤس نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد اور حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے زمانہ خلافت کے پہلے دو سال تک تین طلاقیں ایک طلاق تھی، پھر حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے فرمایا : بیشک لوگ اس امر میں جلدی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لئے تاخیر تھی، پس اگر ہم اسے ان پر نافذ کردیں، پھر آپ نے اسے ان پر نافذ کردیا۔ (
4
) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
477
،
478
، وزارت تعلیم) اور حدیث کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ ایک طلاق واقع کرتے تھے اس کے بدلے جہاں اب لوگ تین طلاقیں واقع کرتے ہیں اور اس تاویل کے صحیح ہونے پر حضرت عمر کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ بیشک لوگ اس معاملے میں جلدی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لئے تاخیر تھی تو آپ نے انہیں ناپسند کیا کہ وہ طلاق دینے کے معاملہ میں جلدی کریں جس میں انکے لئے تاخیر تھی پس اگر ابتدائے اسلام میں حضور ﷺ کے زمانہ میں ان کا یہی حال ہوتا جو آپ نے کہا ہے تو ان پر یہ عیب نہ ہوتا کہ انہوں نے اس معاملہ میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لئے تاخیر تھی۔ اور اس تاویل کے صحیح ہونے پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ آپ نے اس کے لئے تین طلاقوں کے لازم ہونے کا فتوی دیا جس نے اکٹھی تین واقع کیں، پس اگر ابن طاؤس کی حدیث کے یہ معنی ہیں تو یہ تو ہم نے بیان کردیے ہیں اور اگر حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کو اس معنی پر محمول کیا جائے جس میں وہ تاویل کرتے ہیں جن کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی، تو بھی حضرت ابن عباس ؓ نے جماعت کے قول کی طرف رجوع کرلیا ہے اور اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے اور قیاس کے اعتبار سے ہمارے دلیل یہ ہے کہ یہ طلاق ہے اور اسے وہ واقع کرتا ہے جو اس کا مالک ہوتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اسے لازم قرار دیا جائے اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کوئی مفرد طلاق واقع کرے (تو وہ واقع ہوجاتی ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں : جو تاویل الباجی نے بیان کی ہے وہ وہی ہے جس کا معنی ال کیا الطبری نے علماء حدیث سے ذکر کیا ہے ؟ یعنی ایک طلاق دیتے تھے، وہی اب تین طلاقیں دیتے ہیں، یعنی وہ ہر طہر میں ایک طلاق نہیں دیتے تھے بلکہ وہ پوری عدت میں ایک طلاق دیتے تھے یہاں تک کہ وہ جدا وہ ہوجاتی اور عدت گزر جاتی۔ قاضی ابو محمد عبدالوہاب نے بیان کیا ہے : اس کا معنی ہے کہ لوگ ایک طلاق پر اقتصار کرتے تھے، پھر وہ حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے زمانہ میں کثرت سے تین طلاق دینے لگے، قاضی کہا : یہی معنی راوی کے اس قول کے زیادہ مشابہ ہے کہ لوگوں کے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں تین طلاقوں میں جلدی کی تو آپ نے ان پر جلدی نافذ کردی۔ اس کا معنی ہے کہ آپ نے ان کا حکم ان پر لازم کردیا۔ اور رہی حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث تو دارقطنی نے احمد بن مبیح عن طریف بن ناصح عن معاویہ بن عمار الدھنی عن ابی الزبیر “ کی سند سے روایت کیا ہے کہ ابو الزبیر نے کہا : میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اس آدمی کے بارے پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں درآنحالیکہ وہ حائضہ ہو، تو انہوں نے مجھے فرمایا : کیا تو ابن عمر ؓ کو پہچانتا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں (اور وہ حائضہ تھی) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سنت کی طرف لوٹا دیا، اور دارقطنی نے کہا : تمام کے تمام (راوی) شیعہ ہیں۔ اور محفوظ روایت یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی۔ (
1
) (سنن دارقطنی کتاب الطلاق، جلد
4
، صفحہ
7
، دارالمحاسن) عبید اللہ نے کہا ہے کہ انہوں نے اسے حالت حیض میں ایک طلاق دی تھی مگر انہوں نے سنت کے خلاف عمل کیا تھا۔ اسی طرح صالح بن کیسان، موسیٰ بن عقبہ، اسماعیل بن امیہ، لیث بن سعد، ابن ابی ذئب، ابن جریج، جابر، اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے حضرت نافع سے بیان کیا ہے حضرت ابن عمر ؓ نے ایک طلاق دی تھی (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
476
، وزارت تعلیم) اور اسی طرح زہری نے سالم عن ابیہ اور یونس ابن جبیر اور شعبی وحسن سے بیان کیا ہے۔ اور رہی حدیث رکانہ تو اس کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ حدیث مضطرب، منقطع ہے، کسی ایسی سند سے یہ بیان نہیں کی جاسکتی جس سے استدلال ہو سکتا ہو، اسے ابو داؤد نے ابن جریج کی حدیث سے بیان کیا جو انہوں نے بنی رافع کے بعض افراد نقل کی ہے اور ان میں کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔ (یعنی) عن عکرمہ عن ابن عباس ؓ مروی ہے۔ اور اس میں ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دین تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” تو اسے واپس لوٹا لے۔ “ (
2
) (سنن ابی داؤد۔ کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
298
، وزارت تعلیم، ایضا، کتاب الطلاق حدیث نمبر
1886
،
1887
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تحقیق اسے کئی طرق سے عن نافع بن عجیر بھی روایت کیا ہے کہ رکانۃ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو طلاق البتتہ دی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قسم دی کہ اس نے اس سے کیا ارادہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے قسم کھائی کہ انہوں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے، تو آپ ﷺ نے اسے ان کی طرف واپس لوٹا دیا۔ (
3
) (سنن ابی داؤد۔ کتاب الطلاق، باب فی البتۃ جلد
1
، صفحہ
300
، وزارت تعلیم، ترمذی حدیث، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
1097
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس یہ اسم اور فعل دونوں میں اضطراب ہے اور اس طرح کی شے سے کسی قسم کا استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس حدیث کو کئی طرق سے دارقطنی نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے، بعض میں کہا ہے، حدثنا محمد بن یحی بن مرداس حدثنا ابو داؤد السجستانی حدثنا احمد بن عمرو بن السرح وابو ثور ابراھیم بن خالد الکلبی، اور دوسروں نے کہا : ” حدثنا محمد بن ادریس الشافع حدثنی عمی محمد ابن علی بن شافع عن عبداللہ بن علی بن السائب عن نافع بن عجیر بن عبد یزید “۔ کہ رکانہ ابن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ المزنیہ کو طلاق دی اور اس کے بارے میں فرمایا : قسم بخدا ! تو نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے ؟ تو رکانہ نے عرض کی : قسم بخدا ! میں نے اس سے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے (بیوی کو) اس کی طرف واپس لوٹا دیا اور انہوں نے دوسری طلاق حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت میں دی اور تیسری حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں (
4
) (سنن ابی داؤد۔ کتاب الطلاق، باب فی البتۃ جلد
1
، صفحہ
300
، وزارت تعلیم، ایضا، حدیث نمبر
1888
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو داؤد نے کہا ہے : ” یہ حدیث صحیح ہے “۔ پس حدیث رکانہ میں سے جو صحیح ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی نہ کہ تین طلاقیں دیں، اور طلاق البتہ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کا بیان آگے آئے گا، پس سے اس سے استدلال ساقط ہوگیا۔ والحمد للہ، واللہ اعلم۔ اور ابو عمر نے کہا کہ حدیث رکانہ کے بارے میں امام شافعی (رح) کی روایت اپنے چچا سے زیادہ واضح اور ظاہر ہے اور انہوں نے ایسی زیادتی بیان کی ہے جسے اصول رد نہیں کرتے، پس اس کے ناقل کے ثقہ ہونے کی وجہ سے اسے قبول کرنا واجب ہے۔ امام شافعی (رح) ان کے چچا اور ان کے دادا رکانہ کے اہل بیت ہیں اور تمام کے تمام بنی عبدالمطلب بن عبد مناف میں سے ہیں اور وہ اس قصہ کو زیادہ بہتر جانتے ہیں جو انہیں پیش آیا۔ فصل : احمد بن محمد بن مغیث الطلبطلی نے اپنی وثائق میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : طلاق دو قسموں پر منقسم ہے : طلاق سنت، طلاق بدعت، پس طلاق سنت وہ ہے جو اس طریقہ پر واقع ہو جو شریعت نے مباح قرار دیا ہے اور طلاق بدعت وہ ہے جو اس کی نقیض اور ضد ہو اور وہ یہ ہے کہ آدمی عورت کو طلاق دے حالت حیض میں یا حالت نفاس میں یا ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دے، پس اگر اس نے ایسا کیا تو طلاق اسے لازم ہوجائے گی، اہل علم کے اس پر اجماع کرلینے کے بعد کہ وہ طلاق والا ہے، ان کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ کتنی طلاقیں اسے لازم ہوں گی، تو حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا ہے : اسے طلاق لازم ہوگی، یہی حضرت ابن عباس ؓ نے بھی کہا ہے اور فرمایا : اس کا قول ثلاثا اس کا کوئی اس کا کوئی معنی نہیں ہے کیونکہ اس نے تین بار طلاق نہیں دی، البتہ وہ اس سے اس کے بارے خبر دے رہا ہو جو گزر چکا ہے۔ پس وہ کہتا ہے : میں نے تین طلاقیں دیں تو یہ ان تین افعال کی خبر دینے والا ہوجائے گا جو اس سے تین اوقات میں صادر ہوئے، جیسا کہ کوئی آدمی کہے : ” میں نے کل فلاں سورة تین بار پڑھی “ تو وہ صحیح ہوگا اور اگر اس نے ایک بار سورة پڑھی اور کہا : میں نے اسے تین بار پڑھا “۔ تو وہ جھوٹا ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ تین بار قسم کھائے کہ وہ قسم کو بار بار لوٹاتا رہے تو یہ تین قسمیں ہوں گی اور اگر اس نے ایک بار قسم کھائی اور کہا : احلف باللہ ثلاثا میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ تین قسمیں کھاتا ہوں تو یہ صرف ایک قسم ہوگی اور طلاق بھی اسی کی مثل ہے۔ حضرت زبیر بن عوام اور عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بھی یہی کہا ہے اور ہم نے یہ سب ابن وضاح سے روایت کیا ہے اور شیوخ قرطبہ میں سے ابن زنباع شیخ ہدی، محمد بن تقی بن مخلد، محمد بن عبدالسلام الحسنی جو اپنے وقت میں منفرد عالم دین اور فقیہ عصر تھے، اصبغ بن الحباب اور ان کے سوا ایک پوری جماعت نے اسی طرح کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کی حجت میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لفظ طلاق تفریق کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ اس سے مراد وہ اکثر طلاقیں ہیں (یعنی دو بار طلاق) جن کے بعد امساک بالمعروف ہو سکتا ہے اور اس سے مراد عدت میں رجوع کرنا ہے اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” او تسریح باحسان “۔ کا معنی ہے کہ وہ اسے بغیر رجوع کیے اسی حالت پر چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ (
1
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
307
، دارالفکر) اور اس میں اس پر احسان ہے اگر ان دونوں کے درمیان ندامت واقع ہو، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا “۔ (الطلاق) ترجمہ : تجھے کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کردے۔ اس سے مراد فرقت پر ندامت اور رجعت میں رغبت رکھنا ہے اور تین کو واقع کرنا اچھا نہیں ہے کیونکہ میں اس میں اس وسعت کو ترک کرنا ہے جو انکے بارے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی اور اس پر متنبہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ کا طلاق کو متفرقا ذکر کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب انہیں جمع کیا جائے تو وہ لفظ واحد ہے (لہذا ایک واقع ہوگی) اور المدونہ میں موجود دیگر مسائل جو اس پر دلالت کرتے ہیں ان پر قیاس کے ذریعے اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے انسان کا یہ قول ہے : مالی صدقۃ فی المساکین کہ میرا مال مساکین کے لئے صدقہ ہے تو ثلث مال اس کی طرف سے جائز ہوتا ہے۔ اور ابن منذر کی الاشراف میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر، طاؤس، ابو الشعثاء عطا اور عمر و بن دینار رحمۃ اللہ علہیم کہتے ہیں : جس نے باکرہ عورت کو تین طلاقیں دیں تو وہ ایک واقع ہوگی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ بسا اوقات انہوں نے ہمت کی اور کہا : ” غیرالمدخول بھا لاعدۃ علیھا، کیونکہ جب اس نے غیر مدخول بہا عورت کو کہا انت طالق ثلاثا تو وہ انت طالق سے اس کے فارغ ہونے کے ساتھ ہی بائنہ ہوگئی، تو ثلاثا کا لفظ اس پر اس حال میں پڑ رہا ہے کہ وہ بائن وہ چکی ہے۔ لہذا یہ لفظ اس پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا قول : انت طالق (معنی طلاق کو ادا کرنے میں) بنفسہ مستقل ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ غیر مدخول بہا عورت میں بینونت (جدائی) اس پر موقوف نہ ہو جو اس کے بعد وارد ہو رہا ہے جبکہ اس میں اصل ” انت طالق “ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) امام شافعی (رح) نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” تسریح باحسان “۔ اور (آیت) ” سرحوھن “ سے اس پر استدلال کیا ہے کہ یہ لفظ طلاق کے لئے صریح ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
306
دارالکتب العلمیہ) حالا ن کہ علماء نے اس معنی میں اختلاف کیا ہے، قاضی ابو محمد نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صریح وہ ہوتا ہے جو کسی بھی طریقہ پر لفظ طلاق کو متضمن ہو، مثلا وہ کہے : ” انت طالق، انت مطلقۃ، قد طلقتک، یا الطلاق لہ لازم “۔ اور اس کے سوا الفاظ طلاق میں سے جو بھی اس معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ الفاظ کنایہ ہیں اور اسی طرح امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے۔ اور قاضی ابو الحسن نے کہا ہے : طلاق کے لئے الفاظ صریح کثیر ہیں اور ان میں سے بعض بعض کی نسبت زیادہ بین اور واضح ہیں : (مثلا) لفظ طلاق، سراح، فراق، حرام، خلیۃ اور بریۃ وغیرھا۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : صریح تین الفاظ ہیں اور وہ وہ ہیں جن کے بارے قرآن وارد ہوچکا ہے اور وہ ہیں لفظ طلاق، السراح، اور الفراق، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” اوفارقوھن بمعروف “۔ (الطلاق :
2
) ترجمہ : یا جدا کر دو انہیں بھلائی کے ساتھ۔ فرمایا : (آیت) ” اوتسریح باحسان “۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “۔ (الطلاق
1
) ترجمہ : تو انہیں طلاق دو انکی عدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جب یہ بات پختہ اور ثابت ہوگئی تو پھر طلاق کی دو قسمیں ہیں : صریح اور کنایہ۔ پس صریح تو وہ ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے اور کنایہ وہ ہے جو اس کے سوا اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ صریح میں آدمی نیت کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ صرف لفظ کے ساتھ ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور کنایہ نیت کی محتاج ہوتی ہے اور ان کی دلیل جنہوں نے کہا : بیشک (الفاظ) ” الحرام، الخلیۃ اور البریۃ “۔ صریح الطلاق ہیں، طلاق کے معنی میں کثیر الاستعمال ہیں یہاں تک کہ وہ اس معنی میں معروف ہیں اور یہ ایقاع طلاق میں بین اور واضح ہوگئے، جیسا کہ جس طرح غائط کا لفظ پست زمین کے لئے وضع کیا گیا، پھر اسے بطریق مجاز قضائے حاجت کے لئے استعمال کیا جائے، اور وہ اس معنی میں زیادہ بین، ظاہر اور مشہور ہوجائے اس کی نسبت جس کے لئے اسے وضع کیا گیا اور ہمارے مسئلہ میں اسی طرح کی مثال ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے : ” اگر طلاقیں ہزار ہوں تو (طلاق) البتتہ ان میں سے کوئی شے باقی نہیں چھوڑتی، پس جس نے کہا ہے : البتۃ تو اس نے انتہائے اخیر کو چھو لیا (
1
) (مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب ماجاء فی البتۃ، جلد
1
، صفحہ
511
، وزارت تعلیم) اسے امام مالک (رح) نے بیان کیا ہے۔ دار قطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’ الخلیۃ والبریۃ والبتۃ والبائن “ اور الحرام تین طلاقیں ہیں، اور عورت آدمی کے لئے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کے سوا دوسرے خاوند سے شادی کرلے۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق، جلد
2
، جز رابع، صفحہ
32
، دارالمحاسن) اور حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت ہے کہ البتہ تین طلاقیں ہیں۔ ان البتۃ ثلاث سند کے اعتبار سے اس میں ضعف ہے، اسے دار قطنی نے بیان کیا ہے اور عنقریب ارشاد خداوندی : (آیت) ” ولا تتخذوا آیات اللہ ھزوا “۔ کے تحت اس کا ذکر آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
7
) علماء نے اس کے بارے کوئی اختلاف نہیں کیا جس نے اپنی بیوی کو کہا : قد طلقتک “ میں نے تجھے طلاق دی، کہ یہ مدخول بہا اور غیر مدخول بہا دونوں کے حق میں صریح طلاق ہے اور جس نے اپنی عورت کو کہا : انت طالق تو طلاق والی ہے تو یہ ایک طلاق ہے مگر یہ کہ وہ اس سے زیادہ کی نیت کرے۔ اور اگر اس نے دو یا تین کی نیت کرلی تو اتنی ہی لازم ہوجائیں گی جن کی اس نے نیت کی اور اگر اس نے کسی شے کی نیت نہ کی تو پھر ایک طلاق ہوگی اور آدمی رجعت کا مالک ہوگا (یعنی ایک طلاق رجعیہ ہوگی) اور اگر اس نے کہا : انت طالق اور کہا : میں نے قید (بیڑیوں) سے آزاد ہونے کا ارادہ کیا ہے تو اس کا قول قبول نہ کیا جائے گا اور طلاق اس پر لازم ہوجائے گی، مگر یہ کہ وہاں کوئی ایسا قرینہ ہو جو اس کے صدق پر دلالت کرتا ہو۔ اور جس نے کہا : انت طالق واحدۃ، لا رجعۃ لی علیک تو اس کا قول : لا رجعۃ لی علیک (مجھے تجھ پر رجوع کا حق نہیں) باطل ہوگا اور اس کے قول واحدۃ کی وجہ سے اس کے لئے رجعت ثابت ہوگی، کیونکہ واحدۃ سے مراد تین نہیں ہو سکتیں اور اگر اس نے اپنے قول : لارجعۃ لی علیک سے تین کی نیت کی، تو امام مالک کے نزدیک یہ تین ہی ہوں گی۔ اور اس کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے جس نے اپنی بیوی کو کہا : قد فارقتک (میں نے تجھے جدا کردیا) سرحتک (میں نے تجھے چھوڑ دیا) انت خلیۃ (تو فارغ ہے) انت بریۃ (تو بری ہے) انت بائن (تو جدا ہے) حبلک علی غاریک (تیری رسی تیرے کندھے پر) انت علی حرام (تو مجھ پر حرام ہے) الحقی باھلک (تو اپنے اہل سے جا مل) قد وھبتک لافتلک ‘ (میں نے تجھے تیرے اہل کے حوالے کردیا) ، قد خلیت سبیلک (میں نے تیرا راستہ چھوڑ دیا) لا سبیل لی علیک (مجھے تجھ پر کوئی اختیار نہیں) تو امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف (رح) نے کہا ہے : اس سے طلاق بائن واقع ہوگی اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا : جب آدمی نے اپنی بیوی کو کہا ” استقلی بامرک “ (تو اپنے معاملے میں مستقل ہے) یا امرک لک (تیرا معاملہ تیرے سپرد ہے) یا الحقی باھلک، (تو اپنے گھر والوں سے جا مل) اور انہوں نے اسے قبول کرلیا تو اس سے ایک طلاق بائن ہوگی۔ اور امام مالک سے اس کے بارے میں یہ مروی ہے جس نے اپنی عورت کو کہا : قد فارقتک یا سرحتک کہ یہ صریح طلاق میں سے ہے۔ جیسا کہ اس کا قول : انت طالق صریح ہے اور آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ طلاق کنایہ ہے، لہذا اس میں کہنے والے کی نیت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا جتنے عدد کا اس نے ارادہ کیا ہے مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ ابن المواز نے کہا ہے : وہ عورت جس کے ساتھ دخول نہیں کیا گیا اس کے بارے میں دو میں سے اصح قول یہ ہے کہ ایک طلاق ہوگی مگر یہ کہ وہ اکثر کی نیت کرے۔ ابن القاسم اور ابن عبد الحکم نے یہی کہا ہے۔ اور امام ابو یوسف (رح) نے کہا ہے : یہ تین طلاقیں ہیں اور اس کی مثل یہ الفاظ بھی ہیں : خلعتک (میں نے تجھے چھوڑ دیا) یا لاملک لی علیک (میری تجھ پر کوئی ملکیت نہیں) اور امام مالک (رح) کے نزدیک تمام الفاظ کنایات سے مدخول بہا عورت کے حق میں تین طلاقیں ہوتی ہیں جن میں کہنے والا کوئی نیت نہ کرے اور غیر مدخول بہا کے بارے میں وہ نیت کرے اور اگر وہ حلف اٹھا دے اور کہے : میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے تو وہ خطاب میں سے ایک خاطب ہے کیونکہ مدخول بہا عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑ سکتا ہے نہ جدا کرسکتا ہے اور نہ ہی بری قرار دے سکتا ہے مگر تین طلاقوں کے ساتھ اور جس سے دخول نہ کیا گیا ہوا اسے وہ ایک طلاق کے ساتھ چھوڑ سکتا ہے، بری کرسکتا ہے اور جدا کرسکتا ہے۔ امام مالک اور آپ کے اصحاب کے ایک طائفہ سے مروی ہے اور یہی اہل مدینہ کی ایک جماعت کا قول ہے کہ وہ ان تمام الفاظ میں نیت کرے گا اور طلاق میں سے جس کی اس نے نیت کی وہ اسے لازم ہوجائے گی۔ اور آپ سے تمام کنایات میں سے بالخصوص البتۃ کے بارے یہ مروی ہے کہ وہ اس سے نیت نہ کرے نہ مدخول بہا کے بارے میں اور نہ غیر مدخول بہا کے بارے میں۔ اور امام ثوری، ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : ان تمام میں اس کی نیت کا اعتبار ہے پس اگر اس نے تین کی نیت کی تو یہ تین ہوں گی اور اگر ایک کی نیت کی تو وہ ایک بائنہ ہوگی اور وہ اپنے نفس کے بارے زیادہ حقدار ہوجائے گی اور اگر اس نے دو کی نیت کی تو یہ ایک ہوگی۔ اور امام زفر (رح) نے کہا : اگر اس نے دو کی نیت کی تو یہ دو ہوں گی۔ اور امام شافعی (رح) نے بیان کیا : ان تمام الفاظ میں وہ طلاق دینے والا نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ یہ کہے : میں نے اپنے کلام سے طلاق کا ارادہ کیا ہے تو پھر اتنی ہوں گی جتنی کی اس نے نیت کی، پس اگر اس نے تین سے کم کی نیت کی تو وہ رجعی ہوگی۔ اور اگر اس نے اسے ایک بائن طلاق طلاق دی تو وہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ اور اسحاق نے کہا ہے ہر وہ کلام جو طلاق سے مشابہت رکھتا ہو تو اس سے وہ طلاق واقع ہوجائے گی جس کی اس نے نیت کی اور ابو ثور نے کہا : یہ طلاق رجعیہ ہوگی اور اس کی نیت کے بارے نہیں پوچھا جائے گا۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ وہ طلاق بائن کا تصور نہیں کرتے مگر خلع یا ایلاء میں اور ان میں یہی روایت محفوظ ہے۔ ابو عبید نے بھی یہی کہا ہے۔ اور امام بخاری نے یہ عنوان باندھا ہے۔ باب اذا قال فارقتک او سرحتک اوالبریۃ اوالخلیۃ اوماعنی بہ الطلاق فھو علی نیتہ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، جلد
2
، صفحہ
792
، وزارت تعلیم) (یعنی ان الفاظ سے طلاق کا انحصار اس کی نیت پر ہے) اور آپ نے اس سے علمائے کوفہ اور امام شافعی کے قول کی طرف اشارہ کیا ہے اور اپنے قول ماعنی بہ من الطلاق سے اسحاق کے قول کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس میں یہ دلیل ہے کہ ہر وہ کلمہ جو طلاق یا غیر طلاق ہونے کا احتمال رکھتا ہو تو یہ جائز نہیں کہ اس سے طلاق لازی ہو مگر تب جبکہ متکلم یہ کہے : بلاشبہ اس نے اس سے طلاق کا ارادہ کیا ہے تو اس کے اقرار کے ساتھ اسے طلاق لازم ہوجائے گی اور نکاح کو باطل کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ یقین کے ساتھ اس کے صحیح ہونے پر انہوں نے اجماع کیا ہوا ہے۔ ابوعمر نے کہا ہے : امام مالک کا قول ایسے آدمی کے قول کے بارے میں مختلف ہے جس نے اپنی بیوی کو کہا : اعتدی (تو عدت کے دن شمار کر) قد خلیتک، یا حبلک علی غاربک۔ آپ نے ایک بار کہا : وہ ان میں نیت نہیں کرے گا اور یہ تین طلاقیں ہیں۔ اور ایک بار کہا : وہ ان تمام میں نیت کرے گا۔ مدخول بہا کے بارے میں بھی اور غیر مدخول بہا کے بارے میں بھی اور اسی میں بھی کہتا ہوں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو موقف جمہور نے اختیار کیا ہے اور جو امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ وہ ان الفاظ میں نیت کرے گا اور اسی کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ صحیح ہے، ہم نے اسے دلیل سے بیان کردیا ہے اور اس صحیح حدیث سے جسے ابو داؤد، ابن ماجہ، اور دارقطنی وغیرہم نے یزید بن رکانہ سے بیان کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید ؓ نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق البتۃ دی اور اس کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ کو اطلاع عرض کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : قسم بخدا ! تو نے اس سے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے ؟ تو رکانہ نے عرض کی : قسم بخدا میں نے اس سے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ عورت ان کی طرف لوٹادی، ابن ماجہ نے کہا ہے : میں نے ابو الحسن الطنافسی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : یہ حدیث کتنی اشرف واعلی ہے۔ (
2
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب طلاق البتۃ جلد
1
، صفحہ
149
، وزارت تعلیم) اور امام مالک (رح) نے اس آدمی کے بارے میں کہا ہے جو اپنی بیوی کو کہتا ہے : انت علی کالمیتۃ والدم ولحم الخنزیر کہ تو مجھ پر مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی طرح ہے کہ میں اسے البتہ (بالکل جدا) دیکھتا ہوں اگرچہ آدمی کی نیت نہ بھی ہو اور وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہوگی مگر دوسرے زوج کے بعد۔ اور امام شافعی (رح) کے قول میں ہے کہ اگر اس نے طلاق کا ارادہ کیا تو وہ طلاق ہوگی جتنی بھی طلاقوں کا اس نے ارادہ کرلیا اور اگر اس نے طلاق کا ارادہ نہ کیا تو پھر اس کے حلف دینے کے بعد کوئی شے واقع نہ ہوگی۔ اور ابو عمر نے کہا ہے : ہر وہ لفظ جو کنایہ عن الطلاق ہے کے بارے میں اس باب کی اصل وہ روایت ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس عورت کے لئے جس سے کسی نے شادی کی تو اس وقت اس عورت نے کہا : اعوذ باللہ منک۔ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں، تو اس نے کہا، قد عذت بمعاذ الحقی باھلک ‘۔ (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب مایقع بہ الطلاق، جلد
1
، صفحہ
149
، بخاری شریف، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
4852
۔
4853
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ ایضا، کتاب حدیث کعب بن مالک، حدیث نمبر
4066
) (تجھے پناہ حاصل ہے تو اپنے گھر والوں کے ساتھ جا مل) پس وہ طلاق ہوگئی، اور حضرت کعب ابن مالک ؓ نے اپنی بیوی کو کہا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس سے علیحدہ رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا، الحقی باھلک اور وہ طلاق نہ ہوئی تو یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ لفظ نیت کا محتاج ہے اور اس میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا مگر وہی جس کی بولنے والا نیت کرے گا، اور اسی طرح تمام الفاظ کنایات کا حکم ہے جو فراق اور غیر فراق کے معنی کا احتمال رکھتے ہیں، واللہ اعلم۔ اور رہے وہ الفاظ جو الفاظ طلاق میں سے نہیں ہیں اور نہ انہیں فراق (جدائی) سے کنایہ قرار دیاجاسکتا ہے تو اکثر علماء ان میں سے کسی سے طلاق واقع نہیں کرتے اگرچہ کہنے والا اس کا ارادہ بھی کرے۔ امام امالک نے کہا ہے : ہر وہ آدمی جس نے کسی بھی لفظ سے طلاق کا ارادہ کیا تو طلاق اسے لازم ہوجائے گی، حتی کہ اس قول کے ساتھ بھی کلی واشربی وقومی واقعدی، (توکھا، تو پی، تو کھڑی ہو، تو بیٹھ جا) اس میں امام مالک کے اپنے اصحاب کے سوا کسی نے ان کی اتباع نہیں کی۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ، فان خفتم الا یقیما حدود اللہ، فلاجناح علیھما فیما افتدت بہ، تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا، ومن یتعد حدود اللہ فاولئک، ھم الظلمون “۔ (
229
) اس میں پندرہ مسائل : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا “۔ اس میں ’ ان “ یحل کے سبب محل رفع میں ہے۔ اور آیت میں خطاب ازواج کو ہے، انہیں منع کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ازواج سے کوئی شے ضرر اور اذیت پہنچانے کی غرض سے لیں اور یہ وہ خلع ہے جو صحیح نہیں ہوتا مگر اس طرح کہ آدمی ضرر اور اذیت دینے میں متفرد نہ ہو۔ اور ذکر خاص کر انہی چیزوں کا کیا گیا ہے جو خاوندوں نے اپنی عورتوں کو دے رکھی ہوں، کیونکہ لوگوں میں عرف اور رواج یہی ہے کہ فساد اور ناچا کی کے وقت آدمی اس شے کا مطالبہ کرتا ہے جو مرد کے ہاتھ سے عورت کے لئے مہر اور اس کی دیگر حاجات کو پورا کرنے کے لئے سامان نکلا ہو۔ اسی وجہ سے اسے ذکر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ (آیت) ” ولا یحل “ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ اور (آیت) ” فان طلقھا “۔ کے درمیان بطور جملہ معترضہ کے فضل ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جمہور کا نظریہ یہ ہے کہ طلاق پر فدیہ لینا جائز ہے اور عورت کا مال نہ لینے کی تشدید پر اجماع ہے مگر یہ کہ نافرمانی اور معاملات میں فساد عورت کی جانب سے ہو۔ ابن منذر نے حضرت عثمان ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب ظلم اور خصومت مرد کی جانب سے ہو اور عورت اس سے خلع لے تو اس کا مال لینا جائز ہے اور وہ گنہگار ہوگا اور جو کچھ اس نے کہا ہے وہ حلال نہ ہوگا اور جو مال اس نے لیا ہے وہ واپس لوٹانے پر اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ابن منذر نے کہا ہے : ان کے قول میں سے یہ ظاہر کتاب اللہ، حضور نبی مکرم ﷺ سے ثابت (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
302
دارالکتب العلمیہ) ہونے والی خبر اور اس نظریہ کے خلاف ہے جس پر عام اہل علم کا اجماع ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ تو خطا کی تلاش میں خوب محنت اور کوشش کر، تو وہ اس سے بڑھ کر کوئی امر نہیں پائے گا کہ کتاب اللہ کسی شے کی تحریم کے بارے حکم لگائے پھر کوئی مقابلہ کرنے والا اس کے مقابل ایسی شے لائے جو نص کے خلاف ہو اور وہ کہنے لگے : بلکہ وہ جائز ہے اور جو کچھ اس نے لیا ہے وہ واپس لوٹانے پر اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ابو الحسن بن بطال کہا ہے اور ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے اسی کی مثل روایت کیا ہے اور یہ قول ظاہر کتاب اللہ کے خلاف ہے اور حضرت ثابت ؓ کی بیوی والی حدیث کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ “۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے کہ وہ (کوئی شے) لے مگر اس اندیشہ اور خوف کے بعد کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور تحریم کو اس کے لئے وعید کے ساتھ مؤکد کیا جس نے حد سے تجاوز کیا۔ اور معنی یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو اپنے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ اپنے ساتھی کے نکاح سے متعلقہ حقوق اس طرح پورے نہ کرسکے گا جس طرح اس اس پر واجب ہیں۔ اس میں وہ کراہت اور ناپسندیدگی بھی ہے جس کا وہ اعتقاد رکھتا ہے تو پھر عورت پر فدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی خاوند پر کچھ لینے میں حرج ہے اور خطاب زوجین (میاں بیوی دونوں) کو ہے اور (آیت) ” ان یخافا “ میں ضمیر دونوں کے لئے ہے اور (آیت) ” الا یقیما “ مفعول بہ ہے اور خفت ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ یہ خوف بمعنی علم ہے یعنی وہ دونوں جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود قائم نہیں کرسکیں گے اور یہی خوف حقیقی ہے اور یہ مکروہ عمل کے واقع ہونے ڈر اور خوف ہے اور ظن کے معنی کے قریب ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ (آیت) ” الا ان یخافا یہ استثنا منقطع ہے۔ (یعنی) لیکن اگر نافرمانی عورتوں کی جانب سے ہو تو پھر تم پر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حمزہ نے اسے (آیت) ” الاان یخافایاء کے ضمہ کے ساتھ (
1
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
308
، درالفکر) صیغہ مجہول میں پڑھا ہے اور فاعل محذوف ہوگا اور وہ والی اور حکام ہیں، ابو عبید نے اسے پسند کیا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہے (آیت) ” فان خفتم “ فرمایا : خوف زوجین کے علاوہ کسی اور کے لئے ذکر کیا ہے (یعنی والی یا حاکم کو خوف ہو) اگر زوجین کا ارادہ کرتا تو کہتا : (آیت) ” فان خافا “ اس میں ان کے لیے حجت اور دلیل ہے جنہوں نے خلع سلطان کے حوالے کیا ہے (یعنی حاکم وقت کے فیصلے کے بغیر خلع نہیں ہو سکتا) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ حضرت سعید بن جبیر، حسن اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے اور شعبہ نے کہا ہے، میں نے حضرت قتادہ کو کہا : کس سے حسن نے یہ اخذ کیا ہے کہ خلع سلطان کے سپرد ہے ؟ تو انہوں نے کہا : زیادہ سے اور یہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کی جانب سے والی تھے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول زیاد سے معروف ہے اور اس قول کا کوئی معنی اور حقیقت نہیں ہے کیونکہ آدمی جب اپنی بیوی سے خلع کرتا ہے تو بلاشبہ وہ ایسی شے پر ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ دونوں راضی ہوتے ہیں اور سلطان اس پر اسے مجبور نہیں کرسکتا اور اس کے قول کی کوئی اصل نہیں ہے جس نے کہا ہے : یہ سلطان کے سپرد ہے اور انہوں نے ابو عبید کے اختیار کا انکار کیا ہے اور اسے رد کیا ہے اور میں ان کے اختیار اور پسند میں اس حرف سے زیادہ بعید اور کوئی اور کوئی شے نہیں جانتا، کیونکہ اعراب لفظ اور معنی میں سے کوئی بھی اسے ثابت نہیں کرتا، جہاں تک اعراب کا تعلق ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے (آیت) ” الا ان یخافا “ کو پڑھا ہے تخافوا اور یہ عربی ہے۔ جب اسے مالم یسم فاعلہ کی طرف لوٹایا گیا تو کہا گیا الا ان یخاف، اور رہا لفظ تو اگر اس کا انحصار لفظ یخافا پر ہو تو پھر ضروری ہے کہ کہا جائے : فان خیف۔ اور اگر لفظ فان خفتم پر ہو تو پھر واجب ہے کہ یہ کہا جائے : الا ان تخافوا۔ اور رہا معنی تو یہ بعید ہے کہ کہا جائے کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم اس میں سے کوئی شے لو جو تم نے انہیں دے رکھی ہے مگر یہ کہ تمہارے سوا کسی کو خوف ہو اور نہ رب العالمین نے یہ کہا ہے : (فلاجناح علیکم ان تاخذوا لہ منہا فدیۃ “۔ (کہ تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ تم مرد کے لئے عورت سے فدیہ لو) کہ خلع سلطان کے حوالے ہوجائے۔ امام طحاوی نے کہا ہے : حضرت عمر، حضرت عثمان، اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت ہے کہ سلطان کے بغیر خلع کا جائز ہونا صحیح ہے اور جس طرح طلاق اور نکاح بغیر سلطان کے جائز ہیں اسی طرح خلع بھی جائز ہے، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان خفتم الا یقیما “۔ اگر تمہیں خوف ہو اس پر کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے (آیت) ” حدود اللہ “ اللہ کی حدیں، یعنی ان حقوق میں جو ان دونوں پر واجب ہیں مثلا حسن صحبت اور خوبصورت طرز زندگی اور اس میں خطاب حکام کو اور حاکم نہ ہونے کی صورت میں اس طرح کے معلامات میں واسطہ بننے والوں کو کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم نہ کرنے کا معنی ہے عورت کا اپنے خاوند کے حق کو حقیر جاننا اور اس کا اس کی اطاعت وپیروی نہ کرنا وغیرہ حضرت ابن عباس ؓ ، مالک بن انس ؓ اور جمہور فقہاء نے یہی کہا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
307
دارالکتب العلمیہ) اور حسن بن ابی الحسن اور ان کے ساتھ ایک جماعت نے کہا ہے : جب عورت نے یہ کہہ دیا کہ میں تیرے حکم کی اطاعت نہیں کروں گی اور میں تیرے لئے غسل جنابت نہیں کروں گی اور میں تیرے لئے قسم پوری نہیں کروں گی تو خلع حلال ہوگیا اور شعبی نے کہا ہے : (آیت) ” الا یقیما حدود اللہ “۔ کا معنی ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کریں گے، وہ یہ کہ ایک دوسرے کو غصہ دلانا اور ناراض کرنا ترک طاعت کی طرف دعوت دیتا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
307
دارالکتب العلمیہ) اور حضرت عطا بن ابی رباح (رح) نے کہا ہے : خلع اور مال لینا حلال ہوجاتا ہے جب کہ عورت اپنے خاوند کو کہے : میں تجھے ناپسند کرتی ہوں اور میں تجھ سے محبت نہیں کرتی اور اسی طرح کے جملے (
2
) ۔ تو ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کچھ فدیہ دے کر جان چھڑا لے۔ امام بخاری نے ایوب عن عکرمہ عن ابن عباس ؓ کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس ؓ کی بیوی حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ثابت بن قیس کے بارے میں اخلاق وکردار اور دین کے اعتبار سے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے (اس اعتبار سے ان میں کوئی عیب اور نقص موجود نہیں) لیکن میں اس کی طاقت نہیں رکھتی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کیا تو اس پر اس کا باغ لوٹا دے گی “ ؟ اس نے عرض کی : جی ہاں۔ (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، الخلع، وکیف طلاق خیر، جلد
2
، صفحہ
794
، وزارت تعلیم۔ ایضا، حدیث نمبر
4867
،
4868
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابن ماجہ نے حضرت قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس ؓ کی سند سے بیان کیا ہے کہ جمیلہ بنت سلول حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : قسم بخدا میں دین اور اخلاق کے بارے میں ثابت بن قیس میں کوئی عیب نہیں پاتی، لیکن میں اسلام میں کفر (ناشکری، انکار) کو ناپسند کرتی ہوں، میں بغض کی وجہ سے اس کی طاقت نہیں رکھتی، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے فرمایا : کیا تو اس کا باغ اسے لوٹا دے گی ؟ اس نے عرض کی : جی ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے اپنا باغ لے لے اور مزید کچھ نہ لے (
4
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، المختلعۃ یاخذما اعطا ھا، جلد
1
، صفحہ
148
، وزارت تعلیم۔ ایضا، حدیث نمبر
2045
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہا جاتا ہے کہ وہ ان سے انتہائی شدید بغض رکھتی تھی اور وہ اس سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان بطریق خلع تفریق کردی، اسلام میں یہی پہلا خلع تھا۔ حضرت عکرمہ ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اسلام میں سب سے پہلے جس نے خلع کیا وہ عبداللہ بن ابی کی بہن ہے وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میرا سر اور اس کا سر کبھی جمع نہیں رہ سکتے۔ میں نے خیمے کی ایک طرف اٹھائی تو میں نے اسے ایک جماعت میں آتے دیکھا تو وہ ان تمام میں سب سے زیادہ سیاہ تھا، قدوقامت کے اعتبار سے ان سے چھوٹا تھا اور چہرے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قبیح تھا ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو اس کا باغ اس پر واپس لوٹا دے گی ؟ اس نے عرض کی : جی ہاں اور اگر وہ چاہے تو میں زائد بھی دوں گی، تو آپ ﷺ نے ان دونوں کے مابین تفریق کردی۔ یہ حدیث خلع میں اصل ہے اور جمہور فقہاء اسی پر عمل پیرا ہیں۔ امام مالک (رح) نے بیان کیا : میں اہل علم سے اس کے بارے مسلسل سنتا رہا ہوں اور یہی امر ہے جس پر ہمارے نزدیک اجماع ہے اور وہ یہ کہ آدمی جب عورت کو کوئی ضرر اور تکلیف نہ دے اور اس کی طرف برائی کی نسبت بھی نہ کرے اور مرد کی جانب سے اسے ستایا بھی نہ جائے اور عورت اس سے جدائی اور علیحدگی پسند کرے تو آدمی کے لئے حلال ہے کہ وہ اس سے ہر وہ شے لے لے جو بطور فدیہ وہ اسے دے، جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ثابت بن قیس کی بیوی کے بارے میں کہا اور اگر ناچا کی اور اختلاف مرد کی جانب سے ہو کہ وہ اسے تنگ کرتا ہو اور اسے اذیت اور ضرر پہنچاتا ہو تو وہ اسے وہ شے واپس لوٹا دے جو اس سے لی ہے۔ عقبہ بن ابی الصہباء نے کہا ہے : میں نے بکر بن عبداللہ مزنی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس کی عورت یہ چاہتی ہے کہ وہ اس سے خلع لے لے تو انہوں نے کہا : اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس سے کوئی شے لے۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے وہ کہاں گیا : (آیت) ” فان خفتم الا یقیما حدود اللہ، فلاجناح علیھما فیما افتدت بہ “۔ انہوں نے کہا : یہ منسوخ ہوچکا ہے، میں نے کہا : ناسخ آیت کہاں ہے ؟ تو انہوں نے کہا : سورة النساء میں یہ آیت ہے : (آیت) ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احدھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا واثما مبینا “۔ (النسائ :
20
) (
1
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ
566
، داراحیاء التراث العربیۃ بیروت) ترجمہ : اور اگر تم ارادہ کرلو کہ بدلو اپنی بیوی کو پہلی بیوی کی جگہ اور دے چکے ہو تم اسے ڈھیروں مال تو نہ لو اس مال سے کوئی چیز، کیا تم لینا چاہتے ہو اپنا مال (زمانہ جاہلیت کی طرح) بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کر کے) نحاس نے کہا ہے : یہ قول شاذ ہے اور اپنے شاذ ہونے کی وجہ سے اجماع سے خارج ہے اور دونوں آیتوں میں سے ایک آیت دوسری کو ختم کرنے والی نہیں ہے کہ نسخ واقع ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” فان خفتم “۔ الآیہ ‘ اس آیت کے ساتھ زائل اور ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دونوں کو جب یہ خوف اور اندیشہ ہو تو پھر خاوند (آیت) ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج “۔ (النسائ :
20
) میں داخل نہیں، کیونکہ یہ صرف مردوں کے لئے ہے اور علامہ طبری (رح) نے کہا ہے یہ آیت محکم ہے (
2
) (ایضا جلد
3
، صفحہ
173
) اور بکر کے قول کی کوئی حقیقت نہیں اگر عورت دینے کا ارادے کرے۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت ثابت ؓ کے لئے جائز قرار دیا کہ وہ اپنی زوجہ سے وہ کچھ لے لے جو اسے دے رکھا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اس آیت سے انہوں نے استدلال کیا ہے جنہوں نے خلع کو شقاق اور ضرر کی حالت کے ساتھ خاص کیا ہے اور یہ کہ خلع میں یہ شرط ہے اور یہ نظریہ اس روایت سے مزید پختہ اور مضبوط ہوجاتا ہے جو ابو داؤد نے حضرت عائشہ ؓ سے بیان کی ہے کہ حبیبہ بنت سہل حضرت ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے نکاح میں تھیں تو انہوں نے اسے مارا اور کندھے کے کنارے کی باریک ہڈی توڑ دی، چناچہ صبح کے وقت وہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور شکایت پیش کی تو حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ثابت ؓ کو بلایا اور فرمایا : ” تو اس سے کچھ مال لے لے اور اسے فارغ کر دے۔ “ انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ کیا وہ اس سے صلح کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں “۔ حضرت ثابت ؓ نے کہا : میں اسے دو باغ دیتا ہوں اور دونوں اس کے قبضے میں ہیں۔ تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تو وہ دونوں لے لے اور اسے جدا کر دے۔ “ چناچہ حضرت ثابت ؓ نے وہ دونوں لے لئے اور اسے فارغ کردیا۔ (
1
) سنن ابی دادؤ، کتاب الطلاق باب فی الخلع، جلد
1
، صفحہ
303
، وزارت تعلیم، ایضا حدیث نمبر
1901
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور رہی آیت تو اس میں کوئی حجت موجود نہیں کوئی حجت موجود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرط کے انداز میں اس کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس طور پر اس کا ذکر کیا ہے کہ خلع کے احوال میں اس کا غالب امکان ہے، پس یہ قول غالب کے بارے ہے اور وہ ارشاد جو عذر کو ختم کرتا ہے اور علم کو واجب کرتا ہے وہ یہ ہے۔ (آیت) ” فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریا “۔ (
2
) (النسائ) ترجمہ پس اگر وہ بخش دیں تمہیں کچھ اس سے خوشدلی سے تو کھاؤ اسے لذت حاصل کرتے ہوئے خوشگوار سمجھتے ہوئے۔ ) مسئلہ نمبر : (
6
) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ “۔ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ خلع اس سے زیادہ مال کے عوض بھی جائز ہے جو آدمی نے عورت کو دے رکھا ہو۔ (
3
) (بخاری شریف، کتاب الطلاق، حدیث نمبر
4868
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تحقیق علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے، سو امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ یہ جائز ہے کہ عورت آدمی کو بطور فدیہ اتنا مال دے جس پر دونوں راضی ہوں، چاہے وہ اس سے کم یا زیادہ ہو جو مرد نے عورت کو دے رکھا ہے اور یہ حضرت عثمان بن عفان، ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور قبیصہ اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم سے مروی ہے اور قبیصہ نے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” فلاجناح علیہما فیما افتدت بہ “۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : یہ مکارم اخلاق میں سے نہیں ہے اور نہ ہی میں نے اہل علم میں سے کسی کو دیکھا کہ وہ اسے مکروہ جانتا ہو اور دارقطنی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میری بہن انصار میں سے ایک آدمی کی زوجیت میں تھی اس نے اس کے ساتھ ایک باغ کے عوض شادی کی تھی، تو ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی تو وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پیش ہوگئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اس کا باغ اسے واپس کر دے اور وہ تجھے طلاق دے دے گا۔ “ ؟ (کیا تجھے قبول ہے) اس نے عرض کی : جی ہاں اور میں اسے زائد بھی دوں گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کا باغ اس پر واپس لوٹا دے اور اسے زائد بھی دے۔ “ (
4
) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح، باب المہر، جلد
3
، صفحہ
254
، دارالمحاسن قاہرہ) اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے : ” اور اگر اس نے چاہا تو میں اسے زیادہ دوں گی اور آپ نے اس بات کا انکار نہیں کیا۔ “ اور ایک گروہ نے کہا ہے : وہ اس سے اس مال سے زیادہ نہیں لے گا جو اس نے اسے دیا ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت طاؤس، حضرت عطاء اور حضرت اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : قضاۃ اس کے مال لینے کی اجازت نہیں دیتے مگر اتنا جو اس نے اسے دیا ہوا ہو۔ یہی قول امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم نے بھی کہا ہے۔ اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے ابن جریج نے روایت کیا ہے کہ ابو الزبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے نکاح میں زینب بنت عبداللہ بن سلول تھی، اور انہوں نے بطور مہر ایک باغ اسے دیا تھا، پھر اس نے انہیں ناپسند کیا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” زیادہ تو نہیں البتہ اس کا باغ واپس کر دے۔ “ تو اس نے عرض کی ! جی ہاں۔ پس آپ ﷺ نے حضرت ثابت ؓ کے لئے وہ باغ لے لیا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا (یعنی اسے فارغ کردیا) اور جب یہ خبر حضرت ثابت بن قیس ؓ کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ قبول ہے۔ (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح، باب المہر، جلد
3
، صفحہ
255
، دارالمحاسن قاہرہ) اسے ابو الزبیر ؓ نے کئی ایک سے سنا ہے اور دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے اور حضرت عطا سے مرسل روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” آدمی خلع لینے والی عورت سے اس سے زیادہ مال نہیں لے گا جتنا اس نے اسے دیا ہوا ہے۔ “ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح، باب المہر، جلد
3
، صفحہ
255
، دارالمحاسن قاہرہ) مسئلہ نمبر : (
7
) امام مالک (رح) کے نزدیک خلع جائز ہے ایسے پھل کے عوض جس کے پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو، بدکنے والے اونٹ کے عوض، بھاگ جانے والے غلام کے عوض، جنین کے عوض جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہو یا اسی طرح کی اور چیزیں جن کی ہلاکت کا امکان ہو، بخلاف بیوع اور نکاح کے اور اس کے لئے ان تمام مطالبہ جائز ہے پس اگر وہ اس کے حوالے ہوگئی، تو وہ اس کی ہوجائے گی اور اگر اس کے حوالے نہ ہوئی تو پھر اس کے لئے کوئی شے نہ ہوگی اور طلاق اس کے حکم پر نافذ ہوجائے گی۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : خلع جائز ہوگا اور اس کے لئے مہر مثل ہوگا۔ اسے ابن خویز منداد نے امام مالک (رح) سے بیان کیا ہے انہوں نے کہا : کیونکہ وہ عقود جن میں معاوضہ ہوتا ہے جب وہ بدل فاسد کو متضمن ہوں اور وہ ضائع ہوجائے تو ان میں بدل کی مثل واجب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے (لہذا مہر مثل لوٹایا جائے گا۔ ) اور ابو ثور نے کہا ہے : خلع باطل ہے، اور اصحاب الرائے نے کہا ہے : خلع جائز ہے اور اس کے لئے وہ ہوگا جو لونڈی کے پیٹ میں ہے اور اگر اس میں بچہ نہ ہو تو اس کے لئے کوئی شے نہ ہوگی۔ اور ” المبسوط “ میں ابن قاسم سے منقول ہے : خلع جائز ہوتا ہے اس پھل کے عوض جو اس کے درخت اس سال دیں گے اور ان کے عوض جو بچے اس کا ریوڑ اس سال دے گا، اس سے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم نے اختلاف کیا ہے اور امام مالک (رح) اور ابن القاسم کے موقف کی دلیل اس ارشاد کا عموم ہے : (آیت) ” فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ “۔ اور قیاس کی جہت سے یہ کہ یہ ان میں سے ہیں جن کا وہ ہبہ اور وصیت کے ساتھ مالک بن جاتا ہے تو پھر جائز ہے کہ یہ معلوم کی طرح خلع میں بھی عوض ہوں اور یہ بھی کہ خلع طلاق ہے اور طلاق اصلا بغیر عوض کے صحیح ہوتی ہے تو جب بغیر کسی شے کے عوض کے یہ صحیح ہے تو پھر فاسد عوض کے ساتھ اس کا صحیح ہونا بدرجہ اولی ہوگا، کیونکہ مبذول کی سب سے بری حالت یہی ہے کہ وہ مسکونت عنہ کی طرف ہو اور جب وہ نکاح جو عقد تحلیل ہے فاسد عوض اسے فاسد نہیں کرتا تو یہ اس طلاق کو کیونکر فاسد کرسکتا ہے جو عقد کو زائل کرنے والی اور اسے کھولنے والی ہے (یعنی بدرجہ اولی عوض فاسد اسے فاسد نہیں کرے گا۔ ) مسئلہ نمبر : (
8
) اگر کسی عورت نے اس کے عوض آدمی سے خلع کیا کہ وہ اس سے اپنے بیٹے کو دو سال تک دودھ پلائے گی تو یہ جائز ہے۔ خلع کی صورت میں دو سال کے بعد مدت معلومہ تک اس کا نفقہ بیٹے پر ہوگا اس کے بارے دو قول ہیں۔ ان میں سے ایک ہے کہ وہ جائز ہے اور یہ مخزومی کا قول ہے اور اگر خاوند نے اس کی شرط لگائی تو وہ باطل ہے اور زوجہ سے اسے اتار دیا جائے گا (
1
) (المدونۃ الکبری، کتاب، کتاب ما جاء فی الخلع، جلد
5
، صفحہ
27
، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) (یعنی اس پر اسے لازم نہیں کیا جائے گا) اور عمر نے کہا ہے : جنہوں نے بدکنے والے اونٹ، بھاگ جانے والے غلام اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جن کے ضائع ہونے کا امکان ہے کہ عوض خلع کو جائز قرار دیا ہے ان کے ذمہ پر لازم ہے کہ وہ اسے بھی جائز قرار دیں۔ ان کے علاوہ قرویین نے کہا : امام مالک نے اس نفقہ کے عوض خلع سے منع نہیں کیا جو دو سال سے زائد ہو غرر کی وجہ سے، بلکہ اس سے منع کیا ہے کیونکہ یہ وہ حق ہے جو ہر حال میں باپ کے ساتھ خاص ہوتا ہے، پس اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے کسی دوسرے کی طرف منتقل کرے اور اس میں اور دو سال کے نفقہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ نفقہ اور یہ دودھ پلانا زوجیت کی حالت میں ماں پر واجب ہوتا ہے اور طلاق کے بعد بھی جب باپ تنگ دست اور مفلس ہو تو جائز ہے کہ وہ نفقہ ماں کی طرف منتقل ہوجائے، کیونکہ یہی اس کا محل ہے۔ اور امام مالک نے اس پر المبسوط میں اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ “۔ (البقرہ :
233
) ترجمہ : اور مائیں دودھ پلائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال (یہ مدت) اس کے لئے ہے جو دودھ کی مدت پوری کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اگر بیٹے کے نفقہ کے عوض وجہ مباح پر خلع واقع ہو اور مدت مکمل ہونے سے پہلے بچہ فوت ہوجائے تو کیا بقیہ نفقہ کے لئے خاوند اس کی طرف رجوع کرسکتا ہے ؟ تو ابن المواز نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ کسی شے کے لئے عورت کی طرف رجوع نہیں کرے گا۔ اور ابو الفرج نے آپ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کرسکتا ہے کیونکہ یہ ایسا حق ہے جو خلع کے عوض اس کے لئے عورت کے ذمہ ثابت ہے اور وہ بچے کی موت سے ساقط نہیں ہوگا، جیسا کہ اگر وہ اس سے خلع کرے ایسے مال کے عوض جو عورت کے ذمہ کے ساتھ متعلق ہو۔ اور پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے لئے ایسے مال کی شرط نہیں لگائی جو اسے خوشحال بنا دے گا، بلکہ اس نے اپنے بچے کی مشقت کی کفایت کرنے کی شرط لگائی ہے اور جب بچہ فوت ہوگیا تو اب اس کے لئے عورت کی طرف کسی شے کے لئے رجوع نہیں ہوگا جیسا کہ اگر کوئی آدمی ایک سال تک کسی بچے پر استحسانا اور تطوعا خرچ کرنے کی ذمہ داری لے اور بچہ فوت ہوجائے تو اس پر کسی شے کے لئے رجوع نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس نے اپنے تطوع سے بچے کی مشقت برداشت کرنے کا قصد کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : میں نے کسی کو نہیں دیکھا ہے جو اس طرح کی صورت میں رجوع کرتا ہو اور اگر وہ اس کا پیچھا کرے تو بھی اس بارے اس کے لئے آپ کا ایک قول ہے۔ اور علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اگر عورت فوت ہوگئی تو بچے کا نفقہ اس کے مال میں ہوگا کیونکہ یہ وہ حق ہے جو اس کی موت سے پہلے اس میں ثابت ہوچکا ہے، لہذا وہ اس کی موت کے ساتھ ساقط نہیں ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
10
) جس کسی نے خلع کی صورت میں اپنی عورت پر اس کے حمل کے نفقہ کی شرط لگائی اور عورت کے پاس کوئی شے نہ ہو تو نفقہ اس آدمی پر ہوگا کیونکہ عورت کے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے وہ خرچ کرسکے اور اگر وہ اس کے بعد خوشحال ہوجائے تو آدمی اس مال کے لئے اس کی طرف رجوع کرلے جو اس نے خرچ کیا اور وہ اس سے لے لے۔ امام مالک (رح) نے کہا : حق یہ ہے کہ آدمی کو اس کے اپنے بچے کے نفقہ کا مکلف اور پابند بنایا جائے اگرچہ اس نے بچے کی ماں پر اس کے نفقہ کی شرط لگائی ہو بشرطیکہ ماں کے پاس ایسا مال نہ ہو جو وہ اس پر خرچ کرسکے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) خلع کے بارے میں علماء کا یہ اختلاف ہے کہ کیا وہ طلاق ہے یا فسخ نکاح ہے ؟ پس حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ خلع طلاق ہے (
1
) (المدونۃ الکبری، کتاب ماجاء فی الخلع، جلد
5
، صفحہ
18
، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور یہی امام مالک ثوری، اوزاعی، ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں کہا ہے، پس جس نے خلع سے دو یا تین طلاقوں کی نیت کی، امام مالک (رح) کے نزدیک وہ اسے لازم ہوجائیں گی، اور اصحاب الرائے نے کہا ہے : اگر خاوند نے تین طلاقوں کی نیت کی تو وہ تین ہی ہوں گی اور اگر اس نے دو کی نیت کی تو وہ ایک طلاق بائنہ ہوگی (کیونکہ یہ ایک کلمہ ہے) ۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)
Top