Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ
: پھر اگر
طَلَّقَھَا
: طلاق دی اس کو
فَلَا تَحِلُّ
: تو جائز نہیں
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنْ بَعْدُ
: اس کے بعد
حَتّٰي
: یہانتک کہ
تَنْكِحَ
: وہ نکاح کرلے
زَوْجًا
: خاوند
غَيْرَهٗ
: اس کے علاوہ
فَاِنْ
: پھر اگر
طَلَّقَھَا
: طلاق دیدے اس کو
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَآ
: ان دونوں پر
اَنْ
: اگر
يَّتَرَاجَعَآ
: وہ رجوع کرلیں
اِنْ
: بشرطیکہ
ظَنَّآ
: وہ خیال کریں
اَنْ
: کہ
يُّقِيْمَا
: وہ قائم رکھیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
وَتِلْكَ
: اور یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
يُبَيِّنُھَا
: انہیں واضح کرتا ہے
لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
: جاننے والوں کے لیے
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں
سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر : اور امام شافعی (رح) نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں کہا ہے : اگر اس نے خلع سے طلاق کی نیت کی اور اس کا نام بھی لیا تو وہ طلاق ہوگی اور اگر اس نے طلاق کی نیت نہ کی اور نہ اس کا نام لیا تو فرقت واقع نہ ہوگی، آپ نے قدیمی قول میں یہی کہا ہے اور آپ کا پہلا قول میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ مزنی نے کہا ہے : وہی ان کے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ اور ابو ثور (رح) نے کہا ہے : جب وہ طلاق کا نام نہ لے تو خلع فقط فرقت ہوگی اور طلاق نہیں ہوگی اور اس نے طلاق کا نام لیا تو وہ طلاق ہوگی اور زوج رجعت کا زیادہ مالک ہوگا جب تک وہ عدت میں رہی۔ اور جنہوں نے کہا ہے کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اس کی نیت کرے ان میں سے حضرت ابن عباس ؓ حضرت طاؤس، حضرت عکرمہ ؓ حضرت اسحاق، اور امام احمد رحمۃ اللہ علہیم ہیں۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو ابن عیینہ نے عمرو سے، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص ؓ نے ان سے پوچھا کہ ایک آدمی جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر بیوی نے ان سے خلع لے لیا کیا وہ اس سے شادی کرسکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں چاہیے کہ وہ اس سے نکاح کرلے، خلع طلاق نہیں ہے (
1
) (السنن الکبری للبیہقی، باب الخلع بل ھو فسخ او طلاق، جلد
7
، صفحہ
316
، دارالفکر بیروت) اللہ تعالیٰ نے آیت کی ابتدا میں اور اس کے آخر میں طلاق کا ذکر کیا ہے اور خلع کا ذکر ان کے درمیان میں ہے، پس خلع کوئی شے نہیں ہے۔ پھر کہا : (آیت) ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف او تسریح باحسان “۔ پھر پڑھا : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ انہوں نے کہا : کیونکہ اگر خلع طلاق ہو تو پھر دو طلاقوں کے ذکر کے بعد یہ تیسری ہوگی اور اس کے بعد (آیت) ” فان طلقھا “۔ چوتھی طلاق پر دال ہوگا، پس تحریم چار طلاقوں کے ساتھ متعلق ہوجائے گی۔ انہوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جسے امام ترمذی، (رح) ابو داؤد (رح) اور دارقطنی رحمۃ اللہ علہیم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے اپنے زوج سے خلع لیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم ارشاد فرمایا : امام ترمذی (رح) نے کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
142
، وزارت تعلیم اسلام آباد، ابو داؤد باب الخلع، حدیث نمبر
1902
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مقدس میں خلع لیا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے حکم دیا یا اسے حکم دیا گیا کہ وہ ایک حیض کے ساتھ عدت گزارے، ترمذی (رح) نے کہا ہے : ربعی کی حدیث صحیح ہے کہ اسے حکم دیا گیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے (
3
) (ایضا۔ جامع ترمذی، باب ماجاء فی الخلع، حدیث نمبر
1105
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے کہا : پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ خلع فسخ ہے نہ کہ طلاق اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروئ “۔ اور اگر یہ (خلع لینے والی) عورت مطلقہ ہوتی تو اس کے لئے حیض پر اقتصار نہ کیا جاتا (کیونکہ عدت تو تین حیض ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں : پس جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر اس نے اس سے خلع کرلیا، پھر وہ اس سے شادی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اس کے لئے صحیح ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ اگرچہ وہ اس کے علاوہ کسی زوج سے شادی نہ کرے، کیونکہ اس کے لئے دو طلاقوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور خلع لغو ہے۔ اور جنہوں نے خلع کو طلاق بنایا ہے انہوں نے کہا ہے : اس کے لئے اس عورت کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں یہاں تک کہ وہ دوسرے زوج سے شادی کرلے، کیونکہ خلع کے ساتھ تین طلاقیں مکمل ہوگئی ہیں اور یہی صحیح ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ قاضی اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے : اس آدمی کے بارے میں قول کیسے جائز ہو سکتا ہے جسے اس کی بیوی نے کہا : تو مجھے مال کے عوض طلاق دے دے، پس اس نے اسے طلاق دے دی، کہ یہ طلاق نہیں ہوگی اور اگر اس نے بغیر کسی شے کے عورت کا معاملہ اس کے ہاتھ دے دیا اور اس نے اپنے آپ کو طلاق دے دی تو وہ طلاق ہوگی۔ (فرمایا) رہا قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ تو یہ اس قول پر معطوف ہے : (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ کیونکہ اس کا ارشاد : (آیت) ” او تسریح باحسان “۔ بلاشبہ یہ مراد بہ ہے یا تطلیق ہے اور اگر خلع کا عطف دو طلاقوں پر کیا جائے تو پھر خلع اصلا جائز ہی نہ ہوگا مگر دو طلاقوں کے بعد اور یہ کوئی بھی نہیں کہتا۔ اور کسی اور نے کہا ہے : آیت میں جو تاویل انہوں نے کی ہے وہ غلط ہے، کیونکہ (آیت) ” الطلاق مرتن “ نے دو طلاقوں کے حکم کا فائدہ دیا ہے جب وہ ان دونوں کو خلع کی وجہ کے سوا پر واقع کرے۔ اور ان دونوں کے ساتھ (آیت) ” فامساک بمعروف “ کے سبب رجعت بھی ثابت ہوگی، پھر ان دونوں کا حکم ذکر کیا جب یہ علی وجہ الخلع ہوں، پس خلع ان دو کی طرف لوٹ آئے گا جن کا ذکر پہلے ہوچکا، کیونکہ اس سے مقصود طلاق مطلق اور طلاق بالعوض کا بیان ہے اور تیسری طلاق چاہے بالعوض ہو یا بغیر عوض کے ہو بلاشبہ وہ حلت کو ختم کردیتی ہے مگر زوج ثانی کے بعد۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ جواب تو آیت کا ہے اور رہی حدیث ! تو ابو داؤد نے کہا ہے۔ جب انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث حیض کے بیان میں ذکر کی۔ اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر بن عمرو بن مسلم عن عکرمۃ عن النبی ﷺ کی سند سے مرسل ذکر کیا ہے اور قعنبی نے مالک عن نافع عن ابن عمر ؓ کی سند سے ہمیں بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : خلع والی عورت کی عدت طلاق والی عورت کی عدت کی مثل ہے (
1
) (مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
518
، وزارت تعلیم) ابو داؤد نے کہا ہے : ہمارے نزدیک عمل اسی پر ہے۔ میں کہتا ہوں : یہی امام مالک (رح)، شافعی (رح) احمد (رح)، اسحاق (رح)، ثوری (رح) اور اہل کوفہ کا مذہب ہے۔ امام ترمذی (رح) نے کہا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے اکثر اہل علم اور دوسروں کا بھی یہی مذہب ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ کی ایک حیض کے بارے میں حدیث اپنی غرابت کے باوجود جیسا کہ امام ترمذی نے کہا ہے اور مرسل ہونے کے باوجود جیسا کہ ابو داؤد نے ذکر کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس کی عدت ڈیڑھ حیض مقرر فرمائی (
2
) (سنن دارقطنی کتاب النکاح، جلد
3
، صفحہ
255
، دارالمحاسن قاہرہ) اسے دارقطنی نے معمر عن عمرو بن مسلم عن عکرمۃ عن ابن عباس ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے کہ حضرت ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے اپنے زوج سے خلع لیا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اس کی عدت ڈیڑھ حیض مقرر فرمائی۔ یہاں معمر سے ڈیڑھ حیض روایت کرنے والا وہی راوی ہے جو ان سے ایک حیض روایت کرتا ہے اور وہ ہشام بن یوسف ابو عبدالرحمن الصنعانی الیمانی ہے۔ اکیلے امام بخاری نے اس کی روایت نقل کی ہے۔ پس سند اور متن کے اعتبار سے حدیث مضطرب ہے، پس اس سے اس بارے میں استدلال کرنا ساقط ہوگیا کہ خلع فسخ نکاح ہے اور اس بارے میں بھی کہ مطلقہ کی عدت ایک حیض ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “۔ ہر مطلقہ مدخول بہا کے بارے میں نص باقی رہا۔ سوائے ان کے جنہیں اس سے خاص کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ امام ترمذی (رح) نے کہا ہے :” حضور نبی مکرم ﷺ کے بعض اصحاب نے کہا ہے : خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے (
3
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، جلد
1
، صفحہ
142
، وزارت تعلیم، ایضا باب فی الخلع، حدیث نمبر
1105
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسحاق نے کہا ہے : اگر کوئی جانے والا اس طرف جائے تو وہ مذہب قوی ہے۔ “ ابن منذر نے کہا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : اس کی عدت ایک حیض ہے اور یہی ابان بن عثمان ؓ اور اسحاق نے بھی کہا ہے : اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا ہے اس کی عدت مطلقہ کی عدت کی طرح ہے اور حضرت عثمان ؓ اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول کے بارے میں میں کہتا ہوں اور حضرت علی ؓ کی حدیث ثابت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : تحقیق ہم نے حضرت ابن عمر ؓ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : خلع والی عورت کی عدت طلاق والی عورت کی عدت کی طرح ہے (
1
) (مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
518
، وزارت تعلیم) اور یہ قول صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) امام مالکرحمۃ اللہ علیہ کا قول اس کے بارے میں مختلف ہے جس نے بلاعوض خلع واقع کرنے کا قصد کیا۔ پس عبدالوہاب نے کہا ہے : امام مالک کے نزدیک وہ خلع ہے اور طلاق بائن ہے اور آپ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلاق بائن نہ ہوگی مگر عوض پائے جانے کے ساتھ۔ اشہب اور امام شافعی (رح) نے بھی یہی کہا ہے، کیونکہ یہ طلاق عوض اور استیفاء عدد سے خالی ہے پس یہ رجعی ہوگی جیسا کہ اگر یہ لفظ طلاق کے ساتھ ہو۔ ابن عبد البر نے کہا ہے : میرے نزدیک اور دیگر اہل علم کے نزدیک نظر وفکر کے اعتبار سے آپ کے دو قولوں میں سے یہ زیادہ صحیح ہے اور پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ خلع میں عوض کا حاصل نہ ہونا اسے اپنے مقتضا سے نہیں نکالتا، اس کی اصل یہ ہے کہ جب وہ شراب یا خنزیر کے عوض خلع کرے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) خلع کرنے والی عورت وہ ہوتی ہے جو اپنی کل شے کے عوض خلع کرتی ہے۔ اور مفتدیہ فدیہ دینے والی وہ ہوتی ہے جو بعض مال فدیہ دیتی ہے اور بعض لے لیتی ہے اور مبارئۃ مبارات کرنے والی وہ ہوتی ہے جو دخول سے پہلے ہی اپنے خاوند سے جدائی اختیار کرلے۔ پس وہ کہتی ہے : قد ابراتک فبارئنی (میں نے تجھے جدا کیا پس تو مجھے جدا کردے) یہ امام مالک (رح) کا قول ہے اور عیسیٰ بن دینار نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے : مبارئۃ وہ عورت ہے جو نہ کوئی شے لیتی ہے اور نہ کچھ دیتی ہے (
2
) (المدونۃ الکبری، کتاب ماجاء فی الخلع، جلد
5
، صفحہ،
14
، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور مختلعہ (خلع کرنے والی) وہ ہے جو وہ مال بھی دے دیتی ہے جو خاوند نے اسے دیا ہو اور اپنے مال سے اس میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ اور مفتدیہ وہ ہے جو اس مال کے بعض سے فدیہ دیتی ہے جو مرد نے اسے دیا ہو اور بعض اپنے پاس روک لیتی ہے اور یہ سب دخول سے پہلے بھی ہو سکتا ہے اور بعد بھی۔ پس جو دخول سے پہلے ہو اس میں عدت نہیں ہے۔ اور مصالحہ (صلح کرنے والی) مبارئۃ کی مثل ہے۔ قاضی ابو محمد وغیرہ نے کہا ہے : یہ چاروں الفاظ ایک ہی معنی کی طرف راجع ہوتے ہیں (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
309
دارالکتب العلمیہ) اگرچہ ایقاع کے اعتبار سے ان کی صفات مختلف ہیں۔ اور یہ طلاق بائنہ ہے چاہے وہ اس کا نام لے یا نام نہ لے، مرد کے لئے عدت کے دوران رجعت کا حق نہیں ہوگا اور اسے عدت میں اور اس کے بعد ولی کی رضا مندی اور مہر کے ساتھ زوج ثانی سے پہلے اور بعد نکاح کا حق حاصل ہوگا، بخلاف ابو ثور کے، کیونکہ عورت نے جب عوض ادا کردیا تو وہ اپنے نفس کی مالک ہوجائے گی اور اگر طلاق خلع رجعی ہو تو پھر وہ اپنے نفس کی مالک تو نہ ہوئی : پس خاوند کے لئے عوض اور معوض عنہ دونوں جمع ہوجائیں گے (اور یہ صحیح نہیں ہے) مسئلہ نمبر : (
14
) اور عقد مطلق کے ساتھ نافذ ہے : پس اگر عورت نے مرد کے لئے عوض خرچ کردیا اور اس نے رجعت کی شرط لگا لی، تو اس میں دو روایتیں ہیں۔ ابن وہب نے دونوں امام مالک (رح) سے روایت کی ہیں۔ ان میں سے ایک میں اس کا ثبوت ہے اور سحنون نے بھی اسی طرح کہا ہے اور دوسری میں اس کی نفی ہے۔ سحنون نے کہا ہے : پہلی روایت کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں (مرد وعورت) اس پر متفق ہوگئے کہ عوض اس کے مقابلے میں ہوگا جو عدد طلاق میں سے ساقط ہو رہا ہے اور یہ جائز ہے۔ اور دوسری روایت کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عقد میں شرط ایسی قائم کی ہے جو مقصود کے مانع ہے، پس وہ ثابت نہ ہوگی، جیسا کہ اگر وہ عقد نکاح میں شرط رکھ لے کہ میں اس سے وطی نہ کروں گا۔ مسئلہ نمبر : (
15
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا “۔ جب اللہ تعالیٰ نے نکاح اور فراق کے احکام بیان کیے تو فرمایا : (آیت) ” تلک حدود اللہ “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جن کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں روزے کی تحریمات کا ذکر کیا اور فرمایا (آیت) ” تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا “۔ ترجمہ : یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں سو تم ان کے قریب نہ جاؤ“۔ اور حدود کو دو قسموں میں تقسیم کردیا ان میں سے ایک وہ حدود ولامر ہیں جن کی پیروی لازم ہے اور دوسری حدود النہی ہیں جن سے اجتناب لازم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور فرمایا : (آیت) ” ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون “۔ ترجمہ : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود سے آگے بڑھتا ہے سو وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت نمبر :
230
۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) احناف میں سے بعض مشائخ خراسان نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ خلع والی عورت کو طلاق لاحق ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا : ایسی طلاق جس کے عوض فدیہ دیا جاتا ہے اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صریح طلاق کا ذکر کیا ہے، کیونکہ فاحرف تعقیب ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
1
، صفحہ
196
، دارالفکر بیروت) اور یہ بعید ہے کہ اسے (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ کی طرف لوٹایا جائے گا، کیونکہ درمیان میں ایسا کلام ہے جو (آیت) ” فان طلقھا “ کی (آیت) ” الطلاق مرتن “ پر بنا کرنے کے مانع ہے۔ بلکہ اقرب یہی ہے کہ اس کا رجوع اس پر ہو جو اس کے ساتھ متصل ہے جیسا کہ استثنا (ان شاء اللہ تعالیٰ ) میں ہوتا ہے۔ اور یہ اس کی طرف راجع نہیں ہوگا جو اس سے متقدم ہے مگر دلالت کے ساتھ (یعنی جب کوئی قرینہ دال ہو تو پھر متقدم کی طرف راجع ہو سکتا ہے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن “۔ (النسائ :
23
) ترجمہ : اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جو تمہاری گودوں میں (پرورش پارہی) ہیں ان بیویوں سے جن سے تم صبحت کرچکے ہو) پس یہ اسی پر مقصود ہوگی جو اس کے متصل بعد ہے اور اس کی طرف عائد نہیں جو اس پر متعدم ہے یہاں تک کہ عورتوں کی ماؤں کے بارے میں دخول کی شرط نہیں ہوگی۔ علماء کا خلع کے بعد عدت میں طلاق ہونے کے بارے میں اختلاف ہے، پس ایک گروہ نے کہا ہے : جب آدمی نے اپنی بیوی سے خلع کرلیا پھر اسے طلاق دے دی اور وہ عورت ابھی عدت میں تھی تو جب تک وہ عدت میں ہے اسے طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح حضرت سعید بن مسیب، شریح، طاوس، نخعی، زہری، حکم، حماد ثوری، اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اور اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ اسے طلاق لازم نہ ہوگی اور یہ قول حضرت ابن عباس، حضرت ابن زبیر، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت جابر بن زید، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، و رحمۃ اللہ علہیم کا ہے۔ اور یہی امام مالک کا قول ہے، مگر امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے : اگر عورت نے اس شرط پر اسے طلاق کا فدیہ دیا کہ وہ اسے مسلسل تین طلاقیں ترتیب کے ساتھ دے گا پھر جس وقت اس نے اسے طلاق دی تو وہ اس پر ثابت ہوگئی اور اگر اس کے درمیان خاموشی ہو تو جو طلاق خاموشی اور وقفے کے بعد ہوگی وہ کوئی شے نہ ہوگی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نسق الکلام کا معنی ہے کہ وہ بعض بعض کے ساتھ متصل ہو اور یہ اس کے لئے ایک حکم ثابت کرتا ہے اسی طرح جب استثاء قسم کے متصل بعد ہو تو اس کے لئے استثناء کا حکم ثابت ہوجاتا ہے اور جب اس سے منفصل ہو تو پھر اس کا متقدم کلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” فان طلقھا سے مراد تیسری طلاق ہے۔ (آیت) ” فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اس پر اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس بارے میں اختلاف ہے (کیا) نکاح کافی ہوتا ہے۔ اور اس بارے میں کہ کیا شے تحلیل کو مباح کرتی ہے۔ پس حضرت سعید بن مسیب ؓ اور آپ کے ساتھ موافقت رکھنے والوں نے کہا ہے : صرف عقد نکاح ہی کافی ہے۔ اور حسن بن ابی الحسن نے کہا ہے : صرف وطی کافی نہیں ہے یہاں تک کہ انزال ہوجائے۔ جمہور علماء اور تمام فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اس میں وطی کافی ہے اور اس سے مراد شرمگاہوں کا اس طرح ملنا ہے جو حد اور غسل کو واجب کر دے۔ روزے اور حج کو فاسد کر دے اور زوجین کو محصن بنا دے اور کامل مہر لازم کر دے۔ ابن عربی نے کہا ہے : فقہ میں میرے سامنے کوئی ایسا مسئلہ نہیں آیا جو اس سے زیادہ مشکل ہو اور وہ یہ کہ اصول فقہ میں سے ہے کہ کیا حکم اوائل اسماء سے متعلق ہوتا ہے یا اواخر اسماء سے ؟ سو اگر ہم کہیں کہ حکم اوائل اسماء سے متعلق ہوتا ہے تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم حضرت سعید بن مسیب ؓ کے قول کے مطابق کہیں، اور اگر ہم کہیں کہ حکم اواخر اسماء سے متعلق ہوتا ہے تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم حشفہ کو فرج میں غائب کرنے کے ساتھ انزال کی شرط بھی لگائیں، کیونکہ یہ ذوق عسیلہ کا آخر ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ
196
، دارالفکر) جیسا کہ حسن نے کہا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : ذوق عسیلہ کا معنی وطی کرنا ہے، حضرت سعید بن مسیب ؓ کے سوا علماء کی جماعت کا یہی موقف ہے۔ آپ فرماتے ہیں : پس لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرا اس سے مجامعت کرلے اور میں یہ کہتا ہوں جب دوسرے خاوند نے اس کے ساتھ نکاح صحیح کرلیا کہ وہ اس سے اس کے حلالہ کا ارادہ نہ کرے تو پھر کوئی حرج نہیں کہ زوج اول اس سے نکاح کرلے، اور یہ قول ہے جس کے بارے ہم کسی کو بھی نہیں جانتے جس نے آپ کے ساتھ موافقت کی ہو سوائے خوارج کی ایک جماعت کے اور اس کے ماسوا کے بارے میں سنت پر اکتفا کیا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : حضرت سعید بن مسیب ؓ کے قول کے بارے میں حضرت سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے۔ اسے نحاس نے کتاب ” معانی القرآن “ میں ذکر کیا ہے۔ فرمایا : اہل علم کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے، کیونکہ فرمایا : (آیت) ” زوجا غیرہ “ حالانکہ زوجیت مقدم ہے پس نکاح جماع کے معنی میں ہوگا مگر سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے کہ یہاں لفظ نکاح نکاح صحیح کے معنی میں ہے جب اس نے اسے حلالہ کرنے کا ارادہ نہ کیا ہو۔ میں (مفسر) نے کہا ہے : میں ان دونوں کے بارے یہ گمان کرتا ہوں کہ حدیث عسیلہ ان تک نہیں پہنچی یا وہ ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے پس انہوں نے ظاہر قرآن کو لے لیا اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “ واللہ اعلم۔ ائمہ کرام نے روایت کیا اور الفاظ دارقطنی کے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور خاوند سے شادی کرلے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا شہد چکھ لے۔ “ (
2
) (دارقطنی، کتاب الطلاق، جلد
4
، صفحہ
32
، دارالمحاسن قاہرہ) بعض علماء نے احناف نے کہا ہے : جو کوئی حضرت سعید بن مسیب ؓ کے مذہب کے مطابق عقد نکاح کرلے تو قاضی کو چاہیے کہ وہ اسے فسخ کر دے اور اس میں آپ کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ علماء کے اجماع سے خارج ہیں۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور وہی حضور ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھا جاتا ہے : حتی یذوق کل واحد منھما عسیلۃ صاحبہ (
3
) (دارقطنی، کتاب الطلاق، جلد
4
، صفحہ
32
، دارالمحاسن قاہرہ) کہ وہ دونوں جماع کی لذت پانے میں برابر ہیں۔ اور یہی ہمارے نزدیک اس بارے میں دو قولوں میں سے ایک کے لئے حجت ہے کہ اگر اس نے اس سے وطی کی درآنحالیکہ وہ سوئی پڑی ہو یا اس پر غشی طاری ہو تو وہ طلاق دینے والے (زوج اول) کے لئے حلال نہ ہوگی، کیونکہ اس نے شہد نہیں چکھا جب اسے اس کا ادراک نہ ہوا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) امام نسائی نے حضرت عبداللہ ؓ روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بال گودنے والی اور گودوانے والی، دوسرے کے بال اپنے بالوں میں لگانے والی اور بال لگوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے، حلالہ نکالنے والے اور جس کے لئے حلالہ نکالا جائے ان تمام پر لعنت کی ہے۔ (
1
) (سنن نسائی، کتاب الطلاق، جلد
2
، صفحہ
101
، وزارت تعلیم، ایضا مسند امام احمد، حدیث نمبر
4283
) اور امام ترمذی (رح) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ نکالنے والے اور جس کے لئے حلالہ نکالا جائے پر لعنت کی ہے (
2
) (جامع ترمذی، کتاب النکاح، جلد
1
، صفحہ
133
، وزارت تعلیم۔ ایضا، باب ماجاء فی المحل الخ، حدیث نمبر
1038
،
1039
، ابو داؤد، باب فی التحلیل، حدیث نمبر
1778
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ابن ماجہ، باب المحلل والمحلل لہ، حدیث نمبر
1923
۔
1924
،
1925
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ حدیث حضور نبی مکرم ﷺ سے کئی اسناد سے مروی ہے اور اہل علم کے نزدیک حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے جن کا اس پر عمل ہے ان میں سے حضرت عمر بن خطاب، ؓ حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ ہیں۔ اور تابعین میں سے فقہاء کا بھی یہی قول ہے اور اسی طرح سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی، امام مالک، امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم بھی کہتے ہیں اور میں نے جارود سے سنا ہے وہ وکیع سے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی اسی طرح کہا ہے اور فرمایا : چاہئے کہ اس باب کے بارے میں اصحاب رائے کا قول بیان کیا جائے اور حضرت سفیان ؓ نے کہا ہے : جب آدمی کسی عورت سے شادی کرے تاکہ وہ اسے (پہلے خاوند کے لئے) حلال کر دے پھر اسے خیال آیا کہ وہ اسے روک لے تو وہ اس کے لئے) حلال کر دے پھر اسے خیال آیا کہ وہ اسے روک لے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کے ساتھ نیا نکاح کرے۔ ابو عمر بن عبدالبر نے کہا ہے کہ حلالہ نکالنے والے کے نکاح میں علماء نے اختلاف کیا ہے اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : حلالہ نکالنے والا اپنے نکاح پر قائم نہیں رہے گا یہاں تک کہ وہ نکاح جدید کرلے، پاس اگر اس نے اس کے ساتھ مجامعت کی تو اس کے لئے مہر مثل ہوگا اور اس کی مجامعت اسے زوج اول کے لئے حلال نہیں کرے گی۔ برابر ہے دونوں کو علم ہو یا علم نہ ہو جب اس نے حلالہ کی غرض سے اس کے ساتھ شادی کی، اور نہ وہ اپنے نکاح پر برقرار رہے گا اور اسے فسخ کردیا جائے گا، اسی طرح امام ثوری اور اوزاعی نے بھی کہا ہے اور اس میں ایک دوسرا قول بھی ہے جو نکاح خیار اور محلل کے بارے میں امام ثوری (رح) سے مروی ہے کہ نکاح جائز ہے اور شرط باطل ہے اور اس میں اور نکاح متعہ کے بارے میں ابن ابی لیلیٰ کا بھی یہی قول ہے اور امام اوزاعی (رح) سے نکاح محلل کے بارے میں مروی ہے : کتنا برا ہے جو اس نے کیا ہے اور نکاح جائز ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : نکاح جائز ہے اگر اس کے ساتھ دخول کیا گیا اور اس کے لئے اسے اپنے پاس روک لینا جائز ہے اگر وہ چاہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نے ایک بار اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : وہ عورت زوج اول کے لے حلال نہیں ہوگی اگر اس نے اس کے ساتھ حلالہ کی غرض سے شادی کی اور ایک بار انہوں نے کہا : اس نکاح کے ساتھ وہ اس کے لئے حلال ہوجائے گی بشرطیکہ زوج ثانی اس کے ساتھ مجامعت کرے اور اسے طلاق دے دے اور اس بارے میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا کہ اس زوج (مراد زوج ثانی) کا نکاح صحیح ہے اور یہ کہ اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس پر قائم رہے۔ اور اس میں ایک تیسرا قول بھی ہے : امام شافعی (رح) نے کہا ہے : جب آدمی نے یہ کہا کہ میں تیرے ساتھ شادی کرنے لگا ہوں تاکہ میں تجھے (زوج اول کے لئے) حلال کر دوں پھر اس کے بعد ہمارے درمیان کوئی نکاح نہیں، تو یہ نکاح متعہ کی قسم ہے اور یہ فاسد ہے، وہ اس پر برقرار نہیں رہے گا اور اسے فسخ کردیا جائے گا اور اگر اس نے اس نکاح پر وطی کی تو وہ (زوج اول کے لئے) حلال نہ ہوگی اور اگر زوج ثانی نے اس کے ساتھ مطلقا نکاح کیا نہ اس نے کوئی شرط لگائی اور نہ ہی اس پر حلالہ کی شرط لگائی گئی تو اس بارے میں امام شافعی (رح) کے ان کی قدیم کتاب میں دو قول ہیں، ان میں سے ایک امام مالک (رح) کے قول کی مثل ہے اور دوسرا امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی مثل ہے اور ان کی جدید مصری کتاب میں ان کا قول مختلف نہیں کہ نکاح صحیح ہوگا جب اس نے کوئی شرط نہ لگائی اور یہی داؤد کا قول ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : الماوردی نے امام شافعی (رح) سے بیان کیا ہے کہ اگر حلالہ کی شرط عقد سے پہلے لگائی گئی تو نکاح صحیح ہوگا اور وہ اسے زوج اول کے لئے حلال کر دے گا، اور اگر دونوں نے عقد کے دوران حلالہ کی شرط لگائی تو نکاح باطل ہوگا اور وہ اسے پہلے کے لئے حلال نہیں کرے گا، فرمایا یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے اور حسن اور ابراہیم نے کہا ہے : جب تین میں سے کسی ایک نے حلالے کا قصد کیا تو نکاح فاسد ہوگا اور یہ بہت شدت اور سختی ہے اور سالم اور قاسم نے کہا ہے : کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ حلالہ کی غرض سے شادی کرے بشرطیکہ زوجین کو اس کا علم نہ ہو (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
309
دارالکتب العلمیہ) اور وہ ماجور ہوگا، اسی طرح ربیعہ اور یحییٰ بن سعید نے کہا ہے اور داؤد بن علی نے بھی یہی کہا ہے، بشرطیکہ عقد کرتے وقت اس کی شرط کا اظہار نہ ہو۔ مسئلہ نمبر : (
4
) ہمارے علماء کے نزدیک حلالہ کے لئے نکاح کے جائز ہونے کا دارومدار نکاح کرنے والے زوج پر ہے۔ خواہ اس کی شرط لگائی جائے یا وہ اس کی نیت کرے اور جب اس میں سے کوئی شے ہوگی تو اس کا نکاح فاسد ہوگا اور وہ اس پر برقرار نہیں رہے گا اور اس کی وطی اس عورت کو زوج اول کے لئے حلال نہیں کرے گی، اور طلاق دینے والے خاوند کا اس بارے میں جاننا اور نہ جاننا برابر ہے اور کہا گیا ہے : بیشک اسے چاہئے کہ جب اسے علم ہو کہ اس کے ساتھ نکاح کرنے والے نے اس لئے اس کے ساتھ شادی کی ہے تو وہ اس کے رجوع سے احتیاط برتے اور امام مالک (رح) کے نزدیک اسے حلال نہیں کرے گا مگر وہ نکاح جو رغبت کے ساتھ ہو اور اسے عورت کی حاجت اور ضرورت ہو اور اس سے حلالہ کا قصد نہ کیا جائے اور اس کا عورت کے ساتھ وطی کرنا مباح ہو (یعنی) نہ وہ روزے دار ہو، نہ حالت احرام میں ہو اور نہ ہی حیض کی حالت میں ہو اور زوج بالغ مسلمان ہو۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : جب زوج ثانی نکاح صحیح کے ساتھ اس سے وطی کرے اور اس کی فرج میں حشفہ غائب کر دے تو تحقیق دونوں نے شہد چکھ لیا اور اس میں نکاح کرنے والے کا قوی اور ضعیف ہونا برابر ہے اور برابر ہے کہ وہ اسے داخل کرے اپنے ہاتھ کے ساتھ یا عورت کے ہاتھ کے ساتھ اور وہ بچہ ہو یا مراہق (قریب البلوغ) ہو یا مجبوب (مقطوع الذکر) ہو اس کا اتنا حصہ باقی ہو جسے ہو غائب کرسکتا ہو جیسا کہ غیر خصی آدمی غائب کرتا ہے اور برابر ہے کہ خاوند اس سے وطی کرے اس حال میں کہ وہ عورت احرام باندھے ہوئے ہو یا روزے دار ہوئے یہ سب کچھ اس بنا پر ہے جو امام شافعی (رح) نے بیان کیا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب، امام ثوری (رح) اوزاعی، حسن بن صالھ کا قول بھی ہے اور بعض مالک (رح) کا قول بھی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) ابن حبیب نے کہا ہے : اگر وہ اس سے شادی کرے پھر اگر وہ اسے پسند آجائے تو وہ اسے روک لے گا ورنہ اسے حلال کرنے میں اس کے لئے اجر ہوگا تو یہ جائز نہیں۔ جب اس نے اپنے نکاح کو حلالہ کی نیت سے ملا دیا تو اب اس کے ساتھ وہ زوج اول کے لئے حلال نہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
6
) آقا کا اپنی اس لونڈی کے ساتھ وطی کرنا جس کا خاوند اسے قطعی طلاق دے دے اسے حلال نہیں کرتا، کیونکہ وہ زوج نہیں ہے۔ یہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے اور یہی عبیدہ، مسروق، شعبی، ابراہیم، جابر بن زید، سلیمان بن یسار حماد بن ابی سلیمان اور ابو الزناد رحمۃ اللہ علہیم کا بھی قول ہے اور موقف پر فقہائے امصار کی جماعت بھی ہے۔ اور عثمان، زید بن ثابت اور زبیر سے اس کے خلاف بھی روایت ہے وہ یہ کہ وہ اسے حلال کر دے گا جب اس کے آقا نے اس کے ساتھ وطی کی اور وہ اس سے نہ دھوکہ دہی کا ارادہ کرے اور نہ ہی حلالہ کا اور وہ اپنے زوج کی طرف نکاح اور مہر کے ساتھ لوٹ جائے گی، اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اور آقا اس پر ملک یمین کی حیثیت سے مسلط ہوا ہے اور یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) مؤطا امام مالک میں ہے کہ انہیں خبر پہنچی ہے کہ حضرت سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار ؓ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنے غلام کی شادی اپنی ایک لونڈی سے کی، پھر غلام نے اسے طلاق البتتہ (قطع کرنے والی طلاق) دی، پھر آقا نے وہ لونڈی اسی غلام کو ہبہ کردی تو کیا وہ ملک یمین کے طور پر اس کے لئے حلال ہوگی ؟ تو دونوں نے کہا وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ کسی اور خاوند سے شادی کرے۔ (
1
) (مؤطا امام مالک، کتاب النکاح، جلد
1
صفحہ
504
، وزارت تعلیم) مسئلہ نمبر : (
8
) حضرت امام مالک (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن شہاب (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس کے نکاح میں ایک مملوکہ لونڈی تھی پھر اس نے اسے خرید لیا درآنحالیکہ اس نے اسے ایک طلاق دے رکھی تھی، تو انہوں نے فرمایا : وہ اس کے لئے ملک یمین کی حیثیت سے حلال ہوگی جب تک وہ اس کی طلاق کو مغلظ نہ بنائے اور اگر اس نے اسے طلاق مغلظہ دی تو پھر وہ ملک یمین کے طور پر اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے شادی کرے۔ (
2
) (مؤطا امام مالک، کتاب النکاح، جلد
1
صفحہ
504
، وزارت تعلیم) ابو عمر نے کہا ہے : علماء کی جماعت اور ائمہ فتوی کا یہی موقف ہے، امام مالک، ثوری، اوزاعی، شافعی، ابو حنیفہ، احمد، اسحاق، ابوثور رحمۃ اللہ علہیم انہی میں سے ہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ حضرت عطاء طاؤس اور حسن رحمۃ اللہ علہیم کہتے ہیں : جب اس نے اسے خرید لیا جس نے اسے طلاق البتہ دی تو وہ اس کے لئے ملک یمین کے طور پر حلال ہوگی، اس لئے کہ یہ ارشاد عام ہے : (آیت) ” اوماملکت ایمانکم “۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس قول میں خطا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” اوماملکت ایمانکم “۔ کا معنی ہے مائیں اور بہنیں مباح نہیں ہیں اور اسی طرح تمام محرمات بھی مباح نہیں ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
9
) جب مسلمان نے اپنی ذمیہ بیوی کو تین طلاقیں دے دی پھر ایک ذمی نے اس کے ساتھ نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول بھی کیا اور پھر اسے طلاق دے دی تو ایک گروہ نے کہا کہ وہ ذمی اس کے لئے زوج ہے، لہذا اب اس کے لئے زوج اول کی طرف لوٹنا جائز ہے۔ اسی طرح حسن، زہری، سفیان ثوری، شافعی، ابو عبید اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ ابن منذر (رح) نے کہا ہے : اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اور نصرانی بھی زوج ہے اور مالک ربیعہ نے کہا ہے : وہ اسے حلال نہیں کرسکتا۔ مسئلہ نمبر : (
10
) جمہور علماء کا موقف ہے کہ نکاح فاسد تین طلاقوں والی عورت کو حلال نہیں کرسکتا، امام مالک ثوری، امام شافعی، اوزاعی، اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم امام احمد، اسحاق اور ابو عبید، رحمۃ اللہ علہیم تمام یہ کہتے ہیں کہ وہ نکاح صحیح کے بغیر زوج اول کے لئے حلال نہیں ہو سکتی، اور حکم کہتے ہیں کہ وہ زوج ہے اور ابن منذر نے کہا ہے : وہ زوج نہیں ہے کیونکہ ظہار، ایلاء اور لعان میں ازواج کے احکام ان دونوں کے درمیان ثابت نہیں ہے اور اہل علم میں سے جن سے کچھ یاد رکھا جاسکتا ہے ان تمام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ عورت نے جب زوج اول کو کہا : میں نے شادی کی ہے اور میرے خاوند نے مجھ سے دخول کیا ہے اور زوج اول نے اس کی تصدیق کردی تو وہ اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : احتیاط اس میں ہے کہ وہ اس کی تصدیق نہ کرے جب اس کے دل میں اس کے جھوٹا ہونے کا خیال واقع ہوجائے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس باب میں انتہائی شدت اور تغلیظ مروی ہے اور آپ کا ارشاد ہے : میرے پاس جو حلالہ نکالنے والا اور جس کے لئے حلالہ نکالا گیا لایا گیا تو میں یقینا ان دونوں کو رجم کر دوں گا (
1
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب النکاح، جلد
2
، صفحہ
211
، دارالکتب العلمیہ) اور حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ہے : حلالہ نکالنا تو زنا ہے وہ مسلسل زنا ہی کرتے رہیں گے اگرچہ وہ بیس برس تک بھی اس پر قائم رہیں۔ ابو عمر (رح) نے کہا ہے : حضرت ابن عمر ؓ کا قول فقط تغلیظ کا احتمال رکھتا ہے، کیونکہ آپ سے یہ صحیح روایت ہے کہ آپ نے حرام فرج میں وطی کرنے والے سے حد کو اٹھا لیا درآنحالیکہ وہ اس کی تحریم سے جاہل تھا اور آپ نے جہالت کے سبب اسے معذورقرار دیا۔ پس اس بارے میں تاویل اولی اور بہتر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر رجم نہیں ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یترا جعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون “۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان طلقھا “۔ اس میں مزاد زوج ثانی ہے (یعنی اگر زوج ثانی اسے طلاق دے دے) (آیت) ” فلا جناح علیھما “ اس میں ھما تثنیہ ضمیر سے مراد عورت اور زوج اول ہے (تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں) یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
309
دارالکتب العلمیہ) ابن منذر نے کہا ہے : اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ آزاد آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے پھر اس کی عدت گزر جائے اور وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے اور وہ اس سے مجامعت کرے پھر اسے فارغ کر دے اور اس کی عدت بھی گزر جائے، پھر وہ پہلے خاوند سے نکاح کرے تو وہ اس کے پاس تین طلاقوں کے حق کے ساتھ رہے گی (یعنی زوج اول کو از سر نو تین طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا) اور ایسے آدمی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جو اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دیتا ہے پھر وہ کسی دوسرے سے شاد کرتی ہے، پھر اس سے پہلے خاوند کی طرف لوٹ کر آتی ہے تو اس کے بارے ایک گروہ نے کہا ہے : وہ اس کے پاس اپنی مابقی طلاقوں کے حق کے ساتھ رہے گی (چاہے مابقی ایک ہو یا دو ) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اکابر اصحاب نے کہا ہے : ان میں حضرت عمر بن خطاب ؓ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب حضرت عمران ابن حصین، اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شامل ہیں اور اسی طرح حضرت زید بن ثابت، حضرت معاذ بن جبل، اور حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت کیا جاتا ہے اور یہی قول حضرت عبیدہ السلمانی، حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن بصری، حضرت مالک، حضرت سفیان ثوری، حضرت ابن ابی لیلیٰ ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد، حضرت اسحاق، حضرت ابو عبیدہ، حضرت ابو ثور، حضرت محمد بن حسن اور حضرت ابن نصر رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ اور اس میں دوسرا قول بھی ہے اور یہ کہ یہ نکاح بھی جدید ہے اور طلاق بھی جدید ہے۔ یہ قول حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے اور اسی طرح حضرات عطاء نخعی، شریح، نعمان اور یعقوب رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے کہ ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے اور انہوں نے ابراہیم سے ہمیں بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت عبداللہ کے اصحاب کہتے ہیں : کیا زوج ثانی تین طلاقوں کو تو گرا دیتا ہے اور وہ ایک اور دو طلاقوں کو نہیں گراتا فرمایا : ہمیں حفص نے حجاج سے، انہوں نے طلحہ سے اور انہوں نے ابراہیم سے ہیں بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کے اصحاب کہا کرتے تھے : زوج ثانی ایک اور دو طلاقوں کو اسی طرح گرا دیتا ہے جیسے وہ تین طلاقوں کو گرا دیتا ہے سوائے عبیدہ کے کیونکہ انہوں نے کہا ہے : یہ عورت اس کے پاس اپنی مابقی طلاقوں کے ساتھ رہے گی۔ (
2
) (الکتاب المصنف لابن ابی شیبہ، باب من قال عندہ، جلد
4
، صفحہ
113
، مکتبۃ الزمان اللثقافۃ والعلوم، المدینۃ المنورہ) اسے ابو عمر نے ذکر کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : میں قول اول کے مطابق کہتا ہوں۔ اور اس میں ایک تسیرا قول بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر دوسرے خاوند نے اس کے ساتھ دخول کیا ہے تو طلاق بھی جدید ہے اور نکاح بھی جدید ہے اور اگر اس کے ساتھ دخول نہیں ہوا تو پھر وہ اپنی مابقی طلاقوں پر ہوگی۔ یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان ظنا ان یقیما حدود اللہ “۔ یہ شرط ہے۔ طاؤس (رح) نے کہا ہے : اگر دونوں کو گمان ہو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرسکے گا۔ اور کہا گیا ہے کہ (آیت) ” حدود اللہ “ سے مراد اس کے فرائض ہیں، یعنی جب دونوں کو علم ہو کہ ان کے درمیان دوسرے نکاح کے سبب صلح اور بہتری ہوگی اور جب خاوند کو علم ہو کہ وہ اپنی بیوی کے نفقہ یا اس کے مہر یا اس کے وہ حقوق جو اس پر واجب ہیں ان میں سے کسی شے سے وہ عاجز ہے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس سے شادی کرے یہاں تک کہ وہ اسے واضح طور پر بتا دے یا وہ اپنے بارے میں عورت کے حقوق کی ادائیگی پر قدرت کے بارے جانتا ہو اور اسی طرح اگر اسے کوئی ایسی بیماری ہو جو اسے استمتاع سے روکتی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے بیان کر دے تاکہ وہ اپنی جانب سے عورت کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اور اسی طرح یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اسے نسب کے بارے دھوکے میں مبتلا کرے جس کا وہ دعوی کرتا ہے اور اس کے پاس نہ مال ہو اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کاروبار اور اس میں جھوٹ بولنے والا ہو۔ اسی طرح عورت پر بھی لازم ہے کہ جب وہ اپنی ذات میں خاوند کے حقوق کی ادائیگی سے عجز کے بارے جانتی ہو یا اسے کوئی ایسی بیماری ہو جو استمتاع سے مانع ہو مثلا جنون، جذام، برص یافرج میں کوئی بیماری ہو تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ مرد کو دھوکے میں ڈالے اور اس پر لازم ہے کہ اسے جو کچھ بھی ہے وہ اس کی وضاحت کردے، جس طرح کہ بائع پر سامان کے بارے واجب ہوتا ہے کہ اس کے سامان میں جو عیوب اور نقائص ہیں وہ انہیں بیان کر دے۔ اور جب زوجین میں سے کوئی اپنے شریک میں کوئی عیب پالے تو اس کے لئے اسے رد کردینا جائز ہے پس اگر عیب مرد کی جانب ہوا تو عورت کے لئے کامل مہر ہوگا اگر اس کے ساتھ دخول کیا گیا ہو اور اگر اس کے ساتھ دخول نہیں ہوا تو پھر اس کے لئے نصف مہر ہوگا اور اگر عیب عورت کی جانب ہو تو خاوند اسے واپس لوٹا دے اور جو مہر اسے دیا ہے وہ اسے لے لے اور تحقیق یہ روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بنی بیاضہ کی ایک عورت سے شادی کی تو آپ نے اس کے پہلو میں برص کا نشان پایا تو آپ نے اسے رد کردیا اور فرمایا : تم نے مجھ پر اسے پوشیدہ رکھا ہے۔ “ اور عنین کی بیوی کے بارے میں امام مالک (رح) سے روایت مختلف ہے جب اس نے اپنا آپ مرد کے حوالے کردیا پھر مرد کے عنین ہونے کے سبب ان دونوں کے درمیان تفریق کردی گئی تو آپ نے ایک بار کہا : اس کے لئے مکمل مہر ہوگا اور ایک بار کہا : اس کے لئے نصف مہر ہوگا اور اس کا انحصار اس قول کے اختلاف پر ہے کہ وہ کس کے ساتھ مہر کی مستحق ہوگی کیا اپنے آپ کو مرد کے سپرد کرنے کے ساتھ یا دخول کے ساتھ ؟ اس بارے میں بھی دو قول ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ابن خویز منداد نے کہا ہے : ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے کہ کیا عورت کے ذمہ خدمت کرنا بھی ہے یا نہیں ؟ تو ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے : عورت پر خدمت کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ یہ عقد استمتاع (لطف اندوز ہونا) کو شامل ہے نہ کہ خدمت کو، کیا آپ جانتے نہیں کہ یہ عقد اجارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک رقبہ حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ تو فقط استمتاع پر عقد ہے اور عقد کے ذریعہ صرف استمتاع کا مستحق بنا جاتا ہے نہ کہ اس کے سوا کسی اور کا، لہذا اس سے زیادہ کا عورت سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف دیکھتے نہیں : (آیت) ” فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا “۔ (النسائ :
34
) اور ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے : اس پر اس کی حیثیت کے مطابق خدمت ہے، پس اگر وہ عورت شریفۃ المحل ہے اس کے والدین دولتمند اور خوشحال ہیں تو اس پر گھر کی تدبیر اور خادم کا معاملہ ہوگا اور اگر وہ متوسط الحال ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ بستر وغیرہ بچھائے اور اسی طرح کے دیگر کام، اور اگر وہ اس درجہ سے بھی کم ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ گھر میں جھاڑو دے اور کھانا وغیرہ پکائے اور کپڑے وغیرہ دھوئے، اور اگر وہ کرد اور دیلم کی عورتوں میں سے ہو اور انکے علاقے میں پہاڑ ہوں تو وہ عورت بھی اس کام کی پابند ہوگی جس کی انکی عورتیں پابند ہوتی ہیں اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف “۔ (البقرہ :
228
) اور مسلمانوں کا عرف اور رواج ان کے شہروں میں قدیم وجدید دور سے اس کے بارے جاری ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی ازاوج مطہرات اور آپ کے صحابہ کرام کی بیویاں آٹاپیسنے، روٹیاں پکانے، ہانڈی تیار کرنے، بستر بچھانے، کھانے بچھانے، کھانے پیش کرنے اور اسی طرح کے دیگر کی پابند ہوتی تھی اور ہم تو کسی عورت کو نہیں جانتے جس نے اس سے نکار کیا وہ اور نہ ہی اس کا انکار کرنا جائز ہوتا ہے بلکہ وہ تو اپنی عورتوں کو سزا دیتے تھے جب وہ کاموں میں کوتاہی اور سستی کرتیں اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے اور اگر یہ لازم اور ضروری نہ ہوتی تو وہ ان سے اس کا مطالبہ نہ کرتے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون، حدود اللہ ، “۔ وہ ہیں جن سے روکا گیا ہو اور حد فواحش کے ارتکاب کی جرات کرنے سے مانع ہوتی ہے اور احدت المراۃ اس کا معنی ہے عورت زینت سے باز آگئی، اور ” رجل محدود “ وہ آدمی جسے خیر سے روک دیا جائے اور ” البواب حداد “ یعنی دربان روکنے والا ہے اور یہ مکمل بحث پہلے ہوچکی ہے۔ اور فرمایا : (آیت) ” لقوم یعلمون “ کیونکہ جاہل جب اس کے لئے امر اور نہی زیادہ ہوجائیں تو وہ نہ اسے یاد رکھتا ہے اور نہ اس کی پاسداری کرتا ہے اور عالم اسے یاد بھی رکھتا ہے اور اس کی پاسداری بھی کرتا ہے پاس اسی وجہ سے اس نے علماء کو خطاب کیا ہے اور جاہلوں کو خطاب نہیں کیا۔
Top